عالمی جنگ کا آغاز اور پاکستان کی حکمتِ عملی کی اہمیت
اشاعت کی تاریخ: 16th, June 2025 GMT
مشرقِ وسطی ایک بار پھر عالمی جنگ کے دہانے پر کھڑا ہے اور عالمی جنگ کا آغاز ہو چکا ہے جنگ کا آغاز اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی جانب سے ایران پر حملوں سے ہوا، جس نے ایک سنگین اور تباہ کن سلسلے کو جنم دیا ہے اور ایران کی ابتدائی اعلیٰ عسکری قیادت کے غیر متوقع جانی نقصان کے جواب میں ایرانی سخت رد عمل نے اسرائیل کو حیران کردیا ہے۔
اسرائیل کی پشت پر عالمی سامراجی قوتیں امریکہ، برطانیہ، فرانس کھڑی ہیں، جو اپنی فضائی قوتیں پہلے ہی مشرقِ وسطی میں تعینات کر چکی ہیں۔ان حالات میں پاکستان کا کردار صرف ایک تماشائی کا نہیں بلکہ نئی عالمی صف بندی میں ایک کلیدی مسلم طاقت کے طور پر ابھرنے کا ہے۔
پاکستان کی تزویراتی اہمیت:جوہری طاقت جو حالیہ بھارتی جارحیت کا بروقت اور موثر جواب دے کر اپنی عسکری قیادت اور صلاحیت کا لوہا منوا چکی ہے۔ایران کا جغرافیائی مسلم پڑوسی ہونے کے باعث کسی بھی جنگ کے براہِ راست اثرات پاکستان پر پڑسکتے ہیں۔مضبوط فوجی ادارہ جسے عالمِ اسلام میں ایک نظریاتی، دفاعی اور متحرک قوت مانا جاتا ہے۔عوامی شعور اور امت سے وابستگی پاکستانی عوام فلسطین، شام، یمن، کشمیر اور عالمِ اسلام کے مسائل پر بیدار اور حساس ہے۔
حکمت اور سٹریٹجک بصیرت کی فوری ضرورت:اور مسلم ممالک کے باہمی اتحاد کی سخت ضرورت اور اہمیت‘جلدبازی سے اجتناب: پاکستان کو کسی عالمی طاقت کا مہرہ نہیں بننا چاہیے، بلکہ اپنی خودمختار پالیسی کو محفوظ رکھتے ہوئے قدم اٹھانا چاہیے۔
سفارتکاری اور غور و فکر:پاکستان کو چاہیے کہ ترکی، مصر، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، ایران، انڈونیشیا، ملائیشیا، مراکش اور دیگر مسلم ممالک سے رابطہ کاری اور مشاورت کرے، اور اسرائیل‘ ایران کی جنگ پر ایک متحدہ اسلامی موقف تشکیل دے۔
داخلی اتحاد:پاکستان کو اندرونی استحکام، میڈیا اور عوامی یکجہتی پر توجہ دینی چاہیے تاکہ بیرونی دبا ئو کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جا سکے۔غیر اعلانیہ سفارتی تدابیر:پاکستان کو خفیہ سفارتکاری، انٹیلی جنس روابط، اور سٹرٹیجک تیاریوں کے ذریعے امتِ مسلمہ کے دفاع اور رہنمائی کے لیے موثر کردار ادا کرنا ہوگا بغیر جلد بازی یا براہِ راست جنگ میں کودے۔
اس وقت جو جنگ اسرائیل نے ایران پر حملے سے چھیڑی ہے، اس میں پاکستان کا کردار کلیدی ہے اور امتِ مسلمہ کی نظریاتی و اخلاقی رہنمائی بھی پاکستان کو ہی کرنی ہوگی۔اس لیے فیصلے صرف جذبات سے نہیں، بلکہ دانائی، تدبر، اور حکمتِ عملی کے ساتھ کرنے ہوں گے۔اللہ کا شکر ہے کہ پاکستان کی موجودہ عسکری قیادت ایمان، اخلاص، اور اہلیت سے لیس ہے۔
قوم و قائدین سے اپیل:دشمن کی چالوں کو پہچانو جو ہمیں ایران اور عرب دنیا سے ٹکرانے کی سازشیں کر رہے ہیں۔یاد رکھو! امتِ مسلمہ کو صرف حکمت، صداقت اور وحدت ہی بچا سکتی ہے نہ کہ جذبات، جلد بازی یا غیر ملکی مفادات کی جنگ۔پاکستان کا اصل سرمایہ:اللہ پر ایمان وتوکل اس کی نظریاتی شناخت، جوہری طاقت، عسکری مہارت، اور قومی اتحاد ہے ان کو ہر حال میں محفوظ رکھنا ہے۔
پاکستان کی عسکری قوت ایک ثابت شدہ حقیقت ‘گزشتہ ماہ بھارت کی جانب سے پاکستان پر حملہ جس کا فوری، موثر، اور حکمت پر مبنی عسکری جواب دیا گیا دنیا نے دیکھا کہ پاکستان کی افواج نہ صرف مستعد، منظم، اور جذبے سے سرشار ہیں، بلکہ اللہ پر ایمان و توکل کے ساتھ جدید ٹیکنالوجی، حکمتِ عملی، اور قیادت کی اہلیت سے بھی لیس ہیں۔اس واقعے نے دنیا کو تین حقائق یاد دلا دیے:تیز ردِعمل کی صلاحیت‘ اعلیٰ فضائی دفاعی مہارت اور ٹیکنیکل قیادت نظریاتی اتحاد اور اچانک حملے کی صورت میں مکمل تیاری یہ واضح پیغام تھا کہ پاکستان نہ صرف جوہری طاقت ہے، بلکہ ہر سطح پر اعصابی، فکری، عسکری، اور سٹریٹجک ردعمل دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔
پاکستانی فوج کی شجاعت، حکمت اور نظریاتی وابستگی نے اپنی ایمانی قوت کے ساتھ نہ صرف دشمن کے عزائم خاک میں ملائے،بلکہ دنیا بھر میں پاکستان اور عسکری قیادت کو عزت، جرات، اور قیادت کا عالمی سمبل بنا دیا۔ پاکستانی قوم سیاسی اور مذہبی اختلافات کو ایک طرف رکھ کر اپنی قابل فخر عسکری قیادت کے ساتھ شانہ بہ شانہ کھڑے ہو جائیں۔ ایسی جنگ تاریخ عالم میں اس سے قبل نہیں ہوئی۔ جس کا آغاز ہوا ہے۔ اللہ ہمیں اس کی مہلک خیزی سے محفوظ رکھے اور ہم سب کو ایمانی جذبہ و عمل اور اخوت عطا فرمائے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: عسکری قیادت پاکستان کی پاکستان کو کے ساتھ کا آغاز
پڑھیں:
ایران اسرائیل کشیدگی، فیلڈ مارشل کا دورۂ امریکا مزید اہمیت اختیار کرگیا
اسرائیل کی ایران کے خلاف جارحیت کے بعد فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کا دورہ امریکا مزید اہمیت اختیار کرچکا ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق فیلڈ مارشل سید عاصم منیر سرکاری دورے پر امریکا میں ہیں، اُن کا واشنگٹن کا یہ دورہ جو کئی ماہ پہلے سے طے تھا اب جغرافیائی طور پر انتہائی اہم وقت پر ہو رہا ہے۔
واشنگٹن میں فیلڈ مارشل کی موجودگی کے دوران مشرق وسطی کی نئی پیشرفت اور اسرائیل کی جانب سے ایران پر بلاجواز جارحیت نے خطے اور دنیا کے امن کو خطرات سے دوچار کردیا ہے۔
اس تناظر میں فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کا دورہ واشنگٹن مزید اہمیت اختیار کرچکا ہے۔
فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی واشنگٹن میں موجودگی ایک موقع ہے کہ وہ خطے کے اہم معاملات، جیسے اسرائیلی جارحیت اور اس کے خطے پر ممکنہ اثرات، کو براہِ راست امریکی قیادت کے ساتھ زیرِ بحث لائیں۔
اس وقت واشنگٹن میں فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی موجودگی نہ صرف پاکستان کے دفاعی اور تزویراتی مفادات کے لیے اہم ہے بلکہ یہ عالم اسلام کے خدشات اور تحفظات کو مؤثر انداز میں عالمی سطح پر اجاگر کرنے کا بھی ایک ذریعہ بن سکتی ہے۔
ایران کے خلاف کسی بھی ممکنہ کارروائی کے نتائج خطے کے امن و استحکام پر گہرے اثرات ڈال سکتے ہیں، اور پاکستان کی طرف سے ایک متوازن اور دانشمندانہ موقف پیش کرنا بین الاقوامی برادری کو ایک نئے زاویے سے سوچنے پر مجبور کر سکتا ہے۔
اس لحاظ سے فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کہ یہ موجودگی سفارتی انٹرفیس کے طور پر بھی کام کر رہی ہے، جو امریکا اور مسلم دنیا کے درمیان بات چیت کی نئی راہیں کھول سکتی ہیں۔
فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کے حالیہ دورے جن میں سعودی عرب، چین اور اب امریکا شامل ہیں اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ وہ نہ صرف ایک فوجی کمانڈر کے طور پر بلکہ ایک مؤثر سفارتی شخصیت کے طور پر بھی ابھر کر سامنے آئے ہیں۔
ان دوروں کا مقصد خطے میں امن و استحکام کے لیے پاکستان کے عزم کو عالمی سطح پر اجاگر کرنا ہے، خاص طور پر انسدادِ دہشت گردی کے میدان میں پاکستان کے تجربے، قربانیوں اور کامیابیوں کو دنیا کے سامنے پیش کرنا ہے۔
فیلڈ مارشل عاصم منیر کی کوششوں سے پاکستان ایک ذمہ دار ریاست کے طور پر بین الاقوامی سطح پر اپنے امیج کو بہتر بنانے کی راہ پر گامزن ہے۔ ان کے ان دوروں سے نہ صرف دو طرفہ دفاعی تعلقات کو مضبوط کیا ہے بلکہ دہشت گردی، سرحدی سلامتی اور خطے میں ابھرتے ہوئے چیلنجز پر مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنے کی راہ بھی ہموار کی ہے۔
عالمی طاقتوں اور علاقائی ہمسایوں سے بات چیت کے یہ اقدامات پاکستان کو ایک پُرامن اور بااعتماد شراکت دار کے طور پر پیش کرتے ہیں، جو نہ صرف اپنے قومی مفادات کا دفاع کر رہا ہے بلکہ پورے خطے میں امن کی کوششوں کا بھی سرخیل ہے۔
پاکستانی مسلح افواج کے انسداد دہشت گردی کیخلاف اٹھائے جانے والے اقدامات پر امریکا پاک فوج کا معترف ہے اور اکثر اس حوالے سے تہنیتی بیانات بھی سامنے آتے ہیں جن میں قریب ترین مثال امریکی سینٹرل کمانڈ جنرل کوریلا کا سینیٹ کی دفاعی کمیٹی میں دیا گیا بیان اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی انسداد دہشت گردی کے خلاف کیے جانے والے اقدامات کی تعریف کرنا سب سے بڑی مثال ہے۔