سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تعلیم کے چیئرمین و مرکزی رہنما مسلم لیگ ن سینیٹر عرفان صدیقی نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ مالی سال 26-2025 کے وفاقی بجٹ میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن (HEC) کے لیے مختص فنڈز میں واضح اور خاطر خواہ اضافہ کیا جائے۔

سینیٹر عرفان صدیقی نے اپنی تحریری تجاویز سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ گزشتہ کئی برسوں سے اعلیٰ تعلیم کے بجٹ میں مسلسل کمی کی جا رہی ہے، جو کہ ایک تشویشناک رجحان ہے۔

یہ بھی پڑھیں وفاقی بجٹ منظور کروانا ہے تو حکومت ہمارے مطالبات مانے، پیپلز پارٹی نے شرائط رکھ دیں

ان کا کہنا تھا کہ جامعات، تحقیقی اداروں اور طلبہ کی تعداد میں اضافے کے باوجود ایچ ای سی کے بجٹ میں کٹوتیاں کی جا رہی ہیں، جس سے تعلیمی معیار اور تحقیقی سرگرمیوں پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

’تعلیمی ادارے بڑھ رہے ہیں، فنڈز کم ہو رہے ہیں‘

سینیٹر صدیقی نے نشاندہی کی کہ ایک طرف ملک میں اعلیٰ تعلیمی اداروں کی تعداد اور ان میں داخل طلبہ کی تعداد بڑھ رہی ہے، جبکہ دوسری طرف ان اداروں کو مالی طور پر کمزور کر دیا گیا ہے، یہ تضاد اعلیٰ تعلیم کے مستقبل کے لیے شدید خطرہ ہے۔

انہوں نے متنبہ کیاکہ اگر اعلیٰ تعلیم کے لیے سنجیدہ مالی وسائل مختص نہ کیے گئے تو پاکستان میں تحقیق، ایجادات اور عالمی معیار کی تعلیم کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔

’بجٹ میں دوگنا اضافے کی تجویز‘

سینیٹر عرفان صدیقی نے زور دیا کہ حکومت ایچ ای سی کے جاری اخراجات کے لیے کم از کم 80 ارب روپے مختص کرے۔ اور ترقیاتی بجٹ کو 39 ارب روپے سے بڑھا کر 80 ارب روپے کرے۔

انہوں نے کہا کہ تعلیم وہ شعبہ ہے جس میں سرمایہ کاری کا فائدہ صرف آج نہیں بلکہ نسلوں تک منتقل ہوتا ہے۔

’نوجوان نسل ہمارا اثاثہ ہے‘

سینیٹر صدیقی نے کہاکہ پاکستان کی اکثریتی آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے، اور یہی وہ طبقہ ہے جو بہتر تعلیم کی مدد سے ملک کو ترقی، خودانحصاری اور عالمی سطح پر مقابلے کی صلاحیت دے سکتا ہے۔

’اگر ہم نے اس وقت نوجوانوں پر سرمایہ کاری نہ کی تو ہم صرف تعلیم نہیں، اپنا مستقبل بھی کھو بیٹھیں گے۔‘

واضح رہے کہ ملک بھر کی کئی سرکاری جامعات اس وقت شدید مالی دباؤ کا شکار ہیں۔ مختلف اسکالرشپس، فیکلٹی ٹریننگ پروگرامز اور تحقیقاتی گرانٹس بند یا محدود ہو چکی ہیں۔ ایسی صورتِ حال میں سینیٹر عرفان صدیقی کی تجاویز کو تعلیمی شعبے کی ترجمانی قرار دیا جا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں ’یہ غریب مکاؤ بجٹ ہے‘، خیبر پختونخوا حکومت وفاقی بجٹ سے غیر مطمئن کیوں؟

سینیٹر عرفان صدیقی کا بجٹ میں ایچ ای سی کے لیے فنڈز بڑھانے کا مطالبہ نہ صرف بروقت ہے بلکہ یہ تعلیم سے جڑے تمام اسٹیک ہولڈرز کی نمائندگی بھی کرتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اور وزارت خزانہ اس مطالبے کو عملی شکل دیتی ہیں یا محض کاغذی کارروائی تک محدود رکھتی ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews ایچ ای سی بجٹ تعلیمی ادارے سینیٹ کمیٹی عرفان صدیقی مسلم لیگ ن ہائیر ایجوکیشن کمیشن وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ایچ ای سی بجٹ تعلیمی ادارے سینیٹ کمیٹی عرفان صدیقی مسلم لیگ ن ہائیر ایجوکیشن کمیشن وی نیوز سینیٹر عرفان صدیقی ایچ ای سی تعلیم کے کے لیے

پڑھیں:

بس ایک جملے کا انتظار

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

پاکستان بہت سارے معاملات میں دنیا سے مختلف اور یکتا ہے، اور مختلف معاملات میں حیرت انگیز ریکارڈ کا حامل ہے، وہ عالمی معاملات، سیاست اور تجارت ہوں یا کورونا جیسی وبا، پاکستان نے ان سب معاملات میں حسن وخوبی سے کردار ادا کیا ہے۔ دوسری طرف دنیا میں اپنے شہریوں کے جان مال، عزت آبرو کے معاملے میں جنگیں ہوچکیں اور چھوٹے چھوٹے ممالک نے قوم کی غیرت، بیٹیوں کی عزت اور اپنے شہریوں کے تحفظ کے لیے اپنے سے بڑی طاقتوں سے پنجہ آزمائی کی اور قومی غیرت کا تحفظ کیا۔ لیکن اس معاملے میں پاکستان کے تقریباً تمام حکمران بشمول فوجی آمر اور سویلین ناکام ہی ہیں، اور وہ معاملہ ہے قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا، اسے ایک فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے چند ڈالروں کے عوض فروخت کردیا، اس کے بعدکئی سال تک اس کا کوئی اتا پتا نہیں تھا کہ بگرام کے ایک قیدی نے رہائی کے بعد انکشاف کیا کہ میں نے وہاں ایک قیدی خاتون کی چیخیں سنی ہیں، شاید وہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہیں، اور پھر برطانوی صحافی ایوون ریڈلی نے سابق وزیر اعظم عمران خان (اس وقت وزیر اعظم نہیں تھے) کے ساتھ پریس کانفرنس میں عافیہ کی وہاں موجودگی کی تصدیق کی، اس کے بعد جنرل پرویز کے ایک وزیر اعظم میر ظفراللہ جمالی نے اس امر کی تصدیق کردی کہ عافیہ کو بیچا گیا ہے۔
اس وقت سے آج تک عافیہ کا معاملہ حکومتی ایوانوں کی غلام گردشوں ہی میں گردش کررہا ہے، یہ بات اگرچہ ہر ایک کی سمجھ میں آرہی ہے کہ ڈور کہاں سے الجھی ہوئی ہے لیکن اس کا اظہار کوئی برملا نہیں کرتا۔ جب پاکستان میں جنرل پرویز مشرف کے بعد سویلین حکومت آئی اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی تھے ان کو یہ سمجھانے میں کافی دقت ہوئی کہ عافیہ پاکستانی ہے اور اس کے پاس کوئی دوسری شہریت نہیں ہے۔ عافیہ کی سزا کے بعد امریکی وکیل ٹینا فوسٹر پاکستان آئیں اور اس نے بتایا کہ امریکی صدر عافیہ کو رہا کر نے کے لیے تیار ہیں، بشرطیکہ پاکستانی صدر، وزیر اعظم، وزیر خارجہ، کوئی بھی ایک جملہ لکھ دے، جی ہاں بس ایک جملہ، اور جملہ بھی بے ضرر سا، کہ ’’عافیہ صدیقی پاکستانی ہے اس کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر رہا کردیا جائے‘‘، لیکن دنیا بھر کی ڈگریوں کے حامل، پڑھے لکھے لوگوں سے یہ ایک جملہ نہیں لکھا جاسکا، اور عافیہ واپس نہ آسکی۔
ایک مرتبہ پھر اسلام آباد ہائی کورٹ میں عافیہ رہائی کا مقدمہ زیر سماعت ہے، جسٹس اعجاز اسحاق نے مسلسل پیچھا کیا ہے اور ڈاکٹر عافیہ کے امریکی وکیل کلائیو اسٹافورڈ اسمتھ، ماریہ کاری اور فوزیہ صدیقی کے وکیل عمران شفیق، جماعت اسلامی کے مشتاق احمد خان اور عوام کی بڑی تعداد کے دباؤ کا یہ نتیجہ نکلا کہ بیس سال بعد ڈاکٹر فوزیہ اور ڈاکٹر عافیہ کی ملاقات ہوگئی، وکیل کو رسائی مل گئی، لیکن اس عرصے میں بیٹی کے دیدار کو ترستی عصمت صدیقی کی آنکھیں بند ہوگئیں، اور وہ اللہ کے پاس اپنا مقدمہ لے کر پہنچ گئیں اللہ نے یقینا ان کے دل کو تسلی دیدی ہوگی کہ جنت میں دونوں کی ملاقات ہوگی۔
لیکن ایک ایسا ظلم اب بھی جاری ہے جس کا کوئی جواز کسی کی سمجھ میں نہیں آتا اور وہ یہ ہے کہ ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ عافیہ کے اغوا سے اب تک کے سارے مظالم کی ذمے دار پاکستانی حکومتیں ہی ہیں، اسی لیے طرح طرح کے بہانے تراشے جارہے ہیں، سرکاری افسروں کا رویہ تو نہایت قابل مذمت ہے، عدالت میں پیش ہوکر ایک مظلوم پاکستانی شہری کے بارے میں یہ کہنا کہ ہم نے عافیہ کے لیے بہت کچھ کرلیا، اب کیس بند کردیں شقاوت قلبی کی زندہ مثال ہے، بہر حال اسلام آباد ہائی کورٹ میں گزشتہ جمعہ کے روز امریکا میں قید ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی اور وطن واپسی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے چند سوالات کے جوابات طلب کر لیے۔ کیا حکومت ِ پاکستان امریکی عدالت میں عافیہ صدیقی کی رہائی سے متعلق عدالتی معاونت کا جواب جمع کروائے گی؟ کیا حکومت عافیہ صدیقی کی اپنی رہائی کے لیے دائر کردہ درخواست میں بطور معاون عدالتی بیان جمع کرانے کے لیے تیار ہے؟ تاکہ انہیں انسانی بنیادوں پر رہا کیا جا سکے؟
ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی جانب سے ایڈوکیٹ عمران شفیق عدالت میں پیش ہوئے، انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ حکومت کو ہدایت دی جائے کہ وہ امریکا میں عدالتی معاونت پر رضا مندی ظاہر کرے۔ حکومت پاکستان سے محض اتنا مطالبہ ہے کہ وہ عافیہ صدیقی کی درخواست کے مندرجات سے قطع نظر محض مختصر سی استدعا کرے کہ عافیہ صدیقی کو انسانی بنیادوں پر رہا کیا جائے۔ جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے استفسار کیا کہ اس معمولی سی استدعا سے حکومت پاکستان کو آخر کیا نقصان ہو سکتا ہے؟۔ پاکستان کے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان گزشتہ ایک پیشی پر اسی عدالت میں بیان دے چکے ہیں۔ اٹارنی جنرل پہلے کہہ چکے حکومت امریکا میں عدالتی معاونت کی درخواست دائر کرے گی تو پھر اب کیا مسئلہ ہے؟ یہ بڑا اہم سوال ہے، اگر حکومت کی جانب سے صرف ایک جملہ لکھ دیا جائے کہ ہمیں عافیہ کی انسانی ہمدردی کی بنیاد پر رہائی کی درخواست پر کوئی اعتراض نہیں اور ہم معاونت کریں گے تو پھر مشکل آسان ہو جائے گی، عدالت کے سوالات کو سامنے رکھیں اور غور کریں کہ جواب کیا آیا ہے یہ مثبت ہوگا یا منفی یا سرے سے جواب ہی نہیں آئے گا، ان تینوں صورتوں میں حکومت کی پوزیشن واضح ہوگی۔ ایک جملہ لکھ دیا تو سرخ رو اور انکار کیا تو سیاہ رو، اور خاموشی، (جو ناممکن ہے) تو منافقت عیاں ہوجائے گی۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ جو سرکاری اہلکار عدالت میں پیش ہوتے ہیں وہ سرکار کے ملازم ہوتے ہیں اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے، جو بتایا اور ہدایت نامہ دیا جاتا ہے وہی عدالت میں آکر بولتے ہیں، عدالت نے ہدایت کی ہے کہ اگلی سماعت پر حکومتی موقف سے آگاہ کریں اور عدالت کو دلیل سے مطمئن کریں کہ اس میں حکومت کا نقصان کیا ہے؟ جب میاں صاحب اپوزیشن میں تھے تو انہوں نے اس وقت کے وزیر اعظم کو خطوط لکھے کہ عافیہ کی رہائی کے لیے قانونی اقدامات کریں۔ عدالت نے استفسار کیا کہ حکومت ملنے کے بعد حالات میں ایسی کیا تبدیلی ہے کہ حکمران جماعت کا موقف بدل گیا؟ ایسی نظیریں موجود ہیں کہ حکومت پاکستان ماضی میں ایسے معاون عدالتی بیان داخل کر چکی ہے۔ جب پہلے معاون عدالتی بیان داخل ہوتے رہے ہیں تو اب کیا پیچیدگی ہے۔ کسی ملک کی بیٹی بائیس سال سے غیر ملک میں قید ہو، اس کا کوئی پرسان حال نہ ہو، اور جب گھر والے اور عوام اپنی بہن، بیٹی کے لیے کھڑے ہوں تو عدالتی پیشیاں، تاریخیں وقت گزاری، ٹالم ٹول اور دھونس دھمکیاں، بہت کچھ کرلیا کا طعنہ، صرف ایک جملہ لکھنے سے بچنے کے لیے کہ عافیہ کی انسانی ہمدردی کی بنیاد پر رہائی میں معاونت کریں گے۔
جسٹس اعجاز اسحاق کا یہ سوال بظاہر عام سوال ہے لیکن درحقیقت بہت گہرا ہے کہ حکومت کا کیا نقصان ہے، اور کیا پیچیدگی ہے۔ اس پر کسی غور کی ضرورت نہیں، حکومت کیسے بنتی ہے پارلیمان کی تشکیل کیسے ہوتی ہے، آئین اور عوام کے خلاف فیصلے کیسے اور کہاں سے ہوتے ہیں، یہ جاننے والوں کو فوراً سمجھ میں آجائے گا کہ ایسا جملہ جس سے عافیہ کی رہائی کا امکان ہو لکھنے میں کیا کیا نقصانات ہوسکتے ہیں، حکومت جاسکتی ہے، مقدمات کھل سکتے ہیں، عمران خان باہر اور یہ اندر ہوسکتے ہیں، اور مشکل تو یہ ہے کہ اتنے طاقتور حکمران کچھ بول بھی نہیں سکتے، گویا اظہار بھی مشکل ہے، چپ رہ بھی نہیں سکتے مجبور ہیں اف اللہ کچھ کہہ بھی نہیں سکتے۔ پھر سوچ لیں یہ چھوٹا سا جملہ کیوں پندرہ سال سے بھاری پڑ رہا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • بس ایک جملے کا انتظار
  • وفاقی بجٹ پر حکومتی اراکین بھی ناخوش، سینیٹر عرفان صدیقی کا تعلیمی فنڈز میں اضافے کا مطالبہ
  • سینیٹر عرفان صدیقی نے تعلیمی بجٹ میں اضافے کا باضاطہ مطالبہ کر دیا
  • قائمہ کمیٹی نے اسٹیشنری پر سیلز ٹیکس ختم کرنے کی سفارش کردی
  • پنجاب: صنعتی اور مائنز ورکرز کے بچوں کیلئے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں مفت تعلیم کا اعلان
  • ملالہ یوسفزئی کا وفاقی تعلیمی بجٹ میں 44 فیصد کمی پر اظہار تشویش 
  • خیبر پختونخوا حکومت نے تعلیمی بجٹ میں 11 فیصد اضافہ کردیا
  •  اسلام آباد میں تعلیمی اصلاحات کو ملک بھر کیلئے قابل تقلید مثال بننا چاہئے: احسن اقبال
  • پیپلزپارٹی نے سندھ کا تعلیمی نظام تباہ کردیا ہے ،حلیم عادل شیخ