برطانیہ میں 14 سالہ لڑکے کا والدین پر زبردستی دوسرے ملک بھیجنے کا مقدمہ
اشاعت کی تاریخ: 16th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
لندن میں ایک نہایت حیران کن اور قانونی پیچیدگیوں سے بھرپور واقعہ سامنے آیا ہے جہاں 14 برس کے ایک بچے نے اپنے والدین کے خلاف عدالت میں درخواست دائر کی ہے۔
بچے کا الزام ہے کہ اس کے والدین نے اسے دھوکا دے کر برطانیہ سے مغربی افریقی ملک گھانا بھیجا، جہاں اس کی مرضی کے خلاف اسے بورڈنگ اسکول میں داخل کر دیا گیا۔
مقامی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ صرف خاندانی اختلاف تک محدود نہیں رہا بلکہ قانونی دائرہ اختیار، بچوں کے حقوق اور والدین کی ذمہ داری جیسے نازک معاملات کو بھی اجاگر کرتا ہے۔
یہ واقعہ تازہ تو بہرحال نہیں، یہ مارچ 2024 میں اُس وقت شروع ہوا جب لڑکے کے والدین نے اسے بتایا کہ گھانا میں اُن کا ایک قریبی عزیز سخت بیمار ہے اور اس کی عیادت کے لیے جانا ضروری ہے۔ لڑکے نے اس سفر کو عارضی سمجھا اور والدین کے ہمراہ روانہ ہو گیا،لیکن جیسے ہی وہ گھانا پہنچا، اسے اچانک ایک مقامی بورڈنگ اسکول میں داخل کرا دیا گیا اور اس سے اس کی مرضی یا رضامندی نہیں لی گئی۔ یہاں تک کہ اسکول سے باہر جانے یا واپس لندن لوٹنے کی بھی اجازت نہ دی گئی۔
مذکورہ بچے نے جب خود کو اس صورت حال میں قید پایا تو اس نے مختلف ذرائع سے قانونی مدد حاصل کرنے کی کوشش کی، جو بالآخر اسے برطانوی ہائی کورٹ تک لے گئی۔
بچے کی طرف سے مؤقف اختیار کیا گیا کہ اسے بغیر اس کی مرضی کے نہ صرف برطانیہ سے نکالا گیا بلکہ ایک اجنبی ملک میں چھوڑ دیا گیا جہاں اس کی کوئی آزاد مرضی یا رائے نہیں مانی جا رہی۔
فروری 2025 میں ہائی کورٹ نے اس معاملے پر والدین کے حق میں فیصلہ سنایا۔ عدالت نے تسلیم کیا کہ والدین کا اقدام اس نیت سے تھا کہ وہ اپنے بچے کو لندن کے خراب ماحول سے بچانا چاہتے تھے، جہاں اُن کے خیال میں وہ منفی اثرات کا شکار ہو رہا تھا۔ والدین کا مؤقف تھا کہ گھانا کا ماحول زیادہ اخلاقی، محفوظ اور تعلیمی ترقی کے لیے موزوں ہے، اور یہ قدم ان کے والدینی اختیار کے دائرے میں آتا ہے۔
تاہم یہ مقدمہ یہاں ختم نہیں ہوا۔ لڑکے نے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کر دی اور اپیل کورٹ نے جون 2025 میں نہ صرف بچے کی فریاد سنی بلکہ ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے مقدمے کا دوبارہ جائزہ لینے کا حکم بھی جاری کر دیا۔
عدالت کا کہنا تھا کہ نچلی عدالت نے بچے کے جذبات، خیالات اور خواہشات کو نظرانداز کیا، حالانکہ بچہ خود مدد کے لیے عدالت سے رجوع کر چکا تھا۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ ایسے معاملات میں صرف والدین کی نیت یا سوچ ہی کافی نہیں، بلکہ بچے کی آزادی، ذہنی کیفیت اور فلاح کو بھی برابر اہمیت دی جانی چاہیے۔
یہ معاملہ صرف ایک خاندان کا ذاتی مسئلہ نہیں بلکہ برطانیہ میں بچوں کے حقوق کے قانون، والدین کے اختیارات اور بین الاقوامی سرزمین پر بچوں کی رضامندی جیسے حساس موضوعات کو بھی اجاگر کرتا ہے۔ خاص طور پر جب والدین کسی بچے کو برطانیہ سے باہر کسی اور ملک میں بہتر تعلیم یا تربیت کی بنیاد پر لے جاتے ہیں، تو قانون اس عمل کو کس نظر سے دیکھتا ہے؟ آیا یہ والدین کا اختیار ہے یا بچے کا بنیادی حق کہ وہ خود اپنی جگہ اور تعلیم کے حوالے سے رائے دے سکے؟
قانونی ماہرین کے مطابق یہ کیس مستقبل میں برطانیہ میں والدین اور بچوں کے باہمی حقوق و اختیارات کے حوالے سے ایک اہم مثال بن سکتا ہے۔ اگر اپیل کورٹ کا فیصلہ بچے کے حق میں آتا ہے تو ممکن ہے کہ مستقبل میں ایسے والدین کو قانونی طور پر بچے کی مرضی کے بغیر کسی دوسرے ملک میں رکھنے یا بھیجنے سے روکا جائے۔
یہ بھی غور طلب ہے کہ یہ معاملہ صرف قانونی یا خاندانی نہیں بلکہ نفسیاتی سطح پر بھی پیچیدہ ہے۔ ایک 14 سالہ لڑکا جو لندن کے جدید اور آزاد ماحول سے واقف ہو، اسے اچانک گھانا کے کسی روایتی بورڈنگ اسکول میں چھوڑ دینا یقیناً اس کی ذہنی حالت، جذبات اور آزادی پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔
کیس اب ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے اور ماہرین قانون کے ساتھ ساتھ عوام کی نظریں بھی اس بات پر لگی ہوئی ہیں کہ عدالت کس حد تک بچے کے جذبات اور آزادی کو ترجیح دیتی ہے۔ کیا برطانوی عدلیہ اس کیس میں ایک نئی نظیر قائم کرے گی یا والدین کے اختیار کو ہی بنیادی حیثیت دے گی، اس کا فیصلہ آنے والے دنوں میں ہوگا۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: والدین کے ہائی کورٹ کی مرضی بچے کی
پڑھیں:
اخلاق کریمانہ، تربیت اطفال کی بنیاد
بچوں کی تربیت محض دنیاوی سہولیات کی فراہمی تک محدود نہیں، بل کہ ان کے باطن میں خیر، حیا، سچائی اور عدل جیسے اوصاف پیدا کرنا اصل کام یابی ہے۔ جس معاشرے کے والدین اپنی اولاد کے ظاہر سے زیادہ ان کے اخلاق پر توجہ دیتے ہیں، وہی قومیں دیرپا ترقی کرتی ہیں۔
اخلاق کریمانہ یعنی عمدہ اخلاق بچوں کے دلوں کو نرمی، محبت، اور انسان دوستی سے لبریز کر دیتے ہیں۔ ان خوبیوں کا آغاز گھر کے ماحول سے ہوتا ہے، جہاں ہر دن ایک سبق، اور ہر عمل ایک نمونہ بن جاتا ہے۔ والدین کی زبان، مزاج، اور کردار ہی بچوں کی اصل درس گاہ ہوتے ہیں۔ اگر ان کی اپنی زندگی میں اخلاق کا نُور ہو، تو بچے قدرتی طور پر اسی راہ کے مسافر بنتے ہیں۔ یہی وہ بنیاد ہے جس پر ایک صالح فرد، اور پھر ایک مثالی معاشرہ قائم ہو سکتا ہے۔
والدین پہلی درس گاہ
بچوں کے لیے والدین صرف نگران نہیں بل کہ آئینہ ہوتے ہیں، جن میں وہ اپنا آپ دیکھتے اور پہچانتے ہیں۔ اگر والدین کی باتوں میں نرمی، رویے میں تحمل، اور دل میں وسعت ہو تو بچے انھیں ہی معیار بناتے ہیں۔
بچوں کی پہلی تربیت زبان سے کم، طرزِ عمل سے زیادہ ہوتی ہے۔ جب بچہ غصہ، تلخی یا بے صبری دیکھتا ہے، تو وہی انداز اس کی شخصیت کا حصہ بن جاتا ہے۔ ماں باپ اگر گھر میں رواداری، شکر گزاری اور خندہ پیشانی کا ماحول رکھیں تو یہ مزاج بچے میں راسخ ہو جاتا ہے۔ قرآن نے رسول اﷲ ﷺ کے نرم دل ہونے کو لوگوں کے قریب کرنے کا سبب قرار دیا ہے۔ بچوں کی پہلی تربیت محبت، قبولیت اور اعتماد سے ہی ممکن ہوتی ہے۔
سچائی کی بنیاد بچپن میں رکھیں
بچپن میں جو بات دل میں بیٹھ جائے، وہ پوری زندگی کا اصول بن جاتی ہے۔ اگر سچ بولنا والدین کے عمل اور گفت گو میں نمایاں ہو، تو بچے اسے معمول سمجھ کر اپناتے ہیں۔ سچائی صرف بولنے کی عادت نہیں بل کہ کردار، عزت اور اعتماد کی جڑ ہے۔ والدین کو چاہیے کہ بچوں سے وعدے کر کے پورے کریں، اور جھوٹ یا فریب کو معمولی بھی نہ سمجھیں۔ بچوں کو سچ بولنے پر سراہا جائے، نہ کہ ڈرایا جائے۔ سچ بولنے والا بچہ زندگی کے ہر موڑ پر صاف ضمیر کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔
نرم گفتاری سکھائیں
بچوں کی زبان پر وہی الفاظ آتے ہیں جو وہ سنتے ہیں، اور ان کے لہجے میں وہی اثر ہوتا ہے جو وہ ماحول سے جذب کرتے ہیں۔ والدین اگر غصے، طنز یا سختی سے بات کرتے ہیں، تو بچوں میں بھی یہی رنگ آ جاتا ہے۔ اگر ماں، باپ محبت، لحاظ اور ادب سے گفت گُو کریں، تو بچہ نرم گو، صلح جُو اور ملن سار بنتا ہے۔ نرمی سے بات کرنا دل کو کھولتا ہے اور دلوں کو جوڑتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو فرعون جیسے جابر کے سامنے بھی نرمی سے بات کرنے کا حکم دیا۔ بچوں کی زبان پر نرمی لانے کے لیے خود والدین کی زبان میں نرمی ضروری ہے۔ نرم گفتاری انسان کے اخلاق کا پہلا زینہ ہے۔
معافی اور درگزر کی عادت ڈالیں
ہر بچہ غلطی کرتا ہے، لیکن اصل تربیت یہ ہے کہ اسے معاف کرنا سکھایا جائے، نہ کہ مسلسل شرمندہ کیا جائے۔ بچوں کو یہ احساس دلایا جائے کہ درگزر کرنا کم زوری نہیں بل کہ بڑا ظرف ہے۔ انہیں سمجھایا جائے کہ دوسروں کو معاف کر دینا ایک روحانی طاقت ہے جو انسان کو بلند کر دیتی ہے۔ اگر بچہ غصے میں ہو، تو اس وقت اسے سختی سے روکنے کے بہ جائے نرمی سے سمجھایا جائے کہ تحمل ہی اصل طاقت ہے۔ قرآن حکیم میں ہمیں بتایا گیا ہے، مفہوم: ’’جو معاف کرے اور اصلاح کرے، تو اس کا اجر اﷲ کے ذمے ہے۔‘‘ (الشوریٰ) بچوں کے دل میں وسعت پیدا کرنا، ان کے لیے مستقبل میں کام یابی کے دروازے کھولتا ہے۔ درگزر کا مزاج معاشرتی ہم آہنگی کی جڑ ہے۔
شکرگزاری اور عاجزی سکھائیں
بچے اگر چھوٹی نعمتوں پر شکر ادا کرنا سیکھ جائیں، تو ان کے دل میں حرص اور ناشکری کی جگہ قناعت پیدا ہو جاتی ہے۔ والدین خود الحمدﷲ، جزاک اﷲ اور ماشاء اﷲ جیسے الفاظ استعمال کریں تاکہ بچے بھی یہ زبان سیکھیں۔ بڑوں کا ادب اور چھوٹوں پر شفقت انہیں خاک ساری سکھاتا ہے۔ اگر بچے ہر نعمت کو اﷲ کی عطا سمجھیں، تو ان میں تکبر، حسد اور منفی مسابقت ختم ہو جاتی ہے۔ والدین کا عمل اگر شکر گزاری ہو تو بچے خود بہ خود اس روش پر آتے ہیں۔ ایسے بچے دوسروں کے لیے بھی سکون اور خیر کا ذریعہ بنتے ہیں۔ عاجزی اور شکر گزاری دل کو روشن اور زبان کو نرم بناتی ہے۔
دوسروں کا ادب اور احترام
ادب و احترام کسی نصاب کی کتاب میں نہیں، بل کہ ماحول سے منتقل ہوتا ہے۔ اگر بچہ اپنے گھر میں ملازم، مہمان یا پڑوسی کے ساتھ عزت و احترام کا سلوک دیکھے، تو وہی جذبہ اس کے اندر پنپتا ہے۔ بچوں کو احترام انسانیت سکھائیں کہ انسان کی قدر اس کی حیثیت سے نہیں بل کہ انسانیت سے ہوتی ہے۔ استاد، ہمسایہ، کسان، مزدور، خاکروب حتیٰ کہ راہ چلتے لوگ، سبھی ادب کے مستحق ہیں۔ ایسے بچے بڑے ہو کر عاجز، مہذب اور باوقار ہوتے ہیں۔ یہ سلیقہ اگر بچپن میں سکھایا جائے تو ان کی پوری شخصیت باادب بن جاتی ہے۔ یاد رکھیں! ادب محبت کی جڑ، اور بے ادبی محرومی کی بنیاد ہے۔
خود احتسابی کی روش
بچوں کو اپنی غلطی کا اعتراف سکھانا ایک اعلی وصف ہے، جو انھیں مستقل طور پر سیکھنے والا انسان بناتی ہے۔ انھیں یہ نہ سکھائیں کہ غلطی پر پردہ ڈالیں، بل کہ یہ سکھائیں کہ سچائی تسلیم کریں اور آئندہ بہتری کی کوشش کریں۔ جب بچے اپنی کوتاہی پر والدین کی شفقت محسوس کریں گے تو ان میں اعتماد پیدا ہوگا۔ انھیں شرمندگی سے بچانے کے ساتھ اصلاح کی راہ بھی دکھائیں۔ یہ تربیت انھیں ضد، انا، اور جھوٹی عزت نفس سے بچاتی ہے۔ خود احتسابی انسان کو ہمیشہ نرمی اور بہتری کی طرف لے جاتی ہے۔ ایسے افراد ہی معاشرے کو ترقی کی راہ پر لاتے ہیں۔
دعاؤں کا انداز سکھائیں
دعائیں صرف الفاظ کا مجموعہ نہیں، بل کہ روح کی پرورش ہوتی ہیں۔ بچوں کو سکھائیں کہ وہ چھوٹے چھوٹے کاموں پر بھی اﷲ کا شکر ادا کریں اور دعا مانگیں۔ والدین اگر خود بچوں کے لیے نرمی، ہدایت اور حسنِ اخلاق کی دعائیں مانگیں تو بچے اس مزاج کو اپناتے ہیں۔ دعاؤں سے بچوں کے دل میں اﷲ کا قرب اور محبت پیدا ہوتی ہے۔ بچوں کو دعائیں زبردستی نہ رٹوائیں بل کہ ان کے مفہوم اور اثرات سے جوڑیں۔ جب بچہ نرمی کرے، سچ بولے یا معاف کرے تو اس پر اﷲ کی رضا کی بات کریں۔ اس تعلق سے بچے کا اخلاق عبادت بن جاتا ہے۔
برداشت اور صبر کی تربیت
زندگی میں اختلافات اور تنقید سے بچنا ممکن نہیں، مگر ان سے نمٹنے کا سلیقہ سکھایا جا سکتا ہے۔ بچوں کو سمجھایا جائے کہ ہر ناپسندیدہ بات پر ردعمل دینا ضروری نہیں، بعض اوقات خاموشی ہی بہترین جواب ہوتا ہے۔ صبر، تحمل اور برداشت ان کی شخصیت میں توازن پیدا کرتے ہیں۔ والدین کو خود بھی ایسے مواقع پر صبر و ضبط کا نمونہ بننا چاہیے۔ اگر بچہ ناانصافی یا سختی کا سامنا کرے، تو اسے ہم دردی سے سنیں اور برداشت کی فضیلت بتائیں۔ ایسے بچے ذہنی طور پر مضبوط اور معاشرتی طور پر پختہ بنتے ہیں۔ صبر انسان کو مایوسی اور نفرت سے بچاتا ہے۔
روزمرہ زندگی کو عملی تربیت بنائیں
بچوں کی تربیت کے لیے الگ وقت یا لیکچر ضروری نہیں، بل کہ روزمرہ کے چھوٹے واقعات ہی اصل سبق ہوتے ہیں۔ اگر والدین معمولی باتوں میں بھی اخلاقی سبق چھپا دیں، تو بچے غیر محسوس انداز میں سیکھتے جاتے ہیں۔ جیسے کسی بے کس کو کھانا دینا، یا کسی پرندے کو دانہ ڈالنا، یہ چھوٹے عمل بچوں کو رحم دلی سکھاتے ہیں۔ والدین اگر خود جھوٹ، غصہ یا بے ادبی سے بچیں، تو یہی چیز بچوں پر اثر ڈالتی ہے۔ عمل بولتا ہے، اور بچوں کے دل پر سب سے گہرا نقش عمل ہی چھوڑتا ہے۔ عملی تربیت سب سے پائیدار اور موثر تربیت ہے۔
آخری سوچ: ایک اخلاقی وراثت
بچوں کو علم و دولت دینا اہم ہے، مگر ان کے دل میں اخلاق کی روشنی منتقل کرنا سب سے بڑی وراثت ہے۔ والدین اگر اپنے عمل، طرزِ گفت گُو اور فیصلوں میں اخلاق کریمانہ کا عکس دکھائیں، تو ان کی نسلیں ناصرف دنیا میں کام یاب ہوں گی بل کہ آخرت میں بھی سرخ رُو رہیں گی۔ یہ وراثت نہ چھنتی ہے، نہ زائل ہوتی ہے، بل کہ وقت گزرنے کے ساتھ بڑھتی چلی جاتی ہے۔ اگر آج آپ بچوں کو نرمی، عدل، سچائی اور درگزر سکھاتے ہیں تو کل یہی بچے معاشرے کی روشنی بنیں گے۔ اخلاق صرف تربیت نہیں، بل کہ ایک نسل کی سمت کا تعین ہے۔
اﷲ تعالی ہمیں اپنی نئی نسل کی بہتر تعلیم و تربیت کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین