روس کی ایران پر اسرائیلی حملوں کی شدید مذمت
اشاعت کی تاریخ: 13th, June 2025 GMT
روس نے ایران پر اسرائیلی حملوں کی شدید مذمت کرے ہوئے اس بین لاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی صریح خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
روسی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں مشرق وسطیٰ میں کشیدگی میں اضافے پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔
روس نے کہا ہے کہ 13 جون کی رات اسرائیل کی جانب سے کیے گئے فوجی اقدامات ناقابلِ قبول ہیں، کیونکہ یہ اقوامِ متحدہ کے ایک خودمختار رکن ملک کے پُرامن شہروں، شہریوں اور جوہری تنصیبات پر بلا جواز حملہ ہے۔ ایسے اقدامات نہ صرف علاقائی بلکہ عالمی سلامتی کے لیے بھی خطرناک ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ایران پر اسرائیل کا حملہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے، بنگلہ دیش
روسی وزارت خارجہ نے کہا ایران پر اسرائیلی حملوں کا وقت خاص طور پر موقع پرستانہ دکھائی دیتا ہے، کیونکہ یہ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے بورڈ آف گورنرز کے اجلاس اور ایران و امریکا کے مذاکرات سے قبل کیے گئے، ان کارروائیوں نے ایران کے پُرامن جوہری پروگرام پر شکوک و شبہات کے خاتمے کے لیے جاری عالمی کوششوں کو نقصان پہنچایا ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ یروشلم نے شعوری طور پر صورتحال کو بگاڑنے کا فیصلہ کیا ہے اور ایسی مہم جوئی کے نتائج کی مکمل ذمہ داری اسرائیلی قیادت پرعائد ہوتی ہے۔
روسی وزارت خارجہ نے آئی اے ای اے کی موجودہ صورتحال میں ذمہ داری کو انتہائی اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ ادارے کے اہلکار اور ایرانی شہری دونوں حملوں کی زد میں آئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: معاہدہ کرلیں ورنہ ملک میں کچھ نہیں بچے گا، ٹرمپ کا ایران کو انتباہ
روس نے مطالبہ کیا کہ آئی اے ای اے کے ڈائریکٹر جنرل ایران میں جوہری تنصیبات پر حملوں کے ممکنہ تابکاری اثرات پر غیرجانبدار اور متوازن رپورٹ پیش کریں، جبکہ مغربی ممالک پر زور دیا گیا کہ وہ ایران مخالف مہم بازی کے بجائے ذمہ داری کا مظاہرہ کریں۔
وزارت خارجہ نے کہا کہ ایران کے جوہری پروگرام کا کوئی بھی فوجی حل ممکن نہیں اور اس کا پائیدار حل صرف سیاسی، سفارتی اور پُرامن مذاکرات سے ہی ممکن ہے۔
فریقین سے تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کرتے ہوئے روس نے خبردار کیا کہ مزید کشیدگی خطے کو مکمل جنگ کی طرف دھکیل سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: جب تک خطرہ ختم نہ ہو جائے، ایران پر حملے جاری رہیں گے: اسرائیل
بیان کے اختتام پر روس نے اس بات کا خیرمقدم کیا کہ امریکا عمان میں ایران کے ساتھ مذاکرات کے ایک اور دور کے لیے تیار ہے اور امید ظاہر کی کہ تمام فریق ہوش مندی کا مظاہرہ کریں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news آئی اے ای اے اسرائیل امریکا ایران حملہ روس مذمت.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ا ئی اے ای اے اسرائیل امریکا ایران حملہ ایران پر اسرائیل ا ئی اے ای اے کے لیے
پڑھیں:
اسرائیلی طیاروں نے دوحہ پر بیلسٹک میزائل بحیرہ احمر سے فائر کیے، امریکی اہلکار
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 ستمبر 2025ء) آج جمعرات کو دبئی سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق نو ستمبر کو دوحہ پر بیلسٹک میزائل حملوں کے لیے اسرائیل نے ایک ایسا طریقہ استعمال کیا، جس کا مقصد یہ تھا کہ اسرائیلی جنگی طیاروں کو قطر کی فضائی حدود میں بھی داخل نہ ہونا پڑے اور ساتھ ہی وہ تیل سے مالا مال اس عرب ریاست کے فضائی دفاعی نظام کو چکمہ بھی دے سکیں۔
ان دونوں پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے اسرائیلی جنگی طیاروں نے حماس کی قیادت کو ہدف بنانے کے لیے بیلسٹک میزائل بحیرہ احمر کے پانیوں کے اوپر فضا سے فائر کیے تھے۔
ہلاک شدگان کی تعداد اور اسرائیلی حملے کے اثراتدوحہ میں ان میزائل حملوں میں چھ افراد ہلاک ہوئے تھے، جن میں سے پانچ کا تعلق حماس سے تھا اور چھٹا ایک قطری سکیورٹی اہلکار تھا۔
(جاری ہے)
ہلاک ہونے والے حماس کے پانچوں ارکان اس فلسطینی تنظیم کے درمیانے درجے کے رہنما یا ارکان تھے، جن میں سے ایک خلیل الحیہ کا ایک بیٹا تھا۔تاہم ان حملوں میں حماس کے رہنما خلیل الحیہ سمیت اس فلسطینی تنظیم کی وہ اعلیٰ قیادت محفوظ رہی تھی، جسے اسرائیل ہدف بنا کر ہلاک کرنا چاہتا تھا۔
قطر میں اسرائیل کے ان میزائل حملوں کا ایک فوری نتیجہ یہ نکلا تھا کہ انہوں نے کئی ماہ سے جاری ان ثالثی کوششوں کو بری طرح متاثر کیا تھا، جو قطر کی طرف سے امریکہ اور مصر کے ساتھ مل کر غزہ کی جنگ میں اسرائیل اور حماس کو کسی فائر بندی معاہدے تک لانے کے لیے کی جا رہی تھیں۔
اسرائیل نے حماس کی اعلیٰ سیاسی قیادت کو ہلاک کرنے کی کوشش اس وقت کی، جب وہ امریکی صدر ٹرمپ کی طرف سےغزہ میں جنگ بندی کے لیے پیش کردہ ایک تجویز پر غور کرنے کے لیے جمع تھی۔
حملہ کیسے کیا گیا؟امریکہ کے جس دفاعی اہلکار نے اپنی شناخت ظاہرنہ کیے جانے کی شرط پر نیوز ایجنسی اے پی کو اس اسرائیلی حملے کی تفصیلات بتائیں، اسے اس بات کا براہ راست علم تھا کہ اسرائیل نے یہ فضائی حملہ کیسے اور کہاں سے کیا۔
اس اہلکار کے مطابق اسے حساس انٹیلیجنس معلومات افشا کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ایک دوسرے امریکی دفاعی اہلکار نے بھی اے پی کے ساتھ گفتگو میں تصدیق کی کہ اسرائیل نے دوحہ میں یہ حملہ ''افقی پوزیشن‘‘ سے کیا اور اس وقت اسرائیلی جنگی طیارے ''قطر کی فضائی حدود سے باہر‘‘ تھے۔
امریکی فوج میں عام طور پر ''افقی پوزیشن‘‘ سے کی جانے والی کارروائی کی اصطلاح ان فضائی حملوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے، جو بہت دور سے کیے گئے ہوں۔
اسرائیلی جنگی طیارے کتنے تھے؟خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق اسرائیل نے ان فضائی حملوں کے لیے اپنے جنگی طیاروں کو نہ صرف قطر بلکہ خطے کی دیگر عرب ریاستوں بالخصوص سعودی عرب کی فضائی حدود سے بھی باہر ہی رکھا۔
ایک اسرائیلی اہلکار نے اپنی شناخت ظاہر کیے بغیر اس بارے میں ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ اس ایئر مشن میں تقریباﹰ 10 جنگی طیاروں نے حصہ لیا اور اس دوران تقریباﹰ 10 میزائل فائر کیے گئے۔
اسرائیل نے اب تک سرکاری طور پر یہ نہیں بتایا کہ اس نے دوحہ میں اس بہت نپے تلے فضائی حملے میں کس طرح کے ہتھیار کہاں سے فائر کیے۔
ان حملوں سے متعلق مزید تفصیلات کے لیے نیوز ایجنسی اے پی نے اسرائیلی فوج، قطری حکومت اور امریکہ میں پینٹاگون سے تبصرے کی جو درخواستیں کیں، ان کا تینوں میں سے کسی نے بھی جواب نہ دیا۔
’ساری بات صرف چند منٹ کی تھی‘برطانوی دارالحکومت لندن میں قائم رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹیٹیوٹ نامی تھنک ٹینک سے وابستہ سینئر ریسرچ فیلو اور میزائلوں سے متعلقہ امور کے ماہر سدھارتھ کوشال نے بتایا، ''یہ میزائل فائر کیے جانے اور ان کی وجہ سے ہونے والے دھماکوں کے درمیانی وقفے کی بات کی جائے، تو یہ ساری بات صرف چند منٹ کی ہی تھی۔
یہ کوئی بہت طویل وقت نہیں تھا۔‘‘انہوں نے کہا، ''اگر قطری فضائی دفاعی نظام کو اس حملے کا علم ہو بھی گیا تھا، یا ہو بھی جاتا، تو بھی پیٹریاٹ میزائلوں کے لیے ان اسرائیلی بیلسٹک میزائلوں کو انٹرسیپٹ کرنا بہت ہی مشکل ہوتا۔‘‘
اسرائیل نے دوحہ پر فضائی حملوں کے لیے کس طرح کے ذرائع کیسے استعمال کیے، اس بارے میں اولین تفصیلات امریکی جریدے وال اسٹریٹ جرنل نے شائع کیں۔
ادارت: افسر اعوان، کشور مصطفیٰ