ایران پر امریکی حملے، کون سا ملک کس کے ساتھ کھڑا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 23rd, June 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 جون 2025ء) اگرچہ امریکی حملوں کے سبب ہونے والے نقصانات کا جائزہ ابھی مکمل نہیں ہوا لیکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تین ایرانی جوہری تنصیبات پر حملوں کے نقصان کو ''عظیم الشان‘‘ قرار دیا ہے۔
ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا کہ امریکہ نے ''ایک بہت بڑی سرخ لکیر عبور‘‘ کی ہے جبکہ سفارت کاری کا وقت ختم ہو چکا اور ایران کو اپنا دفاع کرنے کا حق حاصل ہے۔
دنیا کے زیادہ تر ممالک اس تنازعے کے سفارتی حل کے حق میں ہیں۔ امریکی حملوں کے بعد عالمی ردعمل کا جائزہ: اقوام متحدہاقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے کہا کہ وہ امریکہ کی طرف سے طاقت کے استعمال سے ''شدید پریشان‘‘ ہیں۔
(جاری ہے)
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ان کے بیان میں کہا گیا، ''اس تنازعے کے تیزی سے بے قابو ہونے کا خطرہ بڑھ رہا ہے، جس کے شہریوں، خطے اور دنیا کے لیے تباہ کن نتائج ہو سکتے ہیں۔
میں فریقین سے کشیدگی کم کرنے کی اپیل کرتا ہوں۔‘‘ان کا مزید کہنا تھا، ''کوئی فوجی حل نہیں۔ آگے کا واحد راستہ سفارت کاری ہے۔‘‘
برطانیہبرطانوی وزیراعظم کیئر اسٹارمر نے مشرق وسطیٰ سے باہر تنازعے کے پھیلاؤ کی وارننگ دی اور تمام فریقین سے بحران کے سفارتی خاتمے کے لیے مذاکرات کا مطالبہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس غیر مستحکم خطے میں استحکام ترجیح ہے۔
برطانیہ گزشتہ ہفتے یورپی یونین، فرانس اور جرمنی کے ساتھ مل کر جنیوا میں ایران کے ساتھ سفارتی حل کے لیے ایک ناکام کوشش کر چکا ہے۔شہباز شریف کی ایرانی صدر سے گفتگو، امریکی حملوں کی مذمت
تاہم اسٹارمر نے کہا کہ ایران کا جوہری پروگرام عالمی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہے، ''ایران کو کبھی جوہری ہتھیار تیار کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور امریکہ نے اس خطرے کو کم کرنے کے لیے اقدام اٹھایا ہے۔
‘‘ روسصدر ولادیمیر پوٹن کی سکیورٹی کونسل کے نائب سربراہ دیمتری میدویدیف نے کہا کہ کئی ممالک تہران کو جوہری ہتھیار فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں۔
انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ کون سے ممالک ہیں لیکن کہا کہ امریکی حملے سے کم سے کم نقصان ہوا اور یہ تہران کو جوہری ہتھیاروں کی تیاری سے نہیں روکے گا۔
روسی وزارت خارجہ نے فضائی حملوں کی''شدید مذمت‘‘ کی اور انہیں ''بین الاقوامی قانون، اقوام متحدہ کے چارٹر اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی سنگین خلاف ورزی‘‘ قرار دیا۔
عراقعراقی حکومت نے امریکی حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ فوجی کشیدگی نے مشرق وسطیٰ میں امن و سلامتی کے لیے سنگین خطرہ پیدا کر دیا ہے۔ اس نے کہا کہ اس سے خطے کے استحکام کو شدید خطرات ہیں اور بحران کو کم کرنے کے لیے سفارتی کوششوں کا مطالبہ کیا۔
حکومتی ترجمان باسم العوادی نے ایک بیان میں کہا، ''ایسے حملوں کا تسلسل خطرناک تنازعے کا باعث بن سکتا ہے، جس کے نتائج کسی ایک ملک کی سرحدوں سے باہر نکل کر پورے خطے اور دنیا کی سلامتی کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔
‘‘ مصرصدر عبدالفتاح السیسی نے مشرق وسطیٰ کے تنازعے کے پھیلاؤ کے ''شدید نتائج‘‘ کی وارننگ دی اور مذاکرات کی طرف واپسی کا مطالبہ کیا۔
سعودی عربسعودی عرب نے، جس نے پہلے اسرائیل کے ایران کی جوہری تنصیبات اور فوجی رہنماؤں پر حملوں کی مذمت کی تھی، امریکی فضائی حملوں پر ''گہری تشویش‘‘ کا اظہار کیا لیکن ان حملوں کی مذمت سے گریز کیا۔
وزارت خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا، ''مملکت تمام ممکنہ کوششیں بروئے کار لانے، کشیدگی کم کرنے اور مزید کشیدگی سے بچنے کی ضرورت پر زور دیتی ہے۔‘‘ قطرقطر نے، جہاں مشرق وسطیٰ کا سب سے بڑا امریکی فوجی اڈہ ہے، اسرائیل-ایران جنگ میں بڑھتی ہوئی کشیدگی پر ''افسوس‘‘ کا اظہار کیا۔
وزارت خارجہ نے ایک بیان میں تمام فریقین سے تحمل اور ''تنازعے سے بچنے‘‘ کی اپیل کی۔
قطر کا مزید کہنا تھا کہ خطے کے لوگ، جو تنازعات اور ان کے تباہ کن انسانی نتائج بھگت رہے ہیں، مزید برداشت نہیں کر سکتے۔ قطر نے اسرائیل-حماس جنگ میں کلیدی ثالث کا کردار ادا کیا ہے۔ حماس اور حوثییمن کے حوثی باغیوں اور حماس نے امریکی حملوں کی مذمت کی ہے۔ حوثی باغیوں کے سیاسی بیورو نے ایک بیان میں مسلم ممالک سے ''جہاد اور مزاحمت کے آپشن‘‘ کو ایک محاذ کے طور پر استعمال کرنے اور مسلم ممالک سے ''صہیونی-امریکی تکبر‘‘ کے خلاف اکٹھا ہونے کی اپیل کی۔
حماس اور حوثی ایران کے نام نہاد محور مزاحمت کا حصہ ہیں، جو یمن سے لے کر لبنان تک ایران نواز پراکسیز کا مجموعہ ہے۔
لبنانلبنانی صدر جوزف عون نے کہا کہ امریکی بمباری علاقائی تنازعے کا باعث بن سکتی ہے، جسے کوئی ملک برداشت نہیں کر سکتا۔ انہوں نے مذاکرات کا مطالبہ کرتے ہوئے ایکس پر لکھا، ''لبنان، اس کی قیادت، جماعتیں اور عوام آج پہلے سے زیادہ اس بات سے آگاہ ہیں کہ اس نے اپنی سرزمین اور خطے میں پھوٹنے والی جنگوں کی بھاری قیمت ادا کی ہے۔
وہ مزید قیمت ادا کرنے کو تیار نہیں۔‘‘ پاکستانپاکستان نے امریکی حملوں کو ''انتہائی تشویشناک‘‘ قرار دیتے ہوئے شدید تنقید کی۔ پاکستان کی طرف سے ایسا اس وقت ہوا ہے، جب تقریباﹰ ایک روز قبل ہی پاکستان نے ٹرمپ کو نوبل امن انعام کے لیے نامزد کیا تھا۔
حکومت پاکستان نے اپنے بیان میں کہا، ''یہ حملے بین الاقوامی قانون کے تمام ضوابط کی خلاف ورزی ہیں۔
ایران کو اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت اپنا دفاع کرنے کا جائز حق حاصل ہے۔‘‘ چینچین نے ایران پر امریکی حملوں کی مذمت کرتے ہوئے انہیں بین الاقوامی قانون کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا اور کہا کہ اس سے مشرق وسطیٰ میں کشیدگی مزید بھڑک اٹھی ہے۔
چینی وزارت خارجہ نے بیان میں تمام فریقین، خاص طور پر اسرائیل، سے فوری جنگ بندی اور مکالمے کا آغاز کرنے کی اپیل کی۔
وزارت نے مزید کہا، ''چین عالمی برادری کے ساتھ مل کر انصاف کو برقرار رکھنے اور مشرق وسطیٰ میں امن و استحکام کی بحالی کے لیے کوششوں کو یکجا کرنے کے لیے تیار ہے۔‘‘ یورپی یونینیورپی یونین کی اعلیٰ سفارت کار نے کہا کہ ایران کو جوہری ہتھیار تیار کرنے کی اجازت نہیں دی جانا چاہیے، لیکن انہوں نے تنازعے میں ملوث فریقوں سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی۔
ای یو کی خارجہ پالیسی کی سربراہ کایا کالاس نے سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا، ''میں تمام فریقوں سے پیچھے ہٹنے، مذاکراتی میز پر واپس آنے اور مزید کشیدگی کو روکنے کی اپیل کرتی ہوں۔‘‘ اٹلیاطالوی وزیر خارجہ انتونیو تاجانی نے کہا کہ ایران کی جوہری تنصیبات ’’پورے علاقے کے لیے خطرہ‘‘ تھیں، لیکن انہوں نے امید ظاہر کی کہ یہ کارروائی تنازعے میں کمی اور مذاکرات کی طرف لے جا سکتی ہے۔
آئرلینڈنائب وزیراعظم سائمن ہیرس نے امریکی فضائی حملوں کو ''ایک انتہائی خطرناک تنازعے میں ایک غیرمعمولی اضافہ‘‘ قرار دیا۔ آئرلینڈ نے، جو غزہ میں اسرائیل کی جنگ پر خاص طور پر تنقید کرتا رہا ہے، ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکنے کے لیے مذاکرات کی دیگر یورپی کوششوں کی حمایت کی۔
ہیرس نے کہا، ''ہم اب خاص طور پر خطرناک لمحے میں داخل ہو رہے ہیں۔
اب تنازعے کے بھنور میں اضافے کے امکانات پہلے سے زیادہ بڑھ گئے ہیں اور عالمی برادری کے لیے اس انتہائی غیر مستحکم تنازعے پر قابو کھونے کا حقیقی خطرہ ہے۔‘‘ آسٹریلیاوزیر خارجہ پینی وونگ نے کہا کہ آسٹریلیائی حکومت نے امریکی حملوں کی حمایت کی ہے۔ انہوں نے مزید کہا، ''ہم ایران کو جوہری ہتھیار حاصل سے روکنے کی حمایت کرتے ہیں اور یہی اس کا مقصد ہے‘‘۔
تاہم پیر کے روز چینل نائن نیوز سے گفتگو کے دوران انہوں نے کہا، ''بالآخر ہم کشیدگی کی کمی اور سفارت کاری کی طرف دیکھنا چاہتے ہیں۔‘‘ لاطینی امریکہبائیں بازو کی لاطینی امریکی حکومتیں امریکی حملوں کی شدید مخالفت کر رہی ہیں۔ ایران کی اتحادی وینزویلا حکومت نے ان حملوں کو ''غیر قانونی، ناقابل جواز اور انتہائی خطرناک‘‘ قرار دیا۔
کولمبیا کے صدر گسٹاوو پیٹرو نے کہا کہ یہ حملے مشرق وسطیٰ کے لیے توہین ہیں۔ چلی کے صدر گیبریل بورک نے کہا کہ امریکی حملے ''انسانیت کے بنائے گئے قواعد کی خلاف ورزی‘‘ ہیں۔ میکسیکو کی وزارت خارجہ نے''امن کے لیے فوری اپیل" کی۔اس کے برعکس ارجنٹائن کے صدر خاویئر میلے نے، جو ٹرمپ اور اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے اتحادی ہیں، سوشل میڈیا پر حملوں کی تعریف کی۔
ان کے ترجمان نے کہا، ''دہشت گردی، کبھی نہیں۔‘‘ جاپان، تھائی لینڈ اور ویتنامجاپانی وزیراعظم شیگیرو ایشیبا نے صحافیوں سے کہا کہ صورتحال کو جلد از جلد پرسکون کرنا ضروری ہے، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ایرانی جوہری ہتھیاروں کی تیاری کو بھی روکنا چاہیے۔ انہوں نے ایران پر امریکی حملوں کی حمایت پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔
ویت نام نے فریقین سے مذاکراتی کوششوں کو جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ انسانی قانون اور عالمی جوہری توانائی ایجنسی کے ضوابط کا احترام کرنے کا مطالبہ کیا۔
وزارت خارجہ کی ترجمان فام تھو ہانگ نے ایک بیان میں کہا، ''ویت نام مشرق وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی کشیدگی اور پیچیدہ تنازعے پر گہری تشویش رکھتا ہے، جو شہریوں کی جان و مال، علاقائی اور عالمی امن و استحکام کے لیے سنگین خطرہ ہے۔
‘‘تھائی لینڈ نے تمام فریقوں سے فوری طور پر تشدد کے تمام اعمال روکنے اور پرامن حل تلاش کرنے کی اپیل کی ہے۔
ویٹیکنپوپ لیو چاردہم نے سینٹ پیٹرز اسکوائر میں اپنی اتوار کی دعا کے دوران امن کے لیے پرزور اپیل کی اور عالمی سفارت کاری سے ''ہتھیاروں کو خاموش‘‘ کرنے کا مطالبہ کیا۔ ایران میں ''تشویشناک‘‘ صورتحال کا کھلا حوالہ دینے کے بعد انہوں نے زور دیا کہ ''آج انسانیت پہلے سے زیادہ امن کو پکار رہی ہے، یہ ایک ایسی پکار ہے، جو عقل کا تقاضا کرتی ہے اور اسے دبایا نہ جائے۔
‘‘پوپ لیو نے عالمی برادری کے ہر رکن سے اپنی اخلاقی ذمہ داری نبھانے کی اپیل کی: ''جنگ کے المیے کو روکیں اس سے پہلے کہ یہ ناقابل تلافی گہرائی تک جا پہنچے۔‘‘
ادارت: افسر اعوان
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے امریکی حملوں کی مذمت نے امریکی حملوں کو جوہری ہتھیار نے ایک بیان میں نے کہا کہ ایران کا مطالبہ کیا کرنے کی اپیل میں کہا اقوام متحدہ کرنے کے لیے سفارت کاری کی اپیل کی خلاف ورزی اور عالمی تنازعے کے کی حمایت انہوں نے ایران کو قرار دیا کے ساتھ کرنے کا کی طرف
پڑھیں:
غزہ میں معصوم فلسطینیوں کی شہادتوں پر اسرائیلی فوج میں پھوٹ، جنرلز آپس میں لڑ پڑے
غزہ میں معصوم فلسطینیوں کی شہادتوں پر اسرائیلی فوج میں پھوٹ، جنرلز آپس میں لڑ پڑے WhatsAppFacebookTwitter 0 6 August, 2025 سب نیوز
غزہ پر جاری اسرائیلی حملوں کے دوران نہ صرف دنیا بھر میں اسرائیل پر جنگی جرائم کے الزامات شدت اختیار کر چکے ہیں، بلکہ اب خود اسرائیلی فوج کے اندر بھی ان حملوں پر شدید اختلافات سامنے آ رہے ہیں۔ جنوبی کمانڈ کے سربراہ میجر جنرل یانیو اسور اور اسرائیلی فضائیہ کے سربراہ میجر جنرل تومر بار کے درمیان حالیہ اعلیٰ سطحی اجلاس میں شدید تلخ کلامی ہوئی، جس کا مرکزی نکتہ غزہ میں بے گناہ فلسطینی شہریوں کی بڑے پیمانے پر ہلاکتیں تھیں۔
عبرانی میڈیا رپورٹس کے مطابق، بیئر شیبہ میں موجود اسور نے ویڈیو لنک کے ذریعے جنرل اسٹاف کے اجلاس میں شرکت کی اور فضائیہ کی جانب سے بعض حملوں کی منظوری روکنے پر شدید اعتراض اٹھایا۔ اسور کا کہنا تھا کہ تل ابیب میں بیٹھے افسران ’’میدان کی حقیقت‘‘ سے مکمل طور پر لاتعلق ہو چکے ہیں، جس پر اجلاس میں موجود فضائیہ کے سربراہ نے سخت الفاظ میں جواب دیا اور کہا کہ جنوبی کمانڈ کی جانب سے حالیہ حملوں کی درخواستیں غیر پیشہ ورانہ تھیں اور ان کی منظوری سے غیر ضروری شہری ہلاکتیں ہو رہی تھیں۔
اسرائیلی ویب سائٹ ”وائی نیٹ نیوز“ کے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ چیف آف اسٹاف ایال زمیر کو اسور کے لب و لہجے پر مداخلت کرنی پڑی اور انہوں نے اسے ناقابل قبول قرار دیا۔ اجلاس میں موجود ایک افسر کے بقول، ’اس سطح پر جنرلز کے درمیان ایسا تصادم پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔‘
اس تنازعے کی جڑ وہ تباہ کن حکمت عملی ہے جسے جنوبی کمانڈ ’’حماس پر دباؤ‘‘ کا نام دے رہی ہے، مگر حقیقت میں اس بہانے غزہ کے شہریوں پر بدترین بمباری اور زمینی جارحیت جاری ہے۔ آپریشن ”گیڈیونز چیریٹس“ کے آغاز میں اسرائیلی افواج نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ حماس کی قیادت کو ختم کر کے یرغمالیوں کی رہائی ممکن بنائیں گے۔ تاہم، حقیقت یہ ہے کہ سینکڑوں فلسطینی شہری جن میں خواتین، بچے اور بزرگ شامل ہیں، ان فضائی حملوں میں شہید ہو چکے ہیں، اور حماس نہ صرف قائم ہے بلکہ اپنی شرائط پر مذاکرات کر رہی ہے۔
بین الاقوامی تنظیموں اور خود اسرائیلی فوج کے بعض حلقوں نے بھی جنوبی کمانڈ کی جارحانہ حکمت عملی پر تنقید کی ہے۔ ایک اسرائیلی دفاعی افسر نے بتایا کہ ’اب یہ جنگ ابتدائی مرحلے سے مختلف ہو چکی ہے۔ جنوبی کمانڈ کی فائر پالیسی اب حد سے تجاوز کر چکی ہے۔ بعض اوقات معمولی درجے کے حماس ارکان کو نشانہ بنانے کے لیے درجنوں شہریوں کو مار دیا جاتا ہے۔‘
رپورٹ میں بتایا گیا کہ میجر جنرل اسور، جو اپنے پیش رو یارون فنکل مین کی سات اکتوبر کے بعد برطرفی کے نتیجے میں جنوبی کمانڈ کے سربراہ بنے، متعدد بار اعلیٰ فوجی حکام کے ساتھ محاذ آرائی کر چکے ہیں۔ فوجی حلقے اب ان سے پیشہ ورانہ سطح پر بھی رابطے کم سے کم رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ایک سابق اسرائیلی میجر کے مطابق، ’فوجی دستے مسلسل حملوں سے تھک چکے ہیں، کوئی واضح پیش رفت نہیں ہو رہی، اور دشمن ہماری کمزوری محسوس کر رہا ہے۔‘
اس تناؤ کو بڑھانے میں اہم کردار اس میڈیا بلیک آؤٹ کا بھی ہے جو غزہ میں جاری کارروائیوں کے دوران سیاسی حکم پر نافذ کیا گیا۔ آپریشن ”آئرن سوارڈز“ کو اب ”گیڈیونز چیریٹس“ کا نام دیا جا چکا ہے، مگر حقیقت یہی ہے کہ اسرائیلی افواج نہ حماس کو ختم کر سکیں، نہ یرغمالی واپس لا سکیں، اور نہ ہی عالمی حمایت برقرار رکھ سکیں۔
فوجی قیادت کا یہ باہمی تصادم اس تلخ حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے کہ اسرائیلی ریاست اب نہ صرف سفارتی اور اخلاقی میدان میں تنہا ہو چکی ہے، بلکہ اس کی عسکری مشینری کے اندر بھی بداعتمادی اور شکست خوردگی کا زہر سرایت کر چکا ہے۔ درحقیقت، غزہ کے نہتے عوام پر جاری ظلم نے صرف اسرائیل کی اخلاقی ساکھ کو نہیں، بلکہ خود اس کے فوجی ڈھانچے کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرپاکستان میں سونے کی قیمت میں اضافہ چینی وزیرخارجہ رواں ماہ پاکستان کا اہم دورہ کریں گے سلامتی کونسل میں فلسطین.اسرائیل تنازع پر کھلی بحث، چین کی جانب سے فوری جنگ بندی کی اپیل مخصوص نشستوں پر بحال اراکین کو فی کس کتنے لاکھ روپے ملنے کا امکان ہے؟تفصیلات سب نیوز پر کل احتجاج میں لوگ کیوں نہیں پہنچے اس پر پارٹی اور عمران خان سے بات کرونگا: سلمان اکرم اعظم سواتی کو پشاور ایئرپورٹ پر بیرون ملک جانے سے روک دیا گیا عمر ایوب اور شبلی فراز نے نااہلی کیخلاف پشاور ہائیکورٹ سے رجوع کرلیاCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم