ایف بی آر کا بڑا اقدام، یکم جولائی سے ڈیجیٹل پروڈکشن ٹریکنگ سسٹم نافذ کرنے کا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 15th, June 2025 GMT
وفاقی بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے آئی ایم ایف سے کیے گئے وعدوں کی روشنی میں یکم جولائی 2025 سے ڈیجیٹل پروڈکشن ٹریکنگ سسٹم (DPTS) کے نفاذ میں تیزی لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس فیصلے کا مقصد ٹیکس چوری کو روکنا اور ریونیو میں نمایاں اضافہ کرنا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:ٹیکس سے متعلق زیرالتوا مقدمات، ایف بی آر کو بڑی کامیابی مل گئی
ایف بی آر حکام کے مطابق، اگر ڈیجیٹل نگرانی اور انفورسمنٹ اقدامات نہ کیے گئے تو حکومت کو 700 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے پڑ سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سگریٹ، سیمنٹ، پولٹری، مشروبات، کھاد اور ٹیکسٹائل جیسے بڑے پیداواری شعبوں کی کڑی نگرانی شروع کی جا رہی ہے۔
خاص طور پر ٹوبیکو سیکٹر کی پیداوار اور فروخت کو ڈیجیٹل سسٹم کے ذریعے مانیٹر کیا جائے گا، جب کہ مختلف علاقوں میں قائم سگریٹ فیکٹریوں پر نظر رکھی جائے گی۔ شوگر سیکٹر میں پہلے ہی نگرانی بہتر ہونے سے ٹیکس ریونیو میں 39 ارب روپے کا اضافہ ہو چکا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:ایف بی آر میں انسانی مداخلت کم کرکے ٹیکنالوجی متعارف کرانے سے کرپشن کم ہوگی، وزیر خزانہ
ایف بی آر نے انکشاف کیا ہے کہ ٹیکسٹائل سیکٹر میں بھی 15 لاکھ بیلز کی انڈر رپورٹنگ سامنے آئی ہے، جس کی روک تھام کے لیے کیمروں سے نگرانی کی جائے گی۔ اس کے ساتھ یہ ہدف بھی مقرر کیا گیا ہے کہ سیلز ٹیکس ریونیو کو جی ڈی پی کے 5 فیصد کے برابر لایا جائے۔
نئے مالی سال 2025-26 کے بجٹ میں ایف بی آر نے 14,131 ارب روپے کا ٹیکس ہدف مقرر کیا ہے، جس میں سے 389 ارب روپے کے ریونیو کا انحصار انفورسمنٹ اقدامات پر ہے، جب کہ 312 ارب روپے کے اضافی ٹیکس اقدامات بھی شامل کیے گئے ہیں۔
ایف بی آر کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ انفورسمنٹ بڑھانے اور ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے پر اتفاق ہو چکا ہے، اور یہ ڈیجیٹل سسٹم ان اہداف کے حصول میں ایک اہم قدم ثابت ہو گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آئی ایم ایف ایف بی آر بجٹ پاکستان ڈیجیٹل پروڈکشن ٹریکنگ سسٹم.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ا ئی ایم ایف ایف بی ا ر پاکستان
پڑھیں:
سابقہ دور حکومت میں 39 کروڑ سے زائد رقم کی عدم وصولی کی نشاندہی
رپورٹ میں بتایا گیا کہ حکومتی آمدن کا بھی درست طریقے سے تخمینہ نہیں لگایا جاسکا، محکمانہ اکاؤنٹس کمیٹیوں کے اجلاس باقاعدگی سے نہ ہونے پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے فیصلوں کا نفاذ نہیں ہوسکا۔ اسلام ٹائمز۔ آڈیٹر جنرل پاکستان نے سابقہ دور حکومت میں صوبائی محکموں میں اندرونی آڈٹ نہ ہونے کے باعث 39 کروڑ 83 لاکھ سے زائد رقم وصول نہ ہونے کی نشان دہی کردی ہے۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی 2021-2020 کی آڈٹ رپورٹ میں حکومتی خزانے کو ہونے والے نقصان کی نشان دہی گئی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ پراپرٹی ٹیکس اور دیگر مد میں بڑے بقایا جات کی ریکوری نہیں ہوسکی۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ حکومتی آمدن کا بھی درست طریقے سے تخمینہ نہیں لگایا جاسکا، محکمانہ اکاؤنٹس کمیٹیوں کے اجلاس باقاعدگی سے نہ ہونے پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے فیصلوں کا نفاذ نہیں ہوسکا۔
آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ صوبے میں ریونیو اہداف بھی حاصل نہیں کیے جارہے ہیں، رپورٹ میں مختلف ٹیکسز واضح نہ ہونے کے باعث حکومت کو 32 کروڑ 44لاکھ 20 ہزار روپے کے نقصان کی نشاندہی ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پراپرٹی ٹیکس، ہوٹل ٹیکس، پروفیشنل ٹیکس، موثر وہیکلز ٹیکس کے 9کیسز کی مد میں نقصان ہوا، صرف ایک کیس ابیانے کی مد میں حکومتی خزانے کو 45 لاکھ 80 ہزار روپے کا نقصان ہوا۔ اسی طرح اسٹامپ ڈیوٹی اور پروفیشنل ٹیکس کی مد میں ایک کیس میں 15 لاکھ روپے کے نقصان کی نشاندہی ہوئی ہے۔ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کم یا تخمینہ صحیح نہ لگانے سے انتقال فیس، اسٹمپ ڈیوٹی، رجسٹریشن فیس، کیپٹل ویلتھ ٹیکس، لینڈ ٹیکس، ایگریکلچر انکم ٹیکس اور لوکل ریٹ کے 5 کیسوں میں 4 کروڑ 40 لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔
رپورٹ کے مطابق ایڈوانس ٹیکس کا تخمینہ نہ لگانے سے وفاقی حکومت کو دو کیسز میں ایک کروڑ 9 لاکھ روپے کا نقصان ہوا جبکہ 69 لاکھ 50 ہزار روپے کی مشتبہ رقم جمع کرائی گئی۔ مزید بتایا گیا ہے کہ روٹ پرمٹ فیس اور تجدید لائنسس فیس کے 2 کیسز میں حکومت کو 45 لاکھ روپے کا نقصان اور 14 لاکھ کی مشتبہ رقم بھی دوسرے کیس میں ڈپازٹ کرائی گئی۔ رپورٹ میں ریکوری کے لیے مؤثر طریقہ کار وضع کرنے اور کم لاگت ٹیکس وصول کرنے کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی سفارش کی گئی ہے۔