Daily Ausaf:
2025-06-14@21:22:08 GMT

نوآبادیاتی نظام اور مظلوم عوام کا مستقبل

اشاعت کی تاریخ: 14th, June 2025 GMT

پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد جب بہت سے مسلم ممالک یورپی استعمار کے شکنجے سے آزاد ہوئے، ایشیا اور افریقہ کے ممالک پر برطانیہ، فرانس، ہالینڈ اور پرتگال وغیرہ کی گرفت ڈھیلی پڑنا شروع ہوئی تو ہم اس غلط فہمی کا شکار ہوئے کہ ہم واقعی آزادی سے ہمکنار ہو رہے ہیں، اور اب ہم استعماری قوتوں کے دائرہ اثر و نفوذ سے نجات حاصل کر کے اپنی مرضی کے مطابق اپنا مستقبل طے کر سکیں گے۔ لیکن ہماری یہ غلط فہمی بہت جلد دور ہونا شروع ہوگئی اور کم و بیش نصف صدی کے عرصہ میں ہم پر یہ بات پوری طرح واضح ہوگئی ہے کہ ہمارے ساتھ آزادی کے نام پر دھوکہ ہوا ہے اور ہم آج بھی اسی طرح غلامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں جیسا کہ پون صدی قبل ہمارا حال تھا۔ صرف طریق کار تبدیل ہوا ہے کہ غلامی کی ظاہری زنجیروں کی بجائے ریموٹ کنٹرول سسٹم نے ہمارے گرد حصار قائم کر لیا ہے۔ اور بوڑھے برطانیہ کی جگہ اس استعمار اور نوآبادیاتی سسٹم کی قیادت جواں سال امریکہ نے سنبھال لی ہے۔ اجتماعی زندگی کے مختلف شعبوں کے حوالہ سے ذرا معروضی صورتحال پر ایک نظر ڈال لی جائے تو مناسب ہوگا۔
سیاست و حکومت کے دائرہ میں صدر محمد ایوب خان کے دور میں انہی کے بھائی سردار محمد بہادر خان نے، جو ۱۹۶۲ء میں منتخب ہونے والی قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے قائد تھے، ایک بات کہی تھی جو اس وقت بہت سے لوگوں کی سمجھ میں نہیں آرہی تھی کہ پاکستان میں کوئی حکومت بھی امریکہ کی مرضی کے بغیر نہ تشکیل پاتی ہے اور نہ ختم ہوتی ہے۔ لیکن آج ۳۰ سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد یہ بات ایک حقیقت کے طور پر ہمارے سامنے ہے کہ ہماری سیاست و حکومت کے تمام معاملات اسلام آباد میں نہیں بلکہ واشنگٹن میں طے ہوتے ہیں اور ہمارا رول ان میں احکام کی بجا آوری کے سوا کچھ نہیں ہے۔ سردار بہادر خان ایک باخبر سیاست دان تھے، اسی لیے انہوں نے بالآخر قومی اسمبلی میں اپنا آخری خطاب اس شعر پر ختم کر کے قومی اسمبلی بلکہ قومی سیاست کا فلور ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیا تھا کہ
یہ راز بھی اب کوئی راز نہیں سب اہل گلستاں جان گئے
ہر شاخ پہ اُلو بیٹھا ہے انجام بہاراں کیا ہوگا؟
معیشت و تجارت میں ہمارا حال کیا ہے اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن، ورلڈ بینک، اور آئی ایم ایف کے ہاتھوں فری مارکیٹ عالمی تجارت اور گلوبلائزیشن کے خوشنما عنوانات کے تحت کیا ہونے والا ہے؟ میں اس وقت صرف دو حوالوں سے اس صورتحال کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہوں گا۔ چند سال قبل ایک ذمہ دار اور مقتدر شخصیت نے، جو بعد میں وفاقی وزیر کے منصب پر بھی فائز رہے، مجھے بتایا کہ ہم نے اپنی ضرورت کے لیے ملائیشیا سے پام آئل خریدنے کا پروگرام بنایا، یہ سوچ کر کہ ملائیشیا کا پام آئل معیار کے لحاظ سے بہتر اور سستا ہے۔ اگر ہم ملائیشیا سے پام آئل خریدیں گے تو ان فوائد کے ساتھ ساتھ دو برادر مسلم ملکوں کے تعلقات میں بھی اضافہ ہوگا۔ چنانچہ ہم نے ملائیشیا کی حکومت سے اس سلسلہ میں گفت و شنید کی لیکن بعض مراحل طے ہونے کے بعد ہمیں یہ گفتگو اچانک معطل کر دینا پڑی۔ اس لیے کہ عالمی مالیاتی اداروں کی طرف سے ہمیں واضح طور پر وارننگ دی گئی کہ اگر ہم نے ملائیشیا کے ساتھ پام آئل کی خریداری کا معاہدہ کر لیا تو ہمیں عالمی مالیاتی اداروں کی طرف سے حاصل ہونے والی بہت سی سہولتوں اور مفادات سے محروم ہونا پڑے گا۔ اس کا مطلب واضح ہے کہ ایک آزاد ملک اور خودمختار حکومت کے لیبل کے باوجود ہم اپنی تجارت میں یہ حق نہیں رکھتے کہ اپنی ضرورت کا ایک تیل اپنی آزاد مرضی کے ساتھ کہیں سے خرید سکیں۔
دوسرے نمبر پر میں ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد کی کتاب ’’ایشیا کا مقدمہ‘‘ کا حوالہ دینا چاہوں گا جس میں انہوں نے ملائیشیا کی معاشی ترقی، صنعتی عروج اور پھر اس کے اچانک زوال کی داستان بیان کی ہے۔ یہ کتاب عالمی مالیاتی استعمار کے طریقۂ واردات اور استحصال کے طور طریقوں کو بے نقاب کرتی ہے اور میرے خیال میں پاکستان کے ہر عالم دین، ہر سیاسی کارکن، اور ہر دانشور کو اس کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔ ملائیشیا میں جب سرمایہ کار آئے اور مشرق بعید کے اس مسلم ملک نے صنعتی ترقی کی طرف قدم بڑھانا شروع کیا تو میرے جیسے کارکن بہت خوش ہوئے کہ ایک مسلمان صنعتی ملک کا نام بھی سامنے آنے لگا ہے۔ لیکن کرنسی کے بین الاقوامی تاجروں نے اپنی اجارہ داری کا جس بری طرح استعمال کیا اور ملائیشیا کی معاشی اور صنعتی ترقی پر کرنسی کے خود ساختہ اتار چڑھاؤ اور اس کے نتیجے میں سرمایہ کے انخلاء کا اس سفاکانہ اور بے رحمانہ طریقہ سے وار کیا کہ ’’ایشیا کا ٹائیگر‘‘ کہلانے والے اس مسلم ملک کی معیشت اور تجارت کا پورا ڈھانچہ دیکھتے ہی دیکھتے زمین بوس ہوگیا۔ اور یہ خوفناک معروضی صورت حال ایک بار پھر ہمارا منہ چڑانے لگی کہ جسے ہم نے آزادی سمجھ کر اس پر بیسیوں سالانہ جشن منا ڈالے ہیں وہ آزادی نہیں بلکہ غلامی سے بھی بدتر چیز ہے اور ہم سیاست و حکومت کی طرح معیشت، صنعت، اور تجارت میں بھی اپنی مرضی سے کوئی آزادانہ فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔
(جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: پام ا ئل ہے اور

پڑھیں:

بی آئی ایس پی کی پارٹنربینکوں کے ساتھ شدید گرم موسم کے پیش نظر سہ ماہی قسط کی موثرادائیگی کے حوالے سے اجلاس

ملتان (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 13 جون2025ء) بینظیرانکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کی ریٹیل نیٹ ورک کے ذریعے بینظیر کفالت کی آئندہ سہ ماہی قسط کی تقسیم کے آپریشنل منصوبوں کا جائزہ لینےکے لیےپارٹنر بینکوں کے نمائندگان کے ساتھ اجلاس کا انعقاد کیا گیا۔ ایڈیشنل سیکرٹری بی آئی ایس پی ڈاکٹرطاہر نور کی زیرصدارت بی آئی ایس پی کے ساؤتھ زونل آفس ملتان میں جمعہ کو اجلاس کا انعقاد ہوا۔

اجلاس کا انعقاد کیمپ سائٹ ڈسبرسمنٹ ماڈل سے ریٹیل نیٹ ورک ماڈل کی حالیہ منتقلی کےضمن میں کیا گیا،یہ تبدیلی ملک بھرمیں جاری شدید گرمی کی لہر کے پیش نظرکی گئی تاکہ مستحقین بالخصوص خواتین کو سخت موسمی حالات اور کھلے مقامات پرلمبے وقت تک انتظار سے بچایا جا سکے۔اجلاس کا مقصد سہ ماہی مالی امداد کی بروقت،شفاف اورباعزت ترسیل کو یقینی بنانا تھا۔

(جاری ہے)

اجلاس کے اہم نکات میں نظام کی تشکیل،ریٹیل دکانوں پرنقد رقوم کی دستیابی،بائیومیٹرک تصدیق کے نظام کوبہتربنانا،شکایات کے مؤثرازالے کے طریقہ کاراوردیگراہم عناصر شامل تھے۔ایڈیشنل سیکرٹری بی آئی ایس پی ڈاکٹر طاہرنورنے تمام شراکت دار اداروں کے درمیان مؤثر رابطہ کاری کی اہمیت پر زور دیا تاکہ سروس کے معیارکو بہتر بنایا جا سکے اورتقسیم کا عمل زیادہ سہل اورمؤثرہو۔

اجلاس میں مستحقین کی خدمات کو بہتر بنانے،تاخیرکو کم کرنے،ادائیگیوں کےعمل میں شفافیت اورجوابدہی کو یقینی بنانے پربھی خصوصی زوردیا گیا۔شراکت دار بینکوں نے اس حوالے سے اپنے تیاری کی منصوبہ بندی پیش کی اوراپنے ریٹیل نیٹ ورک کی استعداد کو بڑھانے،لین دین کےعمل کوآسان بنانےاور رقوم کی تقسیم کے دوران بلا تعطل خدمات کی فراہمی کے لیے کیے گئے اقدامات سے آگاہ کیا۔

اجلاس کا اختتام تمام فریقین کی جانب سے سہ ماہی قسط کی مؤثر اور بروقت ادائیگی،مالی شمولیت اورسماجی تحفظ کے وسیع ترمقاصد کے حصول کے لیے مشترکہ عزم کے اعادے کے ساتھ ہوا۔یہ اجلاس بی آئی ایس پی کے رقوم کی تقسیم کے نظام کو بہتربنانے کی مسلسل کوششوں کا عکاس ہےتاکہ مالی امداد باعزت اورمؤثرانداز میں مستحق خواتین تک پہنچائی جا سکے۔اجلاس میں زونل ڈائریکٹر ساؤتھ، نارتھ اور بی آئی ایس پی کے ڈپٹی ڈائریکٹرزبھی شریک ہوئے۔

متعلقہ مضامین

  • اسرائیل کا احتساب ہونا چاہیے، اُمت مسلمہ ایران کے ساتھ ہے: مولانا فضل الرحمان
  • پیپلزپارٹی نے سندھ کا تعلیمی نظام تباہ کردیا ہے ،حلیم عادل شیخ
  • خیبرپختونخوا؛ اپوزیشن نے صوبائی حکومت کا بجٹ عوام دشمن قرار دے دیا
  • بی آئی ایس پی کی پارٹنربینکوں کے ساتھ شدید گرم موسم کے پیش نظر سہ ماہی قسط کی موثرادائیگی کے حوالے سے اجلاس
  • 26 ویں آئینی ترمیم نے نظامِ انصاف کو جکڑ کر رکھ دیا ہے، بیرسٹر سیف
  • بجٹ بھی آئی ایم ایف کی مرضی کا پیش کیاگیا،پیریاسرسائیں
  • کب کوئی بلا صرف دُعاؤں سے ٹلی ہے
  • 26 ویں آئینی ترمیم نے ملک کے نظامِ انصاف کو جکڑ کر رکھ دیا ہے: بیرسٹر سیف
  • عدلیہ نے غلامی کا طوق قبول کرلیا، شعیب شاہین