امریکی اشتعال انگیز کارروائی کے تباہ کن نتائج
اشاعت کی تاریخ: 23rd, June 2025 GMT
امریکا نے اپنے جدید ترین بمبار طیاروں کے ساتھ ایران کی تین جوہری تنصیبات فردو، نطنز اور اصفہان کو نشانہ بنایا ہے۔ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ انھوں نے حملے میں فردو کے ایٹمی پلانٹ کو مکمل تباہ کردیا ہے۔ غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے حملے پر صدر ٹرمپ کا شکریہ ادا کیا، جب کہ دوسری جانب ایران نے امریکا کی جانب سے اپنے جوہری تنصیبات پر حملوں کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلانے کا مطالبہ کردیا ہے۔
اقوام متحدہ امریکا کو ایران، اسرائیل جنگ میں براہ راست شمولیت سے منع کرتی رہی جب کہ یورپ سفارت کاری پر زور دیتا رہا، مسلم ممالک نے او آئی سی اجلاس بلا کر اعلامیہ بھی جاری کیا کہ اس لڑائی میں سفارتکاری کو موقع ملنا چاہیے لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ امریکا کے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کے بعد یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ اس جنگ میں سفارتکاری کی اب کوئی اہمیت باقی نہیں بچی ہے۔
اسرائیل، امریکا کو اپنے ساتھ جنگ میں شامل کرانے میں کامیاب رہا ہے ۔ اطلاعات یہ ہیں کہ صدر ٹرمپ نے امریکی کانگریس کو اعتماد میں لیے بغیر حملے کا حکم دیا ہے۔ امریکا میں یہ بحث چل رہی ہے کہ جنگ کا فیصلہ صرف کانگریس یا سینیٹ ہی کر سکتی ہے، اس حوالے سے اصل قانون و ضوابط کیا ہیں، اس کے بارے میںتاحال باضابطہ طور پر کچھ نہیں بتایا جارہا ہے۔
اس وقت دنیا میں قیادت کا فقدان ہے، روس کے صدر پوتن یوکرین کے مسئلے میں گھرے ہوئے ہیں جب کہ یورپی یونین میں سوائے فرانس کے کسی ملک نے متحرک کردار ادا نہیں کیا ہے جب کہ برطانیہ نے امریکا کی حمایت کی ہے ۔ بلاشبہ ایران کی ایٹمی تنصیبات پر امریکی فضائی حملہ عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی ہے، کیونکہ یہ اقدام کسی مؤثر بین الاقوامی استثنیٰ کے بغیر کسی طاقت کی نمایندگی کرتا ہے۔
اس طرح کے حملے سے اقوام متحدہ کی اساس اور بین الاقوامی قانونی ڈھانچے کی حرمت متاثر ہوئی ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے رکن ممالک نے کسی بھی ریاست کو یہ اختیار نہیں دیا کہ وہ بغیر مجوزہ عمل کے کسی دوسری ریاست کی تنصیبات کو نشانہ بنائے۔
اگرچہ امریکا ایک عالمی طاقت اور نیٹو کا اہم رکن ہے، لیکن اس کا یہ قدم اقوام متحدہ اور عالمی معاشرے میں رد عمل کو اشتعال انگیز بنائے گا۔ عالمی سیاسی منظر نامہ میں بھی اس اقدام کے برے اثرات مرتب ہوں گے۔ چین اور روس جیسی سپر پاورز اس اقدام کو براہِ راست مخالفت میں بیان کریں گی۔
چین کے پاس اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ویٹو پاورز موجود ہے نتیجتاً بین الاقوامی طاقتوں کے بیچ ٹکراؤ کا ماحول مزید کشیدہ ہو جائے گا۔ اس سے ایک نئی سرد جنگ کا بازار گرم ہو سکتا ہے، جس میں عالمی تزویراتی پالیسی، توانائی کے ذرایع اور معیشتیں زبردست دباؤ کا شکار ہو جائیں گی۔
علاقائی سطح پر ایران پر حملہ نئے مسائل جنم دے سکتا ہے۔ ایران اس حملے کا جواب زیادہ تر بیلسٹک میزائلز، فضائی اڈوں پر حملے، یا مشاورتی گروپوں کے ذریعے حملے کے طور پر دے سکتا ہے، نتیجتاً یمن، لبنان، شام اور عراق میں استحکام بری طرح متاثر ہوگا۔ لڑائی کی شدت میں اضافہ خطے میں توانائی کی فراہمی اور بحیرہ عرب کے ذریعے سے عالمی تجارت پر منفی اثرات ڈالے گا۔
بحیرہ احمر میں حالیہ برسوں میں کئی تیل بردار جہاز اور تجارتی جہازوں کو نشانہ بنایا جاچکا ہے، جس سے توانائی کی قیمتیں مزید بڑھ سکتی ہیں اور عالمی معیشت بحران میں جا سکتی ہے۔ بحیرہ احمر، خلیج فارس اور بحیرہ عرب میں کشیدگی عالمی تجارت پر ایک بھاری قیمت لا سکتی ہے۔
اسرائیل اور امریکا کے سخت گیر حکمرانوںکے نقطہ نظر سے ایران کی تنصیبات پر حملہ ایک وقتی کامیابی ہو سکتی ہے، لیکن اس کے نتائج خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔ ایران اگر جوابی کارروائی میں اسرائیل کے شمالی علاقوں پر بیلسٹک میزائل حملے کرے، تو شمالی اسرائیل میں انسانی ہلاکتوں اور بنیادی ڈھانچے کی تباہی میں اضافہ ہوگا۔
شمالی اسرائیل کے بڑے شہروں میں معیشت متاثر ہو سکتی ہے، اقتصادی پہلو سے دیکھیں تو اس کے نتیجے میں تیل کی سپلائی متاثر ہو سکتی ہے، جس سے تیل کی قیمتوں میں اضافے کا قوی امکان ہے۔ تیل پر مبنی معیشت رکھنے والے خطوں میں یہ صورتحال کساد بازاری کا سبب بن سکتی ہے۔
یورپی یونین اور جاپان جیسی تیل درآمد کرنے والی ریاستیں توانائی کی قیمتوں میں اضافے سے متاثر ہوں گی اور ان کی معیشتوں میں سست روی آ سکتی ہے۔ یہ صورتِ حال کرنسی مارکیٹ کے زوال، درآمدی قیمتوں میں اضافے اور انفلیشن کے دباؤ بشمول غذائی اور توانائی قیمتوں میں اضافے کا باعث بنے گی۔ مشرق وسطی ہی نہیں بلکہ جنوبی ایشیا و وسط ایشیا میں مہنگائی مزید بڑھے گی، اقتصادی استحکام متاثر ہوتا چلا جائے گا اور عوامی سطح پر اندرونی عدم تحفظ پیدا ہوگا۔
ایک انسانی بحران کے طور پر، جنگ کے بڑھنے سے مہاجرین یا اندرونی بے گھر افراد کی تعداد میں اضافہ متوقع ہے۔ لبنان، عراق و شام میں حالیہ مہاجر بحرانوں سے سبق سیکھتے ہوئے، مستقبل میں بڑے پیمانے پر انسانی نقل مکانی خطے پر اثرانداز ہو سکتی ہے۔ مہاجرین کی فلاح و بہبود، خوراک، رہائش، صحت، تعلیم اور ملازمت کے مسائل بڑی سماجی، اقتصادی اور سیاسی مشکلات کا باعث بن سکتے ہیں۔ خطے میں سیاسی و معاشی استحکام کمزور ہو کر دہشت گردی اور شدت پسندی کو فروغ دینے کا خطرہ بڑھ جائے گا۔
اس صورتِ حال میں نیٹو اور مغربی طاقتوں کا کردار غیر جانبدار نہیں رہے گا۔ امریکی اور مغربی فوجی برتری کے اثرات، بیلسٹک دفاعی نظام (تھاد، آئیروناٹ) کی کامیابی یا ناکامی سے متاثر ہوں گے۔ ایران روسی ساختہ ایس۔300 ایس۔400 دفاعی میزائل سسٹم اور چینی ایڈوانسڈ ڈرونز سے خود کو دفاع کرتا رہتا ہے، جس سے علاقائی فضائی کشیدگی بڑھ سکتی ہے۔ ٹیکنالوجی، جاسوسی، سائبر وارفیئر، الیکٹرانک جنگیت اور انٹیلی جنس کنٹرول کا بگاڑ بڑھ سکتا ہے۔
اگر ایران حملے کا جواب مشاورتی یا پراکسی گروپوں کے ذریعے دے، تو سعودی عرب اور مصر ایندھن نقل و حمل کی شِپس اور مشینی ڈھانچہ نشانہ بن سکتے ہیں۔ یمن میں جہاز رانی کو متاثر کرنے سے، عالمی تجارت متاثر ہو گی، اسی طرح بحیرہ احمرکے راستے میں جنگی کارروائیوں سے نقصان پہنچے گا۔
معیشتیں شدید جھٹکے کھائیں گی اور گلوبل پالیسی محاذ پر تیل تاجروں کی حکمت عملی میں تبدیلیاں آئیں گی۔ میڈیا اور پروپیگنڈا میں جنگی ماحول شدت اختیارکرے گا، ہر فریق خود کو مظلوم ثابت کرنے کی کوشش کرے گا۔ انسانی حقوق، معصوم شہریوں کی ہلاکت کا خود رپورٹ ہونا بھی عالمی برادری کی توجہ کا مرکز بنے گا۔ اس سے اقوام متحدہ، یورپی یونین، عرب لیگ اور اسلامی ممالک کے اندر ہنگامی اقدامات اور امدادی وابستگی کا دباؤ بڑھ سکتا ہے۔
اس کے باوجود، ایک سنجیدہ زمینی جنگ یا پوری جنگ مذاکرات حادثات، غلط فہمیوں یا فوجی سیکیورٹی کے غلط اندازے سے شروع ہو سکتی ہے۔ اگر ایسی صورتحال اُبھرتی ہے، تو عالمی طاقتوں کا جنگ بندی کے لیے دباؤ اپنی آخری حد کو چھو جائے گا۔ دنیا کی سیاست میں نئے بلاکس تشکیل پا سکتے ہیں۔
ایک مثبت متبادل راستہ مذاکرات کا ہے۔ امریکا، چین، روس، یورپی یونین، اور ایران کے درمیان براہ راست یا بالواسطہ مذاکرات سے صورتِ حال کا حل ممکن ہے۔ ایران پر پابندیاں نرم کرنے کے عوض عالمی اور علاقائی سیکیورٹی کے حوالے سے ضمانتیں حاصل کی جا سکتی ہیں۔ مذاکراتی فریم ورک ایک منظم حل فراہم کر سکتا ہے، جس میں ایران کی جوہری تنصیبات کا عالمی نگرانی میں واپس آنا، پابندیوں کا جزوی خاتمہ اور علاقائی طاقتوں کے مابین اعتماد سازی شامل ہو۔
ایران ، اسرائیل تنازعہ میں سیاسی میڈیا اور عمومی رائے جائز ہے، لیکن سب سے نمایاں بات یہ ہے کہ فوجی حل کبھی مستقل امن یا استحکام لانے والا نہیں رہا۔ 2015 کا جوہری معاہدہ (JCPOA) اس کی مثال ہے کہ کس طرح مذاکرات قائم ہونے سے اصولی طاقت کے تبادلے ممکن ہیں۔ اب ضرورت ہے کہ نئی حکمت عملی قومی سلامتی کے اندر مذاکراتی محاذ کو ترجیح دے، تاکہ خطرات کا دائرہ محدود رہے اور انسانی معاشرے کو نقصان نہ پہنچے۔
مجموعی طور پر اگرچہ ایران پر امریکی حملہ کچھ وقتی مظاہر میں امریکا کی دفاعی حکمتِ عملی کی کامیابی کا تاثر دے سکتا ہے، مگر اس کے طویل المدتی اثرات عالمی عدم تحفظ اور خطے میں انتشار کی راہ ہموار ہو گی۔ اس کے برعکس، ایک جامع، محتاط اور مذاکراتی رویہ عالمی استحکام، اقوامِ متحدہ کی حرمت و سلامتی اور انسانی حقوق کے تحفظ میں مؤثر ثابت ہو گا۔ اگرچہ ہر ریاست اپنی خودمختاری اور سلامتی کے تحفظ کی خواہاں ہے، لیکن عالمی اور علاقائی ذمے داری کے تحت عالمی قوانین کی پاسداری اور کشیدگی کم کرنے کی حکمت عملی ہر صورت اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: قیمتوں میں اضافے اقوام متحدہ کی جوہری تنصیبات یورپی یونین تنصیبات پر ہو سکتی ہے متاثر ہو ایران کی سکتا ہے جائے گا
پڑھیں:
ایران کا ایٹمی پروگرام تباہ کردیا، تہران نے حملہ کیا تو سخت جواب دیں گے، امریکا
امریکا نے کہا ہے کہ ہم نے ایران کا ایٹمی پروگرام تباہ کردیا ہے، اب ایران کو امن کی طرف آنا ہوگا، اگر امریکا پر حملہ کیا گیا تو گزشتہ رات سے سخت جواب دیا جائےگا۔
امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ امریکی ایئر چیف کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہاکہ امریکا نے ایران کی جوہری سائٹس کو نشانہ بنایا جس سے کسی ایرانی شہری یا فوجی کو نقصان نہیں پہنچا۔
انہوں نے کہاکہ ایرانی ریڈار امریکی جہازوں کو پکڑنے میں ناکام رہے، جب تک امریکی جہاز کارروائی کرتے رہے کسی ایرانی جیٹ نے اڑان نہیں بھری۔
انہوں نے کہاکہ ایران کی تینوں جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا، امریکا بار بار کہتا رہا ایران کو جوہری ہتھیار حاصل نہیں کرنے دیں گے۔
امریکی وزیر دفاع نے کہاکہ ایران کے جوہری عزائم خاک میں مل چکے ہیں، آپریشن میں شریک ہر اہلکار نے بہترین کام کیا۔ ایران پر حملے کو ’مڈنائٹ ہیمر‘ کا نام دیا گیا تھا۔
انہوں نے مزید کہاکہ امریکی آپریشن کا مقصد ایران میں حکومت کی تبدیلی نہیں تھا، اسرائیل کو تمام اتحادیوں کی حمایت حاصل ہے۔
امریکی وزیر دفاع نے کہاکہ صدر ٹرمپ امن چاہتے ہیں اور ایران کو اسی راستے پر چلنا ہوگا، ایرانی پراکسیز پر امریکا پر حملہ بہت برا آئیڈیا ہوگا۔
اس موقع پر سربراہ امریکی فضائیہ نے کہاکہ ایران کے خلاف آپریشن انتہائی خفیہ عمل تھا، صدر ٹرمپ کے حکم پر ایران کی تین جوہری سائٹس پر حملہ کیا گیا۔
انہوں نے کہاکہ آپریشن میں صرف ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا، امریکی بی ٹو کو دوسرے طیاروں کی مدد حاصل تھی۔
انہوں نے کہاکہ ایران پر حملہ خطرات کو کم کرنے کے لیے کیا گیا، ایران پر امریکی حملہ انتہائی خفیہ مشن تھا، اور بہت کم لوگوں کو اس حوالے سے معلوم تھا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews امریکی وزیر دفاع ایٹمی تنصیبات ایران پر حملہ پینٹا گون وی نیوز