کیاعدالت عظمیٰ کو بے پناہ اختیارات حاصل ہیں؟ کوئی حدتو ہونی چاہیے(مخصوص نشستیں کیس میں جج کے ریمارکس)
اشاعت کی تاریخ: 21st, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) مخصوص نشستیں کیس کی سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے ہیں کہ کیا عدالت عظمیٰ کو بے پناہ اختیارات ہیں؟ کوئی حد تو ہونی چاہیے۔ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے 11 رکنی آئینی بینچ نے مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کیخلاف نظرثانی کیس کی سماعت کی، جس میں کنول شوذب کے وکیل سلمان اکرم راجا نے اپنے دلائل جمعہ کو بھی جاری رکھے۔ سلمان اکرم راجا نے اپنے دلائل میں کہا کہ اس عدالت کی ذمے داری ہے کہ بنیادی حقوق کی حفاظت کرے۔ یہ ذمے داری آئین نے دی ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیسے اس کیس میں آرٹیکل 187 لاگو ہوتا ہے؟ جس پر وکیل نے کہا کہ اس بارے میں آگے جا کر تفصیلی سے بتاؤں گا۔ عدالت عظمیٰ کے پاس زیادہ اختیار ہے۔ عدالت عظمیٰ آرٹیکل 187 اور 184 کو اکھٹے استعمال کر کے مکمل انصاف کر سکتی ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ کیا آرٹیکل 184/3 کا استعمال عوامی مفاد میں ہوتا ہے؟ جس پر سلمان اکرم راجا نے جواب دیا کہ جی بالکل عدالت عظمیٰ 184/3 کا استعمال پبلک انٹرسٹ اور بنیادی حقوق کے لیے کر سکتی ہے۔ جب تباہی ہو جائے تو یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کون سا آرٹیکل ہے، پھر عدالت عظمیٰ کو آگے آنا پڑتا ہے جو ضروری ہو کرنا چاہیے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آئین کی خلاف ورزی ہو اور اس کا کوئی آرٹیکل نہ ہو تو کیا پھر بھی عدالت عظمیٰ کو ایکٹو ہونا چاہیے؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ بالکل ایسی صورت میں جو ضروری ہے وہ عدالت عظمیٰ کو کرنا چاہیے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آرٹیکل 199 کو 187 کے ساتھ مل کر نہیں پڑھ سکتے۔ 199 کے تحت ہائیکورٹ کے اتنے اختیارات ہیں کہ عدالت عظمیٰ کے پاس بھی نہیں۔ جسٹس صلاح الدین پنہور نے پوچھا کہ آپ کے خیال سے عدالت عظمیٰ کے اختیارات کی حد کیا ہے ؟ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ میرے برادر جج کا کہنا ہے کہ اختیارات کی کوئی حد تو ہونی چاہیے۔ کیا عدالت عظمیٰ کو ہر کیس میں بے پناہ اختیارات حاصل ہیں؟ مخصوص نشستوں کیس کے اکثریتی فیصلے میں کیا کوئی آئینی یا قانونی خلاف ورزی ہوئی ہے ؟ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ عدالت عظمیٰ نے فیصلے میں کوئی تجاوز نہیں کیا گیا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ 3 دن میں سیاسی جماعتوں کو جوائن کرنے کا اختیار تو آئین نے دیا ہے۔ جسٹس امین الدین خان نے اس موقع پر کہا کہ فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ صرف 187 کے تحت فیصلہ دیا جا سکتا ہے۔ آپ کہہ رہے ہیں کہ 187 کے ساتھ 184 کا استعمال بھی ہے۔ جس پر سلمان اکرم راجا نے جواب دیا کہ عدالت 187 کے استعمال سے بھی ایسا فیصلہ دے سکتی ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا عدالت عظمیٰ اختیار استعمال کرتے ہوئے آرٹیکل کا لکھنا لازمی ہے؟ کیا عدالت عظمیٰ کچھ بھی کر سکتی ہے؟۔ انہوں نے کہا کہ کل کو پھر ہم کہہ دیں کہ وزیر اعظم فارغ ہے۔ جواب میں وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ عدالت عظمیٰ آئینی اختیارات کہیں بھی استعمال کر سکتی ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ مخصوص نشستوں کے فیصلے میں کیا آئین و قانون کی خلاف ورزی ہوئی، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ مخصوص نشستوں کے فیصلے میں کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔ آزاد امیدواروں کو 3 دن کے بجائے 15 روز میں پارٹی شمولیت کا اختیار دیا گیا۔ اگر 15 روز کا وقت نہ دیا جاتا تو قانون کے مطابق اور کوئی حل ہی نہیں تھا۔ جسٹس علی باقر نجفی نے پوچھا کہ مکمل انصاف کے اختیار کے لیے آرٹیکل 184 تین ضروری ہے یا نہیں؟ کیا آرٹیکل 184 تین کی درخواست کے بغیر بھی مکمل انصاف کیا جاسکتا ہے ؟ جس پر وکیل نے کہا کہ مکمل انصاف کا اختیار عدالت عظمیٰ کسی بھی کیس میں استعمال کر سکتی ہے۔ مکمل انصاف کے اختیار میں آرٹیکل 184 تین بھی آتا ہے۔ عدالت عظمیٰ کے 11 ججز نے تسلیم کیا کہ پی ٹی آئی کو نشستیں ملنی چاہییں۔ تعداد کا فرق ہے کہ کتنی نشستیں ملیں مگر 11 ججز نے ایک فیصلہ دیا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ مخصوص نشستوں میں غیر مسلم اور عام پبلک کا کہا گیا ہے، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ بالکل عام پبلک کی بھی اہمیت ہے۔ ووٹ ایک بنیادی حق ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ کیا پیدائش سے ووٹ کا حق مل جاتا ہے یا 18 سال کی عمر میں ملتا ہے؟، سلمان اکرم راجا نے جواب دیا کہ ووٹ آئینی حق ہے، جسے قانون ریگولیٹ کرتا ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ 10 سال کی عمر میں بھی ووٹ کا آئینی حق استعمال کیا جاسکتا ہے، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ یہ حق موجود قانون کے تحت 18 سال کی عمر میں ہی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ووٹ کا بنیادی حق استعمال کرتے ہوئے عوام اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں۔ جسٹس صلاح الدین پنہور نے کہا کہ مگر عوام کو نمائندے منتخب کرنے کے حق سے 1970 میں محروم رکھا گیا، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ صرف 1970 نہیں بلکہ اس حق سے عوام کو بار بار محروم رکھا گیا۔ جسٹس باقر علی نجفی نے استفسار کیا کہ پی ٹی آئی نے مخصوص نشستوں کا دعویٰ کیا ہے۔ کیا مخصوص نشستیں لینا کسی جماعت کا بنیادی حق ہے؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ عوام جب ووٹ کرتے ہیں تو مخصوص نشستیں عوام کی ہوتی ہیں۔ مخصوص نشستیں لینا سیاسی جماعت کا بنیادی حق ہے۔بے نظیر بھٹو کیس کا جب 1988 کے فیصلے میں اجتماع اور ووٹ کے حق میں فیصلہ دیا گیا تو میں خوشی سے ناچتا رہا۔ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ میں نہ یوٹیوبر ہوں نہ ہی سوشل میڈیا ایکٹویسٹ ہوں، جس پر جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ یوٹیوبر بے چارے بھی اس وقت ذہن کو استعمال کریں گے جب عدالت میں ہی مناسب جواب مل جائے گا۔ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ ایک وکیل آخری وقت تک سیکھتا رہتا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ایک سیاسی جماعت کے سیکریٹری کے طور پر بھی آپ کی کچھ ذمے داریاں ہیں، جس پر سلمان اکرم راجا نے کہا کہ وہ ذمے داریاں باہر میں ادا کرتا رہوں گا، بول کہ لب آزاد ہیں تیرے، لیکن یہاں صرف وکیل ہوں۔ ملک میں کبھی براہ راست مارشل لا تو کبھی انڈر دی کلر آف لاء 58 ٹو بی کے استعمال میں واقعات رونما ہوئے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ پرانی تاریخ بیان کر رہے ہیں۔ عدالت عظمیٰ فیصلہ دیتی ہے تو یہاں ایسا بھی ہوا سیاست دانوں نے عمل نہیں کیے۔ ہر دور میں ایک سیاسی جماعت بینیفشری رہی ہے۔ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ اس سوال کا جواب میں عدالت سے باہر جاکر دوں گا۔ عدالت عظمیٰ کے 11 ججوں نے مصنوعی حقائق کے بجائے پردے کے پیچھے چھپے حقائق کو تسلیم کیا۔ ایسا نہیں ہوتا وہ جرم جو قلم نہ لکھے وہ جرم ہی نہیں ہوتا۔ ایسا نہیں ہوتا اگر ایف آئی آر درج نہ ہو تو اسے وقوع ہی نہ سمجھا جائے۔ بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت پیر ساڑھے 9 بجے تک ملتوی کردی۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ نے استفسار کیا کہ کیا عدالت عظمی مخصوص نشستیں مخصوص نشستوں سیاسی جماعت استعمال کر نے کہا کہ ا مکمل انصاف کر سکتی ہے خلاف ورزی فیصلے میں بنیادی حق ا رٹیکل 184 کہ عدالت کیس میں کہ کیا
پڑھیں:
آپ کا کام صرف ٹیبل کے نیچے سے پیسے کمانا ہے؟ایس بی سی اے حکومت کا سب سے بدنام ادارہ ، افسران کیلئے جہنم میں بھی خاص جگہ ہوگی،سندھ ہائیکورٹ کے ریمارکس
کراچی(ڈیلی پاکستان آن لائن)سندھ ہائیکورٹ میں گارڈن ویسٹ رمضان آباد میں غیرقانونی تعمیرات کے خلاف درخواست پر جسٹس اقبال کلہوڑو نے کہاکہ آپ کا کام صرف ٹیبل کے نیچے سے پیسے کمانا ہے؟ایس بی سی اے حکومت کا سب سے بدنام ادارہ ہے،ایس بی سی اے افسران کیلئے جہنم میں بھی خاص جگہ ہوگی۔
نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے مطابق سندھ ہائیکورٹ میں گارڈن ویسٹ رمضان آباد میں غیرقانونی تعمیرات کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی،کے ایم سی اور ایس بی سی اے افسران عدالت میں پیش ہوئے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ 2000میں عمارت بنی ، ابتک آپ نے کیا کارروائی کی؟ڈائریکٹر ایس بی سی اے نے کہاکہ معاملہ ابھی نوٹس میں آیا، عدالتی حکم پر کارروائی ہوگی، عدالت نے استفسار کیا کہ آپ اپنا کام نہیں کریں گے، عدالتی حکم کی ضرورت کیوں ہے؟
لالی وڈ انڈسٹری کی فلمی اداکارہ ،ماڈل، ٹی وی سٹار ثوبیہ مہر نے شارجہ میں لیڈیز صالون کھول لیا
جسٹس اقبال کلہوڑو نے کہاکہ آپ کا کام صرف ٹیبل کے نیچے سے پیسے کمانا ہے؟ایس بی سی اے حکومت کا سب سے بدنام ادارہ ہے، ایس بی سی اے افسران کیلئے جہنم میں بھی خاص جگہ ہوگی، غیرقانونی تعمیرات کیخلاف کارروائی کرکے رپورٹ پیش کریں،عدالت نے ایس بی سی اے سے 16ستمبر تک رپورٹ طلب کرلی۔
مزید :