data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی(اسٹاف رپورٹر)جماعت اسلامی کے رکن سندھ اسمبلی محمد فاروق نے صوبائی بجٹ برائے 2025-26پر اسمبلی میں اپنی بجٹ تقریر کرتے ہوئے کہاہے کہ پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت کا بجٹ نہ صرف عوام دشمن بلکہ کراچی دشمن بجٹ بھی ہے اسے مسترد کرتے ہیں۔ واپڈا کے مطابق کے فور منصوبے کے لیے 40ارب روپے کی ضرورت تھی لیکن وفاقی حکومت نے کے فورمنصوبے کے لیے صرف 3.

2ارب روپے مختص کیے جبکہ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت نے بھی کے فور منصوبہ کے لیے عملاًکچھ نہیں رکھاجس کا واضح مطلب ہے کہ کے فور منصوبہ تقریباً بندہونے کے قریب ہے ۔کراچی کے ساڑھے 3 کروڑ عوام جو سالانہ 3ہزار ارب روپے سے زائد ٹیکس ادا کرتے ہیںلیکن کراچی کی 60فیصد آبادی پانی سے محروم ہے ،کراچی کے شہریوں کو نلکوں میں تو پانی نہیں ملتا لیکن ٹینکروں کے ذریعے مہنگے داموں پانی فروخت کیا جاتا ہے اور مرے پہ سو درے پانی نہ ملنے کے باوجود کراچی واٹر کارپوریشن کا ماہانہ بل باقاعدگی سے آتا ہے جس میں ٹیکس بھی لگایا جاتا ہے ۔واٹر ٹینکر اور ہائیڈرینٹ مافیا کی سرپرستی کرنے والے پیپلزپارٹی کے ہی لوگ ہیں۔کراچی سمندر کے برابر آباد ہے ،کھارے پانی کومیٹھا کرنے کے لیے منصوبہ موجودہ بجٹ میں شامل ہی نہیں ہے ۔2007کا ایس تھری منصوبہ ابھی تک تعطل کا شکار ہے ۔صوبائی بجٹ کے شعبہ صحت میں اربوں روپے این جی اوز کی مد میں رکھے گئے ہیں لیکن وہ رقم جو سرکاری اسپتالوں کے لیے مختص کی جاتی ہے ،پیپلزپارٹی کی بیوروکریسی اورسیکرٹری استعمال کرتے ہیں اوراربوں روپے کی کرپشن کی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ جناح اسپتال میں ادویات نہ ہونے کے برابر اور ایک ہی سرنج سے کئی بچوں کو انجیکشن لگائے جاتے ہیں،عباسی شہید اسپتال 800بستروں پر مشتمل ہے جو کے ایم سی کے ماتحت ہے کراچی کا میئر پیپلزپارٹی کا جیالا ہے لیکن صوبے کے بجٹ میں عباسی شہید اسپتال کے لیے کوئی گرانٹ نہیں رکھی گئی ۔صوبہ سندھ میں شعبہ تعلیم کا 613ارب روپے کا بجٹ ہے جس میں سے 524ارب روپے تنخواہوں میں ہی خرچ ہوجائیں گے،صوبہ سندھ کے 80لاکھ بچے اور بچیاں اسکولوں سے باہر ہیں ان کے لیے تعلیم کا کوئی انتظام موجودنہیں ہے ۔صوبے میں شعبہ صحت اور شعبہ تعلیم میں سب سے زیادہ کرپشن کی جاتی ہے جس پر قابو پانے کی ضرورت ہے ۔سندھ ہائیر ایجوکیشن میں کراچی یونیورسٹی کے لیے صرف 3.5ارب روپے رکھے گئے جو بہت کم ہے۔ انہوں نے کہاکہ لوکل باڈیز کے لیے 327.83بلین روپے رکھے گئے جس میں لوکل باڈیز ترقیاتی بجٹ کے لیے صرف 123ارب روپے رکھے گئے ،پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت نے آئین کے آرٹیکل 140-Aکے مطابق اختیارات کو ٹاؤن و یوسی تک منتقل نہیں کیا ،سارے اختیارات میئر اور سندھ حکومت کے پاس ہی ہیں،شہر کا بہت بڑا مسئلہ سیوریج لائن اورگٹر وں کے ڈھکن کا نہ ہونا ہے،گٹر بہتے ہیں تو یوسی آفس میں شکایتیں درج کرائی جاتی ہیں ، سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ کے لیے 27ارب روپے رکھے گئے ہیں لیکن یہ فنڈز ٹاؤن و یوسی تک کیوں نہیں منتقل نہیں کیے جارہے ہیں،پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت نے اپنا میئر بنانے کے باوجود کسی بھی یوسی کو ترقیاتی فنڈ جاری نہیں کیا۔

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: پیپلزپارٹی کی روپے رکھے گئے حکومت نے کے فور کے لیے

پڑھیں:

سابقہ دور حکومت میں 39 کروڑ سے زائد رقم کی عدم وصولی کی نشاندہی

رپورٹ میں بتایا گیا کہ حکومتی آمدن کا بھی درست طریقے سے تخمینہ نہیں لگایا جاسکا، محکمانہ اکاؤنٹس کمیٹیوں کے اجلاس باقاعدگی سے نہ ہونے پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے فیصلوں کا نفاذ نہیں ہوسکا۔ اسلام ٹائمز۔ آڈیٹر جنرل پاکستان نے سابقہ دور حکومت میں صوبائی محکموں میں اندرونی آڈٹ نہ ہونے کے باعث 39 کروڑ 83 لاکھ سے زائد رقم وصول نہ ہونے کی نشان دہی کردی ہے۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی 2021-2020 کی آڈٹ رپورٹ میں حکومتی خزانے کو ہونے والے نقصان کی نشان دہی گئی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ پراپرٹی ٹیکس اور دیگر مد میں بڑے بقایا جات کی ریکوری نہیں ہوسکی۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ حکومتی آمدن کا بھی درست طریقے سے تخمینہ نہیں لگایا جاسکا، محکمانہ اکاؤنٹس کمیٹیوں کے اجلاس باقاعدگی سے نہ ہونے پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے فیصلوں کا نفاذ نہیں ہوسکا۔

آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ صوبے میں ریونیو اہداف بھی حاصل نہیں کیے جارہے ہیں، رپورٹ میں مختلف ٹیکسز واضح نہ ہونے کے باعث حکومت کو 32 کروڑ 44لاکھ 20 ہزار روپے کے نقصان کی نشاندہی ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پراپرٹی ٹیکس، ہوٹل ٹیکس، پروفیشنل ٹیکس، موثر وہیکلز ٹیکس کے 9کیسز  کی مد میں نقصان ہوا، صرف ایک کیس ابیانے کی مد میں حکومتی خزانے کو 45 لاکھ 80 ہزار روپے کا نقصان ہوا۔ اسی طرح اسٹامپ ڈیوٹی اور پروفیشنل ٹیکس کی مد میں ایک کیس میں 15 لاکھ روپے کے نقصان کی نشاندہی ہوئی ہے۔ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کم یا تخمینہ صحیح نہ لگانے سے انتقال فیس، اسٹمپ ڈیوٹی، رجسٹریشن فیس، کیپٹل ویلتھ ٹیکس، لینڈ ٹیکس، ایگریکلچر انکم ٹیکس اور لوکل ریٹ کے 5 کیسوں میں 4 کروڑ 40 لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔

رپورٹ کے مطابق ایڈوانس ٹیکس کا تخمینہ نہ لگانے سے وفاقی حکومت کو دو کیسز میں ایک کروڑ 9 لاکھ روپے کا نقصان ہوا جبکہ 69 لاکھ 50 ہزار روپے کی مشتبہ رقم جمع کرائی گئی۔ مزید بتایا گیا ہے کہ روٹ پرمٹ فیس اور تجدید لائنسس فیس کے 2 کیسز میں حکومت کو 45 لاکھ روپے کا نقصان اور 14 لاکھ کی مشتبہ رقم بھی دوسرے کیس میں ڈپازٹ کرائی گئی۔ رپورٹ میں ریکوری کے لیے مؤثر طریقہ کار وضع کرنے اور کم لاگت ٹیکس وصول کرنے کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی سفارش کی گئی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • میئر کراچی نے وفاق کے منصوبے گرین لائن پر کام بند کرادیا
  • مودی کیلیے نئی مشکل؛ ٹرمپ نے بھارت کو ایرانی بندرگاہ پر دی گئی چُھوٹ واپس لے لی
  • میئر کراچی نے وفاقی حکومت کے منصوبے گرین لائن پر جاری کام بند کرا دیا
  • پروفیسر عبدالغنی بٹ کے نماز جنازہ میں شرکت سے محروم رکھنا ناقابل برداشت اقدام ہے، مولوی محمد عمر فاروق
  • سندھ حکومت جرائم کے خاتمے اورقیام امن میں سنجیدہ نہیں، کاشف شیخ
  • حکمران سیلاب کی تباہ کاریوں سے سبق سیکھیں!
  • بلوچستان کا پورا بوجھ کراچی کے سول اور جناح اسپتال اٹھا رہے ہیں، ترجمان سندھ حکومت
  • موجودہ حالات میں جلوس نکالنا سیاست نہیں، بے حسی ہے‘سکھد یوہمنانی
  • کراچی: سیلاب، کرپشن اور جعلی ترقی کے منصوبے
  • سابقہ دور حکومت میں 39 کروڑ سے زائد رقم کی عدم وصولی کی نشاندہی