جھوٹے دیو قامتوں کا زوال
اشاعت کی تاریخ: 23rd, June 2025 GMT
جھوٹے دیو قامتوں کا زوال WhatsAppFacebookTwitter 0 23 June, 2025 سب نیوز
تحریر: محمد محسن اقبال
جنگ دراصل انسانیت کی ناکامی کا اندوہناک اظہار ہے—مکالمے سے اختلافات حل نہ کر سکنا، حدود و قیود کا احترام نہ کرنا، اور انصاف کے اصولوں کو پامال کرنا۔ جنگ معصوموں پر ہولناکیاں مسلط کرتی ہے اور تہذیبوں کو بے گناہوں کے خون سے داغدار کر دیتی ہے۔ مگر تاریخ میں کچھ لمحے ایسے بھی آتے ہیں جب جنگ کی لپکتی ہوئی چنگاریاں—اگرچہ ناقابلِ قبول—ایسی سچائیوں کو عیاں کر دیتی ہیں جو تکبر، دھوکے اور جارحیت کے پردوں میں مدتوں چھپی ہوتی ہیں۔ رواں سال مئی اور جون کے مہینے ایسے ہی لمحوں کے گواہ بنے—جب جنوبی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کی مظلوم سرزمینوں نے اپنے ظالموں کے چہرے سے نقاب ہٹتے دیکھے، اور دنیا برسوں سے رائج مفروضوں کے الٹ پھیر پر حیران رہ گئی۔
برسوں سے بھارت نے خود کو جنوبی ایشیا کا دیو قرار دے رکھا ہے—بین الاقوامی حمایتوں اور عسکری غرور کے سہارے۔ اس نے اپنی طاقت سے ہمسایہ ممالک، خصوصاً پاکستان، کو دبانے، سفارتی کشمکش، خفیہ انتشار، اور جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعے کمزور کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ لیکن 7 مئی کو، اللہ تعالیٰ کے فضل سے، پاکستان نے ایک ایسی سرعت اور حکمت سے جواب دیا جس نے بھارت کے تکبر پر مبنی خودساختہ تصورِ عظمت کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں۔ وہ ایک دن صرف عسکری حکمتِ عملی نہیں تھا، بلکہ ایک اخلاقی تادیب، اسٹریٹیجک شہ مات، اور قدرت کی جانب سے انصاف کا ترازو برابر کرنے کا مظہر تھا۔
بھارتی قیادت شاید خوداعتمادی کے نشے میں حد سے زیادہ بہک چکی تھی۔ برسوں کی جھوٹی عظمت، طاقت کے دعوے اور ناقابلِ تسخیر ہونے کا گمان ان کی سوچ پر پردہ ڈال چکا تھا۔ مگر پاکستان کا فیصلہ—جو صرف عسکری قوت نہیں بلکہ انصاف اور ایمان کی بنیاد پر تھا—نے ایک ایسا ضرب لگایا جس نے دنیا کو یاد دلایا کہ تکبر کی ایک قیمت ہوتی ہے۔ اس دن کے بعد سرحد پار ایک غیرمعمولی خاموشی چھائی ہوئی ہے، جو کسی پرامن غور و فکر کا نہیں، بلکہ ایک ششدر ازسرنو جائزے کا اظہار ہے۔ مگر تاریخ جاننے والے بخوبی آگاہ ہیں کہ پرانی عادتیں آسانی سے نہیں جاتیں۔ بھارت وقتی طور پر رک تو سکتا ہے، مگر اشتعال انگیزی کا سلسلہ غالباً جاری رہے گا۔ پھر بھی 7 مئی ایک یادگار دن بن گیا—جب تیاری، سچائی اور خدائی نصرت ایک مقام پر جمع ہوئیں۔
اسی طرح مشرقِ وسطیٰ میں بھی حیرت انگیز واقعات دیکھنے کو ملے۔ برسوں سے اسرائیل بغیر کسی روک ٹوک کے ظلم کرتا چلا آ رہا تھا—طاقتور حامیوں اور بین الاقوامی دوغلے معیارات کے سائے میں۔ غزہ اور فلسطینی علاقوں میں اس کے مظالم وحشیانہ، غیر متوازن اور انسانیت کی ہر حد کو پامال کرنے والے تھے۔ لیکن ہمیشہ کی طرح، اسے کوئی مساوی جواب نہیں ملا۔ مگر یہ توازن اُس وقت بدلا جب ایران—جو طویل عرصے سے تنقید، تنہائی، اور اقتصادی دباؤ کا شکار رہا—نے ایسا جوابی وار کیا کہ اس کے ناقدین بھی حیرت میں ڈوب گئے۔
ایران نے، اللہ کے فضل سے، حکمت اور دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسرائیلی دفاع کی پرتیں چیر ڈالیں اور تل ابیب سمیت کئی شہروں تک جنگ کو پہنچا دیا—اسی زمین پر، جہاں سے مظالم کی داستانیں برسوں سے اٹھتی رہی تھیں۔ دنیا جو غزہ کی تباہ شدہ تصاویر دیکھنے کی عادی تھی، اب اسرائیل کے اندر سے وہی مناظر دیکھ رہی تھی—ایسے مناظر جنہیں ماضی میں صرف مقبوضہ فلسطین سے منسوب کیا جاتا تھا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ جارح اور مظلوم کا فرق خود اسرائیلی زمین پر دھندلا گیا۔
یہ فقط جوابی حملہ نہیں تھا، بلکہ ایک تاریخی فیصلہ کن لمحہ تھا۔ ایران نے، اللہ کی مدد سے، نہ صرف اپنے بیرونی دشمنوں بلکہ اندرونی رکاوٹوں اور علاقائی چیلنجز پر قابو پا کر ایسا جواب دیا جو مستقبل میں عسکری حکمتِ عملی کا نمونہ بنے گا۔ ایران نے ثابت کر دیا کہ کوئی ملک خواہ کتنا ہی تنہا کیوں نہ ہو، اگر وہ ایمان سے جڑا ہو اور انصاف کے لیے کھڑا ہو، تو وہ عالمی قوانین کے اصول از سرِ نو لکھ سکتا ہے۔
یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ یہ جنگ کی تعریف نہیں۔ کوئی باشعور شخص خونریزی پر خوش نہیں ہوتا۔ جان کا زیاں—کسی بھی طرف ہو—افسوسناک ہے۔ مگر ان لمحوں کی قدر کرنی چاہیے جہاں دیرینہ ظلم کے خلاف انصاف نے زبان پائی۔ یہ واقعات ثابت کرتے ہیں کہ طاقت، جب زیادتی میں استعمال ہو، تو اسے چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ کوئی ریاست—چاہے کتنی ہی عسکری یا سفارتی طور پر محفوظ کیوں نہ ہو—ہمیشہ نتائج سے محفوظ نہیں رہ سکتی۔
پاکستان اور ایران، اپنے اپنے میدانِ عمل میں، جارح نہیں بلکہ محافظ بن کر سامنے آئے—اپنی عوام، اپنی حرمت، اور امن سے جینے کے حق کے محافظ۔ ان کے اقدامات نفرت سے نہیں، بلکہ مجبوری سے اٹھائے گئے۔ اور یوں انھوں نے ایک ایسی دنیا میں توازن بحال کیا جو بہت عرصے سے ظلم کے پلڑے میں جھکی ہوئی تھی۔
مئی اور جون کی یہ تاریخیں یاد رکھی جائیں گی—اس لیے نہیں کہ انھوں نے دکھ دیا، بلکہ اس لیے کہ انھوں نے سچ واضح کیا۔ انھوں نے ہمیں یاد دلایا کہ ایمان ابھی باقی ہے، انصاف ابھی زندہ ہے، اور خدائی نصرت جب حرکت میں آتی ہے تو جمے جمائے ظلم کے قلعے بھی گر سکتے ہیں۔ آنے والی نسلیں ان دنوں کو صرف جھڑپوں کے نہیں، بلکہ بیداری کے لمحوں کے طور پر یاد کریں گی—جب مظلوم نے صدا دی، اور ظالم کو سننا پڑا۔
اللہ تعالیٰ معصوموں کی حفاظت فرمائے، ظالموں کو سچ کی طرف ہدایت دے، اور تمام اقوام کو باعزت امن عطا کرے۔ کیونکہ اصل فتح دوسروں کو مٹانے میں نہیں، بلکہ انصاف قائم رکھنے اور باوقار زندگی گزارنے میں ہے۔ اور جب انصاف فتح پاتا ہے حتی کہ اگر وہ آگ کے راستے سے گزرے—تو وہ راکھ نہیں، بلکہ روشنی چھوڑ جاتا ہے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرکولمبیا میں 57 فوجیوں کو شہریوں نے اغوا کر لیا بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان تعلیمی تعاون کی نئی راہیں ہرمز: جہاں ایران کی بندوق، تیل کی نالی پر رکھی جا سکتی ہے پی آئی اے کی پرواز، ماضی کی بلندیوں سے نجکاری کی دہلیز تک اسلام آباد میں کلائمیٹ چینج کے منفی اثرات زور پکڑنے لگے پارلیمینٹیرینز کافی کارنر: قومی اسمبلی میں روایت اور جدت کا امتزاج امریکہ تاریخ کے دریئچہ میںCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
پڑھیں:
فریبی نظام آخری سانسیں اور نئی امیدیں
ہم ایک ناقابلِ واپسی عالمگیر تبدیلی کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ آج کے بڑھتے ہوئے تصادم، ٹوٹتی ہوئی معیشت اور بڑھتی ہوئی کشیدگی صرف بے ہنگم نہیں بلکہ ایک زوال پذیر آمرانہ نظام کی آخری لڑائی اور دھونس و دھمکیاں یہ پرانا نظام، جو فیات کرنسی، ڈیجیٹل فریب، قیاسی بنیاد پر اور چند طاقتوروں کے ناانصاف اور جابرانہ کنٹرول پر مبنی تھا، اب اپنے ہی وزن تلے ڈگمگا رہا ہے اور کھوکھلا ہو چکا ہے یہ وہ نظام تھا جس می کوئی ٹھوس بنیاد نہ تھی، بلکہ فریب کار ی‘مکر اور چھپی سازشوں پر استوار تھا اور اب آخرِ کار وہ ختم ہونے ہی والا ہے۔فیات کرنسی کا تختہ الٹے‘ عالمی معیشت طویل عرصہ سے قرض پر مبنی فیات کرنسی کے تحت چل رہی تھی ایسی کرنسی جو کسی حقیقی سامان سے منسلک نہیں، بلکہ سنٹرل بینکس صرف اپنے اختیارسے پیدا کر لیتے ہیں۔ اس مزاحیہ رقم نے دھوکے بازوں کی سلطنت کو توانا رکھا: لامتناہی جنگوں کی مالی معاونت، اعلیٰ سطحی بدعنوانی اور سودی قرضوں کے ذریعے قوموں،حکومتوں اور انسانوں کو غلام بنا کر رکھا ہوا ہے لیکن آج یہ نظام آخری سانسیں لے رہا ہے۔
بظاہر، پردے کے پیچھے نیا کوانٹم مالیاتی نظام (QFS) متعارف کرایا جا رہا ہے ایک ایسا نظام جو حقیقی اثاثوں سے منسلک، شفاف اور غیر فاسد ہوگا۔ یہ تبدیلی خاموشی سے شروع ہو چکی ہے، اور اس کے پیچھے عوامل میں شامل ہیں۔بادلIII اور IV ضوابط بینکوں کو حقیقی، آڈٹ شدہ اور ٹھوس اثاثوں کی بنیاد پر مالیات رکھنے پر مجبور کرنا ہے ڈی ڈالرائزیشن تحریک خاص طور پر BRICS ممالک (برازیل، روس، انڈیا، چین، ساتھ افریقہ) کی قیادت میں، جو SWIFT جیسے امریکی زیرِ کنٹرول نظام کی جگہ خودمختار متبادل تیار کر رہے ہیںیہ صرف تکنیکی تبدیلی نہیں۔یہ ایک صدی پرانی مالیاتی سلطنت کی تدفین کا آغاز ہے۔ کاغذی جھوٹ سے ٹھوس حقیقت کی طرف: صاف پیسے کا عروجQFS اور BRICS کا یہ ماڈل ایماندار قدر کی واپسی کی علامت ہے ایسی کرنسی جو سونے، اجناس، توانائی اور تصدیق شدہ قومی اثاثوں پر مبنی ہوگی، نہ کہ قیاس اور بے ضابطہ پرنٹنگ پر۔اب مبہم ذرائع سے آتے آف شور فنڈز ، آن لائن لامحدود ڈیجیٹل اصطلاحات کے ذریعے اربوں ڈالر کی منتقلی۔ معاشی پابندیاں ایک چند طاقتوں کا سیاسی دبائوکے لیے استعمال ہونا اپنے آخر سانس لے رہا ہے اس کے برعکس، نئے نظام میں ہر لین دین شفاف، قابلِ سراغ اور حقیقی قدر سے مربوط ہوگا۔کوئی جعلی خانہ، کوئی مصنوعی مہنگائی، اور نہ ہی چند خاص لوگوں کے مستقبل پر قبضہ کا کوئی موقع ہوگا یہ ایک سیاسی زلزلہ پرانے طاقتور نظام کے خاتمہ ہوگا ایسی بنیادی مالی تبدیلی کے ساتھ سیاسی زلزلہ آنا ناگزیر ہے۔جو طاقتیں پرانے نظام سے مستفید ہوئیں سیاستدان، کارپوریشنیں، خفیہ نیٹ ورک، اور جنگی صنعت یہ سب مزاحمت کریں گے۔ لیکن ان کے زوال کے آثار پہلے ہی واضح ہیں۔ خطے وار جنگیں یوکرین سے فلسطین تک، تائیوان سے ایران تک محض واقعات نہیں، بلکہ ایک عالمی تبدیلی کی علامات ہیں۔ جس کے پیچھے چند طاقتیں ہیں لیکن ایک نئی کثیرمرکزی آزاد دنیا ابھرتی نظر آرہی ہے۔خودمختار قومیں، غلامانہ نقطہ نظر کے خلافBRICS، SCO اور دیگر اتحاد NATO کی بالادستی کی جگہ لے رہے ہیںوہ نظام جو انصاف، حقیقت اور ٹھوس قدر کو اپنی بنیاد بنائے گا جب جھوٹ فنا ہوتا ہے، تو یہ صرف اس لیے کہ اسے فنا ہونا تھا۔(قرآن‘ سورۃ الاسرا ء 17:81 )علاقائی تنازعات یا آخری جنگ؟خطرہ حقیقی ہے اور زیادہ خطرناک ہے۔علاقائی حالیہ جنگیں اگر ختم نہ ہوئیں تو ممکنہ طور پر وہ پوشیدہ خطرہ بن سکتی ہیں جیسا کہ متوقع ہے تیسری عالمی جنگ آرماگڈون۔لیکن اگر یہ طوفان آیا بھی، تب بھی وہ اس دھوکے کو دھو ڈالے گا اور یہ فریبی شیطانی طاقتیں ختم ہو جائیں گیں اور جو کچھ سامنے آئے گا، وہ ایک ایسا عالم ہوگا جس کی بنیاد انصاف ،اقتصادی مساوات ،عالمی تعاون خودمختاری کا احترامانسانیت کی بالادستی ہوگی ہمیں کیا تیاری کرنی چاہیے؟ ہمیں اس وقت کی حقیقت کا ادراک کرنا ہوگا: قرض اور قیاس سے بچیں ٹھوس، صاف اثاثوں کی طرف حرکت کریںاپنی دولت کا تحفظ کریں حقیقی سونا، زمین، توانائی اور ہنر اہم رہیں گے۔علاقائی خود انحصاری بنائیں کمیونٹی کاشتکاری سے معاشی آزادی تک سچ کے ساتھ رہیں میڈیا کے جھوٹ کو نہ سنیں نہ یقین کریں اللہ سے رابطہ قائم کریں یہ صرف مالی تبدیلی نہیں، بلکہ ایک روحانی انقلاب ہوگایہ صرف تکنیکی یا مالی تبدیلی نہیں۔یہ اللہ کی طرف سے بھیجی گئی تبدیلی ہو گی ۔ جھوٹ کی سلطنت کے زوال اور نئے انصاف و شفافیت کے عہد کا آغاز۔ہم ایک نئے عہد کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔آئیے، ہم زوال پذیر طاقتوں کے ساتھ ان کے گھڑے میں نہ گریں بلکہ نئے نظام راہ اپنائیں اور حق، ایمان کے ساتھ ایک نئے منصفانہ عالمی دور کی وسعت میں قدم بڑھائیں۔