ڈونلڈ ٹرمپ کا ایران میں نظام حکومت کی تبدیلی کا اشارہ
اشاعت کی تاریخ: 23rd, June 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران میں نظام حکومت کی تبدیلی کا اشارہ دے دیا۔
اپنے بیان میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ موجودہ ایرانی حکومت ایران کو عظیم نہیں بناسکتی تو ریجیم چینج کیوں نہیں ہوناچاہیے؟ رجیم چینج کی اصطلاح کا استعمال سیاسی طور پر درست نہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکی B-2 پائلٹ میزوری میں بحفاظت لینڈ کرگئے، ہم نے ایک شاندار فوجی کامیابی حاصل کی ہے۔
قبل ازیں امریکی صدر کا کہنا تھا کہ اس کامیابی میں بم کو ایران کے ہاتھ سے چھین لیا، اگر انہیں موقع ملتا تو وہ یہ بم ضرور استعمال کرتے، حملے میں امریکی فوج نے بہادری اور ذہانت کا استعمال کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکی فوج نے مکمل اور فیصلہ کُن فتح حاصل کی، ہماری ناقابلِ یقین فوج کا شکریہ کہ فوج نے حیرت انگیز کام کیا، یہ واقعی خاص تھا۔
Post Views: 4.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
تصادم کی فضا پیدا کرنے سے امریکہ کو کچھ حاصل نہیں ہوگا، بگرام ائیربیس ایشو پر چین کا ردعمل
مبصرین نے خبردار کیا ہے کہ بگرام پر دوبارہ قبضے کے لیے اشتعال انگیز بیانات علاقائی کشیدگی اور پیچیدگیوں میں اضافے کا باعث بن سکتے ہیں۔ روس نے بھی حالیہ مہینوں میں متعدد بار مغربی، بالخصوص امریکی، افغانستان میں فوجیوں کی واپسی کی کوششوں کے بارے میں خبردار کیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ بگرام ایئر بیس پر دوبارہ قبضے کی کوشش کے بارے میں امریکی صدر کے ریمارکس کے جواب میں چین نے اس بات پر زور دیا کہ خطے میں کشیدگی کو ہوا دینے اور تصادم کی فضا پیدا کرنے جیسی سوچ کو عوامی حمایت حاصل نہیں ہے اور افغانستان کے مستقبل کا تعین ملک کے عوام کو کرنا چاہیے۔ واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے برطانوی وزیراعظم کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں بگرام ایئر بیس کو دوبارہ حاصل کرنے پر سنجیدہ لہجے میں زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ بگرام بیس چین کے جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے مراکز سے صرف ایک گھنٹے کی دوری پر ہے اور ہم اس اسٹریٹجک بیس کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان بیانات کے جواب میں چین نے ایک بار پھر خطے میں کشیدگی کو ہوا دینے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
چینی وزارت خارجہ کے ترجمان لن جیان نے کہا کہ چین افغانستان کی آزادی، خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام کرتا ہے، افغانستان کا مستقبل اس کے عوام کے ہاتھ میں ہونا چاہیے، ہم تمام فریقین سے علاقائی امن اور استحکام کے لیے تعمیری کردار ادا کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اس سے قبل طالبان حکومت کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے اعلان کیا تھا کہ افغان سرزمین کا ایک انچ بھی غیر ملکی فوجی موجودگی کے لیے قابل قبول نہیں ہے اور امریکہ کے ساتھ بات چیت صرف سیاسی اور اقتصادی ہوگی۔ طالبان حکومت کے وزیر خارجہ کے مشیر ذاکر جلالی نے ٹرمپ کے بیانات کے جواب میں زور دیا تھا کہ طالبان افغانستان میں کسی بھی غیر ملکی فوجی کی موجودگی کو قبول نہیں کرتے، حالانکہ وہ امریکہ کے ساتھ سیاسی اور اقتصادی بات چیت کو ممکن سمجھتے ہیں۔
مبصرین نے خبردار کیا ہے کہ بگرام پر دوبارہ قبضے کے لیے اشتعال انگیز بیانات علاقائی کشیدگی اور پیچیدگیوں میں اضافے کا باعث بن سکتے ہیں۔ روس نے بھی حالیہ مہینوں میں متعدد بار مغربی، بالخصوص امریکی، افغانستان میں فوجیوں کی واپسی کی کوششوں کے بارے میں خبردار کیا ہے۔ بگرام ایئر بیس کسی زمانے میں افغانستان میں سب سے بڑا امریکی فوجی اڈہ تھا اور اگست 2021 میں امریکی افواج کے انخلاء کے بعد طالبان حکومت کے کنٹرول میں آیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے متعدد بار چین کی نگرانی اور انسداد دہشت گردی کے مراکز کے قیام سمیت تزویراتی مقاصد کے لیے اس کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے بیس کو دوبارہ حاصل کرنے کی ضرورت کی بات کی ہے۔ چین نے بھی بارہا ٹرمپ کے بگرام کے بارے میں بیانات کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور اس کا ماننا ہے کہ افغانستان اور خطے میں کسی بھی فوجی کشیدگی سے پڑوسی ممالک کے استحکام اور سلامتی کو خطرہ ہے۔