Express News:
2025-11-02@23:13:29 GMT

بجٹ اور دولت کی تقسیم عدم مساوات

اشاعت کی تاریخ: 14th, June 2025 GMT

بجٹ 2025-26 پیش کردیا گیا۔ ایک بار پھر ترقی، استحکام، خودکفالت، مہنگائی کے جن کو بوتل میں بند کرنے کے گونج دار وعدوں نے قومی اسمبلی کی چھت پر ارتعاش پیدا کردیا، مگر عوام کی جیب میں خاموشی اداسی کا راج رہا نہ روٹی کی قیمت کم ہوئی نہ مہنگائی کا جن غائب ہوا، نہ ڈالرکی سینہ تانی میں کمی ہوئی نہ روپے کے خوف میں کمی ہوئی۔

بجٹ کے سنتے ہی تنخواہ دار طبقے کے چہرے پر اداسی تھی۔ دیہاڑی دار کے چہرے سے خوشی روٹھ گئی تھی۔ نجی اداروں سے تنخواہ لینے والے سہم کر سمٹ گئے تھے۔ ہاں! البتہ ایک طبقہ بہت خوش تھا، سنا ہے سینیٹروں کی تنخواہوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا ہے، اگر حکومت اس اضافے کو روک کر اتنی رقم دفاعی بجٹ میں جمع کرا دیتی جس سے عوام خوش ہو جاتے۔

اس ماہ کی 10 تاریخ تھی جب بجٹ کا سفر طے ہوا۔ وزیر خزانہ زبانی اعداد بولتے رہے اور وزیروں کے چہرے چمکتے رہے۔ ادھر سینیٹرز کے دل باغ باغ ہوتے رہے اور تنخواہ دار ملازم کے لیے 10 فی صد اضافہ اور پنشنروں کے لیے محض 7 فی صد کا اضافہ ہوا۔ ایسے میں بجٹ آیا، تقریر ہوئی، میزوں پر ہاتھ پڑے اور وہ جوش میں بجتے رہے، تالیاں بجتی رہیں، ایسے میں اعلان ہوا پنشن میں محض 7 فی صد اضافہ ہوگیا ہے۔

ایسے میں ایک بوڑھا سوچتا ہے عمر بھر ملک کی خدمت کی، اب ریٹائر ہوا تو حکومت نے خیال کرنا ہی چھوڑ دیا۔ 7 فی صد کے اضافے سے مگر مکان کا کرایہ 10 فی صد بڑھ گیا، اس سے کیسے نمٹا جائے۔ اپنی اور بیگم کی ادویات کی قیمت بڑھ گئی ہے، کون سی دوا کتنی کم کرنی ہے، اس سوچ میں تھا کہ آواز آئی پیپلز پارٹی نے بھی بجٹ سے اختلاف ظاہر کردیا ہے۔ اب قومی اسمبلی میں ترامیم ہوں گی، اصلاحات کی جائیں گی یقینا تنخواہوں اور پنشن میں مزید اضافے کا بل پاس ہو جائے گا۔

اس بجٹ میں سب سے زیادہ اہم شرح نمو کو 2.

7 فی صد سے بڑھا کر آیندہ سال4.2 فی صد تک لے کر آنا ہے۔ یہ عدد موجودہ معاشی حالات میں ایک امید ہے۔ ایک خواب ہے جسے حقیقت میں بدلنے کے لیے پوری قوم کو کمر کسنی ہوگی اور اشرافیہ کو قربانی دینی ہوگی۔

دفاعی بجٹ موجودہ علاقائی صورت حال میں جب دونوں اطراف کی سرحدیں انتہائی مخدوش حالات میں غیر محفوظ ہیں، اس دفاعی فنڈ کو بڑھانے کے لیے کچھ لوگ مالی قربانی دیں، چاہے ان کی تنخواہوں میں کیا گیا 500 فی صد اضافہ وہ حکومت سے کہہ کر دفاعی فنڈ میں جمع کرا دیں، پوری قوم میں ان کی دھوم مچ جائے گی۔ ترقی کے ہدف کا حصول ناممکن نہیں ہے، البتہ مشکل ضرور ہے۔ اس کے لیے زراعت کو جدید خطوط پر استوارکرلیں تاکہ غذائی تحفظ بھی حاصل ہو اور زرعی مصنوعات کی برآمد میں زیادہ اضافہ کرلیں صنعتوں کو 50 اور 60 کی دہائی کی طرح زبردست فروغ دینا ہوگا۔بجٹ کا کل حجم 17,573 ارب روپے کا ہے۔ ایف بی آر محصولات کا ہدف 14,131 ارب روپے ہے۔

درآمدی سولر پینلز پر 18 فی صد سیلز ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ہے۔ پٹرولیم مصنوعات پرکاربن لیوی ٹیکس لگانے کی تجویز دی گئی ہے۔ کراچی میں K-4 منصوبے کے لیے محض 3 ارب 20 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ ایسا معلوم دے رہاہے کہ پیاسوں کی طلب کو ایک سال کے لیے موخر کردیا گیا ہے۔

چاہیے تو یہ تھا کہ اسی سال کے۔فور پانی کے منصوبے کو بھاری رقم لگا کر مکمل کروا دیتے۔اعلان کردہ بجٹ کا جائزہ لینے سے قبل کچھ ایسی باتیں ہیں جن کی وجہ سے قلم کا نوحہ سامنے آتا ہے۔ کسی کی تنخواہ 2 سے21 لاکھ تک چلی جاتی ہے اور بہت سے خوش قسمت افراد کی تنخواہوں میں 500 فی صد کے لگ بھگ اضافہ ہو جاتا ہے اور بوڑھا، ضعیف، لاچار پنشنر کے لیے محض 7 فی صد کا اضافہ ہوتا ہے۔ بس یہ تضاد اتنا گہرا ہے کہ اس میں چھپا ظلم صاف نظر آ رہا ہے۔

بجٹ جس کے ذریعے اقوام مغرب غریب اور امیر کے درمیان فرق کو کم سے کم کرتے رہے، اشرافیہ سے وقتاً فوقتاً قربانی طلب کرتے رہے۔ محروم طبقات کے لیے حکومتی کوششوں کو اجاگر کرتے رہے۔ ہماری معیشت کی بنیاد عوام کا ہی پیسہ ہوتا ہے جو ٹیکس کی صورت میں اشیا خریدنے پر لگائے گئے ٹیکس کی ادائیگی کی صورت میں خزانے میں جمع ہو جاتا ہے، اس کا بڑا حصہ حکومتی اراکین پر خرچ نہیں ہونا چاہیے۔

معاشی ترقی کے لیے بجٹ وہ بنیاد فراہم کرتا ہے جس سے مضبوط انفرا اسٹرکچر مستحکم صنعت اور بہتر سرمایہ کاری ضروری ہوتی ہے، اگر معاشرے کا ایک بڑا حصہ بنیادی ضروریات سے بھی محروم ہے تو معاشی ترقی کے ہدف 4.2 تک نہیں پہنچ سکتے۔پاکستان پیپلز پارٹی جس نے بجٹ اصلاحات کا بیڑا اٹھا لیا ہے اسے محروم طبقے کمزور، ناتواں ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کے جذبات اور محرومی کو ایوان اقتدار میں بیٹھے، ارباب اختیار تک پہنچا دینا چاہیے۔

دولت کی تقسیم عدم مساوات معاشی ترقی کی راہ میں اہم رکاوٹ ہے۔ صرف سرکاری ملازمین اور پنشنرزکی بات نہیں بلکہ ملک کے طول و عرض میں کام کرنے والے نجی ملازمین دفتروں کے ملازمین اخباری کارکن، دکانوں پر کام کرنے والے دیہاڑی دار حتیٰ کہ غریب کسان، مختلف چھوٹے چھوٹے پیشے اختیار کرنے والے لوگ وہ بے روزگار نوجوان جوکہ آئی ٹی کے میدان میں داخل ہو رہے ہیں۔ پورے ملک کی افرادی قوت کو دولت کی تقسیم میں ان کا جائز حصہ ملے گا، جب کہیں جا کر غریب اور امیرکا فرق کم ہوگا۔ ورنہ یہ بجٹ حسب سابق اشرافیہ کو مراعات دینے کا نام رہ جائے گا۔

بجٹ کا اہم مقصد دولت کی تقسیم میں عدم مساوات کو کم کرنا ہو، اس کے متعلق زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے عملی اقدامات اٹھائے جاتے ہیں اور اس میں بتدریج کامیابی کا مطلب دولت کی تقسیم عدم مساوات کی خلیج میں کمی واقع ہو رہی ہے اور اسی لحاظ سے غربت میں کمی واقع ہوگی اور ملکی معیشت جتنی بھی زیادہ مضبوط ہو تو شرح نمو میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ لہٰذا بجٹ ایسا ہو جوکہ دولت کی تقسیم عدم مساوات میں زبردست کمی لے کر آئے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کی تنخواہ اضافہ ہو ہے اور بجٹ کا کے لیے

پڑھیں:

خیبرپختونخوا کی ترقی کیسے ممکن ہے؟

وزیراعظم محمد شہباز شریف نے جمعہ کو چترال میں اسپاغ لشٹ کے قریب دانش اسکول کا سنگ بنیاد رکھ دیا ہے، انھوں نے سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چترال خیبرپختونخوا کا خوبصورت علاقہ ہے، وزیراعظم نے کہا کہ دانش اسکولز میں ایچی سن کے معیار کی تعلیم فراہم کی جارہی ہے اور غریب ، یتیم اور عام آدمی کے بچے بھی یہاں مفت تعلیمی سہولیات حاصل کرسکتے ہیں۔

یہ کسی پر احسان نہیں، ریاست کا فریضہ ہے۔ انھوں نے گیس پلانٹ منصوبے کو بھی پایہ تکمیل تک پہنچانے کا اعلان کیا اور اپر چترال کے لیے بجلی کی یکسان ٹیرف مقرر کرنے کے حوالے سے وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری کو اگلے ہفتے چترال بھیجنے کا اعلان کیا۔

اپر چترال میں جدید اسپتال کے قیام کا بھی اعلان کیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ انھوں نے گزشتہ روز طلبہ کے لیے میرٹ پر ایک لاکھ لیپ ٹاپ فراہم کرنے کی اسکیم کا اجرا کیا ہے، یہ لیپ ٹاپ چترال کے ہونہار طلبا کو بھی ملیں گے۔

چترال میں تعلیمی اداروں کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ اس حوالے سے دانش اسکول کا قیام اہم پیش رفت ہے۔ چترال ایک انتہائی خوبصورت اور وسیع وعریض ضلع ہے۔ یہاں غربت اور ناخواندگی کی شرح بھی خاصی بلند ہے۔

خصوصاً اس علاقے میں دیہی آبادی جن کا کی روزی کا دارومدار گلہ بانی ہے، ان کی ترقی اور خوش حالی کے لیے بھی اہم اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس علاقے میں گلہ بانوں کے لیے چراگاہوں کا ایشو ہمیشہ سے موجود رہا ہے۔

گلہ بانوں کے لیے سہولیات فراہم کر کے اس علاقے میں روزگار اور خوش حالی کا آغاز کیا جا سکتا ہے۔ خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت کو بھی اس حوالے سے رہنما کردار ادا کرنا چاہیے۔

خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والی سیاسی قیادت، کاروباری طبقے اور افسرشاہی کو پسماندہ اضلاع کی پسماندہ آبادی کی ترقی کے لیے زیادہ سے زیادہ فنڈز مختص کرنے چاہئیں۔ چترال میں ٹورازم کو بھی خاصی ترقی دی جا سکتی ہے۔

اس علاقے میں رہنے والی اقوام اور برادریاں زبان اور ثقافت کے اعتبار سے کشمیر اور گلگت بلتستان کے قریب ہیں۔ خیبرپختونخوا کی اسمبلی میں پچھلے دنوں گوجری زبان کو چھٹی سرکاری زبان کے طور پر تسلیم کر لیا گیا ہے جو کہ ایک اچھا اور اہم اقدام ہے۔

اس حوالے سے چترال میں بھی گوجری زبان بولنے والوں کی آبادی کی ترقی کے لیے کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف نے اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ انھوں نے خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کو وزیراعلیٰ منتخب ہونے پر فون کرکے مبارکباد دی ہے اور انھیں پیشکش کی ہے کہ مل کر ترقی، خوشحالی، بدامنی و دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کام کریں، وفاق ان سے مکمل تعاون کرے گا۔

وفاق اور صوبوں کے درمیان اچھا ورکنگ ریلیشن پاکستان کی ترقی کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ خیبرپختونخوا کی صوبائی کابینہ بھی تشکیل پا گئی ہے، صوبے کی حکومت اور وزیراعلیٰ کو صوبہ خیبرپختونخوا کی تعمیر وترقی کے لیے وفاق اور دیگر صوبوں کے ساتھ مل کر تعمیر وترقی کے عمل میں شریک ہونا چاہیے۔

خیبرپختونخوا پاکستان کی ترقی کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل صوبہ ہے۔ اس صوبے میں سیاحت کی صنعت کا بہت زیادہ اسکوپ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہاں قیمتی معدنیات جن میں نایاب اور انتہائی قیمتی جیمزا سٹونز بھی شامل ہیں، زمرد (ایمرالڈ)، تورملین، ایکوامرین، زرد اور نیلا یاقوت (روبی)، اور ڈائمنڈ جیسے قدرتی جیمز اسٹونز وافر مقدار میں موجود ہیں۔

اس کے علاوہ سنگ مرمر، بلیک گرے نائٹ، سفید گرے نائٹ اور دیگر قیمتی ماربل کے وسیع ذخائر صوبہ خیبرپختونخوا میں موجود ہیں۔ انتہائی قیمتی لکڑی بھی اس صوبے میں وافر تعداد میں موجود ہے۔ قدرتی مناظر اور معدنیات سے مالامال یہ خطہ اپنی مثال آپ ہے۔

اگر اس خطے کی ترقی پر یکسوئی اور منصوبہ بندی کے ساتھ کام کیا جائے تو آنے والے چند برسوں میں یہ صوبہ پاکستان کا سوئٹزرلینڈ بن سکتا ہے لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ اس صوبے میں دہشت گردی کا خاتمہ ہو، انتہاپسندی پر قابو پایا جائے، جرائم کی روک تھام ہو اور ایسے علاقوں میں قانون کا نفاذ یقینی ہو جہاں جرائم پیشہ گروہ اور دہشت گرد گروہ بغیر کسی رکاوٹ کے موجود ہیں۔

اس مقصد کے حصول کے لیے خیبرپختونخوا کی حکومت مسلسل کوششیں کر رہی ہے لیکن اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے وفاقی حکومت اور وفاقی اداروں کا تعاون بھی اشد ضروری ہے۔ صرف چترال کو ہی مدنظر رکھ لیں تو اس ایک ضلعے کو ہی اگر ٹورازم کے لیے محفوظ بنا دیا جائے تو اربوں روپے کا زرمبادلہ اکٹھا کیا جاسکتا ہے۔

وزیراعظم شہباز شریف نے واضح کیا ہے کہ چترال بونی شندور 153کلومیٹر روڈ پر کام جاری ہے، چترال ایون 46کلومیٹر روڈ آیندہ سال مئی تک مکمل کر لی جائے گی، لواری ٹنل کی شمالی رسائی کے 7کلومیٹر حصے کا کام بھی مکمل ہو چکا ہے۔

وزیر اعظم نے اپر چترال کے لیے وفاق کی طرف سے یونیورسٹی کے قیام کا بھی اعلان کیا۔ خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع میں بھی یونیورسٹیاں اور کالجز قائم ہونے چاہئیں۔ اس کے علاوہ اس خطے میں بولی جانے والی تمام زبانوں کے تحفظ اور ترقی کے لیے خصوصی اقدامات کی ضرورت ہے کیونکہ خیبرپختونخوا پاکستان کا واحد خطہ ہے جہاں بہت زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں اور یہاں نسلی اور ثقافتی ڈائیورسٹی بھی بہت زیادہ ہے۔

خیبرپختونخوا کی سرحد چونکہ افغانستان کے ساتھ ملتی ہے، اس لیے یہ صوبہ کئی قسم کے مسائل کا شکار ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ افغانستان سے پروموٹ ہونے والی دہشت گردی کو روکنا اور اس کا خاتمہ کرنا ہے کیونکہ جب تک دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں ہوتا خیبرپختونخوا میں کاروباری سرگرمیاں بڑھ نہیں سکتیں۔

خیبرپختونخوا میں مڈل کلاس کے پھیلاؤ کے لیے کاروباری سرگرمیوں کا بڑھنا انتہائی ضروری ہے۔ دہشت گردی اور قبائلی کلچر مڈل کلاس کے پھیلاؤ میں بڑی رکاوٹ کے طور پر موجود ہے۔ وفاق اور صوبائی حکومت کو اس حوالے سے ایک مربوط پالیسی تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔

افغانستان کے ساتھ پاکستان کے مذاکرات ہو رہے ہیں۔ استنبول میں جاری مذاکرات کی کامیابی خیبرپختونخوا میں ترقی کے لیے بہت ضروری ہے۔ ترجمان دفترخارجہ نے ہفتہ وار بریفنگ میں کہا کہ پاکستان افغانستان کے ساتھ مزید کشیدگی نہیں چاہتا تاہم مستقبل میں کسی بھی جارحیت کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔

ترجمان دفتر خارجہ طاہر اندرابی نے ہفتہ وار بریفنگ میں بتایا کہ پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کا استنبول میں اختتام پذیر ہوا پاکستان نے افغان طالبان حکومت سے دہشت گردوں کے خلاف ٹھوس اور قابل تصدیق اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔

پاکستان نے 4 برس سے افغان حکام کو افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کی موجودگی پر قابل اعتماد معلومات فراہم کیں تاہم بار بار کی یقین دھانی کے باوجود افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردی میں اضافہ ہوا۔

مذاکرات میں ترکیہ اور قطر کی ثالثی کو سراہتے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان انتہائی نازک مذاکرات تھے۔ ترکیہ کا مشترکہ اعلامیہ مذاکرات کا ایک کورنگ نوٹ تھا۔ یہ ایک کتاب کے سرروق کی طرح تھا نہ کہ مکمل کتاب کی طرح ۔

افغان فریق کی جانب سے جنگ بندی کے تسلسل کی یقین دھانی کرائی گئی ہے۔ پاکستان نے کہا ہے کہ مذاکرات کے تسلسل کو گہرائی سے دیکھ رہے ہیں۔ تحریری ضمانتوں کا طلب کیا جانا مذاکرات کا حصہ تھا۔

ابھی مذاکرات جاری ہیں اور آیندہ نشست 6 نومبر کو ہو گی جس کی تکمیل پر بیان جاری کریں گے۔ آیندہ مذاکرات میں انٹرلوکیٹرز حکومتی سطح کے افراد اور سیاسی نمایندگی ہو گی۔

مذاکرات میں افغان طالبان حکومت نے کالعدم دہشت گرد تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی کو تسلیم کیا اور ان تنظیموں کے خلاف کارروائی نہ کرنے کے مختلف جواز پیش کیے۔ سیکیورٹی صورت حال کا تقاضہ ہے ابھی سرحد کو بند رکھا جائے۔

افغانستان کی طالبان حکومت کو بھی امورِ مملکت اور رموزِ مملکت جیسی اصطلاحات پر گہرا غور وفکر کرنا چاہیے۔ طالبان اگر حکومت میں آ گئے ہیں تو انھیں اپنے آپ کو فاتح یا مطلق العنان حاکم اور بادشاہ نہیں سمجھنا چاہیے۔ افغانستان میں کئی کروڑ عوام آباد ہیں۔

یہاں مختلف نسلی، لسانی اور ثقافتی گروہ یا قومیتیں اپنے اپنے علاقوں میں صدیوں سے آباد چلی آ رہی ہیں۔ خانہ بندوش قبائل بھی افغانستان کی آبادی کا حصہ ہیں۔ افغانستان کا اقتدار کسی بھی افغان گروپ کے پاس ہو، اس کا پہلا فرض منصبی افغانستان کے عوام کی تعمیر وترقی ہونا چاہیے۔

اس کے علاوہ اسے یہ معلوم ہونا چاہیے کہ وہ اپنے ہر کام اور فعل کے لیے عوام کے سامنے جوابدہ ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ آج اگر طالبان اگر حکومت میں ہیں تو وہ جو چاہیں کریں، اور وہ یہ سمجھیں کہ وہ اپنے کسی فعل کے لیے کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہیں تو یہ ایک غلط طرزعمل اور طرز حکمرانی ہے بلکہ آمریت سے بھی بڑھ کر ہے۔

متعلقہ مضامین

  • لاہور: وفاقی وزیر ماحولیاتی مصدق ملک پاکستان ایڈمنسٹریٹو اسٹاف کالج میں مینجمنٹ کورس کی گریجویشن تقریب میں سرٹیفکیٹ تقسیم کررہے ہیں
  • پاکستان میں تعلیم کا بحران؛ ماہرین کا صنفی مساوات، سماجی شمولیت اور مالی معاونت بڑھانے پر زور
  • خیبرپختونخوا کی ترقی کیسے ممکن ہے؟
  • جسارت ڈیجیٹل میڈیا کی تقریب پذیرائی، نمایاں کارکردگی پر تقسیم اسناد اور نقد انعامات تفیض
  • حکومت نے نوجوانوں کا روزگار چھینا اور ملک کی دولت دوستوں کو دے دی، پرینکا گاندھی
  • ہم نے مختصر دور حکومت میں وسائل کی منصفانہ تقسیم پر توجہ دی، گلبر خان
  • صوبوں کی نئی تقسیم کا فارمولا اور ممکنہ نام سامنے آ گئے
  • خیبرپختونخوا میں کسی قسم کی کوئی تقسیم نہیں، ہم سب ایک پیج پر ہیں: سہیل آفریدی
  • سیلاب بحالی پروگرام کے تحت 6 ارب 39 کروڑ تقسیم، امن و امان کی صورتحال کنٹرول میں، انتشار کی اجازت نہیں دی جائے گی: مریم نواز
  • سیلاب بحالی پروگرام: 6 ارب روپے سے زاید تقسیم کردیے، مریم اورنگزیب