ایچ آر سی پی نے وفاقی بجٹ کو غریب دشمن اور تشویشناک قرار دے دیا
اشاعت کی تاریخ: 18th, June 2025 GMT
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے وفاقی بجٹ 2025-2026 کو ملک کے کمزور اور پسماندہ طبقات کے معاشی و سماجی حقوق کے لیے تشویشناک اور اسے غریب دشمن قرار دیا ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق ایچ آر سی پی نے وفاقی بجٹ کے حوالے سے پریس کانفرنس کی جس میں کہا کہ بجٹ سخت کفایت شعاری کے فریم ورک اور آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت مرتب کیا گیا ہے، جس میں ان لاکھوں شہریوں کے لیے کوئی حقیقی ریلیف شامل نہیں جو 2022 سے 2024 تک جاری رہنے والے مہنگائی کے بحران سے پہلے ہی بدحال ہو چکے ہیں۔
ایچ آر سی پی نے کہا ہے کہ اگرچہ تنخواہ دار طبقے پر انکم ٹیکس کی شرح میں معمولی کمی کی گئی ہے، مگر یہ رعایت اتنی نہیں کہ گزشتہ برسوں میں ختم ہوتی ہوئی خریداری کی طاقت کو بحال کیا جا سکے۔
کمیشن نے اس بات پر بھی سخت تشویش ظاہر کیا کہ وفاقی سطح پر کم از کم اجرت میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا اور یہ بدستور 37 ہزار روپے ماہانہ پر قائم ہے، جو ایک چھ رکنی خاندان کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے ناکافی ہے۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا جیسے صوبوں میں اگرچہ یہ حد بڑھا کر 40 ہزار روپے مقرر کی گئی ہے، لیکن موجودہ مہنگائی کے تناظر میں یہ اضافہ حقیقی آمدنی میں کمی کا ازالہ نہیں کرتا۔
ایچ آر سی پی نے کہا کہ سندھ میں 80 فیصد صنعتیں کم از کم اجرت کے قانون پر عملدرآمد نہیں کر رہیں اور یہ رجحان پورے ملک میں پایا جاتا ہے۔ ایچ آر سی پی نے صحت، تعلیم اور سماجی تحفظ جیسے اہم شعبوں کے لیے مختص فنڈز کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
’صحت کے لیے جی ڈی پی کا صرف 0.
ایچ آر سی پی کی جانب سے منعقدہ بریفنگ میں معروف ماہرِ معیشت ڈاکٹر فہد علی نے نشاندہی کی کہ جب ملک کی 45 فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے اور 88 فیصد افراد کی ماہانہ آمدنی 75 ہزار روپے سے کم ہے جو ایک ’زندہ اجرت‘ کے طور پر درکار ہے تو ایسے میں بجٹ میں سماجی انصاف اور انسانی وقار کا فقدان باعثِ تشویش ہے۔
ایچ آر سی پی کے سیکرٹری جنرل حارث خلیق نے وفاقی وزیر خزانہ کی جانب سے کم از کم اجرت میں اضافہ نہ کرنے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹرینز کی تنخواہوں میں ’غیر معمولی اور غیر متناسب‘ اضافے کا اعلان اس فیصلے سے تضاد رکھتا ہے۔
ایچ آر سی پی پنجاب کے نائب صدر راجہ اشرف نے کہا کہ صحت اور تعلیم کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے، جبکہ ایچ آر سی پی کی سینئر منیجر فیروزا بتول نے کہا کہ غریب دشمن بجٹ سے سب سے زیادہ متاثر خواتین ہوتی ہیں۔ ایچ آر سی پی کے خزانچی حسین نقی نے زور دیا کہ بجٹ کی معاشی و سماجی اثرات پر قومی اسمبلی میں تفصیل سے بحث ہونی چاہیے۔
کمیشن نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی مالی ترجیحات پر نظرثانی کریں اور معاشی بحالی کے منصوبوں کو پسماندہ طبقوں کے حقوق اور ضروریات کے مرکز میں رکھیں جب تک عوامی صحت، تعلیم اور سماجی تحفظ میں سنجیدہ سرمایہ کاری نہیں کی جاتی، اس وقت تک مساوی شہری حقوق کا وعدہ محض ایک دعویٰ ہی رہے گا۔
انہوں نے کہا کہ انسانی وقار کے ساتھ زندگی کا حق کوئی ایسا مطالبہ نہیں جسے مالی نظم و ضبط کے نام پر پسِ پشت ڈال دیا جائے جبکہ یہ حق بجٹ کے مرکز میں ہونا چاہیے۔
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
وفاقی حکومت کا بڑا فیصلہ: سولر پینلز پر سیلز ٹیکس میں کمی کا اعلان
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں سولر پینلز پر عائد کیے گئے 18 فیصد سیلز ٹیکس میں کمی کا اعلان کردیا ہے، اب یہ ٹیکس کم ہو کر 10 فیصد پر آ گیا ہے۔
میڈیا رپورٹس کےمطابق قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے نائب وزیراعظم و وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ حکومت نے بجٹ تجاویز پر نظرثانی کرتے ہوئے سولر پینلز پر سیلز ٹیکس کی شرح 18 فیصد سے کم کرکے 10 فیصد کرنے کا فیصلہ کیا ہے، یہ فیصلہ اتحادی جماعتوں کی مشاورت اور عوامی ردعمل کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ ڈیجیٹل سروسز پر سیلز ٹیکس صوبوں کا اختیار ہے، اس حوالے سے وفاقی حکومت کوئی مداخلت نہیں کرے گی، سندھ کی جامعات کے لیے مختص رقم 2 ارب 60 کروڑ روپے سے بڑھا کر 4 ارب 60 کروڑ روپے کر دی گئی ہے تاکہ اعلیٰ تعلیم کے شعبے کو مستحکم بنایا جا سکے۔
انہوں نے مزید کہاکہ حکومتی فیصلے کو عوامی سطح پر قدر کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے، بجلی کے متبادل ذرائع کی تلاش میں مصروف شہریوں کے لیے کسی حد تک ریلیف ثابت ہو سکتا ہے۔
واضح رہے کہ حکومت نے ابتدائی طور پر 2025-26 کے بجٹ میں سولر پینلز پر 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنے کی تجویز دی تھی، جس پر شدید تنقید سامنے آئی، سولر انڈسٹری، ماحولیاتی تنظیموں اور عام صارفین نے اس ٹیکس کو مہنگائی اور قابلِ تجدید توانائی کی راہ میں رکاوٹ قرار دیا تھا۔