مغربی ثقافتی یلغار ،معاشی دبائو اور دینی و اخلاقی زوال نے خاندانی نظام کو بحران کا شکار کیا
اشاعت کی تاریخ: 22nd, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی (رپورٹ: منیر عقیل انصاری)مغربی ثقافتی یلغار، معاشی دبائو اور دینی و اخلاقی زوال نے خاندانی نظام کو بحران کا شکار کیا‘ مادہ پرستی اور خود غرضی نے میڈیا اور تعلیمی نظام میں جگہ بنالی ‘ اِنفرادیت اور خود غرضی کی سوچ پروان چڑھ رہی ہے‘ مہنگائی نے مرد و زن کو گھر سے نکلنے پر مجبور کردیا‘ بچوں کے لیے ماں کی گود پہلی درس گاہ ہے، طلاق کی شرح میں اضافے سے اولاد کی تربیت متاثر ہوئی ہے۔ان خیالات کا اظہار جامعہ کراچی، شعبہ اسلامی تاریخ کے پروفیسر ڈاکٹر محمد سہیل شفیق، ویمن اسلامک لائرز فورم کی سابق چیئرپرسن طلعت یاسمین ایڈووکیٹ اور کریکٹر ایجوکیشن فائونڈیشن پاکستان کے ایمبیسڈر، پاکستان ترکی بزنس فورم کے بانی و صدر، معروف ماہر معاشیات محمد فاروق افضل نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’خاندان کا ادارہ بحران کا شکار کیوں ہے؟‘‘ ڈاکٹر محمد سہیل شفیق نے کہا کہ خاندان معاشرے کی بنیادی اکائی ہے جو نہ صرف فرد کی تربیت، اخلاقی و سماجی اقدار کی ترسیل اور نسلوں کی پرورش کا ذریعہ ہے بلکہ یہ پوری تہذیب و تمدن کی بنیاد بھی ہے لیکن جدید دنیا میں خاندان کا ادارہ کئی وجوہات کی بنیاد پر شدید بحران کا شکار ہو چکا ہے‘ اس بحران کی اہم وجوہات میں خود غرضی، مغربی ثقافتی یلغار، معاشی دباؤ، طلاق کی شرح میں اضافہ، سوشل میڈیا کا غیر متوازن استعمال اور دینی و اخلاقی زوال شامل ہیں‘ افراد اپنی ذاتی آزادی کو خاندانی ذمہ داریوں پر ترجیح دینے لگے ہیں جبکہ میڈیا اور تعلیمی نظام میں خاندانی اقدار کی جگہ مادہ پرستی اور خود غرضی نے لے لی ہے‘ مرد و عورت دونوں کی مصروف زندگی نے بچوں کی تربیت کو متاثر کیا ہے‘ ان عوامل نے خاندان کے اندر محبت، وقت اور احساس ذمہ داری جیسے عناصر کو کمزور کر دیا ہے‘ اس بحران سے نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ دینی تعلیمات، اخلاقی تربیت، معاشی سہولیات اور مثبت خاندانی روایات کو فروغ دیا جائے، تاکہ خاندان کا ادارہ دوبارہ مستحکم ہو سکے۔طلعت یاسمین ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ خاندانی ادارے کے زوال کا ایک بڑا سبب صنفی عدل اور صنفی رول کے حوالے سے جدیدیت کی پیدا کردہ کنفیوژن ہے‘ بعض غیر اسلامی اقدار نے بھی خاندان کے ادارے پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں‘ اس لیے خاندانی ادارے کے احیاء اور استحکام کے لیے ضروری ہے کہ اسلام کا نہایت معتدل نقطہ نظر عام ہو جو فطرت سے بالکل ہم آہنگ ہے‘ یہ حقوق و فرائض کا نہایت متوازن نظام فراہم کرتا ہے اور خاندان کے ادارے کو نہ صرف انتہائی پائیدار بنیادوں پر کھڑا کرتا ہے بلکہ اسے اپنے عظیم تمدنی اور تہذیبی مقاصد کے حصول کے لیے بھی تیار کرتا ہے جبکہ نام نہاد غیر روایتی خاندان سے خاندان کا کوئی مقصد حاصل نہیں ہوتا اور خاندان کی بقا کا کوئی راستہ اسلامی اخلاقیات کے سوا ممکن نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ماں کی گود وہ پہلی درس گاہ ہے، جہاں سے بچہ جو سیکھتا ہے وہی اَوصاف آگے عملی زندگی میں اس کی شخصیت پر آشکارا ہوتے ہیں‘ اسلام کے دورِ عروج میں خاندان میں بچوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام موجود تھا،جہاں گھر کے بزرگ اور والدین بچوں کی تربیت کے لیے اعلیٰ ماحول فراہم کرتے تھے‘ یہاں تک کہ بعض اوقات ابتدائی تعلیم بھی گھر پر ہی دی جاتی تھی‘ بچوں کو دینِ اسلام کی حقانیت، انبیاعلیہم السلام و صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی جدوجہد و قربانیاں، بزرگوں کے تجربات و مشاہدات اور دیگر تاریخی قصے کہانیاں سنائی اور پڑھائی جاتی تھیں جس سے بچے کا دینِ اسلام سے حقیقی تعلق اور اپنے بزرگوں کی تاریخ سے لگاؤ پر اس کے اندر انسان دوستی، جرأت، بہادری اور قائدانہ کردار جیسی اعلیٰ صفات پیدا ہوتی تھیں اور یہی بچہ بڑا ہوکر معاشرے کی تعمیر و ترقی میں ایک اہم کردار ادا کرتا تھا۔ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا میں جتنے بھی لیڈرز گزرے ہیں، جنہوں نے انسانیت کی بہتری کے لیے انقلابی کردار ادا کیا، ان سب کی تربیت میں خاندانی نظام کا اہم کردار رہا ہے‘ یورپ میں مشینی انقلاب کے بعد کارخانوں میں کام کرنے کے لیے سستی لیبر کی ضرورت پڑی تو عورت کو برابری کے حقوق اور انسانی آزادی کے نام پر گھر کی چار دیواری سے باہر نکال کر مرد کے ساتھ مزدور کی قطار میں لاکھڑا کیا۔ اگلے دور میں عورت کو معاشی آزادی کی آڑ میں اس سے مردوں کی طرح مختلف اداروں میں کام کرنے پر مجبور کیا گیا۔ یوں خاندانی نظام کی پہلی اکائی( گھر) کا نظام جو میاں بیوی پر مشتمل ہوتا ہے وہ بھی ٹوٹ گیا اور ماں باپ کے ہاتھوں بچوں کی پرورش اور گھریلو تربیت کے نظام پر گہرے اَثرات مرتب ہونا شروع ہوئے‘ آج دورِجدید میں چھوٹے بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت کے لیے ڈے کیئر اور پری اسکولز جیسے ادارے قائم کیے گئے ہیں، جہاں بھاری فیسوں کے عوض بچوں کی جسمانی ضروریات کا تو شاید کسی درجے میں خیال رکھا جاتا ہے لیکن ان کی شخصیت سازی کے حوالے سے تربیت کا کوئی معقول انتظام موجود نہیں ہوتا‘ وہ بچہ جس کی عمر ماں باپ اور بزرگوں کے ساتھ رہ کر لاڈ پیار اٹھانے اور کھیلنے کودنے کی تھی، وہ ڈے کیئر کے ملازمین کے ہاتھوں ایک مصنوعی ماحول میں پرورش پارہا ہوتا ہے‘ یوں بچہ ماں باپ کے پیار کی کمی کی وَجہ سے احساسِ محرومی، ڈر، خوف اور چڑچڑا پن جیسی منفی صفات اپنے اندر سَمو لیتا ہے۔ محمد فاروق افضل نے کہا کہ خاندانی نظام کے تربیتی کردار میں فقدان کی وَجہ سے اِنفرادیت اور خودغرضی کی سوچ پیدا ہو رہی ہے‘ دینِ اسلام اجتماعیت پسند ہے‘ میاں بیوی کے اجتماع سے لے کر پوری انسانیت کی اجتماعی تعمیر و ترقی کی بات کرتا ہے اور خاندان کے اجتماعی ماحول میں بچوں کی تربیت کا اعلیٰ نظام وضع کرتا ہے‘ آج ضرورت اس اَمر کی ہے کہ ہم اِس استحصالی نظام کے ان ہتھکنڈوں کو سمجھیں جو ہمارے خاندانی نظام کی جڑیں کاٹ کر اِنفرادیت کی سوچ کو فروغ دے رہے ہیں۔آج وطنِ عزیز پاکستان میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور غیرضروری اخراجات نے عوام کو معاشی مسائل میں جکڑ لیا ہے، جس کی وَجہ سے مرد اورعورت دونوں روزگار کے لیے ملازمت کرنے پر مجبور ہیں‘ اس لیے آج خاندانی نظام کی بنیادی اکائی (گھر) جو میاں بیوی کی اجتماعیت پر مشتمل ہوتا ہے، ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ ماں باپ دونوں کی ملازمت کی وَجہ سے بچوں کی پرورش کے لیے مجبوراً ڈے کیئر کا انتخاب کرنا پڑتا ہے‘ آج ہماری نسل کی پرورش و تربیت سرمایہ دارانہ نظام کے قائم کردہ ڈے کیئر جیسے اداروں کے رحم و کرم پر ہے ، جہاں سے تربیت یافتہ نسل قومی سوچ اور قائدانہ کردار سے عاری ہوتی ہے بلکہ اس کا کردار استحصالی نظام کو مزید تقویت دینے میں قابل تشویش ہوتا ہے۔ بحیثیت مسلمان ہمیں آج یہ سوچنا ہوگا کہ اولاد کی تربیت میں خاندانی نظام کی کیا اہمیت ہے؟ اور یہ بھی قابلِ غور ہے کہ کیوں ہماری سوسائٹی بچوں کو ڈے کیئر میں محرومی اور بزرگوں کو اولڈ ہومز میں تنہائی کے ماحول میں بھیجنے پر مجبور ہورہی ہے؟ کیا یہ سب ہمارے لیے لمحہ فکریہ نہیں ہے؟ یا پھر ہم جانے اَن جانے میں یورپ کی طرزِمعاشرت پر اپنے بَچے کُچے خاندانی نظام کو مکمل ختم کر کے مادرپدر آزاد نسل تیار کرنے کے درپے ہیں؟ جو آگے چل کر سامراجی نظام کی مشینری کے لیے اچھے کَل پُرزے ثابت ہوکر نظام ظلم کو مزید مظبوط کرے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: خاندانی نظام کی بحران کا شکار خاندان کے کہ خاندان کی و جہ سے خاندان کا کی پرورش کی تربیت ڈے کیئر بچوں کی کرتا ہے ماں باپ ہوتا ہے اور خود نظام کو کے لیے
پڑھیں:
(جنگ بندی کی عالمی کوششیں)اسرائیلی جارحیت کے جواب میں ایران کی یلغار
سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس میں جنگ بندی کے مطالبے اور یورپی ممالک کے وزرائے خارجہ کی ایرانی ہم منصب سے امن مذاکرات کے باوجود اسرائیلی جارحیت تھم نہ سکی
ایران نے اسرائیل کے جنوبی شہر بیرشیبہ پر بیلسٹک میزائلوں کی بارش کردی،متعدد گاڑیاں جل گئیں، مائیکروسافٹ آفس کے قریب آگ بھڑک اٹھی،70 سے زائد افراد زخمی
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس میں جنگ بندی کے پُرزور مطالبے اور یورپی ممالک کے وزرائے خارجہ کی ایرانی ہم منصب سے امن مذاکرات کے باوجود اسرائیلی جارحیت تھم نہ سکی۔جس کے جواب میں ایران نے بھی اسرائیل کے جنوبی شہر بیرشیبہ پر بیلسٹک میزائلوں کی بارش کردی، جس سے علاقے میں شدید مالی نقصان ہوا، کئی گاڑیاں جل گئیں، اور مائیکروسافٹ آفس کے قریب بڑے پیمانے پر آگ بھڑک اٹھی۔اسرائیلی میڈیا کے مطابق یہ حملہ جمعے کی صبح کیا گیا۔ ایرانی میزائل ایک رہائشی علاقے میں گرا جس کے باعث قریبی عمارتوں، گاڑیوں اور انفرا اسٹرکچر کو نقصان پہنچا۔ اگرچہ کوئی جانی نقصان رپورٹ نہیں ہوا، لیکن مالی نقصان کافی زیادہ ہے۔ایمرجنسی سروس میگن ڈیوڈ ایڈم کا کہنا ہے کہ حملے کے فوری بعد فائرفائٹرز اور ریسکیو ٹیمیں متاثرہ مقام پر پہنچ گئیں اور آگ بجھانے کا کام شروع کردیا گیا۔حملے کے ایک روز قبل بھی ایران کا ایک میزائل بیرشیبہ کے سوروکا ہسپتال سے ٹکرایا تھا جس میں 70 سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔اسرائیلی فوج نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے انٹرسیپٹر دفاعی نظام میں ممکنہ خرابی ایرانی میزائل روکنے میں ناکامی کا باعث بنی۔