ایران پر حملے میں امریکا اسرائیل گٹھ جوڑ ملوث تھا ؟
اشاعت کی تاریخ: 14th, June 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل کے ایران پر حملے پر پُراسرار خاموشی کے بعد کہا تھا کہ حملے سے پہلے ہی خبردار کردیا تھا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بتایا کہ ایران کو جوہری معاہدے پر پیش کی گئی شرائط پر اتفاق کے لیے 60 روز کا الٹی میٹم دیا تھا۔
امریکی صدر نے مزید کہا کہ آج اس الٹی میٹم کو61 واں دن ہوگیا ہے لیکن اب بھی ایران چاہے تو معاہدہ ہوسکتا ہے البتہ اب وقت کم رہ گیا ہے۔
خیال رہے کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے بھی کہا تھا کہ ایران نے حسن نصر اللہ کی موت کے بعد ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری شروع کردی تھی۔
اسرائیلی وزیراعظم کا مزید کہنا تھا کہ جوہری پروگرام سے روکنے کے لیے اسرائیل کے پاس ایران پر حملے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں بچا تھا۔
دونوں رہنماؤں کے ان بیانات سے خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ایران پر حملہ اسرائیل نے امریکا کی آشیرباد سے کیا تھا۔
ادھر اسرائیلی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ایران پر حملے میں امریکا سے کوئی مدد نہیں البتہ صدر ٹرمپ کو ضرور آگاہ کردیا تھا۔
دوسری جانب صدر ٹرمپ نے بھی کہا تھا کہ امریکا، ایران پر حملے سے واقف تھا اور نیتن یاہو سے میری دو بار گفتگو بھی ہوئی تھی۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ایران پر حملے تھا کہ
پڑھیں:
امریکا: تارکین وطن کے ویزوں کی حد مقرر: ’سفید فاموں کو ترجیح‘
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2026 کے لیے تارکینِ وطن کے داخلے کی نئی حد مقرر کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ آئندہ سال صرف 7,500 افراد کو امریکا میں امیگریشن کی اجازت دی جائے گی، یہ 1980 کے ”ریفوجی ایکٹ“ کے بعد سب سے کم حد ہے۔
صدر ٹرمپ نے اپنے بیان میں کہا کہ ان کی حکومت امریکی تاریخ میں امیگریشن کی سطح کم کرنے جا رہی ہے، کیونکہ ”امیگریشن کو کبھی بھی امریکا کے قومی مفادات کو نقصان نہیں پہنچانا چاہیے۔“
انہوں نے مزید دعویٰ کیا کہ جنوبی افریقہ میں سفید فام افریقیوں کو نسل کشی کے خطرات لاحق ہیں، اسی وجہ سے ان افراد کو ترجیحی بنیادوں پر ویزے دیے جائیں گے۔ واضح رہے کہ فی الحال امریکا کا سالانہ ریفیوجی کوٹہ 125,000 ہے، لیکن ٹرمپ کی نئی پالیسی کے تحت یہ تعداد 7,500 تک محدود کر دی گئی ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ کے مطابق نئی پالیسی کے تحت پناہ گزینوں کی سیکیورٹی جانچ مزید سخت کر دی جائے گی، اور کسی بھی درخواست دہندہ کو داخلے سے پہلے امریکی محکمہ خارجہ اور محکمہ داخلہ دونوں کی منظوری لازمی حاصل کرنا ہوگی۔
جون 2025 میں صدر ٹرمپ نے ایک نیا ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا تھا جس کے ذریعے غیر ملکی شہریوں کے داخلے کے ضوابط میں بھی تبدیلی کی گئی۔ ان ضوابط کے تحت ”غیر مطمئن سیکیورٹی پروفائل“ رکھنے والے افراد کو امریکا میں داخلے سے روکنے کا اختیار حکومت کو حاصل ہو گیا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ عالمی ادارہ برائے مہاجرین کے سابق مشیر کے مطابق یہ اقدام امریکا کی طویل عرصے سے جاری انسانی ہمدردی اور مہاجرین کے تحفظ کی پالیسیوں سے کھلا انحراف ہے۔
نیویارک میں قائم ہیومن رائٹس واچ نے اپنے بیان میں کہا کہ ”یہ فیصلہ رنگ، نسل اور مذہب کی بنیاد پر تفریق کے مترادف ہے، اور امریکا کی امیگریشن تاریخ کو نصف صدی پیچھے لے جا سکتا ہے۔“
سیاسی ماہرین کے مطابق ٹرمپ کی نئی امیگریشن پالیسی ایک طرف انتخابی وعدوں کی تکمیل ہے، جبکہ دوسری جانب یہ ان کے ووٹ بینک کو متحرک رکھنے کی کوشش بھی ہے، خاص طور پر اُن حلقوں میں جو غیر ملکی تارکینِ وطن کی مخالفت کرتے ہیں۔
امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق، وائٹ ہاؤس کے اندر بھی اس فیصلے پر اختلافات پائے جاتے ہیں، کیونکہ کئی سینئر حکام کا ماننا ہے کہ اس پالیسی سے امریکا کی عالمی ساکھ اور انسانی حقوق کے میدان میں قیادت کو نقصان پہنچے گا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اگر یہ پالیسی نافذالعمل رہی تو لاکھوں پناہ گزین، بالخصوص مشرقِ وسطیٰ، افریقہ اور جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے افراد، امریکا میں داخلے کے مواقع سے محروم ہو جائیں گے، جبکہ سفید فام جنوبی افریقیوں کو ترجیح دینے کا فیصلہ دنیا بھر میں شدید تنازع کا باعث بن سکتا ہے۔