Daily Mumtaz:
2025-09-22@00:43:17 GMT

چین اور روس کی ایران پر امریکی حملے کی شدید مذمت

اشاعت کی تاریخ: 23rd, June 2025 GMT

چین اور روس کی ایران پر امریکی حملے کی شدید مذمت

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں چین اور روس نے ایران پر امریکی حملے کی شدید مذمت کی ہے۔

چینی مندوب برائے اقوام متحدہ نے ایران پر امریکی حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ تنازع کے فریقین، خاص طور پر اسرائیل کو فوری جنگ بندی پر پہنچنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ایران کے جوہری مسئلے سے نمٹنے کے لیے سفارت کاری ختم نہیں ہوئی، اب بھی تنازع کے پرامن حل کی امید ہے۔

اجلاس سے خطاب میں روسی مندوب نے کہا کہ ایران پر امریکا کی غیر ذمےدارانہ، خطرناک اور اشتعال انگیز کارروائی کی مذمت کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ امریکا نے ایک نیا پنڈورا بکس کھول دیا ہے، کوئی نہیں جانتا کہ اس سے کیا نئی تباہی اور تکلیف آئے گی، امریکا کو واضح طور پر سفارتکاری میں کوئی دلچسپی نہیں۔

Post Views: 5.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: ایران پر کہا کہ

پڑھیں:

کہ خوشی سے مرنہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250922-03-8

 

باباالف

 

 

۔14 ستمبر 2019 کی صبح سعودی عرب کے مرکز میں واقع دو بڑے آئل پراسیسنگ پلانٹس، ابیق (Abaiq) اور خریص (Khurais) جو دنیا کے سب سے بڑے تیل کے مراکز اور سعودی عرب آئل کمپنی (سعودی آرامکو) کے اہم ترین اسٹیبلائزیشن یونٹس میں شمار ہوتے ہیں یہاں پر حوثی باغیوں نے ڈرونز اور کروز میزائلوں سے بڑا فضائی حملہ کیا۔ اس حملے نے سعودی عرب کی خام تیل کی پیداوارکا نصف حدتک متاثر کیا اور تقریباً 57 لاکھ بیرل روزانہ تیل کی پیداوار میں کمی واقع ہوگئی جو تیل کی عالمی پیداوار کا تقریباً 5 فی صد تک بنتا تھا۔ عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو گیا۔ تاریخ میں کبھی تیل کی عالمی منڈی کو اتنا بڑا حادثہ پیش نہیں آیا تھا۔ حوثی باغیوں نے فوری طور پر حملہ کی ذمے داری قبول کرلی تھی مگر امریکا نے سعودی عرب کی حفاظت اور اس کے دفاع کے جو وعدے کیے تھے ان پر پورا اترنے سے انکار کردیا۔ سعودی حکام کو پہلی مرتبہ شدت سے احساس ہوا کہ اربوں ڈالرز کا خریدا گیا امریکی اسلحہ محض تماشے کے کھلونے ہیں اور امریکی سعودی دفاعی وعدے محض داستان سرائی اور وہ بھی کسی بڑی طاقت اور ملک کے خلاف نہیں حوثی باغیوں جیسی معمولی فورس کے خلاف۔ تب سے سعودی حفاظتی امریکی عہد وپیمان اور دفاعی چھتری ریاض میں اپنی اہمیت کھو بیٹھی اور ایک گمراہ کن تصور قرار پائی۔ اس کے باوجود سعودی ’’تبدیلی مسلک‘‘ کے لیے تیار نہیں ہوئے اور بدستور امریکی کیمپ میں ہی رہے۔

2023 اور 2024 تک آتے آتے سعودی عرب 1960 میں کیے گئے ’’امریکا اور جاپان اسٹائل ایگریمنٹ‘‘ یا امریکا اور جنوبی کوریا کی طرز کے دفاعی معاہدے کا امریکا سے خواہاں ہوا۔ یعنی ان ممالک کی طرح سعودی عرب پر حملہ امریکا پر حملہ تصور ہوگا۔ بائیڈن انتظامیہ کے دور میں اس معاملے میں کچھ پیش رفت ہوئی لیکن امریکا نے ایسی شرائط رکھیں جو سعودی خود مختاری کا کریا کرم ہی نہیں اسے بہت گہرا دفنانے کے مترادف تھیں۔ پہلی شرط اسرائیل کو تسلیم کرنا ہی نہیں خطے میں اور مسلم ورلڈ میں اسرائیل کو برتری دلانے میں امریکا کے ساتھ خودسپردگی کی حدتک تعاون تھی۔ یہ اسی سمت پیش رفت تھی کہ سعودی فضائیں اسرائیل کے لیے کھول دی گئیں اور عرب امارات اور بحرین نے سعودی عرب کی رضا مندی اور دبائو سے اسرائیل کو تسلیم کیا اور سفارتی تعلقات قائم کیے۔ دوسری شرط یہ تھی کہ سعودی عرب میں چین اور دیگر مغربی طاقتوں کی عسکری یا سیکورٹی شراکت داری کم سے کم یا محدود ہوگی۔ سب کچھ امریکا کے علم میں ہوگا اور اس کی رضا مندی سے مشروط ہوگا۔ تیسری شرط پرامن جوہری ٹیکنالوجی کی سعودی عرب کو فراہمی تھی۔ امریکا نے اس مطالبے کو تسلیم کیا مگر شرط یہ رکھی کہ سعودی جوہری پروگرام مکمل طور پر امریکی کنٹرول میں ہوگا اور عسکری مقاصد کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا۔ ولی عہد محمد بن سلمان نے ان شرائط کو غلامی کی دستاویز سے تعبیر کیا جس سے سعودی عرب طاقتور نہیں بلکہ اپنی رہی سہی قدرو قیمت بھی کھو دے گا۔

غزہ میں امریکا اور اسرائیل نے فلسطینیوں کی نسل کشی شروع کی تو ولی عہد محمد بن سلمان کو اپنے امریکا اسرائیل جھکائو، معاہدہ ابراہیم کی طرف پیش رفت اور اسرائیل کو تسلیم کرنے کی طرف پیش قدمی کا دفاع کرنا مشکل ہوگیا جو ان کی سب سے بڑی اخلاقی اور علامتی قوت خادم حرمین شریفین کی حیثیت اور مسلم دنیا کی قیادت کی تردید تھی۔ جس سے عوامی سطح پر شدید ردعمل اور داخلی بے چینی جنم لے سکتی تھی۔ 2020 کے معاہدہ ابراہیم میں امارات، بحرین، مراکش اور سوڈان کے اسرائیل سے تعلقات کے بعد اگر سعودی عرب اگلا ملک ہوتا تو یہ فلسطینی کاز کے لیے ایک فیصلہ کن دھچکا اور ترکی، ایران، قطر اور پاکستان جیسے ممالک کو اسلامی قیادت کا متبادل بننے کا موقع فراہم کرنے کے مترادف ہوتا۔ اس دوران ٹرمپ انتظامیہ سعودی عرب کو یہ باور کرانے میں مصروف رہی کہ سعودی عرب کے پاس امریکا کے علاوہ کوئی انتخاب نہیں ہے اور اسے امریکی شرائط پر جاپان امریکا جیسے معاہدے کی طرف آنا ہی ہوگا۔ دوسری صورت میں اسے امریکی لے پالک اسرائیل کے شر اور طاقت کا اندازہ ہونا چاہیے جو کچھ بھی کرسکتا ہے۔

یوں 2019 بلکہ اس سے بھی پہلے سعودی عرب امریکا کے متبادل کی تلاش میں تھا جس میں چین بھی شامل تھا اور پاکستان سے بھی اس کی بات چیت چل رہی تھی۔ چین کا معاملہ یہ ہے کہ وہ ایسے کسی اتحاد پر یقین نہیں رکھتا۔ مئی 2025 میں جنرل عاصم منیر کی قیادت میں پاکستان کی افواج نے چار دن کی مختصر جنگ میں بھارت کو جس طرح خاک چٹائی، اس کے بعد ایم بی ایس کو احساس ہوا کہ پاکستان محض بھکاری یا ایسی قوت نہیں ہے جو اپنی بقا کی جنگ لڑنے میں مصروف ہے بلکہ ایک ایسی عظیم فوجی طاقت ہے جو غالب آنا جانتی بھی ہے اور غالب آکر دکھا بھی سکتی ہے جس کے بعد پاک سعودی عرب۔۔ اے دوست ذرا اور قریب رگ جاں ہو۔۔۔ کے مراحل شروع ہوگئے۔ قطر پر 9 ستمبرکے اسرائیلی حملے اور اس حملے میں امریکی آشیر باد نے ایم بی ایس کو امریکی دوستی اور بھروسے کے کھو کھلے پن، مکر اور عہد وپیمان کے دور تک پھیلتے شب ہجراں کے دھویں کا پختہ یقین دلادیا اور پھر وہ لمحہ آگیا جب ولی عہد محمد بن سلمان اھلاًو سھلاً کہتے وزیراعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کو گلے لگانے کے لیے بے تاب ہوگئے۔ شاعر نے اس منظر کو کسی اور ہی نظر سے دیکھا:

اپنے اپنے بے وفائوں نے ہمیں یکجا کیا

ورنہ میں تیرا نہیں تھا اور تو میرا نہ تھا

17 ستمبر 2025 کو ال یمامہ محل میں وزیراعظم شہباز اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا ’’اسٹر ٹیجک باہمی دفاعی معاہدہ‘‘ یقینا ایک تحسین آفرین پیش رفت ہے لیکن اسے دو مقدس مقامات کی حفاظت سونپے جانے کا رنگ دینا دونوں نیشن اسٹیٹس کے عوام کے مذہبی جذبات کی روح کو آسودگی دینے کے سوا کچھ نہیں۔ سوال یہ ہے کہ دونوں اسلامی ممالک تیسرے مقدس ترین مقام مسجد اقصیٰ کو آزاد کرانے کے لیے اتنے پر جوش کیوں نہیں ہیں؟ مسجد الحرام اور مسجد نبوی الحمدللہ یہودیوں کے قبضے میں نہیں ہیں۔ مسجد اقصیٰ 1967 سے یہودیوں کے قبضے میں ہے جو ہر روز اس کی بے حرمتی کرتے ہیں۔

موجودہ مسلم حکمرانوں کے درمیان معاہدے ’’امت مسلمہ کی تڑپ‘‘ سے بے چین ہوکر نہیں بلکہ ان کی حکومتوں کو محفوظ بنانے کے لیے کیے جاتے ہیں۔ مسلم ناٹو جیسے مفروضے اس وقت بے معنی ہو جاتے ہیں جب ہم اہل غزہ کی بھوک پیاس تباہی وبربادی، دربدری اور نسل کشی پر ان مسلم حکمرانوں کی بے حسی دیکھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان حکمرانوں کو امت مسلمہ نامی کسی وجود کی خبر ہے اور نہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے کسی عزم کی۔ ان کا اتحاد اور باہمی دفاعی معاہدے امت مسلمہ کے اتحاد کے لیے نہیں ہیں اور نہ ہی ان کی شراکت داری امریکا اور ناپاک صہیونی ریاست کے اتحاد کے خلاف ہے۔ اس معاہدے کے بعد کوئی اس گمان میں نہ رہے کہ دونوں ممالک فلسطین اور غزہ کو آزاد کرانے کے لیے باہم جدوجہد کریں گے۔ اس معاہدے کے بعد مشرق وسطیٰ میں پاکستان کے کردار سے امریکا کو فائدہ پہنچے گا۔ اسی لیے ٹرمپ انتظامیہ نے دونوں ممالک کو اس معاہدے کی اجازت دی ہے۔ امریکا کو لاعلم رکھ کر یہ معاہدہ کیا گیا، کون یقین کرسکتا ہے؟ دونوں ممالک کے حکمران محض مسلمانوں کے مفادات کے لیے ایسا قدم اٹھا سکیں، امریکی مرضی کے بغیر؟ غالب یاد آجاتے ہیں

تیرے وعدے پہ جیے ہم، تو یہ جان جھوٹ جانا

کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

متعلقہ مضامین

  • کہ خوشی سے مرنہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
  • امریکی صدر ٹرمپ کی بگرام ایئربیس واپس نہ کرنے پر افغانستان کو دھمکی قابل مذمت ہے، اسداللہ بھٹو
  • حد سے بڑھے مطالبات کے آگے ہتھیار نہیں ڈالیں گے،  ایرانی صدر کا دو ٹوک اعلان 
  • ٹرمپ نے ایک اور ملک پر حملے کی تیاری کرلی، اب تک کی سب سے بڑی بحری افواج کی تعیناتی
  • غزہ پر قیامت: اسرائیلی حملوں میں ایک دن میں 87 فلسطینی شہید
  • 7 جنگیں رکوا چکا، اسرائیل ایران جنگ بھی رکوائی، ڈونلڈ ٹرمپ
  • اقوام متحدہ، ایران کیخلاف پابندیاں ختم کرنے کی قرارداد منظور نہ ہوسکی
  • اقوام متحدہ، ایران کیخلاف پابندیاں ختم کرنے کی قرارداد منظور نہ ہو سکی
  • فرانس کا ایران پر دوبارہ اقوام متحدہ کی پابندیوں کا اعلان
  • جنوبی لبنان میں اسرائیلی فضائی حملے، اقوام متحدہ کی شدید مذمت