ازدواجی زندگی میں لچک، سمجھوتہ اور مالی استحکام ضروری ہے، فضیلہ قاضی و قیصر نظامانی
اشاعت کی تاریخ: 18th, June 2025 GMT
لاہور(نیوز ڈیسک)سینئر اداکارہ فضیلہ قاضی اوران کے شوہر معروف فنکار قیصر خان نظامانی نے نوجوان جوڑوں کو ازدواجی زندگی سے متعلق مفید مشورے دیے۔
فضیلہ قاضی نے کہا ہے کہ محبت کا مطلب یہ نہیں کہ ہر کام ایک جیسا ہو بلکہ ایک دوسرے کو جگہ دینا، برداشت اور لچک دکھانا ضروری ہے۔
شادی کا اتنا ذکر کر لیا، شاید اسی وجہ سے نہیں ہو رہی: لائبہ خان
انہوں نے کہا کہ ہم دونوں مختلف پس منظر سے آئے لیکن ایک دوسرے کو سمجھ کرخود کو بدلا اور یہی کامیاب رشتے کی بنیاد ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ میاں بیوی کے درمیان نہ صرف ایک دوسرے کو وقت دینا ضروری ہے بلکہ خود کو بھی وقت دینا رشتے کو مضبوط کرتا ہے۔
قیصرنظامانی نے کہا کہ گھرایک ملک کی طرح ہوتا ہے جس کی بنیاد معیشت پر ہے، مرد کا مالی طور پرمستحکم ہونا خاندان کے تحفظ کے لیے اہم ہے۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
پڑھیں:
ہم سب قصور وار ہیں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ہم ایک عجیب قوم ہیں۔ ہماری گلیوں میں شور ہے، بازاروں میں بے ہنگم ہجوم ہے، اور گھروں میں بے سکونی ہے، مگر ہر شخص مطمئن بیٹھا ہے کہ اس کا اس سب سے کوئی تعلق نہیں۔ ہم صبح آنکھ کھولتے ہیں، اور بغیر کسی اجتماعی ذمے داری کے دن گزار کر سو جاتے ہیں۔ ہمارا دل چاہتا ہے کہ سارا نظام بدلے، مگر ہمارے ہاتھ صرف تنقید کی حد تک حرکت کرتے ہیں۔ ہماری سوچ فرد کی سطح پر تیز ہے، لیکن قوم کی سطح پر مفلوج۔ ہم اپنی ذاتی پریشانی پر تو چیخ اٹھتے ہیں، لیکن جب دوسروں پر ظلم ہوتا ہے تو محض تماشائی بنے رہتے ہیں۔ یہ بے حسی، یہ انفرادیت کی انتہا، ہمیں رفتہ رفتہ ایک غیر ذمے دار معاشرہ بنا رہی ہے۔
سب سے پہلا اور بنیادی مسئلہ ’’اجتماعی شعور‘‘ کا فقدان ہے۔ یہ وہ شعور ہے جو انسان کو اپنی ذات سے بلند ہو کر سوسائٹی کے حق میں سوچنے پر آمادہ کرتا ہے۔ ہم افراد کی صورت میں چالاک، موقع شناس اور فائدہ اٹھانے والے ہیں، مگر قوم کی صورت میں سست، غیر منظم اور غافل ہیں۔ ہم اپنے حصے کی صفائی کرتے ہیں، مگر دوسروں کی گندگی پر احتجاج نہیں کرتے۔ ہمیں صرف اپنے بچوں کی تعلیم، اپنی ترقی، اور اپنے مفادات عزیز ہیں، اور یہی چیز ہمیں ’’ہم‘‘ بننے سے روک رہی ہے۔ دوسرا مسئلہ ’’تعلیم کی افادیت کا غلط تصور‘‘ ہے۔ تعلیم صرف ڈگری کا نام نہیں، بلکہ شعور، رویّے اور کردار کی تربیت کا نام ہے۔ ہم نے علم کو محض امتحانات اور ملازمت کی تیاری تک محدود کر دیا ہے۔ ہماری درسی کتب میں اقدار موجود ہیں، مگر ہمارا تعلیمی ماحول ان اقدار سے خالی ہے۔ استاد کا کردار تنخواہ دار ملازم بن چکا ہے، اور طالب علم محض نوٹوں کا غلام۔ جب تعلیم صرف معاشی ترقی کا ذریعہ بنے اور اخلاقی تربیت پس منظر میں چلی جائے، تو پھر معاشرے میں بظاہر تعلیم یافتہ مگر اخلاقی طور پر قلاش افراد ہی بڑھتے ہیں۔
معاشی ناہمواری کا تذکرہ محض غربت سے متعلق نہیں، بلکہ اس کے پیچھے ایک سماجی و اخلاقی المیہ چھپا ہے۔ سرمایہ دار طبقہ اپنے محلات کے دروازے بند کر کے جھگیوں کی طرف آنکھ اٹھانا بھی پسند نہیں کرتا۔ یہاں مسئلہ صرف وسائل کی کمی کا نہیں، بلکہ وسائل کی تقسیم کا ہے۔ ایک طرف نمود و نمائش کا سیلاب ہے، اور دوسری طرف ضرورت کی اشیاء کے لیے ترستی آنکھیں۔ اس تضاد نے نہ صرف سماجی ٹکراؤ کو جنم دیا ہے بلکہ احساس محرومی اور نفرت کا بیج بھی بویا ہے۔ معاشرے کی اصل بنیاد اخلاقی اقدار ہوتی ہیں۔ جب سچائی، دیانت، وعدہ وفا، اور رحم دل رویہ ناپید ہو جائے، تو قانون بے اثر، مذہب بے روح اور تعلیم بے مقصد ہو جاتی ہے۔ ہم بظاہر مذہبی معاشرہ ہیں، مگر ہمارے اعمال ہمارے اقوال سے متضاد ہیں۔ عبادات میں مصروف قوم اگر معاملات میں بددیانت ہو تو وہ مذہب کی نمائندگی نہیں، بلکہ اس کی غلط تصویر پیش کر رہی ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ مذہب صرف روحانی عمل نہیں بلکہ عملی زندگی کا نظام بھی ہے۔
ہم نے اختلاف کو دشمنی کا درجہ دے دیا ہے۔ جس کا نظریہ ہم سے مختلف ہو، اس کو نہ صرف غلط سمجھتے ہیں بلکہ اس کے وجود کو بھی برداشت نہیں کرتے۔ یہی روش ہے جو معاشروں کو تباہی کی طرف لے جاتی ہے۔ اختلاف رائے ایک فطری عمل ہے، مگر اس کے اظہار کا سلیقہ اور دوسروں کی بات سننے کا ظرف اگر نہ ہو تو سماج حیوانیت کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔ ہم نے زبان کو علم کے ابلاغ کا ذریعہ نہیں بلکہ نفرت کے اظہار کا ہتھیار بنا لیا ہے۔ میڈیا کسی قوم کی اجتماعی ذہن سازی کا ذریعہ ہوتا ہے، مگر ہمارے ہاں یہ ذریعہ خود ایک منفی نفسیات کی پرورش گاہ بن چکا ہے۔ سچ کی جگہ سنسنی، تحقیق کی جگہ فتوے، اور علم کی جگہ افواہیں چھا گئی ہیں۔ نوجوان نسل میڈیا کو سیکھنے کے بجائے محض تفریح کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ ہم نے علم کو میمز میں، اور شعور کو کلپس میں محدود کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قوم کا حافظہ کمزور اور فہم محدود ہوتا جا رہا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ان تمام مسائل کا حل کیا ہے؟
پہلا حل ’’انفرادی اصلاح‘‘ ہے۔ ہمیں خود سے شروع کرنا ہوگا۔ ہمارے چھوٹے چھوٹے اعمال جیسے سچ بولنا، وقت پر آنا، لائن میں لگنا، دوسروں کا احترام کرنا، یہ سب معاشرتی تعمیر کے بنیادی ستون ہیں۔ جب تک فرد کی سطح پر اخلاقیات کا چراغ روشن نہیں ہوگا، تب تک قوم کی اجتماعی روشنی ممکن نہیں۔ دوسرا حل ’’کردار سازی پر مبنی تعلیم‘‘ ہے۔ ہمیں ایک ایسی تعلیمی پالیسی کی ضرورت ہے جو صرف ذہنوں کو نہیں، بلکہ دلوں کو بھی سنوارے۔ جہاں علم کے ساتھ حلم سکھایا جائے، اور قابلیت کے ساتھ خدمت، سچائی اور شائستگی کو بھی اہمیت دی جائے۔ تیسرا حل ’’معاشی نظام کی تطہیر‘‘ ہے۔ ہمیں ایسا معاشی ماڈل درکار ہے جو دولت کو چند ہاتھوں میں سمٹنے سے روکے، اور ہر فرد کو بنیادی ضروریات زندگی کی ضمانت دے۔ محض فلاحی اسکیموں سے کچھ نہیں ہوگا، اصل حل عدل پر مبنی معاشی ڈھانچے میں ہے۔ چوتھا حل ’’سماجی ہم آہنگی‘‘ ہے۔ زبان، مسلک، علاقہ — ان سب کو ثانوی شناخت بنا کر، ’’انسان‘‘ اور ’’امت‘‘ کی پہلی شناخت کو اجاگر کرنا ہوگا۔ جب تک ہم خود کو ٹکڑوں میں بانٹتے رہیں گے، ہم کبھی ایک ملت نہیں بن سکیں گے۔ پانچواں حل ’’میڈیا کی تہذیب‘‘ ہے۔ میڈیا کو تجارتی ادارہ نہیں، تعلیمی ادارہ بنانا ہوگا۔ ہمیں اپنے نوجوانوں کو یہ سکھانا ہوگا کہ سوشل میڈیا صرف وقت گزاری نہیں بلکہ اصلاح، علم، اور خیر کے فروغ کا ایک طاقتور ذریعہ ہے۔
آخری بات: ہم اس قوم کے فرد ہیں جسے قدرت نے عقل، وسائل، اور ایمان جیسی نعمتیں دی ہیں۔ مگر جب تک ہم خود ان نعمتوں کا صحیح استعمال نہیں کریں گے، ہم غلام ذہن، مجبور حالات اور شکست خوردہ مزاج کا شکار رہیں گے۔
سوچنے کا وقت ہے: ہم کیا چاہتے ہیں؟ محض نظام کو کوسنا؟ یا خود کو بدل کر اس بگڑے نظام کا متبادل بننا؟ یہی وقت ہے اپنے حصے کی شمع جلانے کا — کیونکہ اندھیرا جتنا بھی گہرا ہو، ایک دیے کی روشنی کا انکار نہیں کر سکتا۔