data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

خبر رساں ایجنسی کے مطابق، ایک امریکی عہدیدار نے بتایا کہ صدر ٹرمپ کینیڈا میں ہونے والے جی 7 اجلاس کے اعلامیے پر دستخط نہیں کریں گے، جس میں اسرائیل اور ایران کے تنازعے میں کشیدگی کم کرنے کی اپیل کی گئی ہے۔

اعلامیے کے مسودے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایران کو کبھی بھی جوہری ہتھیار نہیں رکھنا چاہئیں، اور اسرائیل کو اپنے دفاع کا مکمل حق حاصل ہے۔ اس کے علاوہ، مسودے میں توانائی کی منڈیوں اور دیگر مارکیٹوں کے استحکام کے تحفظ کا عہد بھی شامل کیا گیا ہے۔

جی 7 اجلاس کے دوران برطانوی وزیر اعظم کے ساتھ بات چیت میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ ایران کو معاہدے پر دستخط کرنا چاہیے، اور یہ بھی یقینی بنائیں گے کہ ایران کے پاس جوہری ہتھیار نہ ہوں۔

دوسری جانب، صدر ٹرمپ نے کینیڈا میں جی 7 اجلاس میں اپنی شرکت مختصر کر کے وطن واپس جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ وہ آج واشنگٹن واپس آئیں گے اور اہم معاملات میں حصہ لیں گے۔

یاد رہے کہ جی 7 اجلاس 15 جون سے شروع ہوا تھا اور آج اس کا اختتام ہوگا۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: جی 7 اجلاس

پڑھیں:

ٹرمپ کی آذربائیجان سمیت وسطی ایشیائی ممالک کو اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے قائل کرنے کی کوششیں

واشنگٹن:

امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے لیے آذربائیجان اور دیگر متعدد وسطی ایشیائی ممالک کو ابراہم ایکارڈ میں شامل کرنے کے لیے متحرک ہیں اور مذاکرات کر رہے ہیں۔

غیرملکی خبرایجنسی کے مطابق اس حوالے سے باخبر 5 ذرائع نے بتایا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ آذربائیجان کے ساتھ فعال انداز میں بات چیت کر رہی ہے اور انتظامیہ کو توقع ہے کہ ان کے سرائیل کے ساتھ تعلقات گہرے ہوں۔

ذرائع نے بتایا کہ آذربائیجان اور دیگر وسطی ایشیائی ممالک کے اسرائیل کے ساتھ پہلے ہی تعلقات طویل عرصے سے تعلقات ہیں اور اس معاہدے میں شامل کرنے کا مقصد نمائشی ہے تاکہ تجارت اور عسکری تعاون سمیت تعلقات مضبوط بنانے پر توجہ دی جائے گی۔

ذرائع نے مزید بتایا کہ آذربائیجان کے حوالے سے ایک اور اہم نکتہ اس کا پڑوسی ملک آرمینیا کے ساتھ کشیدہ تعلقات ہیں کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان امن معاہدہ کروانے پر غور کر رہے ہیں تاہم اس کے لیے ابراہم ایکارڈ میں شامل ہونے کی شرط رکھی گئی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے اس حوالے سے کئی ممالک کے نام لیے ہیں تاہم آذربائیجان کے ساتھ انتہائی منظم اور سنجیدہ مذاکرات ہو رہے ہیں اور دو ذرائع نے بتایا کہ ایک مہینے یا چند ہفتوں میں یہ معاہدہ ہوسکتا ہے۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کے امن مشن کے نمائندے اسٹیو ویٹکوف نے مارچ میں آذربائیجان کے دارالحکومت باکو کا دورہ کیا تھا اور صدر الہام علیوف سے ملاقات کی اور اس کے بعد ویٹکوف کے قریبی ساتھی آریہ لائٹسٹون نے بھی صدر علیوف سے ملاقات کی تھی اور اس ملاقات میں ابراہم ایکارڈ پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ مذکورہ مذاکرات کے حصے کے طور پر آذربائیجان کے عہدیداروں نے قازقستان سمیت دیگر وسطی ایشیائی ممالک سے رابطہ کیا تاکہ ابراہم ایکارڈ کی توسیع کے لیے ان کو بھی شامل کیا جائے۔

تاحال یہ واضح نہیں ہے کہ دیگر وسطی ایشیائی ممالک میں سے کس کے ساتھ رابطہ کیا گیا ہے جبکہ خطے میں قازقستان، ازبکستان، ترکمانستان، تاجکستان اور کرغیزستان جیسے ممالک شامل ہیں۔

امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے عہدیدار نے وسطی ایشیائی ممالک کے نام تو نہیں بتائے تاہم اتنا کہا کہ ابراہم ایکارڈ کی توسیع صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بنیادی اہداف میں سے ایک ہے۔

ذرائع نے مزید بتایا کہ وسطی ایشیائی مملاک کے ساتھ مذاکرات ابھی ابتدائی مرحلے میں ہیں لیکن آذربائیجان کے ساتھ بات چیت ان کے مقابلے میں کافی آگے بڑھ گئی ہے۔

ذرائع نے واضح کیا کہ اس کے باوجود چیلنجز موجود ہیں اور معاہدہ حتمی شکل اختیار ہونے کی کوئی ضمانت نہیں ہے کیونکہ آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان مذاکرات میں پیش رفت سست روی کا شکار ہے۔

خیال رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دور صدارت میں 2020 اور 2021 میں ابراہم ایکارڈ پر دستخط کیے گئے تھے اور اس معاہدے کے تحت 4 مسلم ممالک نے امریکی ثالثی میں سرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کیے تھے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ ٹرمپ کی اس کوشش کے نتیجے میں ان کی انتظامیہ کو امید ہے کہ سعودی عرب کو بھی قائل کرلیا جائے گا۔

دوسری جانب سعودی عرب بارہا واضح کرچکا ہے کہ وہ اس وقت تک اسرائیل کو تسلیم کرنے کا قدم نہیں اٹھائے گا جب تک فلسطین کو ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا اور حالیہ جنگ کے نتیجے میں غزہ میں ہونے والی بربریت کے بعد سعودی عرب کے لیے اس طرح کا معاہدہ کرنا آسان نہیں ہوگا۔

غزہ میں اسرائیل کے وحشیانہ اقدامات کی وجہ سے بھوک ہر سو پھیلی ہوئی ہے اور بچے غذائی قلت کی وجہ سے شہید ہو رہے ہیں جبکہ اسرائیل نے امداد بھیجنے کے تمام راستے بند کر دیے ہیں۔

اسرائیل کی جنگی جنون میں اب تک 60 ہزار سے زائد فلسطینی غزہ میں شہید ہوچکے ہیں اور لاکھوں بے گھر  ہیں، شہید ہونے والے فلسطینیوں میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ٹرمپ کی آذربائیجان سمیت وسطی ایشیائی ممالک کو اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے قائل کرنے کی کوششیں
  • دنیا کی سب سے زیادہ آٹو گراف رکھنے والی بیس بال
  • اپوزیشن جماعتوں کی اے پی سی، 26ویں آئینی ترمیم کے خاتمے اور ایس آئی ایف سی کی تحلیل کا مطالبہ
  • ایران کی ایٹمی طاقت بننے کی صلاحیت ختم کردی ہے، ٹرمپ
  • ایران کیخلاف امریکی و اسرائیلی اقدامات کی روس کیجانب سے شدید مذمت
  • سینیٹ کی تجارت اور خزانہ کمیٹیوں کا کوئٹہ میں مشترکہ اجلاس،پاک ایران تجارت میں درپیش رکاوٹوں پر تبادلہ خیال
  • ڈبلیو ایل سی میں بھارت کا سیمی فائنل کھیلنے سے انکار، پی سی بی نے ہنگامی اجلاس طلب کرلیا
  • غزہ میں نسل کشی کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں، ٹرمپ کی قریبی اتحادی بھی اسرائیل کیخلاف بول پڑی
  • مشرق وسطیٰ: اقوام متحدہ کی کانفرنس دو ریاستی حل کی حامی
  • بھارت کے ’پریلے میزائل‘ کے تجربات سے خطے میں کشیدگی بڑھنے کا خدشہ