اسرائیل نے حوثی ملیشیا کے ملٹری چیف محمد الغماری کو شہید کرنے کا دعویٰ کر دیا
اشاعت کی تاریخ: 15th, June 2025 GMT
اسرائیل میڈیا نے فوجی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ حوثی ملیشیا کے ملٹری چیف محمد الغماری کو ایک فضائی حملے میں شہید کر دیا گیا ہے۔
اسرائیل حکام نے دعوی کیا ہے کہ اس نے یمن میں ایک فضائی کارروائی کے دوران حوثی ملیشیا کے ملٹری چیف محمد الغماری کو نشانہ بنایا ہے، اور ان کے مارے جانے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔
اس دعوے پر تاحال حوثی قیادت یا ایرانی حکام کی جانب سے باضابطہ تصدیق یا تردید سامنے نہیں آئی۔
Post Views: 3.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
غزہ جنگ نہ رکی تو فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لیں گے، اسٹارمر
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 30 جولائی 2025ء) برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر نے کہا ہے کہ اگر اسرائیل غزہ کی ''خوفناک صورت حال‘‘ کو ختم کرنے کے لیے اہم اقدامات نہیں کرتا اور اس مسئلے سے متعلق لندن کی دیگر شرائط کو بھی پورا نہیں کرتا، تو برطانیہ بھی ستمبر میں خود مختار فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لے گا۔
واضح رہے کہ فرانس کے صدر ماکروں پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ستمبر میں اقوام متحدہ کے اجلاس کے دوران ان کا ملک فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کا باضابطہ اعلان کر دے گا۔
لندن میں ڈاؤننگ اسٹریٹ کے ایک بیان کے مطابق برطانوی وزیر اعظم اسٹارمر نے منگل کے روز کہا، ''ہمارا مقصد ایک قابل عمل اور خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کے ساتھ ساتھ ایک محفوظ اسرائیل بھی ہے۔(جاری ہے)
‘‘
اسٹارمر نے کہا، ''دو ریاستی حل کے لیے زیادہ سے زیادہ مؤثر لمحے میں ایک مناسب امن عمل کے لیے شراکت دار کے طور پر ''برطانوی حکومت کا ہمیشہ سے ہی فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا ارادہ‘‘ رہا ہے، جو اسٹارمر کے بقول ''اب خطرے میں ہے۔
‘‘کیئر اسٹارمر نے مزید کہا، ''امن کی طرف اس عمل کے ایک حصے کے طور پر، میں اس بات کی تصدیق کر سکتا ہوں کہ برطانیہ ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ذریعے فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لے گا، یا پھر اسرائیلی حکومت غزہ پٹی کی خوفناک صورت حال کو ختم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے گی۔‘‘
اسٹارمر نے مزید کیا کہا؟برطانوی سربراہ حکومت نے اسرائیل سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ وہ ''جنگ بندی پر راضی ہو جائے اور دو ریاستی حل کے امکانات کو زندہ کرتے ہوئے ایک طویل المدتی اور پائیدار امن کا عہد کرے۔
‘‘اسٹارمر نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اس میں ''اقوام متحدہ کو امداد کی فراہمی دوبارہ شروع کرنے کی اجازت دینا اور یہ واضح کرنا بھی شامل ہے کہ مقبوضہ مغربی کنارے کا اسرائیل سے کسی بھی طرح کا کوئی الحاق نہیں ہو گا۔‘‘
انہوں نے غزہ پٹی میں حکومت کرنے والے ایرانی حمایت یافتہ فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس کے بارے میں بھی اپنی حکومت کے موقف کا اعادہ کیا۔
اسٹارمر نے کہا، ''حماس کے دہشت گردوں کے لیے ہمارا پیغام غیر تبدیل شدہ اور واضح ہے۔ وہ تمام یرغمالیوں کو فوری طور پر رہا کریں، جنگ بندی معاہدے پر دستخط کریں، غیر مسلح ہوں اور یہ بھی تسلیم کریں کہ وہ غزہ کی حکومت میں آئندہ کوئی کردار ادا نہیں کریں گے۔‘‘
غزہ پٹی میں بڑے پیمانے پر غذائی قلت کے بڑھتے ہوئے خدشات کے تناظر میں کیئر اسٹارمر نے فلسطینیوں تک پہنچائے جانے کے لیے مزید امداد کا مطالبہ بھی کیا۔
لندن کی 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ پر انہوں نے کہا، ''ہمیں ہر روز کم از کم 500 ٹرکوں کو غزہ میں داخل ہوتے ہوئے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ لیکن آخر کار اس انسانی بحران کو ختم کرنے کا واحد راستہ ایک طویل المدتی تصفیہ ہے۔‘‘
برطانوی رہنما نے کہا کہ ان کی حکومت ''ایک اہم جنگ بندی‘‘ کو محفوظ بنانے کے لیے امریکہ، مصر اور قطر کی ثالثی کوششوں کی حمایت کرتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا، ''یہ جنگ بندی پائیدار ہونا چاہیے اور اسے ایک ایسے وسیع امن منصوبے کی طرف لے جانا چاہیے، جسے ہم اپنے بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ تیار کر رہے ہیں۔‘‘
برطانیہ، امریکہ، یورپی یونین اور اسرائیل حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں، اس لیے اگر یہ گروپ حکومت میں شامل ہوتا ہے، تو ممکنہ طور پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی کوئی بھی ممکنہ کوشش پیچیدہ ہو سکتی ہے۔
برطانیہ کا موقف حماس کو 'انعام‘ دینے کے مترادف، اسرائیلکیئر اسٹارمر کا یہ اعلان فرانسیسی صدر ماکروں کے یہ کہنے کے بعد سامنے آیا ہے کہ ان کا ملک ستمبر میں فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کر لے گا۔
چونکہ امدادی گروپوں اور اقوام متحدہ نے غزہ پٹی میں قحط جیسی صورتحال سے سے خبردار کیا ہے، اس لیے اسرائیل پر اپنی فوجی مہم ختم کرنے اور محصور فلسطینی علاقے میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کے غیر محدود داخلے کی اجازت دینے کے لیے بین الاقوامی دباؤ حالیہ ہفتوں میں مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔
اسرائیل غزہ میں بڑے پیمانے پر فاقہ کشی کے دعووں کو یا تو ٹھکراتا ہے یا پھر انہیں یکسر مسترد کرتا ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے کہا کہ اسٹارمر کا اعلان ''حماس کی خوفناک دہشت گردی کا انعام اور اس کے متاثرین کو سزا دیتا ہے۔‘‘
انہوں نے ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں لکھا، ''اسرائیل کی سرحد پر آج کے دن ایک جہادی ریاست کل برطانیہ کو بھی دھمکی دے گی۔
‘‘اسرائیل کی وزارت خارجہ نے بھی برطانیہ کے اس اعلان کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ لندن کی بدلتی ہوئی پوزیشن ''فرانسیسی اقدام اور اندرونی سیاسی دباؤ کے بعد، حماس کے لیے ایک انعام ہے اور غزہ پٹی میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے لیے ایک فریم ورک کے حصول کی کوششوں کو نقصان پہنچاتی ہے۔‘‘
ادارت: جاوید اختر، مقبول ملک