بجٹ اور دولت کی تقسیم عدم مساوات
اشاعت کی تاریخ: 14th, June 2025 GMT
بجٹ 2025-26 پیش کردیا گیا۔ ایک بار پھر ترقی، استحکام، خودکفالت، مہنگائی کے جن کو بوتل میں بند کرنے کے گونج دار وعدوں نے قومی اسمبلی کی چھت پر ارتعاش پیدا کردیا، مگر عوام کی جیب میں خاموشی اداسی کا راج رہا نہ روٹی کی قیمت کم ہوئی نہ مہنگائی کا جن غائب ہوا، نہ ڈالرکی سینہ تانی میں کمی ہوئی نہ روپے کے خوف میں کمی ہوئی۔
بجٹ کے سنتے ہی تنخواہ دار طبقے کے چہرے پر اداسی تھی۔ دیہاڑی دار کے چہرے سے خوشی روٹھ گئی تھی۔ نجی اداروں سے تنخواہ لینے والے سہم کر سمٹ گئے تھے۔ ہاں! البتہ ایک طبقہ بہت خوش تھا، سنا ہے سینیٹروں کی تنخواہوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا ہے، اگر حکومت اس اضافے کو روک کر اتنی رقم دفاعی بجٹ میں جمع کرا دیتی جس سے عوام خوش ہو جاتے۔
اس ماہ کی 10 تاریخ تھی جب بجٹ کا سفر طے ہوا۔ وزیر خزانہ زبانی اعداد بولتے رہے اور وزیروں کے چہرے چمکتے رہے۔ ادھر سینیٹرز کے دل باغ باغ ہوتے رہے اور تنخواہ دار ملازم کے لیے 10 فی صد اضافہ اور پنشنروں کے لیے محض 7 فی صد کا اضافہ ہوا۔ ایسے میں بجٹ آیا، تقریر ہوئی، میزوں پر ہاتھ پڑے اور وہ جوش میں بجتے رہے، تالیاں بجتی رہیں، ایسے میں اعلان ہوا پنشن میں محض 7 فی صد اضافہ ہوگیا ہے۔
ایسے میں ایک بوڑھا سوچتا ہے عمر بھر ملک کی خدمت کی، اب ریٹائر ہوا تو حکومت نے خیال کرنا ہی چھوڑ دیا۔ 7 فی صد کے اضافے سے مگر مکان کا کرایہ 10 فی صد بڑھ گیا، اس سے کیسے نمٹا جائے۔ اپنی اور بیگم کی ادویات کی قیمت بڑھ گئی ہے، کون سی دوا کتنی کم کرنی ہے، اس سوچ میں تھا کہ آواز آئی پیپلز پارٹی نے بھی بجٹ سے اختلاف ظاہر کردیا ہے۔ اب قومی اسمبلی میں ترامیم ہوں گی، اصلاحات کی جائیں گی یقینا تنخواہوں اور پنشن میں مزید اضافے کا بل پاس ہو جائے گا۔
اس بجٹ میں سب سے زیادہ اہم شرح نمو کو 2.
دفاعی بجٹ موجودہ علاقائی صورت حال میں جب دونوں اطراف کی سرحدیں انتہائی مخدوش حالات میں غیر محفوظ ہیں، اس دفاعی فنڈ کو بڑھانے کے لیے کچھ لوگ مالی قربانی دیں، چاہے ان کی تنخواہوں میں کیا گیا 500 فی صد اضافہ وہ حکومت سے کہہ کر دفاعی فنڈ میں جمع کرا دیں، پوری قوم میں ان کی دھوم مچ جائے گی۔ ترقی کے ہدف کا حصول ناممکن نہیں ہے، البتہ مشکل ضرور ہے۔ اس کے لیے زراعت کو جدید خطوط پر استوارکرلیں تاکہ غذائی تحفظ بھی حاصل ہو اور زرعی مصنوعات کی برآمد میں زیادہ اضافہ کرلیں صنعتوں کو 50 اور 60 کی دہائی کی طرح زبردست فروغ دینا ہوگا۔بجٹ کا کل حجم 17,573 ارب روپے کا ہے۔ ایف بی آر محصولات کا ہدف 14,131 ارب روپے ہے۔
درآمدی سولر پینلز پر 18 فی صد سیلز ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ہے۔ پٹرولیم مصنوعات پرکاربن لیوی ٹیکس لگانے کی تجویز دی گئی ہے۔ کراچی میں K-4 منصوبے کے لیے محض 3 ارب 20 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ ایسا معلوم دے رہاہے کہ پیاسوں کی طلب کو ایک سال کے لیے موخر کردیا گیا ہے۔
چاہیے تو یہ تھا کہ اسی سال کے۔فور پانی کے منصوبے کو بھاری رقم لگا کر مکمل کروا دیتے۔اعلان کردہ بجٹ کا جائزہ لینے سے قبل کچھ ایسی باتیں ہیں جن کی وجہ سے قلم کا نوحہ سامنے آتا ہے۔ کسی کی تنخواہ 2 سے21 لاکھ تک چلی جاتی ہے اور بہت سے خوش قسمت افراد کی تنخواہوں میں 500 فی صد کے لگ بھگ اضافہ ہو جاتا ہے اور بوڑھا، ضعیف، لاچار پنشنر کے لیے محض 7 فی صد کا اضافہ ہوتا ہے۔ بس یہ تضاد اتنا گہرا ہے کہ اس میں چھپا ظلم صاف نظر آ رہا ہے۔
بجٹ جس کے ذریعے اقوام مغرب غریب اور امیر کے درمیان فرق کو کم سے کم کرتے رہے، اشرافیہ سے وقتاً فوقتاً قربانی طلب کرتے رہے۔ محروم طبقات کے لیے حکومتی کوششوں کو اجاگر کرتے رہے۔ ہماری معیشت کی بنیاد عوام کا ہی پیسہ ہوتا ہے جو ٹیکس کی صورت میں اشیا خریدنے پر لگائے گئے ٹیکس کی ادائیگی کی صورت میں خزانے میں جمع ہو جاتا ہے، اس کا بڑا حصہ حکومتی اراکین پر خرچ نہیں ہونا چاہیے۔
معاشی ترقی کے لیے بجٹ وہ بنیاد فراہم کرتا ہے جس سے مضبوط انفرا اسٹرکچر مستحکم صنعت اور بہتر سرمایہ کاری ضروری ہوتی ہے، اگر معاشرے کا ایک بڑا حصہ بنیادی ضروریات سے بھی محروم ہے تو معاشی ترقی کے ہدف 4.2 تک نہیں پہنچ سکتے۔پاکستان پیپلز پارٹی جس نے بجٹ اصلاحات کا بیڑا اٹھا لیا ہے اسے محروم طبقے کمزور، ناتواں ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کے جذبات اور محرومی کو ایوان اقتدار میں بیٹھے، ارباب اختیار تک پہنچا دینا چاہیے۔
دولت کی تقسیم عدم مساوات معاشی ترقی کی راہ میں اہم رکاوٹ ہے۔ صرف سرکاری ملازمین اور پنشنرزکی بات نہیں بلکہ ملک کے طول و عرض میں کام کرنے والے نجی ملازمین دفتروں کے ملازمین اخباری کارکن، دکانوں پر کام کرنے والے دیہاڑی دار حتیٰ کہ غریب کسان، مختلف چھوٹے چھوٹے پیشے اختیار کرنے والے لوگ وہ بے روزگار نوجوان جوکہ آئی ٹی کے میدان میں داخل ہو رہے ہیں۔ پورے ملک کی افرادی قوت کو دولت کی تقسیم میں ان کا جائز حصہ ملے گا، جب کہیں جا کر غریب اور امیرکا فرق کم ہوگا۔ ورنہ یہ بجٹ حسب سابق اشرافیہ کو مراعات دینے کا نام رہ جائے گا۔
بجٹ کا اہم مقصد دولت کی تقسیم میں عدم مساوات کو کم کرنا ہو، اس کے متعلق زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے عملی اقدامات اٹھائے جاتے ہیں اور اس میں بتدریج کامیابی کا مطلب دولت کی تقسیم عدم مساوات کی خلیج میں کمی واقع ہو رہی ہے اور اسی لحاظ سے غربت میں کمی واقع ہوگی اور ملکی معیشت جتنی بھی زیادہ مضبوط ہو تو شرح نمو میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ لہٰذا بجٹ ایسا ہو جوکہ دولت کی تقسیم عدم مساوات میں زبردست کمی لے کر آئے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کی تنخواہ اضافہ ہو ہے اور بجٹ کا کے لیے
پڑھیں:
8 فروری الیکشن میں کچھ امیدواروں کو غیر قانونی طور پر کامیاب قرار دیا گیا
لاہور ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 16 ستمبر2025ء ) 8 فروری الیکشن سے متعلق کامن ویلتھ رپورٹ میں وسیع پیمانے پر انتخابی دھاندلی، انسانی و سیاسی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی نشاندہی کا انکشاف، رپورٹ کے مطابق 8 فروری الیکشن میں کچھ امیدواروں کو غیر قانونی طور پر کامیاب قرار دیا گیا، پولنگ سٹیشنوں پر اصل نتائج کے فارم اور حتمی نتائج کے فارموں میں واضح تضاد موجود تھا۔ تفصیلات کے مطابق کامن ویلتھ کی جانب سے 8 فروری 2024ء کے انتخابات میں دھاندلی چھپانے میں مدد کا انکشاف ہو اہے۔ برطانوی اخبار دی ٹیلی گراف کے مطابق اس حوالے سے لیک ہونے والی رپورٹ سے پتا چلتا ہے کہ رجیم نے 2024ء کا انتخاب عمران خان کی پی ٹی آئی پارٹی سے دھاندلی اور ووٹوں کی ہیرا پھیری کے ذریعے چُرایا، اس حوالے سے دولتِ مشترکہ پر الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ اس نے پاکستان کی فوجی حمایت یافتہ حکومت کے ساتھ ملی بھگت کر کے 2024ء کے عام انتخابات میں وسیع پیمانے پر کی گئی دھاندلی کو چھپانے کی کوشش کی۔(جاری ہے)
بتایا گیا ہے کہ دولتِ مشترکہ کا سیکریٹریٹ عام طور پر اپنے رکن ممالک کے انتخابات کی نگرانی کے لیے ایک آزاد مبصر کے طور پر کام کرتا ہے اور اسی مقصد کے لیے اس نے فروری 2024ء کے الیکشن میں پاکستان میں 13 رکنی مبصر وفد بھیجا تھا لیکن اپنی 70 سالہ تاریخ میں پہلی بار دولتِ مشترکہ نے مشاہداتی رپورٹ شائع کرنے سے گریز کیا اور اس کے برعکس انتخابات کی شفافیت اور پاکستان کے جمہوری عمل کی تعریف کی، تاہم اب سامنے آنے والی رپورٹ جو کہ پہلے دبا دی گئی تھی اس میں واضح طور پر وسیع پیمانے پر انتخابی دھاندلی اور انسانی و سیاسی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی نشاندہی کی گئی، جن میں آزادی اظہار، اجتماع اور انجمن سازی پر پابندیاں شامل ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فوجی پشت پناہی رکھنے والی حکومت نے عمران خان کی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کو منصفانہ انتخابی مہم چلانے سے محروم رکھا، امیدواروں کو آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے پر مجبور کیا گیا اور پارٹی کو اس کا انتخابی نشان استعمال کرنے سے بھی روک دیا گیا، مبصر ٹیم نے بتایا کہ حکومتی فیصلے بار بار ایک جماعت کو غیر مساوی اور محدود انتخابی میدان میں دھکیلتے رہے، متعدد پولنگ سٹیشنوں پر اصل نتائج کے فارم اور حلقہ سطح پر جاری کیے گئے حتمی نتائج کے فارموں میں واضح تضاد موجود تھا، جس کے نتیجے میں ممکنہ طور پر کچھ امیدواروں کو غیر قانونی طور پر کامیاب قرار دے دیا گیا۔ برطانوی اخبار نے لکھا ہے کہ رپورٹ کو پہلے غیر رسمی طور پر حکومتِ پاکستان سے شیئر کیا گیا اور بعد ازاں مبینہ طور پر حکومت نے اسے شائع نہ کرنے کا مطالبہ کیا، جس پر دولتِ مشترکہ سیکریٹریٹ نے عمل کیا اور رپورٹ کو دبا دیا، یہ رپورٹ جو اب مکمل طور پر لیک ہو چکی ہے، ڈراپ سائٹ نیوز نے حاصل کی، جس میں دولتِ مشترکہ پر دھاندلی کو چھپانے میں ملوث ہونے کا الزام لگ رہا ہے، رپورٹ میں انتخابات میں منظم دھاندلی اور ریاستی مشینری کے غلط استعمال کا ذکر ہے، جس کے ذریعے عمران خان کی غیر موجودگی میں ان کی جماعت کو سیاسی عمل سے باہر رکھا گیا۔ دولتِ مشترکہ کے ترجمان نے اس معاملے پر ردِ عمل دیتے ہوئے کہا کہ وہ ان رپورٹس سے آگاہ ہیں جو آن لائن گردش کر رہی ہیں لیکن ان کا اصولی مؤقف ہے کہ وہ لیک شدہ دستاویزات پر کوئی تبصرہ نہیں کرتے، حکومتِ پاکستان اور الیکشن کمیشن کو رپورٹ پہلے ہی موصول ہو چکی ہے اور جیسا کہ پہلے بتایا گیا تھا یہ رپورٹ رواں ماہ کے آخر میں شائع کی جائے گی۔