وزیراعظم کی کیش لیس معیشت کے فروغ کیلئے ڈیجیٹل لین دین کوآسان بنانے کی ہدایت
اشاعت کی تاریخ: 23rd, June 2025 GMT
وزیراعظم محمد شہباز شریف کی زیر صدارت کیش لیس معیشت کے حوالے سے اجلاس آج (پیر) اسلام آبادمیں ہوا۔وزیراعظم نے کیش لیس نظام کو فروغ دینے کیلئے ڈیجیٹل لین دین کو عوام کیلئے کیش کی نسبت آسان بنانے کی ہدایت کی۔انہوں نے ادائیگیوں کے ڈیجیٹل نظام راست کو وفاق سمیت تمام صوبوں میں قائم کرنے کی بھی ہدایت کی ۔وزیراعظم نے کہا کہ معیشت میں شفافیت لانے کے لیے ڈیجیٹل لین دین کا نظام قائم کرنا انتہائی اہم ہے،پوری دنیا میں ترقی یافتہ ممالک اور کامیاب معیشتوں میں کیش لیس نظام کو ترجیح دی جا رہی ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ لین دین اور ادائیگیوں کے ڈیجیٹل نظام کے قیام کے لئے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال عمل میں لایا جائے، بینکاری نظام کے تحت گردش کرنے والی رقوم کو حکومتی منصوبوں میں سرمایہ کاری کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔وزیراعظم نے سرکاری اور نجی شعبوں کے مابین لین دین کو کیش لیس بنانے کی ہدایت کی۔اجلاس میں وزیراعظم کو ملک میں کیش لیس نظام کے قیام کیلئے اقدامات کی پیشرفت سے آگاہ کیا گیا۔
وزیراعظم کوبریفنگ میں بتایا گیا کہ پاکستان ڈیجیٹل اتھارٹی قائم کی جا چکی ہے اور اس کے تحت ملکی معیشت کو کیش لیس بنانے پر کام جاری ہے،ڈیجیٹل پبلک انفراسٹرکچر کمیٹی وفاقی وزارت آئی ٹی کی قیادت میں کام کرے گی۔بریفنگ میں بتایا گیا کہ سمارٹ اسلام آباد پائلٹ منصوبے کے تحت وزارت آئی ٹی اسلام آباد کو پاکستان کا پہلا کیش لیس شہر بنانے کے لیے اقدامات کررہی ہے۔
اشتہار
ذریعہ: Al Qamar Online
پڑھیں:
ستائیسویں آئینی ترامیم۔ مجسٹریٹی نظام کی واپسی ،بیورو کریسی کو مزید طاقتور بنانے کا منصوبہ۔
ستائیسویں آئینی ترامیم۔ مجسٹریٹی نظام کی واپسی ،بیورو کریسی کو مزید طاقتور بنانے کا منصوبہ۔ WhatsAppFacebookTwitter 0 6 November, 2025 سب نیوز
تحریر ذوالقرنین حیدر
ان دنوں ملک میں 27ویں آئینی ترامیم کی گونج پورے ملک میں سنائی دے رہی ہے۔ کہیں آرٹیکل 243تھی زیر بحث ہے تو کہیں صوبوں کے اختیارات میں کمی کی بات جارہی ہے۔ مگر جو سسٹم سے جڑی بات ہے وہ دراصل مجسٹریٹی نظام کی واپسی کی بات ہے۔ یعنی دوسرے لفظوں میں ہم نے1860میں واپس جانے کا فیصلہ کیا ہے۔
برطانوی تسلط میں یہ قانون بنایا گیا جس میں ملکی اداروں کا نظام ایگزیکٹو مجسٹریٹی کے سپرد کیا گیا۔ دوسرے لفظوں میں وہ بھی ایک طرح کا وائسرے تھا۔ پولیس سے لیکر تمام ادارے انہی کی مرہون منت ہوا کرتے تھے۔ مگر وقت بدلہ حالات بدلے اور بالآخر مشرف دور میں اس قانون سے جان چھڑا لی گئی اور پولیس آرڈر 2002 لایا گیا۔ جس کی وجہ سے پولیس اپنے فیصلوں میں کسی حد تک آزاد ہوئی اگرچہ یہ بھی سچ ہے کہ آج بھی پولیس آرڈر 2002اپنی اصل روح کے مطابق نافذ نہیں ہو سکا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے پولیس نے گزشتہ بیس سالوں سے امن اوامان کی صورتحال کو سنبھالا ہوا ہے۔ نئے ادارے بنا دئے گئے۔
اختیارات تقسیم ہوئے۔ ایک طرف روزگار کے مواقع ملے تو دوسری طرف کئی معاملات میں عوام کو بھی سہولت میسر آئی۔ اب اگر بات کی جائے کہ مجسٹریٹی نظام واپس لایا جائیگا تو ہوگا کیا۔ دراصل اب تک تین مرتبہ یہ کوشش کی جا چکی ہے پولیس آرڈر واپس ہو مگر ایسا نہ ہوا۔ اس بار پھر سے ایک کوشش کی گئی ہے۔ نظام واپس آنے سے پولیس آرڈر ختم ہو جائیگا۔ نئے بنائے جانے اداروں کو بھی ختم کرنا پڑ جائیگا۔
یہاں تک کہ عدلیہ کی طاقت بھی کم ہو جائیگی کیونکہ عدلیہ کے اختیارات بھی ایگزیکٹو کے پاس آجائیں گے۔ پھر ہوگا بادشاہی نظام بادشاہ کو کیا پسند ہے اسی کے مطابق آپ کو بھی چلنا ہوگا۔ بلوچستان اور کے پی میں دہشت گردی ہو یا امن وامان کا معاملہ پولیس اپنی جانیں قربان کر رہی ہے۔ دھرنے ہوں یا احتجاج نمٹا جارہا ہے۔ مگر اس کے بعد صاحب کا ایک حکم ہوگا اور پورا شہر اسی پر چلے گا۔ آج اگر پولیس اختیارات سے تجاوز کرتی ہے تو آپ کے پاس کئی فورم ہے آپ عدلیہ سے بھی ریلیف لے سکتے ہیں مگر یہ اختیارات بھی کم ہو گئے تو جو ریلیف مل رہا ہے اس سے بھی جائیں گے۔
پنجاب میں لوکل گورنمنٹ آرڈنینس میں بھی تمام اختیارات سیکرٹری کو دئیے گئے اس سے تو اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کا راگ جو الاپا جاتا ہے وہ بھی ختم ہو گیا۔ دنیا کے تمام ملکوں میں ایسے قوانین ختم ہو چکے ہیں یہاں تک کے برطانیہ بھی اس نظام سے باہر آچکا ہے۔ مگر ہم نے ایک بار پھر فرسودہ نظام کو اپنانے کی کوشش میں ہیں۔ یہ سپشلائیزیشن کا دور ہے نا کہ جنرلائزیشن کا دور
مجوزہ لائے جانے والے نظام سے عدلیہ اور پولیس کو جہاں دھچکا لگے گا وہاں عوام بھی شدید متاثر ہوگی۔ جس کی واضح مثال تھری ایم پی او کے آرڈر ہیں کہ صاحب کو پسند نہیں کہ آپ ان کے سامنے آئیں اور پھر آپ ان کے اگلے حکم تک ااندر ہی رہیں گے۔ یہی کچھ برطانوی راج میں بھی ہوتا تھا۔
جس کے بعد وقت کے ساتھ ساتھ اس بات کا احساس ہوا کہ اس نظام سے جان چھٹرائی جائے۔ نظام سے جان تو چھڑا لی گئی مگر اس نظام کا مائنڈ سیٹ ماننے کے لئے تیار نہیں۔ اسی لئے ایک بار پھر کوشش کی جارہی ہے کہ عدلیہ کے اختیارات کم ہوں جو واپس ایگزیکٹو کو دئیے جا سکیں۔ پولیس پھر سے مجسٹریٹ کے تابع ہو۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرامریکی صدر نے پاک بھارت جنگ میں 8 طیارے گرائے جانے کا دعویٰ کردیا بھارتی سازش 1947 نومبر 6 مسلمانوں کا جموں میں قتل عام “ژالہ باری کی سرد چپ” میرا لاہور ایسا تو نہ تھا سوشل میڈیا ہماری خودی کو کیسے بدل رہا ہے. کشمیر سے فلسطین تک — ایک ہی کہانی، دو المیے تعمیراتی جمالیات سے صاف فضا تک: پاکستان کے لیے ایک حیاتیاتی دعوتCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم