UrduPoint:
2025-09-22@01:49:26 GMT

ٹرمپ کی ایران پر بمباری، پاکستان کی طرف سے شدید مذمت

اشاعت کی تاریخ: 23rd, June 2025 GMT

ٹرمپ کی ایران پر بمباری، پاکستان کی طرف سے شدید مذمت

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 جون 2025ء) پاکستان اور بھارت کے تعلقات اپریل میں بھارتی زیر انتظام کشمیر میں سیاحوں پر خونریز حملے کے بعد شدید کشیدہ ہوگئے تھے۔ اس حملے کے کچھ ہی عرصے بعد جوہری ہتھیاروں سے لیس یہ دونوں ہمسایہ ممالک جنگ کے قریب پہنچ گئے۔ انہوں نے ایک دوسرے پر حملے کیے تاہم امریکہ کی قیادت میں شدید سفارتی کوششوں کے نتیجے میں جنگ بندی ہوئی، جس کا سہرا امریکی صدر ٹرمپ اپنے سر لیتے ہیں۔

پاکستان نے ہفتے کی رات ایکس پلیٹ فارم پر ایک پرجوش پیغام میں اس ''فیصلہ کن سفارتی مداخلت اور اہم قیادت‘‘ کی تعریف کی تھی اور صدر ٹرمپ کا نام باضابطہ طور پر نوبل امن انعام کے لیے تجویز کیا تھا۔

ایران پر فضائی حملے: امریکہ کی کوئی مدد نہیں کی، پاکستان

تاہم 24 گھنٹوں سے بھی کم وقت کے بعد پاکستان نے امریکہ کی جانب سے ایران پر حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حملے ''بین الاقوامی قانون کی سنگین خلاف ورزی‘‘ اور عالمی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے قوانین کی خلاف ورزی ہیں۔

(جاری ہے)

ایران کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے، پاکستان

پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف نے اتوار کو ایرانی صدر مسعود پزشکیان سے ٹیلی فونک گفتگو میں امریکی حملوں پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ ہدف بنائی گئی جوہری تنصیبات پہلے ہی عالمی جوہری توانائی ایجنسی کی نگرانی کے تحت تھیں۔

پاکستان کے ایران کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں اور اس کا کہنا ہے کہ ایران کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔

آج بروز پیر اسلام آباد حکومت نے ٹرمپ کے لیے نوبل انعام کی اُس تجویز کے بارے میں کوئی فوری تبصرہ نہیں کیا، جو امریکی صدر اور پاکستانی فوج کے سربراہ عاصم منیر کے درمیان وائٹ ہاؤس میں دوپہر کے کھانے پر ہونے والی ایک اہم ملاقات کے بعد سامنے آئی تھی۔

جمعرات کو ہونے والی اس ملاقات میں، جو دو گھنٹے سے زائد وقت تک جاری رہی تھی، امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو اور مشرق وسطیٰ کے لیے امریکی خصوصی نمائندے اسٹیو وٹکوف بھی شریک تھے۔

پاکستانی فوج کے ایک بیان کے مطابق اس ملاقات میں ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری کشیدگی پر تفصیلی تبادلہ خیال ہوا اور دونوں رہنماؤں نے تنازعے کے حل کی اہمیت پر زور دیا۔

جہاں پاکستان نے بھارت کے ساتھ اپنے بحران میں ٹرمپ کی مداخلت پر فوری طور پر ان کا شکریہ ادا کیا، وہیں نئی دہلی نے اسے کم اہمیت دی اور کہا کہ کشمیر کے معاملے پر کسی تیسرے فریق کی ثالثی کی ضرورت نہیں ہے۔

کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان تقسیم ہے لیکن دونوں ممالک اس کی مکمل ملکیت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ بھارت کا الزام ہے کہ پاکستان اس خطے میں عسکریت پسند گروہوں کی حمایت کرتا ہے جبکہ اسلام آباد حکومت اس الزام کو مسترد کرتی ہے۔

ادارت: افسر اعوان

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے

پڑھیں:

سلامتی کونسل: ایران پر عائد پابندیوں میں رعایت برقرار رکھنے کی قرارداد مسترد

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 20 ستمبر 2025ء) ایران کو 2015 کے جوہری معاہدے کے تحت پابندیوں سے چھٹکارا دینے کی سہولت برقرار رکھنے کی تجویز سلامتی کونسل میں رائے شماری کے نتیجے میں مسترد کر دی گئی ہے جس سے پابندیوں کے دوبارہ نفاذ سے متعلق طریقہ کار (سنیپ بیک) کے حوالے سے رکن ممالک میں شدید اختلافات واضح ہو گئے ہیں۔

15 رکنی کونسل کے صدر جمہوریہ کوریا کی جانب سے پیش کردہ تجویز کے حق میں چار ووٹ (روس، چین، الجزائر اور پاکستان) آئے جبکہ نو ارکان (ڈنمارک، فرانس، یونان، پانامہ، سیرالیون، سلوانیہ، صومالیہ، برطانیہ اور امریکہ) نے اسے مسترد کر دیا۔

گینا اور جمہوریہ کوریا نے رائے شماری میں شرکت نہیں کی۔

اس تجویز کو منظوری کے لیے مجموعی طور پر نو ارکان کی حمایت درکار تھی۔

(جاری ہے)

منظوری کی صورت میں ایران پر 2015 کے جوہری معاہدے 'مشترکہ جامع منصوبہ عمل' (جے سی پی او اے) سے قبل عائد کردہ اقوام متحدہ کی پابندیاں ختم ہو جاتیں اور معاہدے کے تحت اسے کو دی جانے والی نرمی برقرار رہتی۔

Photo: IAEA/Paolo Contri ایران کا بشر نیوکلیئر پاور پلانٹ۔

'سنیپ بیک' کی شرائط

جولائی 2015 میں 'جے سی پی او اے' کی توثیق کے لیے منظور کی جانے والی قرارداد 2231 میں اس عمل کا خاکہ پیش کیا گیا ہے جس کے تحت ایران پر اقوام متحدہ کی پابندیاں ختم کی جائیں گی اور ساتھ ہی ایک ایسا طریقہ کار بھی متعین کیا گیا ہے جس کے تحت معاہدے کے کسی بھی فریق کی جانب سے اس کی سنگین عدم تعمیل' کی صورت میں پابندیاں دوبارہ نافذ کی جا سکتی ہیں۔

اس معاہدے کے فریقین میں چین، فرانس، جرمنی، روس، برطانیہ، امریکہ، یورپی یونین اور ایران شامل ہیں۔

اگر معاہدے کا کوئی بھی دستخط کنندہ سلامتی کونسل کو کسی سنگین خلاف ورزی کی اطلاع دیتا ہے تو کونسل کا صدر 30 دن کے اندر پابندیوں میں نرمی جاری رکھنے سے متعلق ایک قرارداد رائے شماری کے لیے پیش کرنے کا پابند ہوتا ہے۔

اگر قرارداد یا تجویز منظور نہ ہو سکے تو اقوام متحدہ کی سابقہ پابندیاں خود بخود دوبارہ نافذ ہو جاتی ہیں۔

باالفاظ دیگر، سلامتی کونسل کی جانب سے پابندیوں میں نرمی برقرار رکھنے کے حق میں ووٹ نہ دیے جانے کی صورت میں اقوام متحدہ کی پرانی پابندیاں خود بخود بحال ہو جاتی ہیں۔تند و تیز مباحثہ

آج سلامتی کونسل کے اجلاس کے آغاز میں روس نے نکتہ اعتراض اٹھاتے ہوئے یورپی ممالک کے اس دعوے کو مسترد کیا کہ وہ 'سنیپ بیک' طریقہ کار کو فعال کر سکتے ہیں۔

روسی سفیر، ویزلے نیبینزیا نے کہا کہ اس طریقہ کار کو فعال کرنے یا قرارداد پر رائے شماری کی کوئی قانونی و سیاسی بنیاد موجود نہیں اور فرانس، جرمنی اور برطانیہ قرارداد 2231 اور 'جے سی پی او اے' دونوں کے دائرے سے باہر کام کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان تینوں ممالک نے تنازعات کے حل کے طریقہ کار پر عمل نہیں کیا اور اس کے بجائے ایران پر یکطرفہ پابندیاں عائد کر دی ہیں جو کہ غیر قانونی ہیں۔

سفیر کا کہنا تھا کہ یورپی ممالک کا یہ موقف قابل قبول نہیں کہ ان کے پاس سابقہ قراردادوں کی تعزیری شقوں کو فعال کرنے کا حق موجود ہے جب کہ وہ خود اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

© IAEA گزشتہ سال نومبر میں آئی اے ای اے کے سربراہ رافائل گروسی نے ایران کے یورینیم افزودگی کے مراکز کا دورہ کیا تھا۔

۔ چین، برطانیہ اور فرانس کا موقف

اقوام متحدہ میں چین کے مستقل سفیر فو کونگ نے کہا کہ سنیپ بیک کے معاملے پر سلامتی کونسل کے ارکان کے درمیان وسیع تر اختلافات ہیں۔ اگر رائے شماری میں عجلت کی گئی تو یہ رکن ممالک کے درمیان محاذ آرائی کو مزید بڑھائے گی جس سے اس مسئلے کے سفارتی حل کی کوششیں اور بھی پیچیدہ ہو جائیں گی۔

برطانیہ کی سفیر باربرا ووڈورڈ نے کہا کہ جوہری معاہدے کے یورپی شرکا کا سنیپ بیک کو متحرک کرنے کا فیصلہ مکمل طور پر قانونی، جائز، وسیع اور قرارداد 2231 کے تقاضوں کے مطابق ہے۔

انہوں نے 28 اگست 2025 کو فرانس، جرمنی اور برطانیہ کی طرف سے جمع کرائی گئی اطلاع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سنیپ بیک کو متحرک کرنے کے لیے صرف یہی درکار ہے کہ معاہدے کا کوئی بھی فریق ملک ایسی اطلاع دے کہ اسے یقین ہے کسی فریق نے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں۔

فرانس کے سفیر جیروم بونافون نے رائے شماری سے قبل بات کرتے ہوئے ایران کے بڑھتے ہوئے جوہری پروگرام اور جوہری توانائی کے بین الاقوامی ادارے (آئی اے ای اے) کے ساتھ اس کے تعاون میں کمی پر تشویش کا اظہار کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ایران نے معاہدے میں مقررہ حد سے کہیں زیادہ افزودہ یورینیم کا ذخیرہ جمع کر لیا ہے اور اپنی اہم جوہری تنصیبات تک 'آئی اے ای اے' کی رسائی محدود کر دی ہے۔ اسی لیے بین الاقوامی امن و سلامتی، اور جوہری عدم پھیلاؤ کے عالمی نظام کی سالمیت کو برقرار رکھنے کے لیے سنیپ بیک طریقہ کار ضروری ہے۔

متعلقہ مضامین

  • امریکی صدر ٹرمپ کی بگرام ایئربیس واپس نہ کرنے پر افغانستان کو دھمکی قابل مذمت ہے، اسداللہ بھٹو
  • ایران کا یورپی ممالک کو سخت انتباہ، جوہری ایجنسی سے تعاون معطل کرنے کی دھمکی
  • ٹرمپ نے ایک اور ملک پر حملے کی تیاری کرلی، اب تک کی سب سے بڑی بحری افواج کی تعیناتی
  • غزہ پر قیامت: اسرائیلی حملوں میں ایک دن میں 87 فلسطینی شہید
  • 7 جنگیں رکوا چکا، اسرائیل ایران جنگ بھی رکوائی، ڈونلڈ ٹرمپ
  • سلامتی کونسل: ایران پر عائد پابندیوں میں رعایت برقرار رکھنے کی قرارداد مسترد
  • پابندیوں کی واپسی ہوئی تو ایران ان پر قابو پا لے گا، ایرانی صدر
  • اقوام متحدہ، ایران کیخلاف پابندیاں ختم کرنے کی قرارداد منظور نہ ہو سکی
  • جنوبی لبنان میں اسرائیلی فضائی حملے، اقوام متحدہ کی شدید مذمت
  • سلامتی کونسل: کیا ایران پر آج دوبارہ پابندی لگا دی جائے گی؟