Express News:
2025-06-23@01:33:48 GMT

پاک امریکا نئی پیش رفت

اشاعت کی تاریخ: 23rd, June 2025 GMT

فیلڈ مارشل عاصم منیر اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ملاقات کا مطلب کیا ہے؟پاک بھارت جنگ اور مشرق وسطی کی صورت حال میں یہ ملاقات دھماکا خیز ہے۔ اس ملاقات کے مقاصد کے بارے میں ہمارے یہاں متضاد رویے اور مختلف آرا ہیں۔ رائے عامہ کے انداز فکر کو تاریخ کے پس منظر میں سمجھنا چاہیے۔ سمجھنے کا بہتر طریقہ بھی یہی ہے اور درست فیصلوں تک پہنچنے کے لیے بھی اسی راستے سے گزرنا پڑتا ہے۔

بعض واقعات بلکہ حادثے قوم کے لاشعور کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک تاشقند کا معاہدہ بھی ہے۔ 2016 میں صدر ممنون حسین کے ساتھ شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس میں شرکت کے لیے گیا تو میں اس مقام کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا جہاں اس معاہدے پر دستخط ہوئے تھے۔ میں یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ یہ معاہدہ جس جگہ ہوا، وہاں سے کس قسم کی  Vibes آتی ہوں گی۔

حالیہ ملاقات پر جس قسم کا ردعمل آیا ہے، اس کے پس منظر میں بھی یہی تجربہ جھلکتا ہے۔ سوشل میڈیا پر لوگوں کی بڑی تعداد نے  خدشہ ظاہر کیا کہ کہیں اس بار بھی ہم میدان میں جیتی ہوئی جنگ میز پر ہار نہ دیں۔

1965 کی جنگ کیا تھی اور کیوں لڑی گئی ہے، اس سوال کا جواب تاریخ دے گی یا دے رہی ہے لیکن ہمارا عمومی تاثر یہی ہے کہ ایک ڈکٹیٹر  میدان میں جیتی ہوئی جنگ میز پر ہار آیاتھا۔ لوگوں کی ایک قابل لحاظ تعداد اس بار بھی اسی انداز میں سوچ رہی ہے۔

ایسے لوگوں کی تعداد بھی کم نہیں ہے کہ جو اس ملاقات کو مشرق وسطی کی موجودہ صورت حال کے پس منظر میں دیکھ رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ کی گفتگو نے اس ملاقات کی اہمیت میں بہت زیادہ اضافہ کر دیا تھا۔ اس ملاقات سے قبل ذرائع ابلاغ سے ان کا ٹاکرا ہوا اور اس میں کسی نے ان سے اس ملاقات کے بارے میں بھی سوال کر دیا۔ ان کا جواب بہت دل چسپ اور معنی خیز تھا۔ یہ مکالمہ دل چسپ ہے:

' صحافی: آپ پاکستان میں کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟

ٹرمپ: میں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ روکی۔ میں پاکستان سے محبت کرتا ہوں۔

یہ شخص (فیلڈ مارشل) پاکستان کی طرف سے  بہت مثر کردار ادا کر رہا تھا اور یہ دونوں ایک دوسرے پر چڑھ دوڑنے والے تھے۔ '

ملاقات کے بعد انھوں نے کہا کہ فیلڈ مارشل عاصم منیر سے ملاقات ان کے لیے اعزاز ہے۔ لوگ سوچتے ہیں کہ ڈیل ماسٹر کو ایسی کیا مجبوری آن پڑی ہے کہ وہ پاکستانی فوج کے سربراہ کو اتنی اہمیت دے رہے ہیں بلکہ ان کی خوشامد میں مصروف ہیں۔

یوں بھی اس ملاقات میں جو لوگ موجود تھے، ان کی وجہ سے بھی اس کی اہمیت میں اضافہ ہو گیا تھا۔ اوول آفس کے کیبنٹ روم میں ہونے والی اس ملاقات میں امریکا کے وزیر خارجہ اور مشرق وسطی کے بارے میں ان کے مشیر بھی شامل تھے۔

ملاقات کے بعد اس کی تفصیلات کے بارے میں اسلام آباد سے جو اعلامیہ جاری ہوا ہے، اس میں بتایا گیا ہے کہ اس موقع پر مشرق وسطی کی صورت حال پر تفصیل سے تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس ملاقات کو مشرق وسطیٰ کے پس منظر میں دیکھنے والوں کے نزدیک اسلام آباد سے جاری ہونے والے اعلامیے کا یہ جملہ غیر معمولی ہے جس میں صدر ٹرمپ نے پاکستان کے ساتھ طویل المیعاد اسٹریٹجک شراکت داری کے خواہش کا اظہار کیا۔

اس ملاقات کے بارے میں دو مزید تبصرے دل چسپ ہیں۔ کچھ لوگوں نے لنچ پر ہونے والی ملاقات اور سابقہ امریکی تجربات کی رعایت سے کہا:

' Their is no free lunch.

'  یہ تجربہ ماضی کے تجربات کے ضمن میں سیاسی پس منظر رکھتا ہے جب کہ ایک تبصرہ سلمان خان کی فلم ' دبنگ' کے ایک ڈائیلاگ سے مستعار لیا گیا ہے۔ اس ستم ظریف نے لکھا:

' تمھارے پیار سے ڈر لگتا ہے صاحب! تھپڑ سے ڈر نہیں لگتا۔'

یہ تبصرہ دل چسپ فلمی پس منظر رکھنے کے باوجود  ان تلخ تجربات کی عکاسی کرتا ہے جو امریکا کے تعلق سے پاکستانی عوام کے تحت الشعور میں موجود ہیں۔ یہ  پس منظر یقینا ایک حقیقت ہے لہٰذا اسے پیش نظر رکھتے ہوئے ہمیں اس ملاقات کے مقاصد اور ان میں پاکستان کے مفادات کا تعین کرنا ہے۔

اس ملاقات کو پاک بھارت جنگ اور مشرق وسطی کی حالیہ صورت حال کے تناظر میں دیکھنا بھی اہم ہے لیکن اس کے چند  اہم پہلو اور بھی ہیں جب تک یہ پہلو پیش نظر نہ رکھے جائیں، اس اہم پیش رفت کو سمجھنا آسان نہ ہو گا۔

یہ ملاقات پاکستان کی تاریخ کے ایک اہم مرحلے پر ہو رہی ہے۔ یہ ملک اپنی عمر کے بیشتر حصے میں بدقسمتی سے طوائف الملوکی کا شکار رہا ہے جس کی وجہ سے اس کی شناخت، داخلی استحکام، خارجہ تعلقات اور معیشت تباہ ہو گئی۔

اس تباہی میں بہت سے دوسروں کے علاوہ کچھ باجووں اور ان جیسے دیگر لوگوں کا  ہاتھ بھی رہا ہے۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر وہ پہلے فوجی سربراہ ہیں جنھوں نے ملک کی تباہ حالی کے سنہری موقع سے  فایدہ اٹھانے کے بجائے اپنا طاقت اور اختیار ملک کو مضبوط بنانے پر استعمال کیا ہے۔

یہ پاکستان کا پہلا تجربہ ہے۔ پاکستان کے داخلی، خارجی اور معیشت سمیت ہر شعبے میں اس کے اثرات دکھائی دے رہے ہیں۔ ملک میں آئین اور قانون کی حکمرانی مضبوط ہو رہی ہے۔ اس چیز نے ملک کو اندرونی اور بیرونی دونوں اعتبار سے مضبوط بنایا ہے۔ حالیہ پاک بھارت جنگ میں کام یابی ممکن نہ ہوتی اگر پاکستان میں داخلی استحکام کی یہ صورت نہ ہوتی۔

اس جنگ میں کام یابی نے پاکستان کو خطے کی سب سے مضبوط طاقت بنا دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں جنوب مشرقی ایشیا پر بھارت کی بالادستی کا تاثر چکنا چور ہو گیا ہے۔ اب پاکستان خطے کا لیڈر اور طاقت ور قوت ہے۔ صدر ٹرمپ نے فیلڈ مارشل سے ملاقات سے قبل پاکستان کو مسلمہ ایٹمی  طاقت اور طاقت ور ملک قرار دے کر اس حقیقت پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔ کینیڈا میں جی سیون کانفرنس کے موقع پر نریندر مودی کا جو حشر ہوا ہے، وہ اس نئی ابھرتی ہوئی حقیقت کا ناقابل تردید ثبوت ہے۔

خطے کی مستحکم طاقت کی حیثیت سے ہم چاہیں یا نہ چاہیں، پوری دنیا ہم سے رابطہ رکھنا اور مضبوط تعلق بنانا چاہے گی۔ فیلڈ مارشل ٹرمپ ملاقات اسی نئی حقیقت کو ظاہر کرتی ہے۔ ماضی کے حادثات اپنی جگہ لیکن پاکستان نے 2022 کے بعد مشرق یعنی   چین سے پختہ اور روس سے گہرے ہوتے ہوئے تعلقات کے باوجود خارجہ تعلقات میں بڑی دانش مندی کے ساتھ توازن برقرار رکھا ہے۔ یہ توازن ہی ہوتا ہے جو خارجہ تعلقات میں کسی ملک کی اہمیت میں اضافہ کرتا ہے۔ ایسا ہو گیا ہے اور امریکا ایک طاقت ور متوازن ملک کو ماضی کی طرح نظر انداز کر کے بدمزگی کی کوئی نئی تاریخ رقم نہیں کرنا چاہتا۔

اب آیئے، ایران اسرائیل جنگ کی طرف۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے ایران کی حمایت کا دوٹوک اعلان کیا ہے۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے اس کی حمایت میں اتفاق رائے سے قراردادیں منظور کی ہیں۔ فیلڈ مارشل ٹرمپ ملاقات سے چند گھنٹے قبل وزیر اعظم شہباز شریف نے وفاقی کابینہ سے خطاب کرتے ہوئے نہ صرف ایران کی حمایت کا اعادہ کیا بلکہ یہ بھی کہا کہ اسے ایٹمی توانائی کے حصول کا حق حاصل ہے۔

اس ضمن میں ہماری فوج کا انداز فکر بھی مختلف نہیں۔فیلڈ مارشل عاصم منیر نے ملاقات کے بعد بھی ایران کے بارے میں قومی مؤقف کا اظہار ضروری سمجھا یعنی  یہ مؤقف صرف حکومت کا نہیں پوری ریاست کا ہے جس میں پاکستان کا ہر ادارہ شامل ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان برادر ملک ایران کی پرجوش حمایت کرنے کے باوجود اس جنگ کو اپنی سرحدوں سے دور رکھنا چاہتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ سفارتی ذرائع سے اس تنازعے کا حل بھی چاہتا ہے۔ یہ بات امریکا سمیت پوری دنیا پر واضح کر دی گئی ہے۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ فیلڈ مارشل ٹرمپ ملاقات کے بعد یہ خبر بھی سامنے آ گئی کہ ایران اسرائیل جنگ پر پیش رفت ہو گئی ہے اور صدر ٹرمپ کی حمایت سے یورپی ممالک جمعے کے روز جنیوا میں ایران کے ساتھ ایٹمی مسئلے پر مذاکرات شروع ہو گئے۔ 

ان ملکوں میں جرمنی، فرانس، برطانیہ کے وزرائے خارجہ شامل ہیں جن کی بات چیت ایرانی ہم منصب کے ساتھ ہوگی۔ یورپ نے اس موقع پر اس بات چیت میں امریکا کو بھی شامل ہونے کی دعوت دے دی۔ اس بریک تھرو کی خبر کے ساتھ صدر ٹرمپ کا بیان مزید اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ ایران کے ساتھ ڈیل اب بھی ہو سکتی ہے۔

ہنگری کے وزیرِ اعظم وکٹر اوربن نے جولائی 2024 میں کہا تھا کہ پاکستان ایک عالمی طاقت کی حیثیت سے ابھر رہا ہے، جنگ میں بھارت کو شکست اور فیلڈ مارشل کی صدر ٹرمپ سے ملاقات کے بعد یہ پیشین گوئی حقیقت بنتی دکھائی دیتی ہے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: فیلڈ مارشل عاصم منیر کے پس منظر میں ملاقات کے بعد اس ملاقات کے مشرق وسطی کی کے بارے میں کی حمایت صورت حال کے ساتھ بھی اس گیا ہے رہی ہے

پڑھیں:

صدر ٹرمپ اور فیلڈ مارشل کی ملاقات، شہباز شریف ہر سطح پر با خبر

اسلام آباد (نیوز ڈیسک)جمعہ کو ایک باخبر ذریعے نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور آرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کے درمیان وائٹ ہاؤس میں حالیہ اعلیٰ سطحی ملاقات کے بعد، وزیراعظم شہباز شریف کو اس ملاقات کی مکمل بریفنگ دی گئی۔ ذرائع کے مطابق، اس ملاقات کے بعد امریکی وزیر خارجہ سینیٹر مارکو روبیو کی جانب سے وزیراعظم شہباز شریف کو کی جانے والی فون کال بھی اسی سفارتی سلسلے کا حصہ تھی، جس کا مقصد واشنگٹن میں ہونے والی پیش رفت کو آگے بڑھانا تھا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کی ملاقات کی منصوبہ بندی، اس کے مندرجات اور بعد ازاں سفارتی روابط وزیراعظم شہباز شریف کی مشاورت سے اور باہمی پالیسی فیصلوں کی روشنی میں انجام پائے۔ذرائع کے مطابق، اگرچہ کچھ حلقے اس حوالے سے غلط فہمیاں پھیلا رہے ہیں، لیکن درحقیقت وزیراعظم شہباز شریف اور جنرل عاصم منیر کے درمیان قریبی اور مسلسل رابطہ پایا جاتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکمت عملی اور علمدرآمد کی سطح پر سیاسی اور عسکری قیادت متحد و متفق ہے۔ یہ ہم آہنگی کوئی نئی بات نہیں۔ حال ہی میں دی نیوز نے باخبر ذرائع کے حوالے سے خبر دی تھی کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ فوجی کشیدگی کے دوران وزیراعظم اور آرمی چیف (فیلڈ مارشل) کے درمیان مسلسل رابطہ رہا، جس میں عسکری، سفارتی اور سیاسی تمام پہلوؤں پر مشاورت کی گئی۔ ایک ذریعے کے مطابق، یہ ایک ایسا مربوط نظام تھا جس کی بنیاد باہمی اعتماد، احترام اور مشترکہ ذمہ داری تھی۔ اس متحدہ حکمت عملی کے نتیجے میں پاکستان کو موثر نتائج حاصل ہوئے۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ یہ ہمہ وقت (ساتوں دن اور 24 گھنٹے) جاری رہنے والا، دوطرفہ اور ریئل ٹائم کی بنیاد پر معلومات کا تبادلہ تھا جس میں وزیراعظم، آرمی چیف اور ان کی ٹیمیں بھرپور رابطے میں رہیں

انصار عباسی

Post Views: 3

متعلقہ مضامین

  • ٹرمپ اور عاصم منیرکی ملاقات
  • فیلڈ مارشل کا دورہ امریکہ : بھارت میں صف ماتم
  • صدر ٹرمپ اور فیلڈ مارشل کی ملاقات، شہباز شریف ہر سطح پر با خبر
  • غیر معمولی حالات میں غیر معمولی ملاقات
  • فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کی صدر ٹرمپ سے ملاقات سے پاکستان کا قد کاٹھ بڑھ گیا، مسعود خان
  • فیلڈ مارشل کی ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی اندرونی کہانی کیا ہے؟
  • ٹرمپ کا فیلڈ مارشل سے ملاقات کا اعزاز
  • پاکستان کی ایران کیلئے غیر متزلزل حمایت ’’100؍ فیصد ویسی کی ویسی‘‘
  • فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی امریکی صدر سے ملاقات کیسے ارینج کی گئی