حمیداللہ بھٹی
صدرٹرمپ اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کی ملاقات پر بھارت بے چین ہے۔ذ رائع ابلاغ میں چیخ و پکار جاری ہے امریکی پرچم کی توہین کرتے ہوئے امریکہ کودہشت گرد قرار دیا جارہا ہے ۔دراصل کئی گزرے برسوں کے دوران نریندرامودی ہم وطنوں کویقین دلا رہے تھے کہ حکومتی تعلقات کے ساتھ ٹرمپ سے اُن کے ذاتی مراسم ہیں۔ اسی زعم میں ٹرمپ کی انتخابی مُہم میں بھی حصہ لیاشایداسی لیے بھارتیوں کو یقین تھا کہ ٹرمپ کی پہلی ترجیح ہمیشہ بھارت رہے گااب ایسا نہیں ہو نے پر غم وغصے اور اشعال میں ہے حالانکہ ریاستوں کے باہمی تعلقات میں جذبات کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا بلکہ تعاون وتعلقات مفادات کے تابع ہوتے ہیں علاوہ ازیں دنیا فاتحین کو یاد رکھتی ہے۔ شکست خوردہ جرنیل لاوارث ہوتے ہیں ۔گزشتہ ماہ مئی کی پاک بھارت جھڑپوں میں پاکستان نے عسکری فتح حاصل کی جب کہ بھارت کے حصے میں شکست جیسی زلت آئی جس سے ٹرمپ کی پہلی ترجیح بھارت نہ رہا۔ٹرمپ اور عاصم منیر ملاقات سے عیاں ہوگیا ہے کہ امریکہ نے بھارتی ایماپر پاکستان کو نظر انداز کرنے کی پالیسی ترک کرتے ہوئے جنوبی ایشیا کی دونوں جوہری طاقتوں سے بناکر رکھنے کی حکمتِ عملی اختیارکرلی ہے ۔
پاک مریکہ تعلقات گزشتہ چند برسوں سے خوشگوار نہیں رہے لیکن ٹرمپ سے عاصم منیر کی دوگھنٹے پر محیط ملاقات نے سارامنظر نامہ ہی بدل دیا ہے۔ میزبان صدر ٹرمپ نے فیلڈ مارشل عاصم منیر سے ملاقات کو اپنے لیے اعزاز قرار دیا تو مہمان عاصم منیر نے جنگ بندی میں کردار پر ٹرمپ کا شکریہ ادا کیاجب ٹرمپ جنگ بندی کا کریڈٹ لیتے ہیں اور پاکستان بھی اُن کی تائید کرتا ہے تو بھارتی حکومت پریشان ہوتی ہے کیونکہ وہ سیز فائر میں ٹرمپ کردار سے انکار کرتی ہے۔ میزبان کے ساتھ سیکریٹری خارجہ مارکوروبیواورمہمان کے ساتھ ڈی جی آئی ایس آئی جنرل عاصم ملک کی موجودگی اشارہ ہے کہ دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے موقف اورضروریات کو سمجھاہے۔ انسدادِ دہشت گردی میں امریکہ کی حمایت اورٹیکنالوجی کاتبادلہ پاکستان کی استعداد بڑھا سکتا ہے نیز ملاقات اب پاکستان خودکو ایک فعال ،متوازن اورذمہ دار ملک کے طورپر خود کودنیاسے منوانا آسان ہو سکتا ہے اِس کے لیے عالمی روابط میں بہتری،قومی ترقی اور بہتر خارجہ حکمتِ عملی ناگزیر ہے اگر قومی قیادت فہم ودانش کا مظاہرہ کرے تو یہ ملاقات ہماری تاریخ کا ایساخوشگوار موڑ ثابت ہو سکتی ہے جس سے ملکی ترقی کے ساتھ ساکھ اور کردارمیں اضافہ ہو ۔
صدر ٹرمپ کاروباری شخص ہیں ۔وہ جنگوں پر کاروبار کو ترجیح دیتے ہیں اُن کے دورصدارت میں سرمایہ کار ی حاصل کرنے کے لیے بہت کام ہوا ہے ۔وہ نفع کے حصول کے لیے ہر حد تک جا سکتے ہیں۔اِس میں شائبہ نہیں کہ مشرقِ وسطیٰ میں آج بھی امریکہ کے لیے سب سے اہم اسرائیل ہے مگر دوسری مدتِ صدارت کے آغاز میں اِس خطے کے سرکاری دورے کے دوران اسرائیل نہ جانے کی وجہ وہاں سے مالی منفعت نہ ہوناہی تھا ۔وہ سعودی عرب ،قطر اور عرب امارات گئے ۔سینکڑوں ارب ڈالر کی سرمایہ کار ی حاصل کی۔ مہنگے ترین تحائف لیے اور میزبانوں کی تعریف میںچند ایک توصیفی جملے بول کر چلتے بنے ۔اسرائیل نہ جانے کی ہوشیاری اُنھیں میزبانوں کی نگاہ میں محترم و مکرم بنا گئی حالانکہ ایران و اسرائیل جنگ میں ٹرمپ کی تڑپ سے واضح ہے کہ وہ ہرقیمت پر اسرائیل کی فتح چاہتے ہیں۔ پاکستان آجکل امریکہ کے لیے اِس لیے بھی اہم ہے کہ کرپٹوکونسل بنانے والا خطے کاپہلا ملک ہے۔ مزید یہ کہ کرپٹومنصوبوں کے لیے دوہزار میگاواٹ بجلی وقف کر چکا ہے۔ صدرٹرمپ کے خاندان کا اِس کاروبار سے کیا تعلق ہے؟ کسی سے پوشیدہ نہیں پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت میں ہم آہنگی ہے اسی بناپر فیلڈ مارشل سے ملاقات کے اغراض و مقاصد ناقابلِ فہم نہیں ۔
معاشی گرداب سے نکلنے کے لیے اپنے معدنی ذخائر سے فائدہ اُٹھانے کے لیے غیر ملکی سرمایہ کاری کاپاکستان شدت سے متمنی ہے۔ امریکہ کی موجودہ قیادت دنیا کے معدنی ذخائر پر کنٹرول چاہتی ہے۔ یہ پہلو دونوں ممالک میں اشتراک کی ضرورت کواُجاگر کرتا ہے۔ ٹرمپ کو بخوبی معلوم ہے کہ پاک عسکری و سیاسی قیادت کی سوچ ایک ہے۔ اِس لیے عسکری قیادت سے تعلقات بڑھا کر معدنی ذخائر کے اہداف حاصل کرنے کے ساتھ خطے کی دفاعی صورتحال کوبھی اپنے حق میں ہموار کرنے کی کوشش کی ہے۔ کچھ لوگ ٹرمپ کو جذباتی اور غصیلا جان کر دنیا کو دور رہنے کا مشورہ دیتے ہیں ،وہ اپنی سوچ اور خیال بدل لیں یقینی کاروباری نفع اُنھیں جذبات سے نکل کر سوچنے اور غصے کو بھلا کر مہمان کی تعریف کرنے پر مجبور کردیتا ہے ۔جب یوکرینی صدر زیلنسکی نے اپنے ملک کے معدنی ذخائر امریکہ کے حوالے کرنے سے پس وپیش سے کام لیا توٹرمپ نے بدترین سفارتی رویے کا مظاہرہ کرتے ہوئے وائٹ ہائوس سے نکال دیا۔ پاکستان بھی یادرکھے کہ جب تک امریکہ کے لیے کاروباری نفع کے لیے حالات سازگار رکھے گا ٹرمپ انتظامیہ کے لہجے میں تب تک ہی حلاوت برقرار رہے گی۔
صدرٹرمپ اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کی ملاقات ایران و اسرائیل مناقشے کے حوالے سے بھی بہت اہمیت کی حامل ہے۔ پاکستان نے ایران پر اسرائیلی جارحیت کی کُھل کر مذمت کرتے ہوئے ا یرانی بھائیوں کی سفارتی و اخلاقی مد دکے عزم کا اظہار کیا ہے ۔پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف تہران دورے کے دوران ایران کے پُرامن جوہری پروگرام کی اپنی حمایت کا یقین دلا چکے ۔یہ صورتحال امریکہ اور اسرائیل کے لیے قطعی طور پر ناقابلِ قبول ہے ۔اسی لیے فیلڈ مارشل عاصم منیر کو امریکہ کی عسکری تقریبات میں نہ صرف مہمان ِ خصوصی بنا یا گیا بلکہ وائٹ ہائوس میں ظہرانے کا بھی اہتمام کیا گیا ۔اِس لیے ملاقات کاوقت بہت اہم ہے اورواقفانِ حال اِس بھاگ دوڑ کودنیاکے واحدجوہری مسلم ملک پاکستان کوایران کی عسکری امداد سے باز رکھنے کی مُہم کاحصہ قراردیتے ہیں لیکن یہ مقصدشاید ہی پوراہوکیونکہ فیلڈ مارشل عاصم منیر دورہ امریکہ کے دوران نجی تقریبات میں ایران کی جس غیر متزلزل حمایت کا اظہار کرتے رہے وہ دراصل پاکستان کی اپنی بھی ضرورت ہے ۔
ماضی میں چین اور امریکہ تعلقات قائم کرانے میں پاکستان نے کلیدی کردار ادا کیا اب ایک بارپھر دنیا کی سب سے بڑی معاشی طاقت چین اور دنیا کی سب سے بڑی عسکری قوت امریکہ کے تعلقات میں کشیدگی ہے جس کی وجہ تجارتی غلبے کی دوڑ ہے۔ دونوں ممالک ایک دوسرے کے برآمدی سامان پر محصولات بڑھارہے ہیں۔ دونوں ہی دنیا کے معدنی ذخائر پر کنٹرول کے لیے کوشاں ہیں۔ مستقبل میں بھی بظاہر امریکہ و چین کشیدگی میں کمی کے آثار نہیں۔ اِن حالات میں پاکستان کی اہمیت اِس بناپر بڑھ گئی ہے کہ ماضی کی طرح یہ اب بھی امریکہ تعاون کرسکتاہے۔ ایک ایسا ملک جس کی نہ صرف جنوبی ایشیا میں عسکری برتری ثابت شدہ ہے۔ بلکہ سی پیک کی تکمیل سے مشرقِ وسطیٰ ، افغانستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں کا گیٹ بننے جارہا ہے۔ نیزمعدنیات کے وسیع ذخائر رکھتا ہے۔ اِس کے ایران سے برادرانہ تعلقات ہیں ۔یہ چین کابھی ایک ایسا بااعتماد دوست وشراکت دار ہے جو کچھ بھی منوا سکتاہے ایسی خوبیاں بھارت میں نہیں پاکستان کو توانائی مسائل کاسامنا ہے مگر اُس نے محض ٹرمپ خاندان کی خوشنودی کے لیے کرپٹو کونسل بنا کر دوہزارمیگاواٹ بجلی وقف کردی۔ اِن سطور کی روشنی میں ملاقات کے اغراض و مقاصد کو سمجھنا زیادہ مشکل نہیں رہتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
.
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: فیلڈ مارشل عاصم منیر پاکستان کی کرتے ہوئے امریکہ کے کے دوران ٹرمپ اور کے ساتھ ٹرمپ کی کے لیے
پڑھیں:
غیر معمولی حالات میں غیر معمولی ملاقات
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے بدھ کے روز امریکی ایوان صدر وائٹ ہائوس کے کیبنٹ روم میں ظہرانے پر ہونے والی ملاقات اور بات چیت کے بارے میں جمعرات کے روز سرکاری طور پر جو وضاحت جاری کی ہے اس کے مطابق ملاقات کے لیے طے شدہ وقت ایک گھنٹہ تھا مگر ملاقات میں باہمی دلچسپی کے امور پر تفصیلی تبادلہ ٔ خیال اور دو طرفہ خلوص کے باعث یہ ملاقات دو گھنٹے تک وسعت اختیار کر گئی۔ ملاقات کے دوران دیگر امور کے علاوہ دونوں جانب سے ایران اسرائیل تنازعے کے حل پر خاص طور پر زور دیا گیا۔ ملاقات میں پاکستان اور امریکا کے مابین انسداد دہشت گردی کے شعبے میں باہمی تعاون کو مزید فروغ دینے کے عزم کا اعادہ بھی کیا گیا۔ دونوں رہنمائوں نے تجارت، اقتصادی ترقی، معدنیات، مصنوعی ذہانت، توانائی، کرپٹو کرنسی اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجی سمیت مختلف شعبوں میں دو طرفہ تعاون کو وسعت دینے کے امکانات پر بھی تفصیلی بات چیت کی جب کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کے ساتھ باہمی مفادات اور ہم آہنگی پر مبنی طویل المدتی اسٹرٹیجک شراکت داری قائم کرنے میں گہری دلچسپی کا اظہار کیا۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر نے حالیہ علاقائی بحران کے دوران پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے تعمیری اور نتیجہ خیز کردار کو حکومت پاکستان اور پاکستانی عوام کی جانب سے سراہا۔ انہوں نے صدر ٹرمپ کی قیادت کو سراہتے ہوئے کہا کہ وہ عالمی چیلنجز کو سمجھنے اور ان کے حل کے لیے بصیرت افروز فیصلے کرنے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے بھی پاکستان کی علاقائی امن واستحکام کے لیے کوششوں کو سراہا اور دونوں ممالک کے درمیان انسداد دہشت گردی کے شعبے میں جاری تعاون کو خوش آئند قرار دیا۔ دونوں رہنمائوں کے درمیان ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری کشیدگی پر بھی تفصیلی تبادلہ خیال ہوا اور اس مسئلے کے پر امن حل پر زور دیا گیا۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فیلڈ مارشل عاصم منیر کی قائدانہ صلاحیتوں اور خطے میں پیچیدہ صورتحال کے دوران ان کے بروقت فیصلوں کو سراہا، اس موقع پر فیلڈ مارشل عاصم منیر نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو حکومت پاکستان کی جانب سے پاکستان کے سرکاری دورے کی دعوت دی۔ بتایا گیا ہے کہ پاک فوج کے سربراہ فیلڈ مارشل عاصم منیر نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات میں یہ بھی واضح کیا کہ اگر ایران میں حکومت ختم کی گئی تو پاکستان اور ایران کی سرحد پر موجود علٰیحدگی پسند عناصر اور دہشت گرد گروہ پیدا ہونے والے خلا سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں جو پاکستان اور ایران کی نو سو کلو میٹر طویل سرحد کے دونوں جانب سرگرم عمل ہیں۔ ایران کے جوہری پروگرام پر اسرائیل کے حملوں کے بعد اسرائیلی حکومتی ذمے داران کئی بار یہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ وہ ایرانی حکومت کو معزول یا کم از کم غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں ایسی صورت حال میں ممکنہ بدامنی کے پھیلائو پر تشویش کے ساتھ ساتھ پاکستان کو اس امر پر بھی پریشانی کا سامنا ہے کہ اسرائیل نے ایک اور ملک کی جوہری تنصیبات پر حملہ کر کے جو مثال قائم کی ہے وہ مستقبل میں خطرناک ثابت ہو سکتی ہے، خصوصاً اس پس منظر میں کہ پاکستان اور بھارت جو دونوں جوہری طاقتیں ہیں نے بھی گزشتہ ماہ مئی میں چار روزہ جنگ لڑی ہے چنانچہ پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان شفقات علی خاں بھی یہ وضاحت کر چکے ہیں کہ ایران پر اسرائیل کا حملہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے اور ہمارے لیے یہ ایک سنگین معاملہ ہے جو ہمارے برادر ہمسایہ ملک ایران میں ہو رہا ہے اس سے پورے خطے کی سلامتی کی صورت حال خطرات سے دو چار ہو چکی ہے خصوصاً پاکستان اس سے نہایت شدت سے متاثر ہو رہا ہے۔ یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کی جا سکتی کہ گزشتہ برس پاکستان اور ایران کی سرحدوں پر دہشت گرد اور تخریب کار گروہوں کی سرگرمیوں کے باعث دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہت زیادہ کشیدگی آ گئی تھی اور دونوں برادر ملکوں نے ایک دوسرے پر بلوچ شدت پسند گروہوں کو پناہ دینے کے الزامات عائد کیے تھے اور ایک دوسرے کی فضائی حدود کے اندر گھس کر حملے بھی کیے تھے البتہ دونوں ملکوں کی قیادت نے بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کشیدگی پر جلد قابو پا لیا تاہم دونوں ملکوں کی طویل سرحد کے قریب دہشت گرد اور تخریب کار گروہوں کی پاکستان اور ایران دشمن سرگرمیوں پر تاحال قابو نہیں پایا جا سکا اور انہیں ہمارے دشمنوں کی ظاہری اور خفیہ سرپرستی بھی اس فتنہ کا بڑا سبب ہے، اس کے علاوہ عالمی حالات اور بین الاقوامی صورت حال نے بھی دونوں ملکوں کی دوریوں اور فاصلوں کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے چنانچہ پاکستان پر گزشتہ ماہ کی بھارتی جارحیت میں جہاں اسرائیل نے کھل کر بھارت کو ہر طرح کی مدد و تعاون فراہم کیا وہیں بھارت جو کچھ عرصہ پہلے تک ایران کے بہت قریب سمجھا جاتا تھا، اب دونوں کے مابین دوریاں پیدا ہو چکی ہیں اور بھارت نے ابھی تک ایران پر اسرائیلی حملوں کی مذمت تک نہیں کی اور وہ ایران مخالف بین الاقوامی اتحاد کا حصہ دکھائی دے رہا ہے۔ اس تمام عالمی تناظر میں صدر ٹرمپ سے پاکستانی فوج کے سربراہ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی بدھ کی ملاقات بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے اور یہ امر باعث اطمینان ہے کہ جیسا کہ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی طرف سے واضح کیا گیا ہے کہ پاکستانی سپہ سالار نے امریکی صدر کی ہاں میں ہاں ملانے کے بجائے حقیقی صورتحال ان کے سامنے رکھی ہے اور ایران اسرائیل تنازعے کے دوسرے رُخ سے انہیں آگاہ کیا ہے اور اس کے منفی پہلوئوں اور عالمی امن کو اس سے درپیش خطرات سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو آگاہ کرتے ہوئے انہیں اس جنگ کا حصہ نہ بننے کا صائب مشورہ دیا ہے توقع کی جانا چاہیے کہ امریکی صدر اس سنجیدہ مشورہ پر سنجیدگی سے غور کریں گے اور دنیا کو جنگ کی آگ کا ایندھن بننے سے بچانے کے لیے اپنا مثبت کردار ادا کریں گے کیونکہ دوسری صورت میں دوسری بڑی طاقتوں کو بھی اس جنگ میں کودنے کا موقع اور جواز فراہم ہو جائے گا جس کا عندیہ روس اور چین اور بعض دیگر ممالک کے فیصلہ سازوں کی جانب سے پہلے ہی دیا جا چکا ہے! امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پاکستانی فوج کے سپہ سالار سے ملاقات کے حوالے سے یہ پہلو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے کہ قرآن کے حکم کہ ’’دشمن کے مقابلے میں اپنے گھوڑے تیار رکھو‘‘ پر پاکستانی فیصلہ سازوں کے عمل اور پاک بھارت جنگ کے دوران اس کے عملی مظاہرہ کا بہت اہم کردار ہے علامہ اقبال نے اس حقیقت کو اپنے الفاظ میں یوں نمایاں کیا تھا کہ: ’’عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد‘‘ مئی کی پاک بھارت جنگ میں پاکستان اپنے ’’عصا‘‘ کی کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرتا اور بھارت کو شکست فاش سے دو چار نہ کرتا تو جناب فیلڈ مارشل عاصم منیر کی امریکی صدر سے ملاقات تو بہت بعد کی بات ہے، دورہ امریکا کی دعوت ہی نہ دی جاتی… ورنہ کون نہیں جانتا کہ نام نہاد دہشت گردی کی جنگ میں امریکا کا آنکھیں بند کر کے ساتھ دینے اور بے پناہ نقصانات برداشت کرنے کے باوجود امریکا پاکستان سے خوش نہیں ہو سکا تھا اور اس کی نوازشات کا رخ بھارت ہی کی جانب رہا۔