شہدائے ماڈل ٹاؤن کی 11 ویں برسی، ملک بھر میں دعائیہ تقاریب
اشاعت کی تاریخ: 17th, June 2025 GMT
بانی سرپرست تحریک منہاج القرآن کا پریس کانفرنس میں کہنا ہے کہ آج 17 جون 2025ء ہے۔ 5 سال گزر جانے کے بعد بھی فیصلہ نہیں ہوا۔ لاہور ہائیکورٹ میں 5 سالوں میں 5 بنچ ٹوٹ چکے۔ دونوں طرف کے وکلاء جرح مکمل کر چکے ہیں، صرف فیصلہ سنانا باقی ہے مگر تاریخ ہی نہیں دی جا رہی۔ نہ جانے کیوں قاتلوں کے چہروں سے پردے نہیں اٹھنے دیئے جا رہے۔ اسلام ٹائمز۔ شہدائے ماڈل ٹاؤن کی 11 ویں برسی پر عوامی تحریک کی ملک بھر کی تنظیمات نے دعائیہ تقاریب منعقد کیں۔ راہ نماؤں نے شہداء کی قبروں پر پھولوں کی چادریں چڑھائیں اور درجات کی بلندی کیلئے دعائیں کیں۔ مرکزی دعائیہ تقریب مرکزی سیکرٹریٹ پر منعقد ہوئی جس میں خرم نواز گنڈاپور سمیت مرکزی قائدین اور بڑی تعداد میں کارکنان نے شرکت کی۔ تحریک منہاج القرآن کے بانی و سرپرست اعلیٰ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ویڈیو لنک پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر 3 جنوری 2019ء کو جے آئی ٹی بنی جس کے سربراہ اے ڈی خواجہ تھے۔ جے آئی ٹی نے تین ماہ کام کیا، دونوں طرف کے 281 افراد کے بیانات قلمبند کئے گئے ان میں سابق وزیراعظم اور موجودہ وزیراعظم کے بیانات بھی شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی اپنا کام مکمل کر کے چالان عدالت میں پیش کرنیوالی تھی کہ ایک ملزم ہیڈ کانسٹیبل کی درخواست پر لاہور ہائیکورٹ نے جے آئی ٹی کو کام کرنے سے روک دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے وکلاء اس آرڈر کیخلاف سپریم کورٹ گئے۔ سپریم کورٹ کے 3 رکنی بنچ نے 13 فروری 2020ء کو نیا آرڈر جاری کیا کہ 3 ماہ کے اندر ترجیحاً کیس نمٹایا جائے۔ سپریم کورٹ کے اس حکم کے تحت 13 مئی 2020ء کو فیصلہ ہو جانا چاہیے تھا مگر آج 17 جون 2025ء ہے۔ 5 سال گزر جانے کے بعد بھی فیصلہ نہیں ہوا۔ لاہور ہائیکورٹ میں 5 سالوں میں 5 بنچ ٹوٹ چکے۔ دونوں طرف کے وکلاء جرح مکمل کر چکے ہیں، صرف فیصلہ سنانا باقی ہے مگر تاریخ ہی نہیں دی جا رہی۔ نہ جانے کیوں قاتلوں کے چہروں سے پردے نہیں اٹھنے دیئے جا رہے۔
دریں اثناء پاکستان عوامی تحریک کے سیکرٹری جنرل خرم نواز گنڈاپور نے دعائیہ تقریب کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جے آئی ٹی کو کام کرنے سے روک کر انصاف کے عمل کو روکا گیا ہے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہداء کے ورثاء مسلسل انصاف مانگ رہے ہیں۔ اے ٹی سی، لاہور ہائیکورٹ، سپریم کورٹ میں سینکڑوں پیشیاں بھگت چکے مگر غیر جانبدار تفتیش کا ابتدائی مرحلہ بھی شروع نہیں ہو سکا۔ انہوں نے کہا کہ عوامی تحریک کے امن اور قانون پسند کارکنان حصولِ انصاف کے لئے قانونی جدوجہد کر رہے ہیں۔ جب تک انصاف نہیں مل جاتا یہ جدوجہد جاری رکھی جائے گی۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: لاہور ہائیکورٹ سپریم کورٹ جے آئی ٹی کہا کہ
پڑھیں:
انکم ٹیکس مسلط نہیں کرسکتے تو سپرکیسے کرسکتے ہیں : سپریم کورٹ
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ کے جج جسٹس حسن اظہر رضوی نے سپر ٹیکس سے متعلق کیس میں ریمارکس دیئے ہیں کہ جب انکم ٹیکس مسلط نہیں کر سکتے تو سپر ٹیکس کیسے مسلط کر سکتے ہیں۔ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بنچ نے درخواستوں پر سماعت کی۔ ایف بی آر کی وکیل نے موقف اختیار کیا کہ مقننہ نے پروویڈنٹ فنڈ والوں کو سپر ٹیکس میں کسی حد تک چھوٹ دی ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دئیے سیکشن 53 ٹیکس میں چھوٹ سے متعلق ہے، فنڈ کسی کی ذاتی جاگیر تو نہیں ہوتا، ٹرسٹ اتھارٹیز سے گزارش کرتا ہے اور پھر ٹیکس متعلقہ کو دیا جاتا ہے۔ جسٹس امین الدین نے ریمارکس دئیے سپر ٹیکس کی ادائیگی کی ذمہ داری تو شیڈول میں دی گئی ہے۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا جب انکم ٹیکس مسلط نہیں کر سکتے تو سپر ٹیکس کیسے مسلط کر سکتے ہیں۔ ایک مثال لے لیں کہ ابھی فنڈ پر 100 روپے ٹیکس لگتا ہے، 25 سال بعد یہ سو روپے بڑھتے بڑھتے 550 روپے ہو جائیں گے۔ مطلب یہ کہ ریٹائرمنٹ کے بعد جو فوائد ملتے ہیں وہ نہیں ملیں گے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا سیکنڈ شیڈول میں پروویڈنٹ فنڈ پر سپر ٹیکس سمیت ہر ٹیکس پر چھوٹ ہوتی ہے۔ جسٹس جمال نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ تو آپکو محترمہ کو راستہ دکھا رہے ہیں۔ وکیل عاصمہ حامد نے موقف اپنایا مقننہ حکومت کے لیے انتہائی اہم سیکٹر ہے، ٹیکس پئیرز اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کا ایک حصہ اور سیکشن فور سی کو اکٹھا کرکے پڑھ رہے ہیں، شوکاز نوٹس اور دونوں کو اکٹھا کر کے پڑھ کر وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ سپر ٹیکس دینے کے پابند نہیں ہیں، جس بھی سال میں اضافی ٹیکس کی ضرورت ہو گی وہ ٹیکس ڈیپارٹمنٹ بتائے گا، ایک مخصوص کیپ کے بعد انکم اور سپر ٹیکس کم ہوتا ہے، ختم نہیں ہوتا۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دئیے آج کل تو ہر ٹیکس پیئر کو نوٹس آ رہے ہیں کہ ایڈوانس ٹیکس ادا کریں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا سپر ٹیکس ایڈوانس میں کیسے ہو سکتا ہے، ایڈوانس ٹیکس کے لیے کیلکولیشن کیسے کریں گے؟ وکیل نے موقف اختیار کیا مالی سال کا منافع موجود ہوتا ہے اس سے کیلکولیشن کی جا سکتی ہے۔ ایف بی آر کے دوسرے وکیل نے کہا کہ میں سپر ٹیکس سے متعلق قانونی اور آئینی نقطوں پر معاونت کروں گا۔