تہران / نئی دہلی (نیوز ڈیسک) ایران پر اسرائیلی حملے کے بعد عالمی سطح پر سخت ردعمل دیکھنے میں آیا، تاہم بھارت نے ایک بار پھر اپنی دوغلی خارجہ پالیسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کے اجتماعی مؤقف سے اختلاف کیا اور ایران کی حمایت سے انکار کر دیا۔

بھارت جو ہمیشہ تہذیبی اقدار، امن، انسانیت اور خودمختاری کا راگ الاپتا ہے، ایران پر حملے کے موقع پر اپنی خاموشی سے ظاہر کر چکا ہے کہ اس کے اصول صرف دعووں کی حد تک ہیں، عملی طور پر وہ موقع پرستی اور مفادات کی سیاست پر یقین رکھتا ہے۔

شنگھائی تعاون تنظیم کے تمام رکن ممالک نے اسرائیلی حملے کو اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی قرار دیا۔ تنظیم کے مشترکہ اعلامیے میں ایران کی خودمختاری پر حملے کو علاقائی و عالمی امن کے لیے خطرہ اور شہری انفراسٹرکچر و عام شہریوں کو نشانہ بنانے پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا۔ ساتھ ہی اس بات پر زور دیا گیا کہ تمام تنازعات کا حل سیاسی اور سفارتی ذرائع سے تلاش کیا جانا چاہیے، اور کسی بھی قسم کی فوجی کارروائی قابلِ قبول نہیں۔

ان واضح نکات کے باوجود بھارت نے نہ صرف مشترکہ اعلامیے سے علیحدگی اختیار کی بلکہ ایک علیحدہ اور مبہم بیان جاری کیا جس میں اسرائیل کا نام تک شامل نہیں تھا۔ یہ طرزِ عمل SCO کی یکجہتی کو توڑنے کے مترادف ہے اور بھارت کی منافقت کو واضح کرتا ہے کہ وہ اصولوں کے ساتھ نہیں بلکہ ذاتی و اسلحہ مفادات کے ساتھ کھڑا ہے۔

ایران کے خلاف کارروائی پر خاموش رہ کر بھارت نے اپنے اس دعوے کو بھی جھٹلایا ہے کہ اس کی خارجہ پالیسی خودمختار اور اخلاقی بنیادوں پر مبنی ہے۔ درحقیقت، بھارت نے SCO جیسے علاقائی اتحاد کی متحدہ آواز کو مسترد کیا، اسرائیلی جارحیت کا غیراعلانیہ دفاع کیا اور تہذیبی و اخلاقی دعوؤں کو منافع اور مصلحت کی سیاست پر قربان کر دیا۔

اگر بھارت شنگھائی تعاون تنظیم کے بنیادی اصولوں سے اتفاق نہیں کرتا تو اسے اس فورم کا حصہ بننے کا کوئی اخلاقی یا اصولی جواز حاصل نہیں۔ جو ملک اجتماعی مؤقف، عالمی امن اور ریاستی خودمختاری کا احترام نہ کرے، وہ کسی علاقائی یا بین الاقوامی اتحاد میں اعتماد کے ساتھ شامل نہیں رہ سکتا۔

بھارت کا موجودہ رویہ اس کے دوغلے چہرے کو بے نقاب کرتا ہے، جو انسانیت کا علمبردار بننے کی کوشش کرتا ہے، مگر عمل میں صرف مفادات کا پیروکار ہے۔ ایران میں بھارتی جاسوسوں کی گرفتاری اور شنگھائی تعاون تنظیم میں ایران کی حمایت سے انکار — یہ دونوں واقعات بھارتی پالیسی کی اصل حقیقت کو واضح کرنے کے لیے کافی ہیں۔

مزیدپڑھیں:ایران نے امریکہ کے خلاف بڑااقدام اٹھالیا

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: شنگھائی تعاون تنظیم بھارت نے کے ساتھ

پڑھیں:

طالبان رجیم کو پاکستان میں امن کی ضمانت دینا ہو گی، وزیر دفاع: مزید کشیدگی نہیں چاہتے، دفتر خارجہ

اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ+ آئی این پی) ترجمان دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستان افغانستان کے ساتھ مزید کشیدگی نہیں چاہتا۔ دفتر خارجہ کے ترجمان طاہر اندرانی نے نیوز بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے اعلیٰ سطح وفد کے ہمراہ سعودی عرب کا دورہ کیا، جہاں انہوں نے دارالحکومت ریاض میں فیوچر انویسٹمنٹ انیشیٹیو کانفرنس میں شرکت کی۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے بھی ملاقات کی۔ اسی دوران نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے سعودی وزیر دفاع سے اہم ملاقات کی۔ انہوں نے مختلف مماملک کے وزرائے خارجہ کے ساتھ ٹیلی فونک رابطہ کیا اور مختلف ممالک کیساتھ دو طرفہ امور اور سرمایہ کاری پر گفتگو کی۔ ترجمان نے پاک افغان تنازعہ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان افغانستان کے ساتھ مزید کشیدگی نہیں چاہتا۔ توقع ہے کہ افغانستان اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گا۔ افغان طالبان نے کالعدم ٹی ٹی پی دیگر تنظیموں کی افغانستان میں موجودگی کو تسلیم کیا ہے۔ افغان حکام نے ان کے خلاف کارروائی نہ کرنے کے مختلف جواز پیش کئے۔ استنبول مذاکرات میں مثبت پیش رفت جاری ہے صبر اور بردباری کی ضرورت ہے۔ افغان سرحد فی الحال بند رہے گی۔ سیز فائر برقرار ہے۔ امید ہے افغانستان سے جنگ بندی معاہدے پر مکمل عملدرآمد ہو گا۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کابل کی طالبان رجیم دہشت گردوں کی پشت پناہی بند کر دے، پاکستان میں امن کی ضمانت کابل کو دینا ہوگی۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر دفاع نے واضح کیا کہ ٹی ٹی پی ہو یا بی ایل اے ہو پاکستان میں دہشت گردی برداشت نہیں کریں گے۔ میرا مطالبہ ہے افغان سرزمین سے پاکستان میں دراندازی بند ہو۔ افغانستان کی سرزمین سے دراندازی مکمل بند ہونی چاہیے کیونکہ دہشت گردی پر پاکستان اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔ سیز فائر جاری رکھنے کا معاہدہ ہوا ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے اس کی عملی صورت سامنے آئے۔ وزیر دفاع نے کہا کہ ثالث ہمارے مفادات کی مکمل دیکھ بھال کریں گے اور دہشت گردی کی روک کے بغیر دو ہمسایوں کے تعلقات میں بہتری کی گنجائش نہیں۔ ٹی ٹی پی کی سرپرستی بند ہونے تک ہمارے ان کے ساتھ تعلقات کبھی معمول پر نہیں آسکتے۔ خیبر پی کے کی حکومت آہستہ آہستہ تنہائی کا شکار ہو رہی ہے، پی ٹی آئی کے لوگ اپنے سیاسی مفادات کی بات کرتے ہیں لیکن یہ ملک نیازی لاء کے تحت نہیں چل سکتا۔ سابق فاٹا کے لوگ سمجھتے ہیں وفاقی حکومت مخلص ہے جہاں ضرورت ہو ہم طاقت کا بھرپور استعمال کر رہے ہیں، ہم نے اس مٹی کے مفاد کا تحفظ کرنا ہے۔ افغانستان سے دراندازی نہ ہونے کی ضمانتوں کی گارنٹی تک ہمارا اعتبار کرنا تھوڑا مشکل ہے۔ ملکی سلامتی کے معاملات پر وزیراعلیٰ کے بیانات آنا مایوس کن ہیں۔ وزیراعلیٰ خیبر پی کے کے بیانات ملک کی سلامتی کے منافی ہیں۔ یہ ملاقات کرنا چاہتے ہیں کہ اندر بیٹھا ایک شخص ہدایات جاری کرے۔ پاکستان کسی کی ذات کی جنگ نہیں بلکہ اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہا ہے۔ اگر وزیراعلیٰ کہے کہ نیازی لاء نہیں ہوگا تو پاکستان نہیں چلے گا یہ حب الوطنی نہیں میں سمجھتا ہوں یہ پاکستان دشمنی ہے۔ وزیراعلیٰ کے پی وفاق کے حصے دار ہیں انہیں معاملات میں حصہ لینا چاہئے۔ خواجہ آصف نے کہا مودی سیاسی طور پر دیوالیہ ہو چکا ہے۔ مودی کوئی رنگ بازی کر کے سیاسی کیپٹل بنانا چاہتا ہے۔ بھارت نے جارحیت کی تو بھرپور جواب دیا جائے گا۔ وزیر مملکت طلال چودھری نے کہا ہے کہ پہلی بار افغانستان کے ساتھ لکھ کر طے ہوا ہے۔ پہلی بار افغانستان کے ساتھ لکھ کر طے ہوا ہے کہ ایک میکنزم بنایا جائے گا یہ ایک عبوری انتظام ہے اور پاکستان کی کامیابی ہے۔ مزید مذاکرات 6 نومبر کو ہوں گے۔ ثالثوں کو دینے کیلئے ہمارے پاس بلیک اینڈ وائٹ شواہد ہیں۔ پاکستان کا اصولی مؤقف دنیا نے بھی مانا اور ہمسائے نے بھی مانا ہے۔ شواہد ہیں کہ افغانستان میں دہشتگرد گروپ ہیں۔
 کابل (آئی این پی) افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہاہے کہ استنبول مذاکرات کے بعد دونوں فریق دوبارہ ملاقاتیں کریں گے اور باقی مسائل پر غور و خوض کیا جائے گا۔ ’’ایکس‘‘ پر جاری پیغام میں کہا امارت اسلامی افغانستان ان مذاکرات کی سہولت کاری اور ثالثی پر ترک جمہوریہ اور ریاست قطر کا دل سے شکریہ ادا کرتی ہے۔ امارت اسلامی افغانستان ابتدا ہی سے ڈپلومیسی اور مفاہمت پر یقین رکھا ہے۔ لہٰذا ایک جامع اور پیشہ ور ٹیم تشکیل دے کر مخلصانہ اور سنجیدہ انداز میں مذاکرات کا آغاز کیا اور مکمل تعاون اور صبر کے ساتھ اس عمل کو جاری رکھا۔امارت اسلامی افغانستان دیگر ہمسایہ ممالک کی طرح پاکستان کے ساتھ بھی مثبت تعلقات چاہتی ہے اور باہمی احترام، داخلی امور میں عدم مداخلت اور کسی کے لیے خطرہ نہ بننے کے اصولوں پر مبنی تعلقات کی پابند ہے۔

متعلقہ مضامین

  • امریکا کو مشرق وسطیٰ میں اپنی مداخلت کو بند کرنا ہوگا، آیت اللہ خامنہ ای
  • امریکا جب تک ملعون اسرائیل کی حمایت بند نہیں کرے گا، مذاکرات نہیں کریں گے؛ ایران
  • پاک-بھارت جنگ روکنے کا 57ویں مرتبہ تذکرہ، ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت کے ساتھ کسی بھی تعاون سے متعلق امکان کو مسترد کردیا
  • جوہری تنصیبات دوبارہ پہلے سے زیادہ مضبوطی کے ساتھ تعمیر کریں گے، ایرانی صدر کا اعلان
  • کس پہ اعتبار کیا؟
  • علاقائی عدم استحکام کی وجہ اسرائیل ہے ایران نہیں, عمان
  • قال اللہ تعالیٰ  و  قال رسول اللہ ﷺ
  • ایران کا پاکستان کیساتھ توانائی کے شعبے میں تعاون بڑھانے کا ارادہ خطے میں بڑی تبدیلی ہے، محمد مہدی
  • طالبان رجیم کو پاکستان میں امن کی ضمانت دینا ہو گی، وزیر دفاع: مزید کشیدگی نہیں چاہتے، دفتر خارجہ
  • ایران امریکا ڈیل بہت مشکل ہے لیکن برابری کی بنیاد پر ہوسکتی ہے