Jasarat News:
2025-08-02@09:18:14 GMT

ایران کے لیے پاکستان کی حمایت، اسرائیل کی نیندیں حرام!

اشاعت کی تاریخ: 17th, June 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

داناؤں کا قول ہے، اہل ِ علم کا تجزیہ ہے اور زندگی کا تجربہ ہے کہ ظلم جب حد سے بڑھ جائے تو وہی ظلم اپنے بوجھ سے پاش پاش ہو جاتا ہے۔ تاریخ نے بارہا منظر دیکھا ہے کہ جبر کی بنیاد پر کھڑی کی گئی عمارتیں تیز ہوا کے جھونکوں سے زمین بوس ہو جاتی ہیں۔ شاید یہی وہ وقت ہوتا ہے جب مظلوموں کی فریادیں آسمانوں سے بجلی بن کر ظالموں پر گرنے کو بیتاب ہوتی ہیں۔
فلسطین کے نہتے بچوں کی لاشوں پر خاموش کھڑی دنیا، اور اسرائیل کی سنگ دلی پر فخر کرنے والے، اب پہلی مرتبہ اْس خوف کی لذت چکھ رہے ہیں جو برسوں سے غزہ کی گلیوں، مسجد ِ اقصیٰ کی سجدہ گاہوں اور رفح کے کیمپوں میں سانسیں گھونٹتا رہا۔ اس بار اسرائیلی عوام کے چہروں پر بھی مستقبل کے حوالے سے وہی سوالات ابھرنے لگے ہیں، جو کل تک صرف ایک مظلوم فلسطینی ماں کی آنکھوں میں ہوتے تھے۔ وجہ یہ ہے کہ اب کی بار کہانی ذرا مختلف ہے۔
اس بار سامنے اپنے دفاع کے لیے کنکریاں اٹھائے معصوم فلسطینی بچے نہیں، بلکہ میزائلوں سے لیس ایک مضبوط ایران کھڑا ہے۔ وہ ایران، جو ہر وار کے بعد جواب دینے کی سکت اور حوصلہ دونوں رکھتا ہے۔ اور یہی وہ لمحہ ہے جب اسرائیلی خفیہ ادارے، فوج اور سیاست دان یہ سمجھنے لگے ہیں کہ برسوں جس خوف کو وہ دوسروں کے دلوں میں بوتے رہے، وہی بیج اب ان کی اپنی سرزمین پر تناور درخت بن چکا ہے، جو موت کا سایہ بن کر منڈلا رہا ہے۔ اور یہ صرف ایران کا معاملہ نہیں۔ اس بار تو آواز پاکستان سے بھی بلند ہوئی ہے۔ ایسی توانا، اصولی، دوٹوک، غیر مبہم اور برادرانہ آواز، جو نہ صرف سفارتی محاذوں پر گونجی، بلکہ عالمی میڈیا، اقوامِ متحدہ، پارلیمانی اجلاسوں اور وزارتی پریس کانفرنسوں پر بھی چھا گئی۔ پاکستان نے واضح اعلان کیا: ہم ایران کے ساتھ ہیں، شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔
مقامِ شکر ہے کہ اس بار پاکستان کے دفتر ِ خارجہ نے اپنی قوم کی امنگوں کی صحیح ترجمانی کی۔ ایک جرأت مندانہ موقف اپناتے ہوئے کہا گیا کہ اسرائیلی حملے اقوامِ متحدہ کے منشور کی کھلی خلاف ورزی ہیں اور پاکستان اسلامی جمہوریہ ایران کے حق ِ دفاع کو مکمل تسلیم کرتا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے صہیونی حملے کو ’’شدید غیر ذمے دارانہ‘‘ قرار دیا۔ عوام کے دلوں کی آواز بنتے ہوئے قومی اسمبلی و سینیٹ نے ایک متفقہ قرارداد کے ذریعے ایران سے اظہارِ یکجہتی کیا۔ وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر اسرائیل کو کھلے الفاظ میں جارح اور خطے کے امن کے لیے خطرہ قرار دیا۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے اعلان کیا: ہم ایرانی بھائیوں کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ جبکہ صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے اقوامِ متحدہ سے اسرائیل کو جواب دہ بنانے کا مطالبہ کیا۔ اقوامِ متحدہ میں پاکستانی سفیر نے ایران کے دفاع کی بین الاقوامی و قانونی بنیادوں پر بھرپور وکالت کی۔
درحقیقت، یہ سب محض بیانات نہیں بلکہ وہ صدا ہے جو اسرائیلی ایوانوں میں ہلچل مچا چکی ہے۔ اسرائیلی میڈیا، تجزیہ کار اور سروے رپورٹس بتا رہے ہیں کہ اس بار اسرائیلی عوام وہ اعتماد کھو چکی ہے جو ظلم کرتے وقت اس یقین سے وابستہ ہوتا تھا کہ کوئی جواب نہیں آئے گا۔ مگر اب ایران کے میزائل ان کے فوجی اڈوں اور جدید عمارتوں کو زمین بوس کر رہے ہیں، جس کے نتیجے میں موت سے ڈرنے اور زندگی سے محبت کرنے والی قوم پر شدید خوف طاری ہے۔ انہیں اب معلوم نہیں کہ ایران کا اگلا وار کہاں گرے گا۔
ایک طرف ایران کے میزائلوں کا خوف ہے، تو دوسری جانب قدرت کا کوڑا پاکستان کی صورت برسنے لگا ہے۔ اسرائیل کو یہ اندیشہ لاحق ہے کہ اگر پاکستان جیسے ایٹمی مسلم ملک نے ایران کی عملی مدد شروع کر دی، تو یہ جنگ صرف میزائلوں کی نہیں بلکہ کھلے عام حق و باطل، کفر و اسلام کی ایک بڑی جنگ بن جائے گی۔ جبکہ اسرائیل ہمیشہ اس تنازعے کو عرب بمقابلہ یہود کے خانوں میں بانٹنے کی کوشش کرتا آیا ہے تاکہ غیر عرب مسلمانوں کو دھوکے میں رکھا جا سکے۔
پھر دیکھیے اسرائیلی ذہنیت کی ہٹ دھرمی! یہ قوم خود کو ہمیشہ ’’خدا کی پسندیدہ قوم‘‘ کہتی آئی ہے، اور دیگر اقوام کو جینے کے قابل بھی نہیں سمجھتی۔ ان کے مذہبی لٹریچر میں غیر یہودیوں، بالخصوص مسلمانوں کے خلاف جو کچھ لکھا گیا ہے، وہ ان کی فکری تنگ نظری اور سفاکی کا کھلا ثبوت ہے۔
بہرحال انبیا ؑ کی قاتل اور خوش فہمیوں کی شکار بنی اسرائیل کی قوم شاید بھول گئی تھی کہ ظلم جب حد سے بڑھتا ہے تو دعاؤں کے در کھل جاتے ہیں۔ شاید یہی وہ لمحہ ہے کہ جب برسوں سے کمزور، منتشر اور مصلحت کا شکار امت ِ مسلمہ بیدار ہو رہی ہے۔ ایران کی جرأت، اور پاکستان کی غیرت، امت ِ مسلمہ کے لیے نئی روح بننے لگی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ امت جاگتی ہے یا تاریخ ایک اور موقع ضائع ہوتا دیکھے گی۔ مگر ایک بات طے ہے، جیسا کہ علامہ اقبال نے کہا تھا:
’’مسلماں کو مسلماں کردیا طوفانِ مغرب نے!‘‘
اب دیکھنا یہ ہے کہ امت ِ مسلمہ اس بیداری کو کس سمت لے جاتی ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ایران کے کے لیے

پڑھیں:

اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کی کوشش، امریکی ایلچی کی اسرائیلی وزیراعظم سے ملاقات

امریکی خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف نے جمعرات کو اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو سے ملاقات کی تاکہ غزہ میں انسانی بحران پر قابو پانے اور جنگ بندی مذاکرات کو بحال کرنے کی کوشش کی جا سکے۔

وٹکوف کی آمد کے فوراً بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی سوشل میڈیا ویب سائٹ ‘ٹروتھ سوشل’ پر لکھا کہ غزہ میں انسانی بحران کے خاتمے کا تیز ترین طریقہ یہ ہے کہ حماس ہتھیار ڈال دے اور تمام یرغمالیوں کو رہا کرے۔

اسرائیلی سرکاری نشریاتی ادارے ‘کان’ کے مطابق امریکی ایلچی وٹکوف غزہ میں ایک امدادی تقسیم کے مقام کا دورہ بھی کریں گے۔

یہ بھی پڑھیے: اسرائیلی فنکاروں اور دانشوروں کا نیتن یاہو حکومت کے خلاف عالمی پابندیوں کا مطالبہ

واضح رہے کہ غزہ میں قحط کی صورتحال پر عالمی سطح پر تشویش بڑھ رہی ہے جبکہ ایک بین الاقوامی ادارے نے خبردار کیا ہے کہ وہاں قحط جنم لے چکا ہے۔

دوحہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان بالواسطہ جنگ بندی مذاکرات گزشتہ ہفتے کسی نتیجے کے بغیر ختم ہو گئے تھے، اور دونوں فریق ایک دوسرے پر تعطل کا الزام لگا رہے ہیں۔ مذاکرات میں اختلافات کا مرکز اسرائیلی افواج کی واپسی کی حد جیسے اہم امور ہیں۔

ذرائع کے مطابق اسرائیل نے بدھ کے روز امریکی تجویز میں حماس کی حالیہ ترامیم پر اپنا ردعمل پیش کیا، جس کے تحت 60 روزہ جنگ بندی، یرغمالیوں کی رہائی، اور فلسطینی قیدیوں کے تبادلے کی بات کی گئی ہے۔ تاہم حماس کی جانب سے فوری طور پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔

یہ بھی پڑھیے: غزہ میں نسل کشی کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں، ٹرمپ کی قریبی اتحادی بھی اسرائیل کیخلاف بول پڑیں

اس دوران غزہ میں طبی حکام نے بتایا ہے کہ اسرائیلی فائرنگ سے کم از کم 23 افراد جاں بحق ہوئے، جن میں 12 وہ افراد شامل ہیں جو امداد حاصل کرنے کے لیے نیٹزاریم کوریڈور کے قریب جمع ہوئے تھے۔ یہ علاقہ وسطی غزہ میں اسرائیلی افواج کے زیر قبضہ ہے۔

اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے صرف وارننگ شٹس فائر کیے تاکہ ہجوم کو منتشر کیا جا سکے تاہم امدادی تنظیمیں اسرائیلی افواج پر راشن حاصل کرنے کے لیے جمع ہونے والے فلسطینیوں کی ہلاکت کا ذمہ دار ٹھہرا رہی ہیں۔

غزہ کی وزارت صحت کے مطابق جنگ کے آغاز سے اب تک بھوک اور غذائی قلت کے باعث 156 اموات ہو چکی ہیں، جن میں کم از کم 90 بچے شامل ہیں۔ یہ اموات زیادہ تر حالیہ ہفتوں میں ہوئی ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسرائیل امریکی ایلچی غزہ فلسطین وٹکوف

متعلقہ مضامین

  • سکیورٹی خدشات، اسرائیل کا یو اے ای سے سفارتی عملہ واپس بلانے کا فیصلہ
  • بلوچستان پر اسرائیلی توجہ پر توجہ کی ضرورت
  • اسرائیل کی مقبوضہ مغربی کنارے پر بھی قبضے کی تیاری  
  • اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کی کوشش، امریکی ایلچی کی اسرائیلی وزیراعظم سے ملاقات
  • ایران کیخلاف امریکی و اسرائیلی اقدامات کی روس کیجانب سے شدید مذمت
  • ایاز صادق کی ایرانی ہم منصب سے ملاقات، دو طرفہ تعلقات مزید مستحکم بنانے پر اتفاق
  • امریکی سینیٹ میں اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی روکنے کے پیش دوقراردادیں مسترد
  • غزہ کو اسرائیل میں ضم کرنیکی صیہونی دھمکی
  • ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی بھرپور حمایت کرتے ہیں، چین
  • فلسطینی عوام کی ایک آزاد ریاست کے قیام کی بھرپور حمایت کرتے ہیں، چین