Daily Ausaf:
2025-07-30@08:38:39 GMT

نوآبادیاتی نظام اور مظلوم عوام کا مستقبل

اشاعت کی تاریخ: 14th, June 2025 GMT

پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد جب بہت سے مسلم ممالک یورپی استعمار کے شکنجے سے آزاد ہوئے، ایشیا اور افریقہ کے ممالک پر برطانیہ، فرانس، ہالینڈ اور پرتگال وغیرہ کی گرفت ڈھیلی پڑنا شروع ہوئی تو ہم اس غلط فہمی کا شکار ہوئے کہ ہم واقعی آزادی سے ہمکنار ہو رہے ہیں، اور اب ہم استعماری قوتوں کے دائرہ اثر و نفوذ سے نجات حاصل کر کے اپنی مرضی کے مطابق اپنا مستقبل طے کر سکیں گے۔ لیکن ہماری یہ غلط فہمی بہت جلد دور ہونا شروع ہوگئی اور کم و بیش نصف صدی کے عرصہ میں ہم پر یہ بات پوری طرح واضح ہوگئی ہے کہ ہمارے ساتھ آزادی کے نام پر دھوکہ ہوا ہے اور ہم آج بھی اسی طرح غلامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں جیسا کہ پون صدی قبل ہمارا حال تھا۔ صرف طریق کار تبدیل ہوا ہے کہ غلامی کی ظاہری زنجیروں کی بجائے ریموٹ کنٹرول سسٹم نے ہمارے گرد حصار قائم کر لیا ہے۔ اور بوڑھے برطانیہ کی جگہ اس استعمار اور نوآبادیاتی سسٹم کی قیادت جواں سال امریکہ نے سنبھال لی ہے۔ اجتماعی زندگی کے مختلف شعبوں کے حوالہ سے ذرا معروضی صورتحال پر ایک نظر ڈال لی جائے تو مناسب ہوگا۔
سیاست و حکومت کے دائرہ میں صدر محمد ایوب خان کے دور میں انہی کے بھائی سردار محمد بہادر خان نے، جو ۱۹۶۲ء میں منتخب ہونے والی قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے قائد تھے، ایک بات کہی تھی جو اس وقت بہت سے لوگوں کی سمجھ میں نہیں آرہی تھی کہ پاکستان میں کوئی حکومت بھی امریکہ کی مرضی کے بغیر نہ تشکیل پاتی ہے اور نہ ختم ہوتی ہے۔ لیکن آج ۳۰ سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد یہ بات ایک حقیقت کے طور پر ہمارے سامنے ہے کہ ہماری سیاست و حکومت کے تمام معاملات اسلام آباد میں نہیں بلکہ واشنگٹن میں طے ہوتے ہیں اور ہمارا رول ان میں احکام کی بجا آوری کے سوا کچھ نہیں ہے۔ سردار بہادر خان ایک باخبر سیاست دان تھے، اسی لیے انہوں نے بالآخر قومی اسمبلی میں اپنا آخری خطاب اس شعر پر ختم کر کے قومی اسمبلی بلکہ قومی سیاست کا فلور ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیا تھا کہ
یہ راز بھی اب کوئی راز نہیں سب اہل گلستاں جان گئے
ہر شاخ پہ اُلو بیٹھا ہے انجام بہاراں کیا ہوگا؟
معیشت و تجارت میں ہمارا حال کیا ہے اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن، ورلڈ بینک، اور آئی ایم ایف کے ہاتھوں فری مارکیٹ عالمی تجارت اور گلوبلائزیشن کے خوشنما عنوانات کے تحت کیا ہونے والا ہے؟ میں اس وقت صرف دو حوالوں سے اس صورتحال کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہوں گا۔ چند سال قبل ایک ذمہ دار اور مقتدر شخصیت نے، جو بعد میں وفاقی وزیر کے منصب پر بھی فائز رہے، مجھے بتایا کہ ہم نے اپنی ضرورت کے لیے ملائیشیا سے پام آئل خریدنے کا پروگرام بنایا، یہ سوچ کر کہ ملائیشیا کا پام آئل معیار کے لحاظ سے بہتر اور سستا ہے۔ اگر ہم ملائیشیا سے پام آئل خریدیں گے تو ان فوائد کے ساتھ ساتھ دو برادر مسلم ملکوں کے تعلقات میں بھی اضافہ ہوگا۔ چنانچہ ہم نے ملائیشیا کی حکومت سے اس سلسلہ میں گفت و شنید کی لیکن بعض مراحل طے ہونے کے بعد ہمیں یہ گفتگو اچانک معطل کر دینا پڑی۔ اس لیے کہ عالمی مالیاتی اداروں کی طرف سے ہمیں واضح طور پر وارننگ دی گئی کہ اگر ہم نے ملائیشیا کے ساتھ پام آئل کی خریداری کا معاہدہ کر لیا تو ہمیں عالمی مالیاتی اداروں کی طرف سے حاصل ہونے والی بہت سی سہولتوں اور مفادات سے محروم ہونا پڑے گا۔ اس کا مطلب واضح ہے کہ ایک آزاد ملک اور خودمختار حکومت کے لیبل کے باوجود ہم اپنی تجارت میں یہ حق نہیں رکھتے کہ اپنی ضرورت کا ایک تیل اپنی آزاد مرضی کے ساتھ کہیں سے خرید سکیں۔
دوسرے نمبر پر میں ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد کی کتاب ’’ایشیا کا مقدمہ‘‘ کا حوالہ دینا چاہوں گا جس میں انہوں نے ملائیشیا کی معاشی ترقی، صنعتی عروج اور پھر اس کے اچانک زوال کی داستان بیان کی ہے۔ یہ کتاب عالمی مالیاتی استعمار کے طریقۂ واردات اور استحصال کے طور طریقوں کو بے نقاب کرتی ہے اور میرے خیال میں پاکستان کے ہر عالم دین، ہر سیاسی کارکن، اور ہر دانشور کو اس کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔ ملائیشیا میں جب سرمایہ کار آئے اور مشرق بعید کے اس مسلم ملک نے صنعتی ترقی کی طرف قدم بڑھانا شروع کیا تو میرے جیسے کارکن بہت خوش ہوئے کہ ایک مسلمان صنعتی ملک کا نام بھی سامنے آنے لگا ہے۔ لیکن کرنسی کے بین الاقوامی تاجروں نے اپنی اجارہ داری کا جس بری طرح استعمال کیا اور ملائیشیا کی معاشی اور صنعتی ترقی پر کرنسی کے خود ساختہ اتار چڑھاؤ اور اس کے نتیجے میں سرمایہ کے انخلاء کا اس سفاکانہ اور بے رحمانہ طریقہ سے وار کیا کہ ’’ایشیا کا ٹائیگر‘‘ کہلانے والے اس مسلم ملک کی معیشت اور تجارت کا پورا ڈھانچہ دیکھتے ہی دیکھتے زمین بوس ہوگیا۔ اور یہ خوفناک معروضی صورت حال ایک بار پھر ہمارا منہ چڑانے لگی کہ جسے ہم نے آزادی سمجھ کر اس پر بیسیوں سالانہ جشن منا ڈالے ہیں وہ آزادی نہیں بلکہ غلامی سے بھی بدتر چیز ہے اور ہم سیاست و حکومت کی طرح معیشت، صنعت، اور تجارت میں بھی اپنی مرضی سے کوئی آزادانہ فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔
(جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: پام ا ئل ہے اور

پڑھیں:

بھارت تنازعہ کشمیر کے حل کیلئے پاکستان کے ساتھ مذاکرات شروع کرے، محبوبہ مفتی

سرینگر میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے لوگ وقار کے ساتھ امن چاہتے ہیں، لیکن جب بھی پاکستان کی بات آئے گی تو وہ خارجہ پالیسی کے معاملات میں ضرور "مداخلت" کریں گے۔ اسلام ٹائمز۔ غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ محبوبہ مفتی نے مودی کی بھارتی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ جنگ کی گیدڑ بھبکیوں کی بجائے تنازعہ کشمیر کے حل کیلئے مذاکرات اور مفاہمت کا راستہ اختیار کرے۔ ذرائع کے مطابق محبوبہ مفتی نے سرینگر میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے لوگ وقار کے ساتھ امن چاہتے ہیں، لیکن جب بھی پاکستان کی بات آئے گی تو وہ خارجہ پالیسی کے معاملات میں ضرور”مداخلت” کریں گے۔ انہوں نے مودی حکومت پر زور دیا کہ وہ کشمیریوں کو "اپنے دل سے" دیکھے اور سنے کیونکہ جب تک ایسا نہیں ہو گا بھارت اور پاکستان کے درمیان مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ محبوبہ مفتی نے کہا کہ میں بھارتی حکومت کو بتانا چاہتی ہوں کہ جموں و کشمیر کے لوگ آپ کے دشمن نہیں ہیں، ہم وقار کے ساتھ امن چاہتے ہیں، ہم جنگ سے نہیں بلکہ دوستی کے ذریعے امن چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مودی حکومت نے پہلگام میں آپریشن سندور کے دوران جو کچھ ہوا اور کشمیر کی صورتحال کے بارے میں بات کرنے کے لیے دنیا بھر میں وفود بھیجے۔

انہوں نے کہا کہ حل طلب تنازعہ کشمیر سے کشمیری عوام سب سے بری طرح متاثر ہو رہی ہے اور اگر ایک کشمیری پاکستان سے مذاکرات کا مطالبہ نہیں کرے گا تو اور کون کرے گا؟ محبوبہ مفتی نے مودی حکومت سے کہا کہ وہ مفاہمت کا راستہ اختیار کرے۔ انہوں نے کہا کہ جب بھی کشمیری پاکستان کے ساتھ امن اور بات چیت کی بات کرتے ہیں تو ان سے کہا جاتا ہے کہ وہ بھارت کی خارجہ پالیسی میں مداخلت نہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر کے بغیر بھارت کی خارجہ پالیسی کیا ہے، تنازعہ کشمیر کا حل تمام بھارتی حکومتوں کیلئے ایک چیلنج رہا ہے۔انہوں نے مودی حکومت پر زور دیا کہ وہ پاکستان کے ساتھ "ہتھیاروں کی دوڑ" سے باز رہے اور ملک کے اہم مسائل کے حل پر توجہ مرکوز کرے۔ پی ڈی پی کی سربراہ نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کو مزید بھارتی فوجیوں کی تعیناتی، کالے قوانین کے نفاذ یا کشمیری نوجوانوں کی گرفتاری کے ذریعے حل نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ دنوں میں چھ نوجوانوں کو دوران حراست شہید کیا گیا، اگر کشمیری مذاکرات کا مطالبہ نہیں کریں گے تو کون کرے گا؟۔

متعلقہ مضامین

  • بھارت تنازعہ کشمیر کے حل کیلئے پاکستان کے ساتھ مذاکرات شروع کرے، محبوبہ مفتی
  • حکومت پاکستان کا مظلوم فلسطینیوں کیلئے بڑا اقدام
  • اے آئی نے ویب سائٹس کا مستقبل تاریک کردیا، حل کیا ہے؟
  • ذوالفقار بھٹو جونیئر اور فاطمہ بھٹو کا نئی سیاسی جماعت بنانے کا اعلان
  • مودی حکومت کو سمجھ نہیں آرہی ہے کہ اپنی شکست عوام کو کیسے سمجھائے: شیری رحمان
  • اتنا ظالم ہے کہ مظلوم نظر آتا ہے
  • یہ نظام اپنے آپکو کو خود نا اہل کر رہا ، اسمبلیاں اپنی توقیر کھو بیٹھی ہیں‘سلمان اکرم راجہ
  • ہم ہرگز غزہ کے عوام کا خون ضائع نہیں ہونے دینگے، خلیل الحیہ
  • سندھ حکومت نے ڈکیتی کی وارداتوں پر کنٹرول نہ کیا تو کراچی میں اپنا نظام لائیں گے، رہنما ایم کیو ایم
  • ملائیشیا میں ہزاروں افراد کا مظاہرہ، وزیراعظم انور ابراہیم کے استعفے کا مطالبہ