ایران اسرائیل کشیدگی میں آبنائے ہرمز کی اہمیت اور عالمی معیشت پر اثرات
اشاعت کی تاریخ: 16th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
مشرق وسطیٰ میں اسرائیل اور ایران کے درمیان جاری کشیدگی نے عالمی سطح پر توانائی کی قیمتوں اور تجارتی راستوں پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔
اسرائیل کی جانب سے ایران کے جوہری اور عسکری مراکز پر فضائی حملوں کے بعد ایران نے آبنائے ہرمز کو بند کرنے کی دھمکی دی ہے، جو عالمی توانائی کی ترسیل کے لیے ایک اہم راستہ ہے۔
آبنائے ہرمز، جو خلیج فارس کو اومان اور متحدہ عرب امارات سے جوڑتا ہے، روزانہ تقریباً 20 ملین بیرل تیل کی ترسیل کا مرکز ہے، جو عالمی تیل کی طلب کا تقریباً 20 فیصد بنتا ہے۔ اس کے علاوہ اس راستے سے قدرتی گیس کی ترسیل بھی کی جاتی ہے، جس کی بندش سے عالمی توانائی کی فراہمی میں خلل پڑ سکتا ہے۔
ایران کے ایک اعلیٰ قانون ساز، اسماعیل کوثری نے گزشتہ دنوں اعلان کیا کہ ایران آبنائے ہرمز کو بند کرنے پر سنجیدگی سے غور کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کے ایران پر حملوں کے جواب میں یہ اقدام اٹھایا جا سکتا ہے۔
خطے کی صورت حال پر نظر رکھنے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر ایران نے یہ قدم اٹھایا تو عالمی تیل کی قیمتوں میں 100 سے 150 ڈالر فی بیرل تک اضافہ متوقع ہے، جو عالمی معیشت کے لیے سنگین نتائج کا حامل ہو سکتا ہے۔
اس طرح کے اقدام سے مبصرین کا کہنا ہے کہ یقینی طور پر امریکا سے جوابی کارروائی کی توقع رکھی جا سکتی ہے، جس کے خطے میں بحری فوجی اثاثے ہیں۔
یاد رہے کہ 1980ء اور 1988ء کے درمیان ایران عراق تنازع کے دوران بھی، جس میں دونوں طرف سے لاکھوں افراد ہلاک ہوئے، دونوں ممالک نے خلیج میں تجارتی جہازوں کو نشانہ بنایا جسے ٹینکر وار کے نام سے جانا جاتا ہے، تاہم ہرمز کو کبھی بھی مکمل طور پر بند نہیں کیا گیا۔
2019ء میں ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دور صدارت کے دوران ایران اور امریکا کے درمیان شدید کشیدگی کے درمیان، متحدہ عرب امارات کے شہر فجیرہ کے ساحل کے قریب آبنائے فجیرہ کے قریب 4 بحری جہازوں پر حملہ کیا گیا۔ واشنگٹن نے واقعے کا الزام تہران پر عائد کیا تاہم ایران نے ان الزامات کی تردید کی تھی۔
اسرائیل اور ایران کے درمیان کشیدگی کے باعث تیل کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ دیکھنے کو ملا ہے۔ برینٹ کروڈ کی قیمت 78 ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئی تھی، جب کہ امریکی خام تیل کی قیمت 71.
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر آبنائے ہرمز بند ہوا تو تیل کی قیمتیں 120 ڈالر فی بیرل تک جا سکتی ہیں، جو عالمی افراط زر اور اقتصادی سست روی کا سبب بن سکتی ہیں۔
پاکستان جو توانائی کے لیے بڑی حد تک درآمدات پر انحصار کرتا ہے، ایران اور سعودی عرب سے تیل کی ترسیل کے لیے آبنائے ہرمز ہی پر انحصار کرتا ہے۔ اگر یہ راستہ بند ہوتا ہے تو پاکستان کی توانائی کی فراہمی متاثر ہو سکتی ہے، جس سے مقامی سطح پر تیل کی قیمتوں میں اضافہ اور توانائی کے بحران کا سامنا ہو سکتا ہے۔
ایران اسرائیل کشیدگی نے عالمی توانائی کی منڈیوں میں بے چینی پیدا کر دی ہے اور آبنائے ہرمز کی بندش کے خدشات نے تیل کی قیمتوں میں اضافہ کیا ہے، جو عالمی معیشت کے لیے ایک سنگین چیلنج بن گیا ہے۔
پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کے لیے یہ صورتحال مزید مشکلات کا سبب بن سکتی ہے، جنہیں توانائی کی فراہمی اور قیمتوں میں استحکام کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: تیل کی قیمتوں میں ڈالر فی بیرل تک توانائی کی کے درمیان ایران کے کی ترسیل جو عالمی سکتا ہے کے لیے
پڑھیں:
غزہ نسل کشی میں اسرائیل سمیت 63 ممالک ملوث
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251102-09-2
اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ نے وہ حقیقت بے نقاب کر دی ہے جو دنیا کی طاقتور حکومتیں برسوں سے چھپاتی آرہی تھیں۔ رپورٹ کے مطابق غزہ میں گزشتہ دو برسوں کے دوران ہونے والی نسل کشی صرف اسرائیل کی کارروائی نہیں تھی بلکہ تریسٹھ ممالک اس جرم میں شریک یا معاون رہے۔ ان میں امریکا، برطانیہ، جرمنی جیسے وہ ممالک شامل ہیں جو خود کو انسانی حقوق کے علمبردار کہتے نہیں تھکتے۔ رپورٹ نے واضح کیا کہ اسرائیل نے فلسطینیوں کے خلاف جو وحشیانہ کارروائیاں کیں، وہ کسی ایک ملک کی طاقت سے ممکن نہ تھیں بلکہ ایک عالمی شراکت ِ جرم کے نظام کے تحت انجام پائیں۔ یہ رپورٹ مغرب اور بے ضمیر حکمرانوں کا اصل چہرہ عیاں کرتی ہے۔ دو برسوں میں غزہ کی زمین خون میں نہا گئی، لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے، ہزاروں بچے اور عورتیں شہید ہوئیں اور پورا خطہ ملبے کا ڈھیر بن گیا، مگر عالمی ضمیر خاموش رہا۔ بین الاقوامی قانون، انسانی حقوق کے چارٹر اور اقوام متحدہ کے وعدے سب اس وقت بے معنی ہو گئے۔ فرانسسکا البانیز کی رپورٹ نے بتا دیا کہ عالمی طاقتوں نے اسرائیل کے ظلم کو روکنے کے بجائے اسے معمول کا حصہ بنا دیا۔ امریکا نے نہ صرف اسرائیل کو مسلسل عسکری امداد فراہم کی بلکہ سلامتی کونسل میں اس کے خلاف آنے والی ہر قرارداد کو ویٹو کر کے اسے مکمل تحفظ دیا۔ برطانیہ نے اپنے اڈے اسرائیلی جنگی مشین کے لیے استعمال ہونے دیے، جرمنی اور اٹلی نے اسلحے کی سپلائی جاری رکھی، اور یورپی ممالک نے اسرائیلی تجارت میں اضافہ کر کے اس کے معیشتی ڈھانچے کو مزید مضبوط کیا۔ حیرت انگیز طور پر انہی ممالک نے غزہ میں انسانی بحران پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے یو این آر ڈبلیو اے کی فنڈنگ بند کر دی، یوں انہوں نے مظلوموں سے امداد چھین کر ظالم کو سہارا دیا۔ یہ رویہ صرف دوغلا پن نہیں بلکہ کھلی شراکت ِ جرم ہے۔ رپورٹ نے یہ بھی بتایا کہ اسرائیل نے انسانی امداد کو جنگی ہتھیار بنا دیا۔ محاصرہ، قحط، دوا اور خوراک کی بندش کے ذریعے فلسطینی عوام کو اجتماعی سزا دی گئی، اور دنیا کے بڑے ممالک اس جرم پر خاموش تماشائی بنے رہے۔ فضائی امداد کی نام نہاد کوششوں نے اصل مسئلے کو چھپانے کا کام کیا، یہ دراصل اسرائیلی ناکہ بندی کو جواز فراہم کرنے کا ایک طریقہ تھا۔ رپورٹ کے مطابق عرب اور مسلم ممالک نے اگرچہ فلسطینیوں کی حمایت میں آواز اٹھائی، مگر ان کی کوششیں فیصلہ کن ثابت نہ ہو سکیں۔ صرف چند ممالک نے جنوبی افریقا کے کیس میں شامل ہو کر عالمی عدالت میں اسرائیل کے خلاف قانونی کارروائی کی حمایت کی، جب کہ بیش تر مسلم ممالک بیانات اور قراردادوں سے آگے نہ بڑھ سکے۔ یہ کمزوری بھی فلسطینیوں کو انصاف کی فراہمی میں روکاٹ رہی اور اس طرح وہ حکمران بھی شریک جرم ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ نے عالمی دوہرے معیار کو برہنہ کر دیا ہے۔ روس یا کسی اور ملک کے خلاف پابندیاں لگانے والی مغربی دنیا اسرائیل کے معاملے میں خاموش ہے۔ یہ خاموشی دراصل ظلم کی حمایت ہے۔ جب انسانی حقوق کی دہائی دینے والے ملک خود ظالم کے معاون بن جائیں، تو یہ نہ صرف اقوام متحدہ کے نظام پر سوال اُٹھاتا ہے بلکہ پوری تہذیب کی اخلاقی بنیادوں کو ہلا دیتا ہے۔ رپورٹ نے واضح سفارش کی ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تمام فوجی، تجارتی اور سفارتی تعلقات فوری طور پر معطل کیے جائیں، غزہ کا محاصرہ ختم کر کے انسانی امداد کے راستے کھولے جائیں، اور اسرائیل کی رکنیت اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت معطل کی جائے۔ عالمی عدالتوں کو فعال بنا کر ان ممالک کے خلاف بھی کارروائی کی جائے جنہوں نے نسل کشی میں براہِ راست یا بالواسطہ کردار ادا کیا۔ غزہ میں اب تک اڑسٹھ ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ ہر روز نئے ملبے کے نیچے سے انسانی لاشیں برآمد ہوتی ہیں، مگر عالمی طاقتیں اب بھی امن کی بات صرف بیانات میں کرتی ہیں۔ درحقیقت یہ امن نہیں بلکہ ظلم کے تسلسل کو وقت دینا ہے۔ فلسطینیوں کی قربانی انسانیت کے ضمیر کا امتحان ہے۔ اگر دنیا نے اب بھی خاموشی اختیار کی تو آنے والی نسلیں پوچھیں گی کہ جب غزہ جل رہا تھا، جب بچوں کے جسم ملبے تلے دبے تھے، جب بھوک اور پیاس کو ہتھیار بنایا گیا تھا، تب تم کہاں تھے؟