Daily Ausaf:
2025-08-06@05:56:33 GMT

سولر پینلز لگوانے کے خواہشمند افراد کو بڑی رعایت مل گئی

اشاعت کی تاریخ: 21st, June 2025 GMT

اسلام آباد (نیوز ڈیسک) وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے سولر پینلز لگوانے کے خواہشمند افراد بڑی خوشخبری سنادی اور کہا قیمتوں میں من مانی کرنے والوں کیخلاف ایکشن لیا جائے گا۔

تفصیلات کے مطابق وزیرخزانہ محمد اورنگزیب نے سینیٹ اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کہا ہم نےگزشتہ مالی سال کوئی منی بجٹ متعارف نہیں کرایا، افراط زر پر قابو پایا اور ذرمبادلہ کے ذخائر میں نمایاں اضافہ ہوا۔

وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ بجٹ میں عوامی فلاح وبہبود کیلئے کئی اقدامات کا اعلان کیا، پاکستان کی معیشت کیلئے کئی اقدامات کا اعلان کیا ، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں10 فیصد ، پنشن میں7 فیصد اضافہ کیا، یہ اقدام ملازمین کو احساس دلائے گا کہ ریاست ان کے ساتھ کھڑی ہے۔

وفاقی وزیر نے خوشخبری سناتے ہوئے کہا کہ درآمد شدہ سولر پینل پر 18 فیصد ٹیکس کا فیصلہ سرمایہ کاری کے فروغ کیلئے کیا گیا تاہم دونوں ایوانوں میں اراکین کی تجویز پر سولر پر ٹیکس 10 فیصد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔.

ان کا کہنا تھا کہ درآمدی سولر پلیٹ کی قیمتوں میں4.6 فیصد اضافہ ہوگا، یکم جولائی سے تمام بجٹ تجویز پر عملدرآمد ہوگا تاہم قیمتوں میں من مانی کرنے والوں کیخلاف ایکشن لیا جائے گا۔

محمد اورنگزیب نے کہا کہ ہماری حکومت کاوژن صرف استحکام پراستفادہ نہیں، ہماری کوشش جامع اورپائیدادترقی کاحصول ہے، ہمارےنزدیک یہ صرف ایک پڑاؤ ہے منزل نہیں۔

وفاقی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ سینیٹ میں دی گئی بجٹ تجاویز ہمارے لئے بہت اہم ہیں، تنخواہ دارطبقےکی آمدنی میں اضافہ ہوگا ایف بی آرقوانین میں مزید سیف گارڈشامل کیے گئے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ وزیراعظم کی ہدایت پر کھاد اور زرعی ادویات پر سیلز ٹیکس نہیں رکھا گیا، وزیراعظم ایک ہزار زرعی گریجویٹ کو چین بھجوا رہے ہیں، زراعت صوبائی شعبہ بھی ہے اُن کی مشاورت سے چلیں گے،زراعت ملکی معیشت کی ترقی کا انجن ہے۔
مزید پڑھیں : ملک میں چینی کی فی کلو قیمت 195 روپے تک پہنچ گئی

ذریعہ: Daily Ausaf

پڑھیں:

افراط زر میں کمی؛ کیا شرح سود کو 6 فیصد تک لایا جا سکتا ہے؟

پاکستان میں حالیہ مہینوں کے دوران افراط زر میں واضح کمی دیکھنے میں آئی ہے، جس کے بعد یہ سوال زیرِ بحث ہے کہ آیا اب شرحِ سود میں نمایاں کمی کا وقت ہوچکا ہے یا نہیں، بعض معاشی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ موجودہ معاشی حالات، خاص طور پر افراط زر کی سست روی، شرحِ سود کو 6 فیصد تک لانے کی گنجائش فراہم کرتے ہیں۔

تاہم، متعدد ماہرین معاشیات اس خیال سے اتفاق نہیں کرتے اور محتاط مالی پالیسی جاری رکھنے کا مشورہ دیتے ہیں تاکہ کرنسی پر دباؤ، درآمدات میں اضافے اور مالیاتی عدم توازن جیسے خدشات سے بچا جا سکے۔

یہ بھی پڑھیں:

ماہرِ معیشت ڈاکٹر عابد سلہری کا کہنا ہے کہ حالیہ مہینوں میں افراط زر میں کچھ کمی ضرور آئی ہے، لیکن اس میں دوبارہ اضافہ متوقع ہے، ان کے مطابق جب افراط زر کا موازنہ پچھلے سال کی نسبت سے کیا جاتا ہے، تو ہر نئے مہینے میں معمولی سہی لیکن اضافہ ضرور نظر آتا ہے، اسی لیے یہ ضروری تھا کہ شرحِ سود کو فوری طور پر کم نہ کیا جائے۔

ڈاکٹر عابد سلہری نے واضح کیا کہ شرحِ سود کا تعلق صرف افراط زر سے نہیں بلکہ روپے کی قدر سے بھی ہے، اگر شرح سود میں اچانک اور زیادہ کمی کی گئی، تو لوگ بینکوں میں موجود اپنی بچتوں کو ڈالرز میں تبدیل کرنے کی کوشش کریں گے۔

مزید پڑھیں:

’جس سے مارکیٹ میں ڈالر کی طلب بڑھ جائے گی اور روپے پر دباؤ آئے گا، نتیجتاً، روپے کی قدر میں گراوٹ آئے گی اور زرمبادلہ کے ذخائر بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔‘

ڈاکٹر عابد سلہری کے مطابق اسٹیٹ بینک کے لیے یہ ایک نازک توازن ہے، ایک طرف شرح سود کو افراط زر پر قابو پانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، تو دوسری جانب اسے روپے کی قدر کو مستحکم رکھنے کا ذریعہ بھی بنایا جاتا ہے۔ ’اگر موجودہ حالات میں شرح سود کو کم کر کے 6 فیصد تک لایا گیا، تو اس سے روپے کی قدر کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔‘

مزید پڑھیں:

’میرا نہیں خیال کہ شرح سود کو اس وقت 6 فیصد تک لانے کی ضرورت ہے، مانیٹری پالیسی کو موجودہ احتیاط کے ساتھ ہی آگے لے کر چلنا چاہیے۔ جب کچھ گنجائش پیدا ہو، زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری آئے، اور آئی ایم ایف کے اگلے ریویو کے بعد آر ایس ایف سے کچھ فنڈز دستیاب ہوں، تب شرحِ سود میں نرمی پر غور کیا جا سکتا ہے۔‘

ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر عابد سلہری کا کہنا تھا کہ چونکہ گزشتہ برس افراط زر کی شرح کم تھی، اس لیے رواں سال جب اسی مدت سے موازنہ کیا جائے گا، تو اعداد و شمار میں افراط زر زیادہ محسوس ہوگا، اگرچہ حقیقی معاشی دباؤ اتنا نہ ہو۔

مزید پڑھیں:

معاشی ماہر راجہ کامران کے مطابق پاکستان میں اس وقت شرحِ سود یعنی پالیسی ریٹ کو ایک خاص سطح پر برقرار رکھا گیا ہے، اور اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ حکومت حقیقی شرحِ سود کو مثبت رکھنا چاہتی ہے۔ ’یعنی مہنگائی کی شرح کو مدنظر رکھتے ہوئے سود کی شرح میں تھوڑا سا اضافہ برقرار رہے، تاکہ سرمایہ کاری اور خرچ کرنے کے رجحانات کو متوازن رکھا جا سکے۔‘

راجہ کامران کے مطابق اگر شرحِ سود کم کی جائے تو لوگ بینکوں سے آسانی سے قرض لے کر گاڑیاں، موبائل فونز اور دیگر مہنگی درآمدی اشیا خریدنے لگتے ہیں، اس کے نتیجے میں ملک کی درآمدات بڑھ جاتی ہیں، جو تجارتی توازن کو نقصان پہنچاتی ہیں۔

مزید پڑھیں:

’چونکہ پاکستان میں بنیادی صنعتی ڈھانچہ موجود نہیں، اس لیے جب ہم گاڑیاں یا دیگر اشیاء بنانے کی کوشش کرتے ہیں، تو ان کے بیشتر پرزے بیرونِ ملک سے منگوانے پڑتے ہیں۔ اس سے نہ صرف درآمدات بڑھتی ہیں بلکہ زرمبادلہ کے ذخائر پر بھی دباؤ پڑتا ہے، جو بالآخر بیلنس آف پیمنٹ کے بحران کو جنم دے سکتا ہے۔‘

راجہ کامران سمجھتے ہیں کہ اسی وجہ سے حکومت روپے میں قرض لینے کی حوصلہ شکنی کر رہی ہے تاکہ معیشت کو ضرورت سے زیادہ دباؤ سے بچاتے ہوئے درآمدات کو قابو میں رکھا جا سکے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

آئی ایم ایف افراط زر پالیسی ریٹ درآمدات ذخائر راجہ کامران زر مبادلہ شرح سود صنعتی ڈھانچہ قرض گراوٹ مالیاتی عدم توازن

متعلقہ مضامین

  • حاضر سروس ملازمین کے بچوں کی داخلہ فیس اور ماہانہ فیس میں 50 فیصد رعایت
  • پاکستان کے مالی خسارے، سود اخراجات اور محصولات پر اقتصادی تھنک ٹینک کی رپورٹ جاری
  • ایف بی آر میں اصلاحات سے جی ڈی پی میں ٹیکس کلیکشن کے تناسب میں اضافہ قابل اطمینان ہے: وزیر اعظم
  • چینی کی قیمتیں بڑھنے سے مٹھائی بھی مہنگی ہوگئی
  • چین کی خدمات کی درآمدات اور برآمدات کی کل مالیت 3887.26 بلین یوآن تک پہنچ گئی
  • 2034 تک بجلی 25 فیصد مہنگی ہو سکتی ہے، پاور ڈویژن کی پیشگوئی
  • چین کی خدمات کی درآمدات اور برآمدات کی کل مالیت 3887.26 بلین یوآن تک پہنچ گئی
  • گیس کے نئے کنیکشن لگوانے والو کا انتظار ختم، حکومت نے بڑا فیصلہ کرلیا
  • افراط زر میں کمی؛ کیا شرح سود کو 6 فیصد تک لایا جا سکتا ہے؟
  • خصوصی رجسٹریشن مہم، شناختی کارڈ بنوانے کے خواہشمند افراد کے لیے خوشخبری