امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی ٹیم کو ہدایت دی ہے کہ وہ ایرانی حکام سے جلد از جلد ملاقات کی کوشش کریں تاکہ ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری کشیدگی کے خاتمے کے لیے سفارتی حل تلاش کیا جا سکے۔ یہ بات ایک امریکی عہدیدار اور معاملے سے واقف شخص نے میڈیا کو بتائی۔

غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق صدر ٹرمپ اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ آیا تہران واقعی اس تنازعے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے میں سنجیدہ ہے یا نہیں۔ جب سے اسرائیل نے گزشتہ ہفتے ایران پر پہلی میزائلوں کی بارش کی، تب سے ٹرمپ مسلسل اس مؤقف پر قائم ہیں کہ ایران کو امریکا کے ساتھ مذاکرات کی میز پر آنا چاہیے اور نجی طور پر وہ اپنی ٹیم کو ایرانی حکام اور اُن کے رابطہ کاروں سے گفتگو جاری رکھنے پر زور دے رہے ہیں۔

کینیڈا میں جاری جی 7 اجلاس کے دوران ٹرمپ نے یورپی رہنماؤں کو بتایا کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کے لیے بات چیت جاری ہے اور انہوں نے عندیہ دیا کہ وہ چاہتے ہیں امریکی حکام ایرانی ہم منصبوں سے اسی ہفتے ملاقات کریں۔

ایک اعلیٰ امریکی عہدیدار نے بتایا کہ اگرچہ تاحال کوئی حتمی ملاقات طے نہیں پائی لیکن ایران اور اسرائیل دونوں کی جانب سے کشیدگی کم کرنے کی سمت پیش رفت دکھائی دے رہی ہے۔

ٹرمپ نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ "مجھے لگتا ہے ایران مذاکرات کی میز پر ہے، وہ معاہدہ کرنا چاہتے ہیں۔" بعد ازاں اعلان کیا گیا کہ وہ جی 7 اجلاس سے وقت سے پہلے واپس واشنگٹن روانہ ہوں گے تاکہ صورت حال پر براہ راست نظر رکھ سکیں۔

یہ پڑھیں: ٹرمپ کے بیان نے خطرے کی گھنٹی بجا دی، "ہر شخص فوراً تہران چھوڑ دے!"

جب ٹرمپ سے پوچھا گیا کہ اگر سفارتی کوششیں ناکام ہوئیں تو کیا امریکا اسرائیل کے ساتھ مل کر ایران کے جوہری اثاثوں کو نشانہ بنانے کے لیے فوجی کارروائی کرے گا تو انہوں نے اس حوالے سے کوئی واضح جواب نہیں دیا۔

دوسری جانب وائٹ ہاؤس کے ترجمان الیکس فائفر نے وضاحت کی کہ امریکی افواج دفاعی حالت میں ہیں اور فی الوقت ایران کے خلاف کسی فوجی کارروائی میں شامل نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ "ہم امریکی مفادات کا دفاع کریں گے لیکن ہماری پوزیشن تبدیل نہیں ہوئی۔"

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

پینٹاگون کی یوکرین کو ٹوماہاک میزائل دینے کی منظوری

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

امریکی محکمہ دفاع نے یوکرین کو طویل فاصلے تک مار کرنے والے امریکی ساختہ ٹوماہاک میزائل فراہم کرنے کی منظوری دے دی ہے، جبکہ اس فیصلے پر آخری دستخط صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے کرنے ہیں۔

امریکی میڈیا اور حکام کے مطابق پینٹاگون نے وائٹ ہاؤس کو رپورٹ کی ہے کہ یوکرین کو یہ میزائل دینے سے امریکا کے اپنے دفاعی ذخائر پر کوئی منفی اثر نہیں پڑے گا۔ اس کے باوجود صدر ٹرمپ نے حال ہی میں یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی سے ملاقات کے دوران کہا تھا کہ وہ یہ میزائل یوکرین کو دینے کے حق میں نہیں ہیں۔ صدر ٹرمپ نے اس ملاقات سے ایک روز قبل روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے بھی ٹیلیفونک گفتگو کی تھی جس میں پیوٹن نے خبردار کیا کہ ٹوماہاک میزائل ماسکو اور سینٹ پیٹرز برگ جیسے بڑے شہروں تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اور ان کی فراہمی امریکا روس تعلقات کو متاثر کر سکتی ہے۔

یہ بھی یاد رہے کہ ٹوماہاک کروز میزائل 1983 سے امریکی اسلحے کا حصہ ہیں۔ اپنی طویل رینج اور درستگی کے باعث یہ میزائل کئی بڑی عسکری کارروائیوں میں استعمال ہو چکے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • حماس کیجانب سے 3 اسرائیلی قیدیوں کی لاشیں واپس کرنے پر خوشی ہوئی، ڈونلڈ ٹرمپ
  • جوہری تنصیبات دوبارہ پہلے سے زیادہ مضبوطی کے ساتھ تعمیر کریں گے، ایرانی صدر کا اعلان
  • کس پہ اعتبار کیا؟
  • ایران نیوکلیئر مذاکرات کے لیے تیار، میزائل پروگرام پر ’کوئی بات نہیں کرے گا‘
  • وزیر تجارت سے ایرانی سفیر کی ملاقات: اقتصادی تعاون بڑھانے پر اتفاق
  • علاقائی عدم استحکام کی وجہ اسرائیل ہے ایران نہیں, عمان
  • حزب الله کو غیرمسلح کرنے کیلئے لبنان کے پاس زیادہ وقت نہیں، امریکی ایلچی
  • پینٹاگون کی یوکرین کو ٹوماہاک میزائل دینے کی منظوری
  • امریکا کے دوبارہ ایٹمی تجربات دنیا کے امن کے لیے خطرہ، ایران
  • ٹرمپ کا وفاقی انتخابات سے متعلق حکم نامے کا اہم حصہ کالعدم قرار