Express News:
2025-06-14@06:18:46 GMT

ٹرمپ اور مسک کی عداوت کیا رنگ لائے گی؟

اشاعت کی تاریخ: 13th, June 2025 GMT

آج کل ہر جگہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے سابق دوست ایلون ریوز مسک کے درمیان اختلافات کی خبریں زبان زد عام ہیں۔ دونوں حضرات ذرائع ابلاغ میں ایک دوسرے کے کچے چٹھے کھول رہے ہیں جس کے نتیجے میں دونوں کے راز کھل کر سامنے آرہے ہیں۔

اسی لیے بڑے بوڑھے کہہ گئے ہیں کہ حاکم کی اگاڑی اور گھوڑے کی پچھاڑی پر نہ کھڑا ہو، کیونکہ دونوں میں سخت نقصان کا اندیشہ ہے۔ مگر غریب (صرف محاورتاً حقیقت میں بالکل نہیں کیونکہ یہ دنیا کے امیرترین شخص کا معاملہ ہے) ایلون ریوز مسک کا تو اربوں ڈالر کا نقصان ہو بھی چکا ہے جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ کے پاس اپنے ’’عرب‘‘ موجود ہیں، اس لیے اس وقت نقصان کا کوئی احتمال نہیں۔

ویسے دونوں کو لڑتے دیکھ کر ایسا نہیں لگ رہا کہ جیسے کوئی جاہل اور اجڈ جوڑا الگ ہورہا ہے۔ دونوں دور کھڑے ہوکر زور زور سے بول کر ایک دوسرے کے عیوب کھول رہے ہیں۔ دونوں میں عیب اتنے زیادہ ہے کہ عیوب ہی لکھنا ٹھیک لگتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دونوں ایک دوسرے کو کوسنے بھی دے رہے ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے موقع ملتے ہی آپس میں گتھم گتھا ہونے لگیں گے۔

امریکی اشرافیہ اور عوام حیران ہیں کہ ایسا تو جمہوریت پسندوں میں بھی نہیں ہوتا ہے جو ان قدامت پسندوں کی طرف سے ہورہا ہے۔ اس وقت پتہ نہیں کیوں بلاول بھٹو کا بیان بہت یاد آرہا ہے کہ ’’بےشک جمہوریت ایک بہترین انتقام ہے‘‘ اور یہ انتقام اس بار قدرت ان سے لے رہی ہے جو دنیا بھر کو جمہوریت کا درس دیتے ہیں بلکہ درس کیا دینا ڈنڈے کے زور پر جمہوریت لانے کی سعی کرتے ہیں۔ اگر اپنی کوشش سے جمہوریت نہ لاسکے تو ڈنڈا ضرور لے آتے ہے کیونکہ جتنی انھیں جمہوریت پسند ہے ڈنڈا بھی اتنا ہی پسند ہے بلکہ کبھی کبھی تو یہ طے کرنا بھی مشکل ہوجاتا ہے دونوں میں سے انھیں کیا زیادہ پسند ہے جمہوریت یا ڈنڈا، کیونکہ ہم دونوں کو بھگت چکے ہیں۔

ایلون مسک امریکی مقننہ اور عوام کو مشورہ دے رہے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا مواخذہ کیا جائے۔ ہر چند کے پہلے مرحلے میں تو اس کا فائدہ نائب صدر ہی کو ہوگا کہ جس میں سے نائب تحلیل ہوجائے گا اور صرف صدر باقی رہ جائے گا۔ ہمارا ملک تو ایسی روشن مثالوں سے تاباں اور درخشاں ہے کہ جس پر لوڈشیڈنگ بھی اثر انداز نہیں ہوتی۔ ادھر دوسری طرف کملا دیوی کو یقین نہیں آرہا کہ بھگوان اتنی جلدی دوبارہ اس کی طرف کیسے مائل بہ کرم ہوگئے؟ جبکہ اس وقت بھگوان کا اپنا یہ حال ہے کہ ابھی حال ہی میں ان سے رافیل طیاروں کا بھی دفاع نہیں ہوسکا تھا جس کے نتیجے وہ طیارے دفع دور ہوگئے تھے تو ان حالات میں جبکہ اس نے تو باقاعدہ اور بے قاعدہ دونوں طریقوں سے اپنی شکست تسلیم کرلی تھی، اب ایسا کیوں ہورہا ہے۔

کملا دیوی سوچ رہی ہیں کہ اگر تھوڑا انتظار کرلیا ہوتا یا پھر جعفری ایپسٹین کی فائلوں پر تھوڑا کام کرلیا ہوتا تو آج حالات یقیناً مختلف ہوتے۔ اب جعفری ایپسٹین کی فائلوں میں ایسا کیا ہے؟ بس یوں سمجھ لیجیے کہ ان فائلوں کے باہر آتے ہی جعفری کا انجام تو گیم آف تھرون والے جعفری جیسا ہی ہوتا لیکن شاید ہاؤس آف کارڈز کو وہائٹ ہاوس میں دہرایا جاسکتا تھا۔ اس تھوڑے لکھے کو بہت جانیے اور اگر گیم آف تھرون اور ہاؤس آف کارڈز نہیں دیکھے تو پہلی فرصت میں دیکھ لیجیے۔ اس میں بھی سمجھنے اور دیکھنے والوں کےلیے نشانیاں اور فطرت کے نظارے ہیں۔ اس سے آپ کو اندازہ تو ہوگیا ہوگا کہ ان فائلوں میں کیا ہے؟ بس یوں سمجھ لیجیے کہ جعفری ایپسٹین کی فائلوں میں بھوکم ہے، بھونچال ہے اور زلزلہ ہے۔

اس کو سمجھنے کےلیے ہمیشہ کی طرح حسب حال ایک چھوٹا سا لطیفہ نما واقعہ۔ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ سب سے زیادہ سچ لطیفوں میں ہی بولا جاتا ہے۔ تو جناب واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک لڑکا جب جوان ہوا تو اس کے والد نے اسے اپنے پاس بٹھا کر کہا کہ اب تم جوان ہوگئے ہو اور ’’بالغان‘‘ کے کلب میں بھی جاسکتے ہوں۔ تم شہر کے جس کلب میں جانا چاہو جانا، بس ایک کلب کا نام لیا اور کہا کہ وہاں مت جانا کیونکہ وہاں تمھیں وہ دیکھنے کو ملے گا جو تمھیں نہیں دیکھنا چاہیے۔ لڑکے کو یہ تو پتہ تھا کہ اس کلب میں ہر عمر کی انسانیت فطری لباس میں ہوتی ہے لیکن ایسا تو بہت سارے کلبوں میں تھا تو اس ایک مخصوص کلب پر قدغن کیوں؟ چنانچہ لڑکا شام کو سب سے پہلے اسی کلب جا پہنچا اور سب سے آگے والی میز پر اس کو اس کے اپنے والد براجمان نظر آئے۔ اس میں سمجھنے والوں کےلیے نشانیاں ہیں، ہر چند کہ یہ نشانیاں صرف بالغان کےلیے ہیں۔

میں جوتش تو نہیں ہوں کہ آپ کو یہ بتا سکوں کہ آنے والے دنوں میں کیا ہوگا؟ بس یوں سمجھ لیجیے کہ اگر یہ نورا کشتی نہیں ہے تو ہمیں وہ دیکھنے کو ملے گا جو ہم نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا ہوگا۔ اس دفعہ شاید ہمیں بھی یہ موقع ملے کہ ہم کہہ سکیں کہ امریکی پیسوں کےلیے باپ بھی بدل لیتے ہیں۔ امریکی معاشرے میں ماں کا کردار ہمارے معاشرے سے بہت مختلف ہے، اس لیے باپ کی مثال دی ہے۔ اس وقت امریکی سیاست ’’درد زہ‘‘ میں مبتلا ہے ہوسکتا ہے کہ امریکی زچگی گھر میں تیسری سیاسی جماعت کی پیدائش ہوجائے۔ اب یہ پیدائش قبل از وقت ہوگی یا وقت پر ہورہی ہے، اس کا فیصلہ بھی وقت ہی کرے گا۔ ایک بات یقینی ہے کہ اب امریکی سیاست ہمارے نقش قدم پر چل پڑی ہے اور اب مزے لینے کی ہماری باری ہے۔

آخری بات اور اختتام۔ اس دفعہ دو بہت ہی بڑے کاروباری (آپ چاہے تو کاروباری کی جگہ اپنی مرضی کا لفظ لگا سکتے ہیں) لوگوں میں مقابلہ ہے اور یہ وقت ہی بتائے گا کہ دونوں میں سے کون زیادہ .

.. کاروباری ہے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: رہے ہیں میں بھی ہیں کہ

پڑھیں:

امریکا نے ایران پر حملے سے لاتعلقی کا اعلان کر دیا

واشنگٹن:

ایران پر اسرائیلی فضائی حملوں کے بعد امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو نے ایک اہم بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا ان حملوں میں شامل نہیں ہے اور اس کی اولین ترجیح خطے میں موجود امریکی افواج کا تحفظ ہے۔

آج رات اسرائیل نے ایران کے خلاف یکطرفہ کارروائی کی، امریکا ان حملوں میں شامل نہیں ہے۔ ہماری اولین ترجیح مشرقِ وسطیٰ میں تعینات امریکی افواج کا تحفظ ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل نے ہمیں مطلع کیا تھا کہ وہ یہ کارروائی اپنی سلامتی کے تحفظ کے لیے ضروری سمجھتا ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ نے امریکی افواج کے تحفظ کے لیے تمام ضروری اقدامات کیے ہیں اور ہم اپنے علاقائی اتحادیوں سے مسلسل رابطے میں ہیں۔

وزیرِ خارجہ نے ایران کو سخت تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ایران کو امریکا کے مفادات یا اہلکاروں کو نشانہ نہیں بنانا چاہیے۔

اس وقت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ردعمل کا انتظار کیا جا رہا ہے، امریکی میڈیا کے مطابق صدر ٹرمپ نے کابینہ کا ہنگامی اجلاس طلب کر لیا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ایران نے جوابی وار کیا تو امریکا اسرائیل کا دفاع کرے گا: ڈونلڈ ٹرمپ
  • اب بھی کہتا ہوں ایران ڈیل کرلے اس سے پہلے کہ سب ختم ہوجائے: ٹرمپ
  • ایران کے پاس وقت کم، جلد معاہدہ نہ کیا تو کچھ نہیں بچے گا، ٹرمپ کی دھمکی
  • ایران نیوکلیئر بم نہیں بنا سکتا: ٹرمپ
  • امریکا نے ایران پر حملے سے لاتعلقی کا اعلان کر دیا
  • صدر ٹرمپ کی ایک بار پھر مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش
  • امن کے لیے امریکا کو بھارت کو کان سے پکڑ کر بھی مذاکرات کی میز پر لانا پڑا تو وہ لائے گا‘ بلاول
  • چین اور امریکا کے درمیان لندن میں تجارتی معاہدہ طے پا گیا
  • امن کے لیے امریکا کو انڈیا کو کان سے پکڑ کر بھی مذاکرات کی میز پر لانا پڑا تو وہ لائے گا، بلاول