پاکستان سمیت دنیا بھر میں بیرون ملک افرادی قوت بھیجنے کے لیے انہیں متعلقہ ملک کے حساب سے ہنرمندی کی تربیت دی جاتی ہے، تاکہ زیادہ سے زیادہ ہنرمند افرادی قوت ملک سے باہر بھیج کر ترسیلات زر میں اضافہ کیا جائے۔

پاکستان میں بیرون ملک جانے کے خواہشمند افراد کو ہنرمند بنانے کا شعبہ بھی زوال پذیر ہے، نوجوانوں کو ہنر مند بنانے کے لیے اربوں روپے خرچ کیے جارہے ہیں، لیکن ان میں سے بہت کم افراد ہی ایسے ہوتے ہیں جو اپنے ہنر کی بنیاد پر بیرون ملک پہنچ پاتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں بیرون ملک جانے والے سینکڑوں مسافروں کو روکنے کی اصل وجہ کیا ہے؟

اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز ایسوسی ایشن کے وائس چئیرمین محمد عدنان پراچہ نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ترسیلات زر کی وصولی میں پاکستان نیا ریکارڈ بنانے جا رہا ہے، مالی سال کے اختتام پر ہماری ترسیلات زر 38 ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گی، لیکن ہماری افرادی قوت کا کام ختم ہو رہا ہے اور اس حوالے سے ہم بار بار حکومت کو بتا چکے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ اس وقت ترسیلات زر گھریلو اخراجات کی مد میں آرہی ہیں، بیرون ملک مقیم پاکستانی چاہے بلیو کالر ہوں یا وائٹ کالر ہوں وہ پاکستان میں سرمایہ کاری نہیں کر پا رہے ہیں، ایک برس میں سب سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ ہمارے 9 فیصد شہری متحدہ عرب امارات جا سکے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ 2024 کی نسبت 2025 میں ہماری ورک فورس کی شرح کم ہورہی ہے، دنیا بھر میں افرادی قوت کی ضرورت ہے خاص طور پر عرب ممالک میں لیکن ہم اس چیز کو سنجیدہ نہیں لے رہے۔

عدنان پراچہ کا کہنا ہے کہ ہمارے مسائل بڑھ رہے ہیں، ہمیں اپنی ورک فورس کو باہر بھیجنے میں مسائل کا سامنا ہے، تمام مسائل کا حل موجود ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا جائے گا، ہم حکومت کو حل بتانے کے لیے تیار ہیں۔

محمد عدنان پراچہ کا مزید کہنا تھا کہ اربوں روپے نوجوانوں کی اسکل ڈیولپمنٹ پر لگائے جا رہے ہیں لیکن یہ ٹریننگ بین الاقوامی اصولوں کے مطابق نہیں ہے۔

انہوں نے کہاکہ 2024 میں 61 ہزار افراد کو ٹریننگ دی گئی، جس پر اربوں روپے خرچ ہوئے لیکن باہر کے ممالک میں نوکریاں صرف 500 افراد کو مل سکیں۔

یہ بھی پڑھیں وہ چند ممالک جہاں غیر ملکی ملازمین کی تنخواہیں زیادہ ہیں

انہوں نے کہاکہ دنیا میں غیرہنر مند افرادی قوت کا رجحان ختم ہو چکا ہے، لہٰذا ہمیں بھی توجہ دینی ہو گی۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہم نے نوجوانوں کو ہنر مند بنانے کے لیے جو اربوں روپے خرچ کیے اس کا کوئی نتیجہ بھی نکلا ہے یا نہیں۔ اگر ہمیں وہ نتائج نہیں مل رہے جو ملنے چاہییں تو ضرور حکمت عملی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews اسکل ڈیولپمنٹ افرادی قوت پاکستان تربیت ترسیلات زر محمد عدنان پراچہ ہنرمندی ورک فورس وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اسکل ڈیولپمنٹ افرادی قوت پاکستان تربیت ترسیلات زر محمد عدنان پراچہ ورک فورس وی نیوز اربوں روپے خرچ انہوں نے کہاکہ عدنان پراچہ افرادی قوت ترسیلات زر بیرون ملک رہے ہیں کے لیے

پڑھیں:

پنجاب کا ہیلتھ سیکٹرزندگیاں کیوں چھین رہا ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 05 اگست 2025ء) مریم نواز کے چیف منسٹر بننے کے بعد پنجاب میں ترقی کے جتنے بلند دعوے کیے گئے اسی معیار کی تقریبات بھی منعقد ہوتی رہیں اور تقریبات پر خرچہ عوامی پیسوں ہی سے کیا گیا مگر سوال یہ ہے کہ کیا صحت کے شعبہ میں کیے گئے بلند دعوے حقیقت کا روپ اختیار کر کے عوام کو سہولت پہنچاتے بھی نظر آئے یا نہیں؟

جون میں صرف دو ہفتوں میں پاکپتن کے ضلعی ہسپتال میں بیسبچوں کے جاں بحق ہونے کی خبر نے پنجاب کے عواممیں دوبارہ بے چینی پھیلا دی۔

ان بچوں میں سے پندرہ نومولود تھے۔ غمزدہ والدین کے چہروں پر آنسوؤں سے زیادہ سوال تھے مگر اذیت یہ کہ وہ درد کہیں بھی تو کس سے اور ہسپتال انتظامیہ کی جانب سے تو بس جواب محض ایک لائن پر مشتمل ہی ہوا کر تا ہے، ''یہ بچے پہلے سے بیمار تھے۔

(جاری ہے)

‘‘ گویا انسانی جان کا بوجھ بھی ایک سرکاری فائل سے زیادہ نہ رہا۔

چیف منسٹر مریم نواز اس اندوہناک واقعے کے تقریبا چودہ دن بعدڈی ایچ کیو پاکپتن پہنچیں وہ بھی شائد عوام کی چیخیں سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد ۔

تاخیر سے ردعمل نے عوامی غصے کو مزید ہوا دی اور یہ سوال کھڑا کیا کہ اگر بیس بچوں کی موت پر بھی فوری کارروائی نہ ہو، تو پھر کون سا لمحہ حکومتی توجہ کے قابل ہوتا ہے؟ یہاں قابل ذکر وہ وجوہات رہیں جن سے ہسپتال کی انتظامیہ مسلسل انکار کرتی رہی مگر پھر ایم ایس اور سی ای او ہیلتھ کی گرفتاری کے بعد ایف آئی آر سے پتا چلا کہ ہسپتال میں نہ تو ادویات موجود تھیں اور نا ہی آکسیجن سیلنڈر۔

یہ پنجاب کے صحتی نظام کی ایک جھلک تھی، لیکن یہ تصویر ادھوری ہے۔ زرا یاد کیجیے کچھ عرصہ قبل ۔ تونسہ کے ایک چھوٹے سے قصبے میں جب ایچ آئی وی کی وبا نے بچوں کو لپیٹ میں لیا، تو علاقے میں خوف اور بے بسی کی لہر دوڑ گئی۔ ابتدائی تحقیقات میں 106 بچوں میں ایچ آئی وی کی تصدیق ہوئی۔ الزام استعمال شدہ سرنجز اور غیر تربیت یافتہ عملے پر آیا، مگر مکمل ذمہ داری کسی ایک پر بھی نہ ڈالی گئی بلکہ یہاں بھی ایک کمیٹی بنا دی گئی تحقیقات کے لیے ۔

ایڈز جیسے خوفناک مرض کے پھیلنے کا یہ پہلا واقعہ نہیں تھا۔

ملتان کے نشتر ہسپتال میں ڈائلیسز کے مریضوں میں بھی استعمال شدہ طبعی الات و مشینوں کے ذریعے ایڈذ کے پھیلاو کا خوفناک واقعہ پیش آ چکا تھا جس پر بھی کمیٹی بنی کچھ ذمہ داران کا تعین بھی ہوا مگر بڑے پیمانے پر ایسی غفلت سے بچانے کے لیے کوئی اقدامات کیے ہوتے تو یہ سب تونسہ میں ہوتا نظر نا آتا۔

یہاں قابل غور بات پنجاب حکومت کی ویسٹ مینجمنٹ اور کلائمیٹ پالیسیز بھی ہیں جن کی تشہیر پر تو خوب پیسہ لگا مگر زمینی حقائق کچھ مختلف اور مایوس کن کہانی سناتے نظر آتے ہیں۔

ساہیوال کے ہسپتال میں وینٹیلیٹر وارڈ میں آگ لگنے سے گیارہ نومولود بچےجھلس کر موت کے مُنہ میں چلے گئے۔ آگ کے وقت ایمرجنسی دروازے بند تھے اور اندر کوئی حفاظتی الارم بھی فعال نہ تھا۔

یہاں تک کہ آگ بجھانے کے آلات بھی ناکارہ تھے۔ بعد میں ماں کا یہ جملہ سوشل میڈیا پر چھایا رہا، ''اگر دروازہ کھول دیا جاتا، تو میرا بچہ زندہ ہوتا ہے۔‘‘ دوسری طرف، حکومت کی طرف سے جاری کیے گئے اعداد و شمار کچھ اور ہی منظر دکھاتے ہیں۔ پنجاب حکومت نے مالی سال 2025-24 میں صحت کے شعبے کے لیے مجموعی طور پر 539.1 ارب روپے کا بجٹ مختص کیا تھا، جس میں سے 410.5 ارب روپے غیر ترقیاتی (کرنٹ) اخراجات اور 128.6 ارب روپے ترقیاتی منصوبوں کے لیے رکھے گئے تھے۔

اس بجٹ میں مفت ادویات کی فراہمی کے لیے 55 ارب روپے اور یونیورسل ہیلتھ انشورنس پروگرام کے لیے تقریباً 54 ارب روپے مختص کیے گئے تھے ۔ لاہور کے وہ بڑے ہسپتال جب کے نئے بلاک یا رینوویشن کے بعد چیف منسٹر نے خود افتتاح کیا ان کی چھتیں بھی بارش میں ٹپکتی نظر آئیں۔ تو سوال یہی ہے کہ پھر بجٹ کہاں گیا؟

اب مالی سال 2026-25 کے لیے پنجاب حکومت نے صحت کے شعبے کے لیے 630.5 ارب روپے مختص کیے ہیں، جس میں ترقیاتی بجٹ کو نمایاں طور پر بڑھا کر 181 ارب روپے کر دیا گیا ہے، جو پچھلے سال کے مقابلے میں 131 فیصد زیادہ ہے۔

غیر ترقیاتی اخراجات تقریباً 450 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ اس سال حکومت نے لاہور میں نواز شریف میڈیکل ڈسٹرکٹ کے قیام کا اعلان کیا ہے، جس کے لیے 109 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، اور اس میں جدید ہسپتال، میڈیکل یونیورسٹی، نرسنگ اسکول، اور کارڈییک انسٹیٹیوٹ شامل ہوں گے۔ مزید برآں، نارووال، اوکاڑہ اور لیّہ میں میڈیکل کالجز، راولپنڈی میں بچوں کا ہسپتال اور سیالکوٹ میں ٹیچنگ ہسپتال جیسے منصوبے شامل کیے گئے ہیں۔

حکومت نے مفت ادویات کی مد میں بھی رقم بڑھا کر 79.5 ارب روپے کر دی ہے۔

بنیادی صحتی مراکز، جو دیہی علاقوں کے لیے واحد سہارا تھے، اب نجکاری کی لپیٹ میں آ چکے ہیں۔ رپورٹس کے مطابق، 2000 میں سے 150 بیسک ہیلتھ یونٹس نجی کنٹریکٹ پر دیے جا چکے ہیں، جنہیں مریم نواز ہیلتھ کلینکس یا کمیونٹی ہیلتھ مراکز کے نام سے برانڈ کیا گیا۔ سرکاری وسائل سے قائم مراکز کو کسی سیاسی شخصیت کے نام سے منسوب کرنا عوامی پیسوں پر ذاتی تشہیر کے مترادف ہے۔

تین مراکز تو نجی کمپنیوں کی جانب سے حکومت کو واپس بھی کیے جا چکے ہیں۔ اسی دوران، پنجاب میں یونیورسل ہیلتھ انشورنس یا ''صحت کارڈ‘‘ کی سہولت بھی ختم کر دی گئی ہے ۔

جبکہ چھبیس فروری 2025 میں وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے صحت کارڈ سمیت دیگر فلاحی منصوبوں کی تشہیر کے لیے 60 صفحات پر مشتمل سرکاری اشاعت جاری کی، جس میں پہلے 30 صفحات پر مریم نواز کی 170 تصاویر شامل تھیں۔

اس مہم کو عوامی شعور اجاگر کرنے کا ذریعہ قرار دیا گیا، تاہم ناقدین نے اسے عوامی پیسے پر خودنمائی کی مہم قرار دیا۔ بعد ازاں ''پنجاب پبلک اویئرنس بل 2025‘‘ منظور کیا گیا، جس نے ایسی تشہیری مہمات کو قانونی تحفظ فراہم کر دیا اور اب ان پر خرچ شدہ رقم سے متعلق کوئی معلومات بھی عوامی طور پر طلب نہیں کی جا سکتیں۔ سوشل میڈیا اور سیاسی حلقوں میں اسے ریاستی وسائل کے سیاسی استعمال کی مثال قرار دیا گیا۔

سوال یہ نہیں کہ بجٹ کتنا ہے، یا کلینک کتنے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایک ماں کو دوا، ڈاکٹر، بستر اور دروازہ وقت پر کیوں نہیں ملتا؟ یہ نظام جب تک مریض کی بجائے سیاست کی خدمت کرتا رہے گا، تب تک تونسہ، پاکپتن، نشتر اور ساہیوال کی کہانیاں دہرائی جاتی رہیں گی اور وہ سوال، جو ہر بار کوئی غریب ماں پوچھتی رہے گی ، ہمیشہ ہمارے ضمیر کو جھنجھوڑتا رہے گا کہ، ''کیا میرے بچے کی جان اتنی بے وقعت تھی؟

متعلقہ مضامین

  • یورینیم افزودگی کیوں کر بہت مشکل لیکن اہم ہے
  • خیبر پختونخوا میں دریاؤں سے سونا نکالنے کے ٹھیکوں میں اربوں روپے کی کرپشن کا انکشاف
  • بی آر ٹی پشاور منصوبے میں اربوں روپوں کی بے قائدگیوں کی نشاندہی
  • بحریہ ٹاؤن؛ غیر قانونی ذرائع سے اربوں روپے بیرون ملک منتقل کیے گئے، وفاقی وزیر اطلاعات
  • جینرک ادویات کے فروغ سے اربوں کی بچت ممکن ہے . ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل
  • لسیکو کی جانب سے اووربلنگ کا سلسلہ جاری ‘صارفین کی جیبوں پر اربوں روپے کا ڈاکہ
  • پرتگال میں جائیدادیں، اربوں کی سلامی، خواجہ آصف کا بیوروکریسی پر سنگین الزام
  •   الیکٹرک گاڑیوں کے فروغ کے لیے اربوں روپے کی سبسڈی منظور
  • غریدہ فاروقی کے بعد ڈاکٹر عمر عادل نے اداکارہ ریشم سے بھی مانگ لی، لیکن کیوں؟
  • پنجاب کا ہیلتھ سیکٹرزندگیاں کیوں چھین رہا ہے؟