امریکا، اسرائیلی حملوں میں برابر کا شریک ہے، اسے اس کا حساب دینا ہوگا، ایرانی وزیر خارجہ
اشاعت کی تاریخ: 15th, June 2025 GMT
ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا ہے کہ ایران کے پاس ایسے پختہ ثبوت موجود ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی افواج اسرائیل کی جانب سے ایران پر کیے جانے والے فوجی حملوں میں اس کی مدد کر رہی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:’ڈراپ اسرائیل‘: ایران سے لڑائی نے ٹرمپ کی حمایت کو تقسیم کر دیا
انہوں نے امریکا کو خبردار کیا کہ وہ اس معاملے سے پیچھے ہٹ جائے۔
اتوار کے روز تہران میں تعینات غیر ملکی سفیروں سے خطاب کرتے ہوئے عراقچی نے واضح کیا کہ ایران کو اپنے دفاع اور اسرائیلی حملوں کا جواب دینے کا پورا حق حاصل ہے، کیونکہ اسرائیل 13 جون سے ایران کے نیوکلیئر، فوجی اور سویلین علاقوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔
انہوں نے زور دیا کہ اسرائیل تنہا یہ حملے کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا، جب تک کہ اسے امریکا کی پشت پناہی حاصل نہ ہوتی۔
صورتحال پر گہری نظر رکھی ہوئی ہےعراقچی نے کہا کہ ایران نے تمام صورتحال پر گہری نظر رکھی ہوئی ہے اور اس کے پاس ناقابل تردید شواہد ہیں کہ امریکی افواج اسرائیل کے ان حملوں کی حمایت کر رہی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ان ثبوتوں سے بھی اہم بات یہ ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کھل کر اسرائیل کی حمایت کی ہے۔ وزیر خارجہ کے مطابق امریکا اسرائیلی حملوں میں برابر کا شریک ہے اور اسے اس کا حساب دینا ہوگا۔
امریکا کو اپنی پوزیشن واضح کرنی چاہیےعراقچی نے مطالبہ کیا کہ امریکا کو اپنی پوزیشن واضح کرنی چاہیے اور ایران پر اسرائیلی حملوں کی کھل کر مذمت کرنی چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ تہران یہ امید کرتا ہے کہ واشنگٹن اسرائیل سے فاصلہ اختیار کرے گا۔
وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے اسرائیلی جارحیت پر خاموشی پر بھی افسوس کا اظہار کیا۔
انہوں نے وضاحت کی کہ ایران نے اسرائیلی حملوں کے جواب میں فوجی اور اقتصادی اہداف کو نشانہ بنایا۔
یہ بھی پڑھیں:ایران پر حملے کے لیے اپنی فضائی حدود استعمال نہیں کرنے دینگے، آذربائیجان
عراقچی کے مطابق، ابتدائی میزائل حملے میں صرف فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا، لیکن جب دوسرے دن اسرائیل نے ایران کی اقتصادی عمارات پر حملے کیے، تو ایران نے بھی جوابی کارروائی میں اقتصادی اہداف کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔
یاد رہے کہ اسرائیلی افواج نے 13 جون کی صبح تہران کے رہائشی علاقوں، فوجی تنصیبات اور نیوکلیئر سائٹس پر حملے کیے تھے۔ ایرانی افواج نے جوابی کارروائی میں اسرائیل کے زیر قبضہ علاقوں کی کئی شہروں پر تباہ کن بیلسٹک میزائل داغے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسرائیلی حملوں عراقچی نے کہ ایران انہوں نے کو نشانہ
پڑھیں:
کانگو حملے میں بچوں سمیت 49 افراد کی ہلاکت قابل مذمت، مونوسکو
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 29 جولائی 2025ء) جمہوریہ کانگو میں اقوام متحدہ کے امن مشن (مونوسکو) نے 26 اور 27 جولائی کو الائیڈ ڈیموکریٹک فورسز (اے ڈی ایف) کی جانب سے شہریوں پر حملوں کی سخت مذمت کی ہے جن میں بچوں سمیت 49 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے ہیں۔
صوبہ شمالی کیوو میں کیے جانے والے اس حملے میں لوگوں کے گھروں اور دکانوں کو آگ لگا دی گئی جبکہ متعدد افراد کو اغوا کر لیا گیا۔
اطلاعات کے مطابق بیشتر ہلاکتیں ایک چرچ میں عبادت کے دوران ہوئیں جس میں لوگوں کو تیز دھار آلات سے نشانہ بنایا گیا۔ رواں ماہ کے آغاز میں بھی اسی صوبے کے علاقے اتوری میں 'اے ڈی ایف' کے حملوں میں 82 شہری ہلاک ہو گئے تھے۔ Tweet URL1995 میں قائم ہونے والا یہ گروہ شہریوں کے انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں میں ملوث رہا ہے اور اقوام متحدہ نے جون 2014 سے اس کے خلاف پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔
(جاری ہے)
ہتھیار پھینکنے کا مطالبہمونوسکو نے وحشیانہ تشدد کے ان واقعات پر غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے انہیں بین الاقوامی انسانی قانون اور انسانی حقوق کی سنگین پامالی قرار دیا ہے۔
مشن نے متاثرہ خاندانوں سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کانگو کے حکام پر زور دیا ہے کہ وہ ان ہلاکتوں کی تحقیقات کریں اور تمام غیر ملکی مسلح گروہوں سے کہا ہے کہ وہ غیر مشروط طور پر ہتھیار پھینک کر اپنے ممالک کو واپس جائیں۔
مونوسکو کی قائمقام سربراہ ویوین وان ڈی پیری نے کہا ہے کہ غیرمسلح شہریوں کے خلاف یہ منظم حملے انسانی حقوق کے تمام اصولوں اور بین الاقوامی انسانی قانون کی خلاف ورزی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مشن اپنی ذمہ داری کے تحت شہریوں کو تحفظ دینے کے لیے کانگو کے حکام کے ساتھ کام جاری رکھے گا۔
شہریوں کے تحفظ کی کوششیںکانگو میں اقوام متحدہ کا مشن ان حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی تدفین اور زخمیوں کو طبی نگہداشت کی فراہمی کے لیے مقامی حکام کو مدد دے رہا ہے۔
مشن نے حالیہ حملے کا نشانہ بننے والے شمالی کیوو کے شہر کومانڈا میں سلامتی سے متعلق کوششوں میں بھی اضافہ کر دیا ہے۔مونوسکو کی سربراہ نے کہا ہے کہ مشن کانگو کے حکام اور مقامی لوگوں کے ساتھ مل کر مزید حملوں کو روکنے، شہریوں کو تحفظ مہیا کرنے، کشیدگی میں کمی لانے اور مسلح تشدد سے متاثرہ علاقوں میں استحکام کے لیے پرعزم ہے۔