(گزشتہ سے ییوستہ)
1999ء کی کارگل جنگ میں بھی پاکستان کوبالآخرامریکاہی کے دبائو پرپسپائی اختیار کرنا پڑی۔اس جنگ کے دوران دونوں ممالک ایٹمی قوتیں بن چکے تھے،اورامریکانے ایک بار پھر امن کے نام پرپاکستان کوروکاجبکہ بھارت کی بالواسطہ حمایت جاری رہی۔نائن الیون کے بعد فاسق کمانڈومشرف ایک ہی امریکی فون کال پر ڈھیرہوگیااورپاکستان نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں امریکاکااس طرح ساتھ دیاکہ باقاعدہ طورپردو ملکی ائیر پورٹ امریکاکے حوالے کردیئے گئے جہاں پاکستانی ادارے کے کسی بھی فرد کو داخلہ کی بھی اجازت نہیں تھی۔رسد،انٹیلی جنس، اور زمینی تعاون کے عوض کچھ مالی امداد توملی، امریکا کی طرف سے قراردی گئی اس دہشتگردی کی جنگ میں پاکستان نے سترہزارسے زائد جانیں اورایک اندازے کے مطابق 110ارب ڈالرکامعاشی نقصان بھی برداشت کرناپڑا۔جبکہ دوسری طرف، امریکا نے بھارت کے ساتھ سول نیوکلیئرمعاہدہ کیا اورسٹریٹیجک شراکت داری کومضبوط کیا اوراب تک امریکی تعاون اورپشت پناہی کی بناپربھارت پاکستان میں دہش گردی کی کاروائیوں میں ملوث ہے جس کے درجنوں مرتبہ اقوام عالم کے علاوہ اقوام متحدہ کوٹھوس شواہداورثبوت بھی مہیا کئے گئے لیکن ابھی تک امریکا کی سرپرستی میں چلنے والی لونڈی کاکرداراداکرنے والی اقوم متحدہ اپنے کردار نبھانے سے منہ موڑچکی ہے۔
2019ء میں جب ٹرمپ،کشمیرپرثالثی کا عندیہ دے کروزیرِاعظم عمران خان کوچکمہ دیا کہ تم ایک مرتبہ پھرکرکٹ ورلڈ کپ کی جیت جیسی خوشی قوم کودے سکتے ہو۔تاریخ نے ایک بارپھر ہمارے دروازے پر دستک دی لیکن قصر سفیدکے فرعون ٹرمپ نے عمران خان پرواضح کردیا کہ کشمیرپر مودی کویکطرفہ چیک کیش کروانے کی اجازت دے دی گئی ہے اوراب یہ تمہارا کام ہے کہ اپنے اقتدارمیں رہنے کیلئے اپنی قوم کے ساتھ کیاڈرامہ رچاناہے۔ عمران خان نے اپنے اقتدارکے دوام کو ترجیح دی کہ اس وقت کافوجی سپہ سالارقمرباجوہ کوبھی پینٹاگون نے اپنے ہاںبلاکربظاہر18گنز کا سلیوٹ پیش کرکے کشمیر کے معاملہ پرفیصلہ پرعملدرآمدکاحکم صادر کر دیا تھا۔
جس کااظہارباجوہ نے دو درجن صحافیوں کوبلاکرکشمیرپراپنی بزدلی کااظہارکردیاتھا۔اس طرح ٹرمپ نے امریکامیں مودی کی طرف سے اس کی انتخابی مہم میں دوبڑے جلسوں کے خطاب کے نتیجے میں انڈین امریکی ووٹروں کی حمائت وصول کرنے کاحق اداکردیااورمودی نے باقاعدہ امریکی شہہ پرآرٹیکل370کو منسوخ کرکے کشمیرکوہندوستان کاحصہ قراردے دیا۔
عمران خان نے اپنے اقتدارکوبچانے اور امریکی دورے کوکامیاب ثابت کرنے کیلئے بھٹو کی نقل کرتے ہوئے اپنی پارٹی کے مقامی سربراہان کو بڑی تعدادمیں لوگوں کوچک لالہ ائیر پورٹ پہنچنے کاکہاجہاں اپنے امریکی دورہ سے فاتح کے طورپرخودکوپیش کرنے کاڈرامہ رچایاگیا۔ہم نے تاریخ سے سبق سیکھنے کی بجائے ٹرمپ کا کشمیر پر ثالثی کا دھوکہ قبول کرلیا۔ جب عمران خان اوراس وقت کے آرمی چیف امریکاجاکرلوٹے توان کے لبوں پرفخروانبساط تھا،جیسے قوم نے کوئی سفارتی معرکہ مارلیاہو۔عمران خان کی امریکی واپسی پر، چک لالہ کااستقبال گویاایک فتح کاجشن تھا،مگروہ فتح چندہفتوں بعد5اگست کواس وقت شکست میں بدل گئی جب مودی نے آرٹیکل370کاخاتمہ کر کے اقوام متحدہ کی ساری قراردادوں کوبھارتی آئین کی دفعہ میں تحلیل کردیا۔بھارت نے یکطرفہ طورپرکشمیرکی خصوصی حیثیت ختم کردی، اورامریکا نے خاموشی اختیارکی۔
یہ کیساثالث تھاجوایک طرف ثالثی کی بات کرتاہے اوردوسری طرف دشمن کو کشمیر کو ہڑپ کرنے کاسیاسی آشیرواددیتاہے؟کیایہ ثالثی تھی یازمین کی نئی نیلامی کامقدمہ؟اگریہی ثالثی ہے،توپھرفلسطین کیلئے ان کاحل بھی سامنے ہے: غزہ کو امریکاکے حوالے کردیا جائے،امریکااسے دنیا کے سیاحوں کیلئے ایک خوبصورت علاقہ بناکر یہاں جنگ کامکمل خاتمہ کردیا جائے گااوریہاں رہنے والے تمام فلسطینیوں کوپڑوسی عرب ممالک اپنے ہاں آباد کاری کیلئے اجازت دیں۔آخرہم کب سمجھیں گے کہ یہ کون لوگ ہیں جن سے اب بھی مسلمانوںکووفاکی امیدہے؟
تاریخ کاجائزہ لیں توامریکانے دوسری جنگِ عظیم کے بعدسے اب تک تقریباً تین درجن سے زائد ممالک میں براہِ راست یابالواسطہ مداخلت کی ہے۔کوریا،ویتنام،افغانستان، عراق، لیبیا، شام، اوریمن جیسے ممالک امریکی مداخلت کی بھینٹ چڑھے اورآخرکارامریکاکوان خطوں سے یاتوبے عزتی کے ساتھ نکلناپڑایاشکست کونیم فتح کے پردے میں چھپانا پڑا۔افغانستان میں طالبان کی واپسی اورویتنام میں ساگون کے زوال کے مناظر اس حقیقت کے ناقابلِ تردید ثبوت ہیں۔
ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران یہ اعلان کیاتھاکہ وہ امریکاکوغیرضروری جنگوں سے نکالیں گے۔مگرصدارت کے منصب پرفائز ہونے کے بعدان کے طرزِ عمل میں نہ صرف تبدیلی آئی بلکہ کینیڈا،گرین لینڈاورچین کے خلاف دھمکی آمیز لب ولہجہ اختیارکیاگیا۔نیٹو اتحاد کے خلاف شکوہ وشکایت اوریورپی یونین پردباڈالناامریکی خارجہ پالیسی میں تناؤکی علامت بن کرابھرا۔فلسطین کے مسئلے پر اسرائیل کوکھلی چھوٹ دینااورغزہ میں انسانی حقوق کی پامالی پرخاموشی،نہ صرف ٹرمپ کے دوہرے معیارکوآشکارکرتی ہے بلکہ انتخابی وعدوں کی صریحا ًنفی اورانحراف کی بدترین مثال ہے۔
ٹرمپ نے چین کے ساتھ تجارتی جنگ میں بالآخرپسپائی اختیارکی۔چینی اقتصادی ماڈل کی پائیداری اورعالمی سطح پراس کی توسیع نے امریکاکو گھٹنے ٹیکنے پرمجبورکردیا۔دوسری جانب حالیہ پاک- بھارت جنگ میں مغربی اسلحے کی برتری کابیانیہ بھی دم توڑگیا۔ بھارت اوراسرائیل کاگٹھ جوڑعالمی سطح پرعیاں ہوگیا۔موجودہ جنگ میں جس طرح پاکستان نے اسرائیلی ہاروپ ڈرونزکونہ صرف مار گرایابلکہ ان کے آپریٹرزاوربیس اسٹیشنز کوبھی تباہ کیا،اس سے امریکااوراسرائیل کی عسکری برتری کاطلسم ٹوٹتادکھائی دیا۔اس فتح کے بعدامریکانے، اسرائیل کی ایماپر، فوری جنگ بندی کیلئے مداخلت کی تاکہ بھارت کومکمل ہزیمت سے بچایاجاسکے۔(جاری ہے)
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کے ساتھ
پڑھیں:
ہم ایران کے خلاف حملوں میں ملوث نہیں،امریکہ
واشنگٹن(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 13 جون2025ء)امریکا نے ایران کو خبردار کیا ہے کہ وہ اسرائیلی حملوں کے جواب میں امریکی فوجی اڈوں کو نشانہ نہ بنائے۔عرب ٹی وی کے مطابق امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے ایران کو خبردار کیا کہ وہ اسرائیلی حملوں کے جواب میں امریکی فوجی اڈوں کو نشانہ نہ بنائے۔ انہوں نے ا پنے بیان میں کہا کہ ہم ایران کے خلاف حملوں میں ملوث نہیں ہیں اور خطے میں امریکی مفادات کا تحفظ ہماری اولین ترجیح ہے۔(جاری ہے)
امریکی وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ اسرائیل نے یکطرفہ طور پر یہ قدم اٹھایا ہے کیونکہ اس کے خیال میں اپنے دفاع کے لئے ایران پر حملہ ضروری تھا۔امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے اپنے قریبی اتحادی ملک اسرائیل پر تنقید کئے بغیر کہا کہ اسرائیل نے ہمیں مشورہ دیا تھا کہ ان کے خیال میں یہ حملہ ان کے اپنے دفاع کے لئے ضروری ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ صدرڈونلڈ ٹرمپ اوران کی انتظامیہ نے اپنی افواج کے تحفظ اور اپنے علاقائی شراکت داروں کے ساتھ قریبی رابطے میں رہنے کے لئے تمام اقدامات اٹھا لئے ہیں۔