data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

غزہ (مانیٹرنگ ڈیسک) اسرائیلی حملوں میں غزہ کی پٹی کے مختلف علاقوں میں کم از کم 84 افراد شہید ہو گئے، ان میں بھوک سے متاثرہ خوراک کی تلاش میں امدادی مرکز کے باہر موجود 16 وہ فلسطینی بھی شامل ہیں جنہیں اسرائیلی افواج نے ٹینکوں، کواڈکاپٹر بموں سے نشانہ بنایا۔ مارے جانے والوں میں سے 59 افراد غزہ شہر اور شمالی علاقوں میں جاں بحق ہوئے، 16 دیگر افراد شمالی اور جنوبی غزہ کو تقسیم کرنے والے نیتزاریم کوریڈور کے قریب امداد کے انتظار میں تھے، اس حملے میں کئی لوگ زخمی بھی ہوئے۔ امریکا اور اسرائیل کی حمایت یافتہ غزہ ہیومنیٹیرین فاؤنڈیشن کی
جانب سے خوراک کی تقسیم کے لیے لوگ روزانہ جمع ہو رہے ہیں، اقوام متحدہ نے اس فاؤنڈیشن پر امداد کو ’ہتھیار‘ بنانے کا الزام لگایا ہے۔ امدادی مقام پر اسرائیلی حملے کے گواہ بسام ابو شعر نے ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ لوگ خوراک حاصل کرنے کی امید میں رات سے جمع تھے۔رات کے وقت انہوں نے ہم پر فائرنگ شروع کر دی، ٹینکوں، طیاروں اور کواڈ کاپٹر بموں سے فائرنگ میں شدت آگئی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نہ تو ان کی مدد کر سکتے تھے اور نہ ہی خود فرار ہو سکتے تھے، ہجوم کے بڑے حجم کی وجہ سے اسرائیلی گولہ باری سے بچنا ممکن نہیں تھا، خاص طور پر شہدا جنکشن کے قریب رش بہت زیادہ تھا۔ حالیہ ہفتوں میں خوراک کی امداد حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے فلسطینیوں پر اسرائیلی حملوں میں اضافہ ہوا ہے، جس کے نتیجے میں درجنوں افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔
غزہ

.

ذریعہ: Jasarat News

پڑھیں:

اسرائیلی فوج کی طرف سے فلسطینی بچوں کو سر اور سینے میں گولیاں مار کر قتل کرنے کا انکشاف

غزہ جنگ: اسرائیلی فوج کی جانب سے بچوں کو نشانہ بنانے کا انکشاف، 95 فیصد بچوں کو سر یا سینے میں گولی ماری گئی

غزہ میں اسرائیلی فوج کی کارروائیوں سے متعلق ایک چونکا دینے والی رپورٹ سامنے آئی ہے جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ غزہ میں شہید ہونے والے فلسطینی بچوں کی اکثریت کو سر یا سینے میں گولیاں ماری گئیں۔

یہ انکشاف برطانوی میڈیا کی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، 160 سے زائد کیسز کا جائزہ لیا گیا جن میں میڈیکل رپورٹس، عینی شاہدین کی گواہیاں، اور تصاویر کو بنیاد بنایا گیا۔ اس تجزیے سے معلوم ہوا کہ 95 فیصد بچوں کو ایسی گولی ماری گئی جو عام طور پر فوری موت کا سبب بنتی ہے۔

شہید بچوں کے اہلِ خانہ کا کہنا ہے کہ یہ بچے نہتے تھے، ان کے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھے، اور وہ زیادہ تر کھیل رہے ہوتے تھے یا حملوں سے بچنے کے لیے بھاگ رہے ہوتے تھے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ ان بچوں میں سے اکثر کی عمر بارہ سال سے کم تھی۔

رپورٹ سامنے آنے کے بعد انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں نے اس معاملے پر جنگی جرائم کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ رپورٹ اسرائیلی فوج کی کارروائیوں پر سنگین قانونی اور اخلاقی سوالات اٹھاتی ہے۔


 

متعلقہ مضامین

  • غزہ، صیہونی فورسز نے مزید 62 فلسطینیوں کو شہید کر دیا
  • اسرائیلی جارحیت جاری، غزہ میں امدادی مراکز پر حملے، 57 فلسطینی شہید
  • اسرائیلی فوج کی طرف سے فلسطینی بچوں کو سر اور سینے میں گولیاں مار کر شہید کرنے کا انکشاف
  • اسرائیلی فوج کی طرف سے فلسطینی بچوں کو سر اور سینے میں گولیاں مار کر قتل کرنے کا انکشاف
  • غزہ: اسرائیلی فورسز کی فائرنگ سے 62 فلسطینی شہید، زیادہ تر امداد کے متلاشی تھے
  • غزہ: بھوک نے مزید 12 افراد کی جان لے لی، اسرائیلی حملوں میں 100سے زائد فلسطینی شہید
  • غزہ میں خونریزی کا نیا سلسلہ: ایک دن میں 111 شہید، بھوک سے مزید اموات
  • غزہ پر صیہونی جارحیت جاری، امداد کے منتظر 2 فلسطینوں سمیت 15 افراد شہید، 70 زخمی
  • موت کا سفر!!
  • غزہ میں اسرائیلی حملے جاری، 41 فلسطینی شہید، بچوں کے لیے دودھ کی شدید قلت