غنیٰ علی نے کم عمری میں شادی کیوں کی؟ اداکارہ نے وجہ بتا دی
اشاعت کی تاریخ: 20th, June 2025 GMT
پاکستان شوبز کی اداکارہ غنیٰ علی نے کم عمری میں شادی کو تحفظ کی علامت قرار دے دیا۔
اداکارہ غنیٰ علی نے حال ہی میں ایک پوڈکاسٹ میں شرکت کے دوران اپنی ذاتی زندگی اور شادی سے متعلق خیالات کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ شوبز انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے شادی ایک قسم کا تحفظ فراہم کرتی ہے، کیونکہ شادی کے بعد انہیں معاشرتی طور پر زیادہ عزت دی جاتی ہے۔
اداکارہ کے مطابق وہ 26 سال کی عمر میں تنہائی محسوس کرنے لگی تھیں اور دل سے کسی ہمسفر کی دعا کرتی تھیں۔ غنیٰ علی نے بتایا کہ اللّٰہ نے ان کی دعا سن لی اور انہیں ایسا جیون ساتھی عطا کیا جس کے ساتھ وہ خوشی سے زندگی گزار رہی ہیں اور خود کو بےحد محفوظ محسوس کرتی ہیں۔
https://www.
انہوں نے مزید کہا کہ ان کے شوہر ہمیشہ انہیں اس بات کی تلقین کرتے ہیں کہ اگر عورت اپنی حدود کا خیال رکھے تو معاشرہ بھی اس کی عزت کرتا ہے۔ اداکارہ کے مطابق خواتین کو اپنی عزت خود بنانی پڑتی ہے اور ہر وقت ہر تقریبات یا محفلوں میں شرکت کرنا ضروری نہیں ہوتا۔
غنیٰ علی نے اس بات پر زور دیا کہ وقار اور اخلاقیات ہر عورت کی پہچان ہونی چاہیے، یہی طرزِ زندگی عزت اور تحفظ کا باعث بنتا ہے۔
TagsShowbiz News Urdu
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: علی نے
پڑھیں:
غزہ: تیرہ سالہ عبدالرحمٰن کی کہانی جسے حصول خوارک میں گولیاں کھانی پڑیں
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 20 جون 2025ء) غزہ میں امداد کی تقسیم کے مرکز پر فائرنگ سے زخمی ہونے والے 13 سالہ عبدالرحمٰن خان یونس کے نصر ہسپتال میں انتقال کر گئے ہیں۔ موت سے پہلے انہوں نے یونیسف کے نمائندے کو اپنی داستان سنائی جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ علاقے میں خوراک کا حصول جان کو خطرے میں ڈالے بغیر ممکن نہیں رہا۔
عبدالرحمٰن کو کمر اور پیٹ پر شدید زخم آئے تھے۔
یونیسف کے ترجمان جیمز ایلڈر ہسپتال میں ان سے ملنے آئے تو انہوں نے اصرار کیا کہ وہ ان کی باتیں سنیں تاکہ انہیں دنیا تک پہنچایا جا سکے۔ Tweet URLشدید تکلیف کے باوجود عبدالرحمٰن اپنے والد اور دیگر لوگوں کا سہارا لے کر بستر پر بیٹھ گئے اور ترجمان سے کہا کہ وہ ویڈیو کے ذریعے اپنے ساتھ پیش آنے والے حالات کے بارے میں بتانا چاہتے ہیں۔
(جاری ہے)
بھوکوں کی قطار پر فائرنگان کا کہنا تھا کہ چند روز قبل والد نے انہیں کچھ رقم دے کر روٹی لانے کو کہا۔ جب وہ اس مقصد کے لیے نکلے تو انہیں بہت سے لوگ ایک امدادی مرکز کی جانب جاتے دکھائی دیے جو 'غزہ امدادی فاؤنڈیشن' کے زیرانتظام چلایا جاتا ہے۔ عبدالرحمٰن نے اپنے گھرانے کے لیے روٹی کے علاوہ مزید کھانا لے جانے کا سوچتے ہوئے اس مرکز کا رخ کر لیا اور وہاں تنگ سی جگہ پر لوگوں کی طویل قطار میں جا کھڑے ہوئے۔
ابھی انہیں قطار میں لگے کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ وہاں گولہ باری شروع ہو گئی اور ان کے آگے کھڑے لوگ ہلاک و زخمی ہو کر زمین پر گر گئے۔ اسی دوران بارودی مواد کے ٹکڑے عبدالرحمٰن کی کمر اور پیٹ میں بھی لگے جس سے وہ شدید زخمی ہو گئے۔ کچھ لوگوں نے انہیں ہسپتال پہنچایا جہاں ڈاکٹروں نے ان کا آپریشن کر کے بم کے کئی ٹکڑے جسم سے نکالے لیکن اب بھی اس کے بعض حصے ان کے جسم میں موجود تھے۔
عبدالرحمٰن نے بتایا کہ انہیں شدید تکلیف ہے اور وہ کئی گھنٹوں سے دردکش ادویات مانگ رہے ہیں جو انہیں نہیں ملیں۔ بم کے ٹکڑے عبدالرحمٰن کے لبلبے اور تلی تک پہنچ گئے تھے جس سے ان کی جان خطرے میں تھی۔
'سبھی شریک جرم ہیں'جیمز ایلڈر کہتے ہیں کہ کمسن عبدالرحمٰن نے دیکھا کہ ایک جگہ خوراک تقسیم ہو رہی ہے تو وہ اسے حاصل کرنے کے لیے وہاں چلے گئے لیکن اس جگہ ان کا استقبال بموں اور گولیوں سے ہوا۔
یونیسف نے عبدالرحمٰن کے ساتھ جیمز ایلڈر کی ویڈیو 6 جون کو جاری کی تھی جسے سوشل میڈیا پر بہت سے لوگوں نے دیکھا اور اس پر تبصرہ کیا۔ اس سے ایک روز بعد انہوں نے یہ ویڈیو دوبارہ پوسٹ کی اور لکھا کہ جب بچوں کو ہمارے سامنے ہلاک و زخمی کیا جا رہا ہو اور تو ہم اس المیے کا مشاہدہ ہی نہیں کر رہے ہوتے بلکہ اس میں ملوث بھی ہوتے ہیں۔
ویڈیو پوسٹ ہونے سے چند روز کے بعد عبدالرحمٰن زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے انتقال کر گئے۔
شدید غذائی قلتعبدالرحمٰن نے جو کچھ بتایا وہ غزہ کے بہت سے لوگوں کی داستان ہے۔ یونیسف کے مطابق غزہ میں ہزاروں بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔ مئی 2025 میں ہی 6 ماہ سے 5 سال تک عمر کے پانچ ہزار بچوں کو اقوام متحدہ کے زیراہتمام چلائے جانے والے غذائیت کے مرکز میں علاج کے لیے پہنچایا گیا۔ یہ اپریل کے مقابلے میں 50 فیصد اور فروری میں جنگ بندی کے عرصہ سے موازنہ کیا جائے تو دو گنا بڑی تعداد ہے۔
ان میں 636 بچے انتہائی شدید غذائی قلت کا شکار ہیں جو اس کی سب سے سخت اور مہلک قسم ہے۔ انہیں روزانہ علاج معالجے، خاطرخواہ غذائیت، صاف پانی اور متواتر نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ غزہ میں یہ سہولیات تقریباً غیرموجود ہیں۔
قابل حل مسئلہمشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے لیے یونیسف کے ریجنل ڈائریکٹر ایڈورڈ بیگبیڈر نے بتایا ہے کہ رواں سال کے ابتدائی پانچ ماہ میں غزہ کے 16,736 بچوں کو غذائی قلت کے علاج کے لیے ہسپتالوں میں لایا گیا۔
اس طرح گویا روزانہ 112 بچوں کو علاج معالجے کی ضرورت پڑی۔انہوں نے کہا ہے کہ ایسے تمام بچوں کو غذائی قلت سے بچانا ممکن ہے۔ یہ بچے خوراک، پانی اور غذائیت کے علاج سے محروم ہیں جس کی انہیں ہنگامی بنیاد پر ضرورت ہے۔ ان کی یہ محرومی انسانوں کے فیصلوں کا نتیجہ ہے جس کی قیمت یہ بچے اپنی زندگی کی صورت میں چکا رہے ہیں۔