Express News:
2025-08-03@09:54:31 GMT

کیا کوئی اس جنگ کو روک سکتا ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 19th, June 2025 GMT

ایران اور اسرائیل جنگ جاری ہے۔ اسرائیل نے ایران پر جارحیت کی ہے۔ امریکا اور بھارت کے سوا پوری دنیا اسرائیل کی مذمت کر رہی ہے۔ پاکستان نے ایران کی غیرمعمولی سفارتی اور اخلاقی حمایت کی ہے۔ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں بھی پاکستان نے ایران کی غیر معمولی حمایت کی ہے۔

ایران کے صدر نے ایران کی پارلیمان میں اپنے خطاب میں پاکستان کا خصوصی شکریہ ادا کیا ہے۔ روس اور چین نے بھی ایران پر اسرائیلی جارحیت کی کھلے الفاظ میں مذمت کی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ 1973کے بعد پہلی دفعہ اسرائیل کو مزاحمت کا سامنا ہے۔ ورنہ اس سے پہلے اسرائیل نے جتنی بھی جنگیں لڑی ہیں۔ اسے کسی بھی قسم کی مزاحمت کا سامنا نہیں رہا ہے۔

حماس کے خلاف لڑائی میں اسرائیل کو کسی بھی قسم کی مزاحمت کا سامنا نہیں تھا۔ اسی طرح حزب اللہ اور شام میں بھی اسرائیل کو کسی خاص مزاحمت کا سامنا نہیں تھا۔ لیکن ایران نے اسرائیل کو قابل ذکر مزاحمت دی ہے۔ ایران کے میزائیل اسرائیل تک پہنچے ہیں۔ انھوں نے وہاں قابل ذکر نقصان کیا ہے۔ اسرائیل سے ہلاکتوں اور بلڈنگ کے تباہ ہونے کی خبریں بھی آرہی ہیں۔

اسرائیل نے اپنے میڈیا میں ایران کے میزائیلوں سے ہونے والے نقصان کی کوریج پر پابندی لگا دی ہے۔ اب وہاں سے نقصان کی فوٹیج آنا بند ہو گئی ہے۔ اسرائیل کے شہری اسرائیل چھوڑ کر جانے لگے ہیں۔ اسرائیلی حکومت نے شہریوں کے ملک چھوڑنے پر پابندی لگا دی ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ اسرائیل میں ایرانی میزائیل کا خوف سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ لوگ ڈر گئے ہیں، لوگ حفاظتی بنکرز میں راتیں گزار کر بھی تھک گئے ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایران یہ جنگ جیت گیا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ ایران نے ایک قابل ذکر مزاحمت کی ہے۔ دوسری طرف اسرائیل کی بھی ایران پر بمباری جاری ہے۔ یہ درست ہے کہ گزشتہ روز تہران میں اسرائیل کے خلاف مظاہرہ ہوا ہے، لوگوں میں جوش و خروش تھا۔ اسرائیل کی بمباری سے تہران اور پورے ایران میں بہت تباہی ہوئی ہے۔ اسرائیل کی نسبت ایران کا جانی نقصان بھی زیادہ ہوا ہے۔ اس کا ویسے بھی نقصان زیادہ ہوا ہے۔ تقابلی جائزہ میں یقیناً ایران کا زیادہ نقصان ہوا ہے۔ اسرائیل کو برتری ہے۔ لیکن جواب میں ایران نے اسرائیل کا جتنا بھی نقصان کیا ہے۔ وہ بھی قابل ذکر ہے۔

ایران کا بڑا مسئلہ تہران اور ملک بھر میں موجود موساد کا نیٹ ورک ہے۔ ایران کا جتنا بھی نقصان ہوا ہے اس میں ایران میں موجود موساد کے نیٹ ورک کا بڑا ہاتھ ہے۔ ایران کی فوجی قیادت اور سائنسدانوں کی شہادت کی وجہ بھی ایران میں موجود موساد کا نیٹ ورک ہی تھا۔ اب بھی ایران کے لیے اسرائیلی جارحیت سے زیادہ بڑا مسئلہ ایران کے اندر موساد کا نہایت موثر نیٹ ورک ہے۔ موساد کا اتنا مضبوط نیٹ ورک یقیناً ایران کی ناکامی ہے۔

یہ نیٹ ورک کوئی ایک دن میں نہیں بنا ہے۔ جب اسرائیل نے حماس کے سربراہ کو تہران میں شہید کیا تھا تب ہی یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ موساد کا ایران میں نیٹ ورک بہت مضبوط ہے۔ اب بھی اسرائیل نے دوبارہ یہ بات واضح کی ہے کہ اس کا ایران میں جاسوسی نیٹ ورک بہت مضبوط ہے۔

ایران نے اب تک یہ کوشش کی ہے کہ امریکا کو اس لڑائی سے دور رکھا جائے۔ اس لیے اسرائیلی حملہ سے پہلے ایران یہی کہہ رہا تھا کہ اگر اس پر حملہ ہوا تو ایران خطہ میں موجود امریکی اڈوں کو نشانہ بنائے گا۔ لیکن جنگ کے کئی دن بعد میں ایران نے کسی بھی امریکی اڈے کو نشانہ نہیں بنایا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فی الحال اس کی کوشش ہے کہ امریکا کواس جنگ میں شامل نہ کیا جائے۔ وہ اکیلے اسرائیل کے ساتھ لڑنا چاہتا ہے۔

دوسری طرف اسرائیل ضرور امریکا پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ جنگ میں ساتھ شامل ہو۔ یہ سوال بھی اہم ہے کہ ایسا کونسا کام ہے جو اسرائیل اکیلا نہیں کر سکتا اور اس کو امریکا کی ضرورت ہے۔ اسرائیل کے پاس ساری جنگی ٹیکنالوجی موجود ہے۔امریکا آکر کیاکرے گا جو اسرائیل خود نہیں کر سکتا۔ یہ اہم سوال ہے۔ آخر اسرائیل کیا چاہتا ہے۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ امریکا کے ساتھ شامل ہونے سے اسرائیل پر سفارتی دباؤ کم ہو جائے گا۔اس کی سفارتی اور سیاسی تنہائی کم ہو جائے گی۔ یقیناً امریکا کے ساتھ شامل ہونے سے جنگ تیز ہو جائے گی۔ لیکن دفاعی تجزیہ نگاروں کی رائے میں سب سے بڑا مسئلہ ایرانی کی فردو میں نیوکلیئر سائیٹ ہے۔ یہ پہاڑوں کے نیچے ہے۔ وہاں اسرائیلی بم نہیں پہنچ سکتے۔ وہاں مارنے والے بم صرف امریکا کے پاس ہیں۔

امریکا اپنے طیارے جو یہ بم مار سکتے ہیں خطہ میں لے آیا ہے۔ لیکن یہ بم کب مارے گا یہی سوال ہے۔ سوال فردو کو تباہ کرنے کا ہے۔ جب امریکی صدر کہتے ہیں کہ ہم نیوکلیئر سائیٹ تباہ کریں گے تو یقیناً فردو کی ہی بات ہو رہی ہوتی ہے۔ کیا تہران اسرائیل کے ساتھ ایک لمبی لڑائی لڑ سکتا ہے۔ یہ اہم سوال ہے۔ ایران کے پاس میزائیلوں کا محدود ذخیرہ ہے۔ اس کی نئے میزائیل بنانے کی صلاحیت ختم ہو گئی ہے۔ وہاں بمباری ہوئی ہے۔ اس وقت نئے میزائیل کی پروڈکشن بند ہو گئی ہے۔ جو میزائیل موجود ہیں ان کی تعداد محدود ہے۔ لوگ تین ہزار میزائیل کی بات کر رہے ہیں۔

اس میں سے بھی کہا جا رہا ہے کہ ایران نے ایک ہزار استعمال کر لیے ہیں۔ اس لیے پہلے ایران روزانہ دو سو میزائیل چلا رہا تھا۔ اب تیس سے پچاس چلا رہا ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہے کہ سب نہیں اسرائیل پہنچتے، امریکا ان میزائلوں کو روکنے میں اسرائیل کی مدد کر رہا ہے۔ لیکن پھر بھی میزائیل پہنچتے ہیں، کم پہنچ رہے ہیں۔ اس لیے ایران ایک لمبے عرصہ تک یہ میزائیل نہیں چلا سکتا۔ پھر ختم ہو جائیں گے، پھر کیا ہوگا۔ اس لیے لمبی لڑائی ایران کے حق میں نہیں لیکن سیز فائر کی کوئی صورتحال نظر نہیں آرہی۔ آج تک غزہ میں سیز فائر نہیں ہوا۔ آج سیز فائر ایران کی فتح سمجھا جائے گا۔

آج سیز فائر اسرائیل اور امریکا کی شکست قرار دیا جائے گا۔ ایک عمومی رائے یہی ہوگی کہ ایران نے خوب مقابلہ کیا۔ میزائیل مارے اور اسرائیل اور امریکا کو سیز فائر پر مجبور کر دیا۔ اسی لیے امریکی صدر نے ٹوئٹ کیے ہیں کہ ایران کا غیر مشروط سرنڈر چاہیے۔ یہ غیر مشروط سرنڈر کیا ہوگا۔ کیا نیوکلیئر سائٹس کی تباہی کے بعد جنگ بند ہو جائے گی۔ مجھے نہیں لگتا۔ پہلے یہ سمجھنا ہوگا کہ غیر مشروط سرنڈر کیا ہے۔ کیا ایران میں رجیم چینج غیر مشروط سرنڈر ہوگا۔

کیا وہاں رجیم چینج کا کوئی منصوبہ موجود ہے۔ جو ایک دم سامنے آئے گا۔بار بار کہا جا رہا ہے کہ خامنائی کو ہم مار سکتے ہیں مار نہیں رہے۔ کیا خامنائی کو مارنے کا ماحول بنایا جا رہا ہے۔

کیا اس کے لیے ماحول کو تیار کیا جا رہا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ بھی کہہ رہے ہیں کہ ہم انھیں مار سکتے ہیں مار نہیں رہے۔ آگے کیا ہوگا۔ شاید اچھا نہیں ہوگا۔ دنیا کا کوئی بھی ملک اور کوئی بھی بین الاقوامی پلیٹ فارم اسرائیل کو روک نہیں سکتا۔ امریکا روک سکتا ہے لیکن وہ روکنا نہیں چاہتا۔ باقی کسی میں اتنی طاقت نہیں۔ سب بیان جاری کر سکتے ہیں۔ کوئی اس جنگ کو روک نہیں سکتا۔ جیسے کوئی غزہ اور لبنان میں نہیں روک سکتا تھا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: مزاحمت کا سامنا اسرائیل کے اسرائیل کو اسرائیل کی اسرائیل نے ایران میں میں ایران بھی ایران جا رہا ہے ایران نے موساد کا سیز فائر ایران کے سکتے ہیں ایران کا نے ایران امریکا ا نقصان کی کہ ایران ایران کی ہو جائے کے ساتھ نیٹ ورک کو روک کیا ہے ہیں کہ اس لیے ہو گئی ہوا ہے

پڑھیں:

غزہ: رقصِ مرگ

آپ ماضی اور حال کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں، جنگیں کبھی بھی مسائل کا حل نہیں ہوتیں بلکہ ہر دو فریق کے لیے مزید تباہی و بربادی کا سامان لے کر آتی ہیں۔ فریقین کو ہر صورت مذاکرات کی میز پر بیٹھنا پڑتا ہے جس کی تازہ مثالیں پاک بھارت اور اسرائیل ایران جنگیں ہیں۔ دونوں مرتبہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مداخلت سے جنگ کے بادل چھٹ گئے۔

امریکی صدر متعدد بار اپنے اس کردار کا مختلف مواقعوں پر تذکرہ کر چکے ہیں کہ انھوں نے پاک بھارت جنگ رکوائی، ورنہ یہ دونوں ملکوں کے درمیان طویل اور خوف ناک جنگ میں تبدیل ہو جاتی۔ انھوں نے ایران کے خلاف جارحیت روکنے کے لیے اسرائیل پر دباؤ ڈالا تو جنگ بندی ممکن ہوئی لیکن حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ صدر ٹرمپ فلسطین کے نہتے اور بے گناہ لوگوں کے خلاف اسرائیل کی جارحیت روکنے میں ناکام چلے آ رہے ہیں بلکہ نیتن یاہو کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے کہ وہ معصوم بچوں، عورتوں، بزرگوں اور مردوں پر اندھا دھند فائرنگ کر کے روزانہ 80/70 فلسطینیوں کو شہید کر رہا ہے۔ نیتن یاہو کی سفاکی، بربریت اور شقی القلبی کا عالم یہ ہے کہ اس نے پورے غزہ کو کھنڈرات میں تبدیل کردیا ہے۔ گھر، بازار، مکان، اسپتال اور اسکول غرض غزہ میں کوئی عمارت سلامت نہیں ہے۔ ہر عمارت بے گناہ فلسطینیوں کے خون سے رنگی ہوئی ہے۔ ظلم کی انتہا یہ کہ نیتن یاہو امدادی کاموں میں بھی رخنہ اندازی کر رہا ہے۔

غذا کے حصول کے لیے برتن لیے قطاروں میں کھڑے معصوم بچوں اور عورتوں کو بھی نشانہ بنا رہا ہے۔ ہزاروں بچے غذائی قلت کے باعث بھوک سے نڈھال ہو کر موت کی آغوش میں جا رہے ہیں۔ المیہ یہ کہ اسرائیلی وحشت کا رقص رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔غزہ میں جنم لینے والے انسانی المیے نے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا ہے۔ شدید عالمی دباؤ کے بعد اسرائیل نے محدود پیمانے پر امدادی سامان کے لیے راہداری دے دی ہے اور چند گھنٹوں کی رسمی طور پر بمباری روکنے کا بھی عندیا دیا ہے، لیکن غزہ کی صورت حال انتہائی نازک اور سنگین ہو چکی ہے تمام عالمی اداروں کی رپورٹیں غزہ کی بگڑتی ہوئی حالت پر بڑا سوالیہ نشان ہیں۔ اقوام متحدہ، عالمی ادارہ صحت، ورلڈ فوڈ پروگرام اور یونیسف کے ذمے دار ادارے متعدد بار وارننگ دے چکے ہیں کہ اگر امدادی سامان کو بروقت مظلوم فلسطینیوں تک نہ پہنچایا گیا تو غزہ میں غذائی قلت اور بھوک سے مرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

امریکی صدر ٹرمپ جنگ بندی کے لیے پرامید ضرور ہیں لیکن مطالبہ یہ کیا جا رہا ہے کہ حماس ہتھیار ڈالے اور تمام قیدیوں کو غیر مشروط طور پر رہا کر دے۔ جب کہ اسرائیل کی خواہش یہ ہے کہ غزہ پر کسی صورت مکمل اپنا کنٹرول حاصل کرکے فلسطینیوں کو غزہ سے بے دخل کر دیا جائے۔ اکتوبر 2023 سے شروع ہونے والے اسرائیلی حملوں میں اب تک 60 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں اور اس سے زائد تعداد زخمیوں کی ہے جو بمباری سے تباہ ہونے والے اسپتالوں کے باعث علاج معالجے سے محروم ہو چکے ہیں۔ حد درجہ دکھ اور المیہ یہ ہے کہ تدفین کے لیے قبرستانوں میں جگہ نہیں، چار و ناچار اجتماعی قبروں میں شہدا کو دفن کیا جا رہا ہے، لیکن قیام امن اور دنیا میں انسانی حقوق کے ذمے دار ملکوں اور اداروں کی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ وہ اسرائیل کے بڑھتے ہوئے قدم روکنے میں ناکام ہیں۔

محض زبانی کلامی باتیں کی جا رہی ہیں اور نام نہاد ہمدردی کے بیانات دیے جا رہے ہیں۔ برطانوی وزیر اعظم کا یہ بیان حوصلہ افزا ہے کہ اگر اسرائیل غزہ میں صورت حال کی بہتری کے لیے ٹھوس اقدامات نہیں کرتا تو برطانیہ ستمبر میں فلسطین کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم کرے گا۔ فرانس نے بجا طور پر یہودی آبادکاروں کے تشدد کو ’’دہشت گردی‘‘ قرار دیا ہے لیکن انتہائی حیرت و افسوس اور دکھ کی بات یہ ہے کہ اسلامی ملکوں کی تنظیم او آئی سی کسی گہرے مراقبے میں ڈوبی ہوئی ہے۔ عرب دنیا مظلوم فلسطینیوں کے حقوق اور ان پر ڈھائے جانے والے اسرائیلی ظلم و ستم سے بے بہرہ ہو چکی ہے۔ 80 ہزار فلسطینی شہید ہوگئے، قحط کا رقص مرگ جاری ہے اور مسلم امہ پر خاموشی طاری ہے۔

حماس اسرائیل جنگ میں عالم اسلام کے کردار پر بڑے سوالیہ نشانات ہیں۔ پوری دنیا میں تقریباً 57 اسلامی ممالک ہیں جن میں پاکستان واحد اسلامی ایٹمی قوت ہے، مسلمانوں کی باقاعدہ ایک تنظیم ہے جو اسلامی تعاون تنظیم کے نام سے اپنی شناخت رکھتی ہے۔ گزشتہ تقریباً پونے دو سال سے اسرائیل بے گناہ فلسطینیوں پر توپوں، طیاروں اور میزائلوں سے آتش و آہن کی بارش کر رہا ہے، فلسطین ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔

کوئی عمارت، اسکول، اسپتال، بازار اور پناہ گاہ سلامت نہیں۔ آبادیوں کی آبادیاں ملبے کا ڈھیر بن چکی ہیں۔ پوری دنیا میں اسرائیلی بربریت اور اس کے سفاکانہ مظالم کے خلاف غیر مسلم عوام مظاہرے اور جنگ بندی کے مطالبات کر رہے ہیں، لیکن اسلامی ممالک کی نمایندہ تنظیم نے اپنے طور پر کیا اقدامات اٹھائے؟ تیل کی دولت سے مالا مال اسلامی ممالک اگر متحد ہو کر تیل کو بطور ہتھیار استعمال کرکے امریکا پر دباؤ ڈالیں کہ وہ اپنے بغل بچہ اور کٹھ پتلی اسرائیل کو بے گناہ اور نہتے فلسطینیوں کے خلاف ظلم و ستم سے باز رہے تو یقینا ایک موثر قدم ثابت ہو سکتا ہے۔ لیکن مسلم ممالک کی قیادت اپنے اپنے مفادات کے زیر اثراسرائیل کے خلاف بھرپور اور موثر اقدمات اٹھانے سے قاصر ہے۔

گزشتہ پونے دو سال میں او آئی سی کا ایک بھی سربراہ اجلاس نہیں بلایا گیا کہ جس کے نتیجے میں کوئی جامع عملی اقدامات اٹھائے جاتے اور فلسطینیوں کو اسرائیلی جارحیت سے نجات کی کوئی راہ نکلتی۔او آئی سی محض نشستند، گفتند اور برخاستند سے آگے کوئی ٹھوس، جامع اور عملی اقدامات اٹھانے سے قاصر ہے مسلم امہ کی بے حسی فلسطینیوں کو خون کے آنسو رلا رہی ہے، وہاں صہیونی بربریت میں اضافہ ہو رہا ہے نتیجہ چار سُو موت رقصاں ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ایرانی صدر سے علماء کے وفد کی ملاقات اسرائیل کیخلاف جنگ میں بہادری کو سراہا 
  • مسائل کو جنگ، تشدد اور طاقت سے ہرگز حل نہیں کیا جا سکتا، میر واعظ
  • ریحام خان اور بشریٰ بی بی سے شادی کرنے والا کبھی لیڈر نہیں ہو سکتا، شبر زیدی
  • امریکا اور اتحادیوں کا ایران پر بیرون ملک قتل و اغوا کی سازشوں کا الزام
  • غزہ: رقصِ مرگ
  • امریکا نے فلسطین اتھارٹی اور پی ایل او پر پابندیاں عائد کردیں
  • امریکا نے فلسطینی اتھارٹی اور پی ایل او پر پابندیاں عائد کردیں
  • ایران کیخلاف امریکی و اسرائیلی اقدامات کی روس کیجانب سے شدید مذمت
  • زیارات کے زمینی راستوں کو محفوظ بنانا ریاست کی ذمہ داری ہے، علامہ سبطین سبزواری
  • امریکا پاکستان تجارتی ڈیل! پاکستان کو کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟