گاڑیوں کی فٹنس کیلیے سندھ حکومت نے مشنری کی خریداری کا فیصلہ کیا ہے، شرجیل میمن
اشاعت کی تاریخ: 23rd, June 2025 GMT
کراچی:
سندھ کے سینیئر صوبائی وزیر شرجیل انعام میمن کا کہنا ہے کہ پورے سندھ میں پہلے دو انسپکٹرز تھے جو گاڑیوں کی فٹنس دیکھتے تھے لیکن اب سندھ حکومت نے مشنری کی خریداری کا فیصلہ کیا ہے۔
سندھ اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گاڑیوں کی فٹنس لازمی ہے اور محکمہ ٹرانسپورٹ اس پر کام کر رہا ہے۔ پہلے فٹنس سرٹیفیکیٹ ہاتھ سے جاری ہوتے تھے، کسی نے گاڑی دیکھی نہ دیکھی سرٹیفیکیٹ مل جاتا تھا لیکن اب کیو آر کوڈ کے ساتھ سرٹیفیکیٹ جاری ہوتا ہے۔
شرجیل میمن نے بتایا کہ محکمہ اطلاعات نے ایک ایپ بنائی ہے جس پر ایک لاکھ سے زائد افراد رجسٹرڈ ہو چکے، پرائیویٹ اور سرکاری ادارے اپنی نوکریاں اس ایپ پر ڈال رہے ہیں۔ پلمبر ہو یا انجینیئر سب نوکری کی تفصیلات موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آئی ورک فار سندھ ایپ پر 72 لاکھ لوگ وزٹ کر چکے ہیں، سرکاری و نجی نوکریوں کے لیے کوئی بھی اس ایپ پر رجسٹریشن کروا سکتا ہے۔ حکومت کی کوئی بھی نوکری کی پوسٹ آتی وہاں پوسٹ کر دی جاتی ہے۔ اسمارٹ جاب الرٹ، اے سی سی وی بلڈر جیسے فنکشن اس میں متعارف کرا رہے ہیں۔
سینیئر صوبائی وزیر نے بتایا کہ مختلف ایسوسی ایشنز اور پریس کلبز سمیت دیگر صحافتی اداروں کو 29 کروڑ 70 لاکھ کی گرانٹ دے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بھارت اپنے بیانیے کو فلم انڈسٹری کے ذریعے پروان چڑھا رہا ہے۔ پاکستان اس شعبے خصوصاً سندھ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ فلم انڈسٹری کے ذریعے پاکستان کا بیانیہ دنیا کے سامنے رکھے۔
شرجیل میمن نے کہا کہ پنجاب حکومت نے پہلی ای وی بس کا دعویٰ کیا لیکن ہم نے تصحیح کی کہ پہلی بس سندھ حکومت نے منگوائی تھی اور پنک بس سروس پاکستان نہیں بلکہ ایشیاء کی پہلی پنک سروس ہے۔
انہوں نے کہا کہ خواتین کو پنک اسکوٹی دینے کی بات کی اور ایک ہزار بائیکس دینی ہیں، 8ہزار درخواستیں آئی ہیں مگر صرف 145 خواتین کے ڈرائیونگ لائسنس valid ہیں۔ اب ٹریفک پولیس کے پاس 8ہزار خواتین نے لائسنس کے لیے اپلائی کیا ہے۔ پنک بس، پنک بائیک اور اب خواتین کے لیے پنک ٹیکسی بھی لا رہے ہیں۔
صوبائی وزیر نے کہا کہ ریڈ لائن کے منصوبے پر ٹھیکیدار کو ایک ارب جاری ہو چکے تھے۔ ریڈ لائن نے رائٹ آف وے مانگا جس پر انہیں کہا کہ بھائی کیا صحرا میں کام کر رہے ہو۔ کار شو رومز والوں نے کہا کہ دو کلومیٹر کے راستے پر متبادل انتظام کیا جائے کہ ان کا کاروبار متاثر نہ ہو، اس طرح تو شہر میں ہر جگہ مارکیٹس ہیں تو کہاں کہاں پل کی شکل میں تعمیر کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں کینالز کو لے کر بڑی سیاست ہوئی، پاکستان کھپے والوں نے ہر سازش کو ناکام بنایا۔ شہید بھٹو اور محترمہ بینظیر کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔
شرجیل میمن نے کہا کہ بلاول بھٹو زرداری نے پاکستان کا مقدمہ دنیا میں لڑا۔ بھارت نے بلاول بھٹو زرداری کے سر کی قیمت رکھی اور پھر بھی وہ بھارت گئے۔ صوبائی خود مختاری اور این ایف سی ایوارڈ صدر آصف زرداری نے دیے۔
سینیئر وزیر کا کہنا تھا کہ میں ہمیشہ ایم کیو ایم کے بیانات کو نظرانداز کرتا ہوں۔ ایم کیو ایم کو انگیج کرنے کی ضرورت نہیں ہے، عوام کے پاس ہر کسی نے اپنی اپنی کارکردگی لیکر جانی ہے۔ رحمان ڈکیت پیپلز پارٹی کی حکومت میں مارے گئے اور عذیر بلوچ بھی پی پی کے حکومت میں گرفتار ہوئے۔ ہم نفرت کی سیاست نہیں کریں گے، ہم آپس میں بھائی ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت نے شرجیل میمن رہے ہیں کیا ہے
پڑھیں:
سندھ حکومت نے بھی کے فور منصوبے کیلیے عملاً کچھ نہیں رکھا،محمد فاروق
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی(اسٹاف رپورٹر)جماعت اسلامی کے رکن سندھ اسمبلی محمد فاروق نے صوبائی بجٹ برائے 2025-26پر اسمبلی میں اپنی بجٹ تقریر کرتے ہوئے کہاہے کہ پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت کا بجٹ نہ صرف عوام دشمن بلکہ کراچی دشمن بجٹ بھی ہے اسے مسترد کرتے ہیں۔ واپڈا کے مطابق کے فور منصوبے کے لیے 40ارب روپے کی ضرورت تھی لیکن وفاقی حکومت نے کے فورمنصوبے کے لیے صرف 3.2ارب روپے مختص کیے جبکہ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت نے بھی کے فور منصوبہ کے لیے عملاًکچھ نہیں رکھاجس کا واضح مطلب ہے کہ کے فور منصوبہ تقریباً بندہونے کے قریب ہے ۔کراچی کے ساڑھے 3 کروڑ عوام جو سالانہ 3ہزار ارب روپے سے زائد ٹیکس ادا کرتے ہیںلیکن کراچی کی 60فیصد آبادی پانی سے محروم ہے ،کراچی کے شہریوں کو نلکوں میں تو پانی نہیں ملتا لیکن ٹینکروں کے ذریعے مہنگے داموں پانی فروخت کیا جاتا ہے اور مرے پہ سو درے پانی نہ ملنے کے باوجود کراچی واٹر کارپوریشن کا ماہانہ بل باقاعدگی سے آتا ہے جس میں ٹیکس بھی لگایا جاتا ہے ۔واٹر ٹینکر اور ہائیڈرینٹ مافیا کی سرپرستی کرنے والے پیپلزپارٹی کے ہی لوگ ہیں۔کراچی سمندر کے برابر آباد ہے ،کھارے پانی کومیٹھا کرنے کے لیے منصوبہ موجودہ بجٹ میں شامل ہی نہیں ہے ۔2007کا ایس تھری منصوبہ ابھی تک تعطل کا شکار ہے ۔صوبائی بجٹ کے شعبہ صحت میں اربوں روپے این جی اوز کی مد میں رکھے گئے ہیں لیکن وہ رقم جو سرکاری اسپتالوں کے لیے مختص کی جاتی ہے ،پیپلزپارٹی کی بیوروکریسی اورسیکرٹری استعمال کرتے ہیں اوراربوں روپے کی کرپشن کی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ جناح اسپتال میں ادویات نہ ہونے کے برابر اور ایک ہی سرنج سے کئی بچوں کو انجیکشن لگائے جاتے ہیں،عباسی شہید اسپتال 800بستروں پر مشتمل ہے جو کے ایم سی کے ماتحت ہے کراچی کا میئر پیپلزپارٹی کا جیالا ہے لیکن صوبے کے بجٹ میں عباسی شہید اسپتال کے لیے کوئی گرانٹ نہیں رکھی گئی ۔صوبہ سندھ میں شعبہ تعلیم کا 613ارب روپے کا بجٹ ہے جس میں سے 524ارب روپے تنخواہوں میں ہی خرچ ہوجائیں گے،صوبہ سندھ کے 80لاکھ بچے اور بچیاں اسکولوں سے باہر ہیں ان کے لیے تعلیم کا کوئی انتظام موجودنہیں ہے ۔صوبے میں شعبہ صحت اور شعبہ تعلیم میں سب سے زیادہ کرپشن کی جاتی ہے جس پر قابو پانے کی ضرورت ہے ۔سندھ ہائیر ایجوکیشن میں کراچی یونیورسٹی کے لیے صرف 3.5ارب روپے رکھے گئے جو بہت کم ہے۔ انہوں نے کہاکہ لوکل باڈیز کے لیے 327.83بلین روپے رکھے گئے جس میں لوکل باڈیز ترقیاتی بجٹ کے لیے صرف 123ارب روپے رکھے گئے ،پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت نے آئین کے آرٹیکل 140-Aکے مطابق اختیارات کو ٹاؤن و یوسی تک منتقل نہیں کیا ،سارے اختیارات میئر اور سندھ حکومت کے پاس ہی ہیں،شہر کا بہت بڑا مسئلہ سیوریج لائن اورگٹر وں کے ڈھکن کا نہ ہونا ہے،گٹر بہتے ہیں تو یوسی آفس میں شکایتیں درج کرائی جاتی ہیں ، سندھ سولڈ ویسٹ مینجمنٹ کے لیے 27ارب روپے رکھے گئے ہیں لیکن یہ فنڈز ٹاؤن و یوسی تک کیوں نہیں منتقل نہیں کیے جارہے ہیں،پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت نے اپنا میئر بنانے کے باوجود کسی بھی یوسی کو ترقیاتی فنڈ جاری نہیں کیا۔