لاہور میں ’’یکجہتی ایران و نابودی اسرائیلی ریلی‘‘ آج نکالی جائے گی
اشاعت کی تاریخ: 15th, June 2025 GMT
اتحاد امت فورم کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے اسلامی جمہوریہ ایران پر حملہ اسلام کی ساخت پر حملے کے مترادف ہے۔ انہوں نے کہا کہ غاصب صہیونی ریاست کے خاتمے کا وقت قریب آ گیا ہے، اور بہت جلد فلسطین کے مظلوم مسلمان آزاد فضا میں سانس لے سکیں گے۔ ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ بیت المقدس آزاد ہوگی اور غاصب ریاست اپنے عبرتناک انجام کو پہنچے گی۔ اسلام ٹائمز۔ ایران کیساتھ اظہار یکجہتی اور اسرائیل سے اظہارِ برات کیلئے زندہ دلان لاہور آج سڑکوں پر ہوں گے۔ اتحاد امت فورم کے زیرایتہام آج چیئرنگ کراس سے امریکی قونصلیٹ تک ’’یکجہتی ایران و نابودی اسرائیل ریلی‘‘ نکالی جائے گی۔ ریلی شام 5 بجے شرو ہو گی جو امریکی قونصلیٹ کے سامنے پہنچ کر اختتام پذیر ہوگی۔ ریلی میں امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان، امامیہ آرگنائزیشن پاکستان، مجلس وحدت مسلمین اور تحریک بیداری امت مصطفیٰ کے کارکن اور رہنماوں سمیت شہریوں کی بڑی تعداد شرکت کرے گی۔ اتحاد امت فورم کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے اسلامی جمہوریہ ایران پر حملہ اسلام کی ساخت پر حملے کے مترادف ہے۔ انہوں نے کہا کہ غاصب صہیونی ریاست کے خاتمے کا وقت قریب آ گیا ہے، اور بہت جلد فلسطین کے مظلوم مسلمان آزاد فضا میں سانس لے سکیں گے۔ ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ بیت المقدس آزاد ہوگی اور غاصب ریاست اپنے عبرتناک انجام کو پہنچے گی۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ترجمان کا
پڑھیں:
اسرائیل کے بارے میں امریکیوں کے خیالات
اسلام ٹائمز: ان تمام خبروں کو ایک ساتھ رکھ کر ہم ایک نکتے پر پہنچیں گے اور وہ یہ ہے کہ امریکی معاشرہ بتدریج اس نتیجے پر پہنچ رہا ہے کہ انہیں اسرائیل کی وجہ سے جو قیمت چکانی پڑی ہے، وہ فائدہ مند نہیں۔ بہرحال سب سے اہم حکمت عملی وہ ہے، جس کی طرف رہبر انقلاب اسلامی ایران اور سید حسن نصراللہ جیسے رہنماؤں نے اشارہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں امریکیوں کو اسرائیلی خطرات سے آگاہ کرنا چاہیئے، تاکہ انہیں اسرائیل کی حمایت کی قیمت ادا نہ کرنی پڑے۔ اس سے خطے میں اسرائیلی فلسفہ کے نابود ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ تحریر: علی مہدیان
امریکی معاشرہ اسرائیل کے بارے میں اپنے رویئے تیزی سے بدل رہا ہے۔ آیئے ایک ساتھ کچھ خبروں پر نظر ڈالتے ہیں: امریکہ میں ایک جلسہ عام میں ایک نوجوان نے اتفاق سے امریکہ کے نائب صدر سے پوچھا، "کیا ہم اسرائیل کے مقروض ہیں۔؟ اسرائیلی کیوں کہتے ہیں کہ وہ امریکہ کو چلا رہے ہیں۔؟" اس نوجوان کے سوال پر ہجوم تالیاں بجاتا ہے اور امریکہ کے نائب صدر کے پاس جواب نہیں ہوتا اور کہتے ہیں کہ موجودہ صدر ایسے نہیں ہیں اور۔۔۔۔ ماہر معاشیات اور کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر جیفری سیکس نے کہا کہ امریکہ اسرائیل کی جنگوں کی قیمت ادا کرتا ہے اور اس سے ہمارا معیار زندگی گر گیا ہے۔ امریکی خبروں اور تجزیات پر مبنی ویب سائٹ "دی نیشنل انٹرسٹ" نے لکھا ہے کہ اسرائیل کی مہم جوئی کی قیمت امریکہ کی جیب سے چکائی جاتی ہے۔
امریکہ میں میڈیا پریزینٹر اور ایکٹوسٹ اینا کاسپرین ایک ٹیلی ویژن شو میں کہتی ہیں کہ اگر اسرائیل جنگی جرائم کا ارتکاب کرنا چاہتا ہے تو اسے ہمارے پیسوں سے نہیں کرنا چاہیئے۔ امریکی شہری اس ملک میں بہتر زندگی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، لیکن ان سے کہا جاتا ہے کہ وہ اسرائیلی حکومت اور فوج کو اربوں ڈالر دیں۔ سینیٹر ایڈم شیف کی قیادت میں چھیالیس امریکی سینیٹرز کی جانب سے ٹرمپ کو ایک خط لکھا گیا ہے، جس میں اسرائیل کی طرف سے مغربی کنارے کے الحاق کے فیصلے پر امریکہ کی جانب سے واضح موقف اپنانے پر تاکید کی گئی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹرمپ نے ڈیلی کولر کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کی امریکہ میں سب سے طاقتور لابی تھی، جسے انہوں نے تقریباً 15 سال پہلے دیکھا تھا اور اس وقت کانگریس پر صیہونیوں کا مکمل کنٹرول تھا، لیکن اب اسرائیل یہ اثر و رسوخ کھو چکا ہے۔
ان تمام خبروں کو ایک ساتھ رکھ کر ہم ایک نکتے پر پہنچیں گے اور وہ یہ ہے کہ امریکی معاشرہ بتدریج اس نتیجے پر پہنچ رہا ہے کہ انہیں اسرائیل کی وجہ سے جو قیمت چکانی پڑی ہے، وہ فائدہ مند نہیں۔ بہرحال سب سے اہم حکمت عملی وہ ہے، جس کی طرف رہبر انقلاب اسلامی ایران اور سید حسن نصراللہ جیسے رہنماؤں نے اشارہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں امریکیوں کو اسرائیلی خطرات سے آگاہ کرنا چاہیئے، تاکہ انہیں اسرائیل کی حمایت کی قیمت ادا نہ کرنی پڑے۔ اس سے خطے میں اسرائیلی فلسفہ کے نابود ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔