ماحولیاتی تبدیلیاں غیر معمولی سطح پر‘ 60 سائنسدانوں کا انتباہ
اشاعت کی تاریخ: 21st, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن (انٹرنیشنل ڈیسک) موسمیات سے متعلق 60 سے زائد ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کے اہم اشارے اپنی غیر معمولی سطح تک پہنچ چکے ہیں، جو پہلے کبھی مشاہدے میں نہیں آئے۔ان اشاروں میں کاربن سے پیدا ہونے والی آلودگی، سمندروں کی سطح میں اضافہ اور زمین کا گرم ہونا شامل ہے۔ ماہرین کے مطابق 2024ء میں فوسل فیول جلانے اور جنگلات کی کٹائی سے پیدا ہونے والی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج نے ایک نیا ریکارڈ قائم کیا اور گزشتہ دہائی کے دوران ان کا سالانہ اوسط حجم 53.
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
پلوٹو پر حیرت انگیز نئی فضا دریافت: نیلی فضائی تہیں سائنسدانوں کیلیے معما بن گئیں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
نظامِ شمسی کے سب سے دورافتادہ اور پراسرار سیارے پلوٹو سے متعلق ایک نئی سائنسی دریافت نے ماہرین فلکیات کو حیران کر دیا ہے۔
جدید ترین خلائی تحقیقاتی ٹیکنالوجی جیمز ویب ٹیلی اسکوپ کی مدد سے سائنسدانوں کو پلوٹو پر ایک غیر معمولی فضائی نظام کا سراغ ملا ہے، جو نہ صرف باقی تمام سیاروں سے مختلف ہے بلکہ ماہرین اسے ایک ’’بالکل نئی قسم کا کلائمیٹ‘‘قرار دے رہے ہیں۔
یہ انکشاف دراصل جیمز ویب ٹیلی اسکوپ کے مڈ-انفراریڈ انسٹرومنٹ سے حاصل کردہ ڈیٹا سے کیا گیا، جس میں پلوٹو کی فضا میں موجود باریک ذرات سے خارج ہونے والی تھرمل ریڈی ایشن یعنی حرارتی تابکاری کا مشاہدہ کیا گیا۔ یہ تابکاری انفراریڈ لہروں کی صورت میں سامنے آئی، جو خاص طور پر رات کے وقت ان فضائی ذرات سے خارج ہوتی ہے، جب سورج کی روشنی ختم ہو جاتی ہے اور یہ ذرات ٹھنڈے ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق پلوٹو کی فضا میں یہ حرارت پیدا کرنے اور خارج کرنے کا عمل اس قدر متوازن اور نایاب ہے کہ اس جیسا نظام نہ زمین پر پایا جاتا ہے، نہ مریخ پر اور نہ ہی زحل کے چاند ٹائٹن پر، جنہیں اب تک فضا کے پیچیدہ نظاموں کے حامل سیارے مانا جاتا تھا۔
اس نئی دریافت سے ظاہر ہوتا ہے کہ پلوٹو کی فضا اور موسمیاتی توازن ایک نئی کلاس میں آتے ہیں، جسے سائنسی اصطلاح میں ’’نیو کلائمیٹ‘‘کہا جا رہا ہے۔
پلوٹو کی فضا میں جو نیلی اور کثیف تہیں دیکھی گئی ہیں وہ سطحِ زمین سے تقریباً 300 کلومیٹر کی بلندی تک پھیلی ہوئی ہیں۔ ان تہوں کو ’’ہائی ایلٹیٹیوڈ ہیز‘‘(High-Altitude Haze) کا نام دیا گیا ہے۔ یہ تہیں بنیادی طور پر نائٹروجن اور میتھین جیسے مرکبات پر مشتمل ہیں، جو دن کے وقت سورج کی روشنی کو جذب کرتی ہیں اور رات کو یہ توانائی تھرمل ریڈی ایشن کی شکل میں خارج کر دیتی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ پلوٹو کی فضا دن کو گرم اور رات کو خودبخود ٹھنڈی ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ 2017ء میں فلکیاتی ماہرین نے پیش گوئی کی تھی کہ پلوٹو کی فضا میں موجود یہ باریک ہیز اس کے ماحول کو ٹھنڈا کرنے کا باعث بنتے ہیں،تاہم اُس وقت یہ محض ایک نظریہ تھا۔ اب جیمز ویب ٹیلی اسکوپ کی مدد سے حاصل ہونے والے ڈیٹا نے اس سائنسی مفروضے کو حقیقت میں بدل دیا ہے اور یہ ثابت ہو گیا ہے کہ یہ ہیز درحقیقت ایک متحرک تھرمل سسٹم کی طرح کام کرتے ہیں۔
پلوٹو کی فضا کا یہ نظام نہ صرف سادہ گیسوں جیسے نائٹروجن یا میتھین پر مشتمل ہے، بلکہ ان گیسوں کے ایسے مرکبات پر مشتمل ہے جو ہائی ایلٹیٹیوڈ پر خاص انداز سے کام کرتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ فضائی تہیں اتنی باریک اور شفاف ہیں کہ انہیں صرف جدید ترین انفراریڈ آلات سے ہی دیکھا جا سکتا ہے اور ان کی تفصیل عام دوربینوں یا پرانی سیٹلائٹس سے نہیں دیکھی جا سکتی تھی۔
یہ نیا موسمیاتی نظام سائنسدانوں کے لیے ایک نیا سوال بھی کھڑا کرتا ہے کہ اگر پلوٹو پر اتنا منفرد اور متوازن موسمیاتی نظام موجود ہے، تو کیا نظامِ شمسی کے دیگر بعید سیاروں پر بھی اسی قسم کے پوشیدہ موسمیاتی نظامات ہو سکتے ہیں؟ اور اگر ایسا ہے تو کیا ان میں سے کچھ ایسے حالات رکھتے ہیں جو زندگی کی ابتدائی شکلوں کے لیے سازگار ہو سکتے ہیں؟
ماہرین اس دریافت کو کائناتی تحقیق میں ایک سنگِ میل قرار دے رہے ہیں۔ پلوٹو، جسے 2006ء میں ایک مکمل سیارے کے درجے سے ہٹا کر ’’بونے سیارے‘‘ (Dwarf Planet) کا درجہ دے دیا گیا تھا، اب ایک بار پھر سائنسی دلچسپی کا مرکز بن گیا ہے۔ اس کی فضا، ساخت اور سطح پر تحقیق اب پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہو چکی ہے۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ جیمز ویب ٹیلی اسکوپ کی مدد سے مستقبل قریب میں مزید مشاہدات کیے جائیں گے تاکہ اس حیرت انگیز فضائی نظام کی تفصیلات کو بہتر طور پر سمجھا جا سکے۔ سائنسدان امید رکھتے ہیں کہ یہ تحقیق نہ صرف پلوٹو بلکہ نظامِ شمسی کے دیگر بعید اجسام کے بارے میں بھی نئے دروازے کھولے گی، جنہیں اب تک نظرانداز کیا جاتا رہا ہے۔
یہ دریافت فلکیاتی سائنسی دنیا کے لیے ایک نیا چیلنج بھی ہے، کیونکہ اب ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ زمین پر موجود لیبارٹریوں میں بھی ایسے ماڈلز تیار کریں جو پلوٹو کے اس انوکھے موسمیاتی نظام کی نقل کر سکیں اور اس پر تجربات کر کے مزید پہلوؤں کو سامنے لا سکیں۔