حکومت پاکستان ایران کو ہر قسم کی دفاعی مدد فراہم کرے، جماعت اسلامی
اشاعت کی تاریخ: 14th, June 2025 GMT
مرکزی مجلس شوریٰ کے اجلاس کے دوران ایران پر اسرائیل کے بلاجواز حملے کیخلاف مذمتی قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی، جس میں اسلامی ممالک پر زور دیا گیا کہ وہ متحد ہو کر اسرائیلی جارحیت کا بھرپور مقابلہ کریں اور متفقہ موقف اختیار کریں تاکہ اسرائیلی تسلط کا خاتمہ ممکن بنایا جا سکے۔ اسلام ٹائمز۔ جماعت اسلامی نے حکومت پاکستان سے ایران کی سلامتی اور دفاع کیلئے ہر قسم کی مدد فراہم کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی مجلس شوریٰ کا اجلاس امیر جماعت حافظ نعیم الرحمٰن کی زیر صدارت لاہور میں جاری ہے، جس میں ملک بھر سے اراکین شوریٰ شریک ہیں۔ اجلاس کے دوران ایران پر اسرائیل کے بلاجواز حملے کیخلاف مذمتی قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی، جس میں اسلامی ممالک پر زور دیا گیا کہ وہ متحد ہو کر اسرائیلی جارحیت کا بھرپور مقابلہ کریں اور متفقہ موقف اختیار کریں تاکہ اسرائیلی تسلط کا خاتمہ ممکن بنایا جا سکے۔ قرارداد میں اسرائیل کو ناجائز ریاست قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ اس کے جارحانہ عزائم پورے خطے کیلئے ناسور بن چکے ہیں۔
جماعت اسلامی نے ایران کی حکومت اور عوام کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ حکومت پاکستان ایران کی سلامتی اور دفاع کے لیے ہر قسم کی مدد فراہم کرے۔ اجلاس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ مسلمان ممالک اسرائیل کیخلاف متفقہ موقف اختیار کریں اور متحد ہو کر اسرائیلی تسلط کا خاتمہ کریں، اسرائیلی جارحیت کا علاج آپس کے اختلافات بھلا کر متحد ہونے میں ہے، نومنتخب مجلس شوریٰ کا یہ اجلاس تین روز تک جاری رہے گا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: جماعت اسلامی گیا کہ
پڑھیں:
عرب اسلامی سربراہ اجلاس!
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250917-03-3
9 ستمبر کو دوحا پر اسرائیلی حملے سے پیدا ہونے والی صورتحال پر قطر کے دارالحکومت میں ہونے والا عرب اسلامی سربراہ اجلاس حسب ِ توقع، نشستند، گفتند، برخواستند ثابت ہوا۔ 15 ستمبر کو منعقد ہونے والا عرب اسلامی سربراہ اجلاس عرب شیوخ کی جھاگ اُڑاتی تقریروں، مسلم حکمرانوں کی شعلہ بیانی، لقلقہ لسانی، اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی حسرتِ ناتمام اور ایک مردہ اعلامیے کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔ اجلاس میں قطر پر اسرائیلی حملے کی مذمت اور قطر کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اعلان کیا گیا۔ اجلاس سے قبل عرب اور اسلامی وزرائے خارجہ کا اجلاس بھی ہوا جس میں حملے کو اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی قراردیا گیا۔ قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد اَل ثانی کی صدارت میں ہونے والے اجلاس کے 25 نکاتی مشترکہ اعلامیے میں سوائے مذمت اور مطالبات کے کچھ بھی نہیں، یہ اجلاس نہ امت مسلمہ کے احساسات و جذبات کا ترجمان ثابت ہوا نہ ہی نہتے مظلوم فلسطینیوں کے دکھوں کا مداوا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ 25 نکات پر مشتمل مشترکہ اعلامیے میں کہیں بھی کھل کر غزہ پر اسرائیل جارحیت اور قتل وغارت گری کی مذمت نہیں کی گئی اور نہ ہی حماس اور غزہ کے دیگر مزاحمت کاروں سے یکجہتی کا اظہار کیا گیا، انتہائی مبہم انداز میں صرف اتنا کہا گیا کہ: ’’اسرائیلی پالیسیوں کی شدید مذمت کرتے ہیں جنہوں نے فلسطینی عوام کے خلاف انسانی تباہی کا ایک ناقابل یقین منظر پیش کیا ہے‘‘۔ اعلامیے میں نیو یارک ڈیکلریشن کی حمایت کی گئی جس کے تحت دو ریاستی حل کا فارمولا پیش کیا گیا تھا، اعلامیے میں امریکا کی ثالثی کی کوششوں کی بھی تعریف کی گئی۔ یہ اْس اجلاس کا حال ہے جس کے انعقاد سے قبل یہ امید کی جارہی تھی کہ دنیا بھر کے مسلم حکمران اب اسرائیل کے دانت کھٹے کردیں گے، مبصرین بھی یہ خیال کیے بیٹھے تھے کہ قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد وہ اسرائیل کے خلاف فیصلہ کن ردِعمل دیں گے، مگر نتیجہ! وہی ڈھاک کے تین پات۔ حقیقت یہ ہے کہ وہن کے مرض میں مبتلا ان حکمرانوں سے غیرت و حمیت کی توقع کارِ عبث کے سوا کچھ نہیں، ان کا حال اس الہامی حقیقت کا ترجمان ہے کہ ’’انہیں دیکھو تو اِن کے جْثّے تمہیں بڑے شاندار نظر آئیں۔ بولیں تو تم ان کی باتیں سْنتے رہ جاؤ۔ مگر اصل میں یہ گویا لکڑی کے کْندے ہیں جو دیوار کے ساتھ چْن کر رکھ دیے گئے ہوں‘‘۔ اجلاس میں غزہ میں جاری اسرائیل درندگی کے سدباب، اسرائیل کے توسیع پسندانہ اقدام اور شام، یمن، ایران، لبنان اور قطر میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف کوئی عملی ٹھوس، سنجیدہ اور ممکنہ اقدامات کا اعلان نہیں کیا۔ آج شہر ِ تہذیب کے پیچ چوراہے پر اسرائیلی درندگی کا برہنہ رقص جاری ہے اور مسلم حکمران منہ کھولے ہونقوں کی طرح اس پر محو ِ تماشا ہیں۔ حماس مزاحمت کی وہ آخری دیوار ہے جو خاکم بدہمن زمیں بوس ہوئی تو اسرائیل جنگلی بھینسے کی طرح ڈکراتا ہوا عرب ریاستوں کی آزادی اور خودمختاری کو روند ڈالے گا، اس حقیقت ادارک جنتی جلد ممکن ہو کر لینا چاہیے اور اس طوفانِ بلاخیر کا راستہ روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات اقدامات اٹھانے چاہییں، خالی خولی زبانی دعوؤں، مذمت، قرارداد اور مطالبات سے کبھی بھی جارح کے آگے بند نہیں باندھا جاسکتا، جارح صرف آہنی پنجوں کا احترام ہی جانتا ہے۔