مخصوص نشستیں نظرثانی کیس: ’یہاں تو پی ٹی آئی پر قبضہ سنی اتحاد کونسل کا ہے‘، جسٹسم امین الدین خان
اشاعت کی تاریخ: 17th, June 2025 GMT
مخصوص نشستیں نظرثانی کیس: ’یہاں تو پی ٹی آئی پر قبضہ سنی اتحاد کونسل کا ہے‘، جسٹسم امین الدین خان WhatsAppFacebookTwitter 0 17 June, 2025 سب نیوز
اسلام آباد:سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں کے حوالے سے دیے گئے فیصلے کے خلاف نظرثانی اپیلوں پر گیارہ رکنی آئینی بینچ نے منگل کو بھی سماعت کی۔ بینچ کی سربراہی جسٹس امین الدین خان کر رہے ہیں جبکہ سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے تفصیلی دلائل دیے۔
سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل سے استفسار کیا، ’آج آپ دلائل مکمل کریں گے؟ اگر آج مکمل نہ کیے تو یہ نہ ہو کہ گھر میں داخلہ ہی بند ہو جائے۔‘ اس پر فیصل صدیقی نے برجستہ جواب دیا کہ ’گھر میں داخلہ تو ویسے بھی بند ہو چکا ہے۔‘
عدالت میں وکیل اور ججز کے درمیان دلائل کے دوران طنز و مزاح کے ساتھ گہری قانونی بحث بھی جاری رہی۔ جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ ’آپ کو یہ خیال کہاں سے آیا کہ عدالتی اختیارات کم ہوئے ہیں؟‘ وکیل نے کہا، ’مجھے کوئی خیال نہیں آیا‘، جس پر بینچ میں قہقہے سنائی دیے۔
فیصل صدیقی نے کہا کہ آئین میں ترمیم کا کوئی مقصد ضرور تھا، جس پر جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا، ’187 کو 175 کے ساتھ ملا کر پڑھنا ہوگا۔ میری نظر میں عدالتی اختیارات پر اچھا خاصا تقسیم پڑا ہے۔‘
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا، ’پرانا 187 اور نیا 187 پڑھیں، فرق واضح ہے۔‘ جبکہ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ ’نہ ترمیم نہ 184 تین آپ کے کیس سے متعلق ہے۔“ تاہم وکیل نے موقف اختیار کیا کہ ’سارا کیس ہی اسی سے متعلق ہے۔‘
دلائل کے دوران جسٹس امین الدین نے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، ’اگر آپ نے دلائل ختم نہ کیے تو ہم ختم کریں گے۔‘ ساتھ ہی ریمارکس دیے، ’میرے سوال پر پھر آپ کہتے ہیں وحی نازل ہوتی ہے؟‘
عدالت نے اہم سوال اٹھایا کہ ’کیا 185 میں 187 استعمال ہو سکتی ہے؟‘ اس پر فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ ’175(2) سپریم کورٹ کو اختیارات دیتا ہے۔‘
عدالت نے استفسار کیا، ’کیا سپریم کورٹ میں 185 میں مقدمہ آیا تھا؟ اور جس دائرہ اختیار میں فیصلہ ہوا کیا وہاں اختیار تھا؟‘ فیصل صدیقی نے کہا، ’پشاور ہائیکورٹ کے پاس پی ٹی آئی کو انصاف دینے کا آپشن ہی نہیں تھا، جبکہ سپریم کورٹ کے پاس مکمل اختیار ہے۔‘
جسٹس محمد علی مظہر نے سوال اٹھایا، ’کیا مکمل انصاف فراہمی میں فریق بنے بغیر ریلیف دیا جا سکتا ہے؟‘ وکیل نے کہا، ’بلکل سر، آپ کا اپنا فیصلہ موجود ہے۔‘
فیصل صدیقی نے زور دیا کہ مخصوص نشستوں کا مقدمہ پہلے سے سپریم کورٹ میں زیر التواء تھا، اور ہائیکورٹ نے خود کہا کہ ’اگر پی ٹی آئی ہوتی تو ہم فیصلہ دیتے۔‘
عدالت نے سوالات کیے کہ ’کیا سنی اتحاد کونسل میں شامل افراد نے کبھی اس سے انکار کیا؟‘ جسٹس امین الدین نے کہا، ’یہاں تو پی ٹی آئی پر قبضہ سنی اتحاد کونسل کا ہے۔‘
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا، ’بلوچستان میں دو فریقین کے درمیان جھگڑا ہوتا تھا تو زمین سرکار کی نکلتی تھی۔‘ اور مزید کہا، ’سرکار ہمارے سامنے نہ بھی ہو تو زمین ہم سرکار کو دیتے تھے کہ اس کی ملکیت ہے۔‘
عدالت نے پوچھا، ’جن لوگوں نے اپنے ہاتھ سے لکھا ہے کہ ہم آزاد ہیں، ان کی آزادی کیسے سلب کریں؟‘ فیصل صدیقی نے جواب دیا، ’وہ تواپنے گھر چلے گئے جہاں سے نکالا گیا تھا۔‘
عدالت نے الیکشن کمیشن حکام کو روسٹرم پر طلب کیا اور استفسار کیا، ’کیا آپ نے 39 امیدواروں کو نوٹیفکیشن جاری کیا؟‘ الیکشن کمیشن حکام نے کہا کہ ’نوٹیفکیشن عدالتی حکم پر جاری کیا گیا۔‘
فیصل صدیقی نے الزام لگایا کہ ’الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستوں کا نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا، جو کہ عدالتی حکم کی خلاف ورزی ہے۔‘ وکیل نے خدشہ ظاہر کیا کہ ’میں سپریم کورٹ کے مستقبل کو لیکر پریشان ہوں۔‘
جسٹس محمد علی مظہر نے الیکشن کمیشن سے پوچھا، ’آپ نے 39 ممبران کے تناسب سے مخصوص نشستیں دیں؟‘ ڈی جی لاء الیکشن کمیشن نے کہا، ’ہم 39 کی حد تک مخصوص نشستیں نہیں دے سکتے، یہ تو باقاعدہ فارمولا ہوتا ہے۔‘
جسٹس حسن اظہر رضوی نے سوال اٹھایا کہ ’اگر فارمولا ہوتا ہے تو باقی جماعتوں کو مخصوص نشستیں کیوں دیں؟‘ جسٹس مندوخیل نے کہا، ’فیصلہ ہو لینے دیتے، پھر سب کو مخصوص نشستیں دیتے۔‘
فیصل صدیقی نے زور دیا، ’یہ پی ٹی آئی کے ساتھ ناانصافی ہے۔‘
سماعت کے اختتام پر جسٹس مندوخیل نے کہا، ’یہ سب ہمارے ادارے ہیں، آج میں بیٹھا ہوں، کل کوئی اور بیٹھے گا۔‘ فیصل صدیقی نے جواب دیا، ’میرے خیال میں اگر کوئی رول ایکٹ اور آئین کے خلاف ہو تو اسے ماننا ضروری ہے جب تک کالعدم نہ ہو جائے۔‘
جسٹس مندوخیل نے کہا، ’پھر تو الیکشن کمیشن نے بھی ایسا ہی کیا۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ میرے ہوتے ہوئے سپریم کورٹ کو لتاڑیں۔‘
سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے اپنے دلائل مکمل کر لیے جس کے بعد کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبراسلام آباد: اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی کی طالبہ کا قاتل گرفتار اسلام آباد: اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی کی طالبہ کا قاتل گرفتار ایران کا اسرائیل پرنیا میزائل حملہ، ایک اسرائیلی ہلاک،20 زخمی سمندر پار پاکستانی ہی ملک کے اصل اور حقیقی سفیر ہیں، فیلڈ مارشل عاصم منیر پاکستان، سعودیہ سمیت 20 ممالک کی ایران پر اسرائیلی حملوں کی مذمت نفرت انگیز بیانیے کی روک تھام: پاکستان کا اقوام متحدہ سے عملی اقدامات کا مطالبہ اسرائیل ایران کشیدگی: ٹرمپ کا جی7 اعلامیے پر دستخط سے انکار کر دیاCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: جسٹس امین الدین سنی اتحاد کونسل امین الدین خان مندوخیل نے کہا فیصل صدیقی نے مخصوص نشستیں الیکشن کمیشن سپریم کورٹ پی ٹی ا ئی جواب دیا عدالت نے نے سوال وکیل نے
پڑھیں:
39 اراکین کی حد تک پی ٹی آئی کو نشستیں دینے کے فیصلے پر عملدرآمد کی استدعا مسترد
اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بنچ نے 39 اراکین اسمبلی کی حد تک پی ٹی آئی کو نشستیں دینے کے فیصلے پر عمل درآمد کرانے کی استدعا مسترد کردی۔
دوران سماعت جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن نے کیا 39 اراکین کو پی ٹی آئی کا ڈکلیئر کردیا ہے، وکیل فیصل صدیقی نے مؤقف اپنایا کہ ہمیں 39 اراکین کی حد تک تناسب طے کرکے نشستیں نہیں دی گئیں۔
ڈی جی لاء الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ مجموعی نشستوں پر فارمولا طے کرکے نشستیں دیں گے، جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ کیا اوروں کو دے دی ہیں؟ ڈی جی لاء الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ ابھی کسی کو نہیں دیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ 80 نشستوں کے تناسب سے تو 22 یا 23 مخصوص نشستیں بنتی ہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ جب 39 اراکین کو پی ٹی آئی کا ڈکلیئر کردیا گیا تو ان کے تناسب سے مخصوص نشستیں کیوں نہیں دیں؟
وکیل الیکشن کمیشن نے مؤقف اپنایا کہ پارلیمنٹ نے قانون بنایا جس میں کہا گیا کاغذات نامزدگی میں سیاسی وابستگی ظاہر کردی جائے تو تبدیلی نہیں ہو سکتی، قانون کا اطلاق ماضی سے کیا گیا، ہم نے اس معاملے پر ایک نظرثانی بھی دائر کر رکھی ہے، جو زیر التوا ہے۔
فیصل صدیقی نے استدلال کیا کہ اگر عدالتی فیصلے پر عمل درآمد نہیں ہوتا تو مجھے سپریم کورٹ کے مستقبل کی فکر ہے۔
بعدازاں سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بنچ نے 39 اراکین اسمبلی کی حد تک پی ٹی آئی کو نشستیں دینے کے فیصلے پر عمل درآمد کرانے کی استدعا مسترد کردی۔
Post Views: 4