Express News:
2025-06-23@23:45:32 GMT

مکی میڈیسن…جنریشن زی کی پہلی آسکر ونر اداکارہ

اشاعت کی تاریخ: 23rd, June 2025 GMT

جنریشن زی یا جنریشن زیڈ سے مراد وہ نئی نسل ہے جو 1990ء کی دہائی کے اواخر سے 2010ء کے وسط کے دوران پیدا ہوئی۔ یہ وہ نسل ہے جس نے اپنی آنکھ انٹرنیٹ، موبائل فونز، لیپ ٹاپس، اور دیگر ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے دور میں کھولی۔

جنریشن زی کو وہ خوش نصیب نسل کہا جا سکتا ہے جس نے بچپن سے ہی ڈیجیٹل دنیا تک رسائی حاصل کی اور جس کی روزمرہ زندگی ٹیکنالوجی سے اس قدر منسلک ہو چکی ہے کہ اب ان کے لیے آن لائن اور آف لائن دنیا میں فرق کرنا مشکل ہو چکا ہے۔ یہ نسل مکمل طور پر ڈیجیٹل ماحول میں پلی بڑھی ہے، اسی لیے انہیں "ڈیجیٹل نیٹیوز" (Digital Natives) بھی کہا جاتا ہے، کیونکہ انہوں نے ٹیکنالوجی کو نہ صرف استعمال کیا بلکہ اسے اپنی زندگی کا لازمی جزو بنا لیا ہے۔

اس نسل کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ یہ مختلف ثقافتوں، زبانوں اور سماجی پس منظر رکھنے والے افراد پر مشتمل ہے، جو دنیا کو ایک گلوبل ویلیج (عالمی گاؤں) کے طور پر دیکھتے ہیں۔ جنریشن زی کے نوجوان دنیا بھر میں ہونے والی تبدیلیوں، مسائل اور رجحانات سے نہ صرف آگاہ ہیں بلکہ ان میں فعال کردار بھی ادا کرتے ہیں۔ وہ پچھلی نسلوں کے مقابلے میں زیادہ کھلے ذہن کے مالک ہیں اور نئے خیالات کو قبول کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ ان کے لیے تنوع (diversity)، شمولیت (inclusion)، اور برابری (equality) جیسے تصورات بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ یہ نسل ثقافتی طور پر نہایت حساس اور سیاسی طور پر بھی فعال مانی جاتی ہے۔

وہ موسمیاتی تبدیلی، ماحولیاتی تحفظ، سماجی انصاف، صنفی برابری اور نسلی مساوات جیسے موضوعات پر سنجیدہ رویہ رکھتی ہے اور اپنی آواز بلند کرنے سے گریز نہیں کرتی۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے ٹوئٹر، انسٹاگرام، اور ٹک ٹاک کے ذریعے یہ نسل نہ صرف اپنی رائے کا اظہار کرتی ہے بلکہ مختلف مہمات اور تحریکوں کا بھی حصہ بنتی ہے۔ اس ڈیجیٹل دنیا میں ان کی موجودگی نے معاشرتی اور سیاسی تبدیلیوں میں ایک نیا رجحان متعارف کروایا ہے، جہاں نوجوان اب صرف تماشائی نہیں بلکہ عملی کردار ادا کرنے والے بن چکے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ جنریشن زی کے افراد تیز رفتاری سے بدلتی ہوئی دنیا کے عادی ہو چکے ہیں۔ ان کی توجہ کا دورانیہ کم ہو سکتا ہے، لیکن ان کی معلومات تک رسائی کی رفتار اور تجزیہ کرنے کی صلاحیت نہایت متاثر کن ہے۔ وہ کسی بھی مسئلے پر فوری تحقیق کر سکتے ہیں، اس کے حقائق تلاش کر سکتے ہیں، اور اپنی رائے قائم کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ نسل تخلیقی بھی ہے اور انہوں نے مختلف آن لائن پلیٹ فارمز پر اپنے خیالات اور فن کو پیش کر کے نئے روزگار کے مواقع پیدا کیے ہیں۔

مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ جنریشن زی ایک ایسی نسل ہے جو نہ صرف جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ ہم آہنگ ہے بلکہ عالمی سطح پر مسائل کا شعور بھی رکھتی ہے اور ایک بہتر، منصفانہ اور پائیدار مستقبل کی تشکیل میں سرگرم کردار ادا کر رہی ہے۔ اس نسل کے نمائندہ افراد بلاشبہ تمام شعبہ جات میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں، تاہم یہاں چوں کہ ہمارا موضوع سخن شوبز ہے تو ہم آپ کو ایک ایسی شخصیت سے ملوانے جا رہے ہیں، جو اداکاری میں جنریشن زی کی پہلی آسکر ایوارڈ ونر ہیں۔ جی ہاں! اور وہ ہیں ہالی وڈ سٹار مکی میڈیسن۔

ہالی ووڈ کی دنیا اکثر ایسی کہانیوں سے بھرپور ہوتی ہے جہاں خوابوں کی تعبیر آسان نہیں ہوتی۔ یہاں کامیابی کے لیے صرف چہرہ یا جسم نہیں بلکہ کردار، بصیرت اور مستقل مزاجی درکار ہوتی ہے۔ ان ہی صفات کی حامل اداکارہ مکی میڈیسن ہیں، جنہوں نے کم عمری سے ہی نہ صرف اپنے فن سے دنیا کو متوجہ کیا بلکہ اپنی اداکاری، خیالات اور سماجی شعور سے بھی الگ پہچان بنائی۔ وہ آج کی نوجوان نسل کی ایک نمائندہ شخصیت ہیں جو صرف کیمرے کے سامنے ہی نہیں بلکہ پردے کے پیچھے بھی بصیرت اور اصولوں کی حامل دکھائی دیتی ہیں۔ مکی میڈیسن کا اصل نام مکئیلا میڈیسن روزبرگ ہے۔ وہ 25 مارچ 1999ء کو امریکی ریاست کیلیفورنیا کے معروف اور ثقافتی طور پر بھرپور شہر لاس اینجلس میں پیدا ہوئیں۔ یہ شہر نہ صرف فلمی صنعت کا دل ہے بلکہ دنیا بھر کے فنکاروں کے خوابوں کی منزل بھی۔ مکی کا خاندانی پس منظر کافی دلچسپ ہے۔

ان کے والدین دونوں پیشے کے اعتبار سے ماہرِ نفسیات ہیں، جس کا اثر اْن کی شخصیت کی گہرائی اور جذباتی فہم پر بخوبی نظر آتا ہے۔ وہ چار بہن بھائیوں میں سے ایک ہیں، جن میں ایک ان کا جڑواں بھائی بھی شامل ہے۔ ان کی پرورش سانتا کلاریتا کے پْر فضا اور درمیانے طبقے کے علاقے میں ہوئی۔ بعد ازاں ان کا خاندان لاس اینجلس کے ایک اور علاقے ووڈ لینڈ ہلز منتقل ہو گیا، جہاں ان کے فنی سفر کی بنیاد پڑی۔ بچپن میں مکی میڈیسن کا رجحان اداکاری کے بجائے گھڑسواری کی جانب تھا۔ وہ باقاعدہ مقابلوں میں حصہ لیتی تھیں اور ان کی خواہش تھی کہ وہ گھڑ سوار بنیں۔ مگر تقدیر نے ان کے لیے کچھ اور ہی لکھ رکھا تھا۔ چودہ برس کی عمر میں انہوں نے اداکاری کی طرف رجوع کیا اور گھڑ سواری کو خیرباد کہہ دیا۔

مکی میڈیسن کی اداکاری کا آغاز ابتدائی طور پر کچھ چھوٹے پروجیکٹس سے ہوا۔ 2013ء میں انہوں نے اپنی پہلی مختصر فلموں Retirement اور Pani’s Box میں کام کیا۔ اگرچہ یہ فلمیں مین اسٹریم سینما کا حصہ نہ بن سکیں، مگر انہوں نے مکی کے اندر فن کی پہلی چنگاری کو روشن کیا۔ ان کے لیے ہر چھوٹا پراجیکٹ ایک تربیت گاہ تھا۔ ان ہی تجربات نے ان کے اعتماد، تاثرات، مکالمہ ادائیگی اور کیمرے سے تعلق کو مضبوط کیا۔ 2014ء میں مکی نے اپنی پہلی فیچر فلم Liza, Liza, Skies Are Grey مکمل کی، جو کئی سال کی تاخیر کے بعد 2017ء میں ریلیز ہوئی۔ اس فلم میں انہوں نے مرکزی کردار ادا کیا اور نوجوان نسل کے جذبات، بے چینی اور زندگی کی گہرائیوں کو بڑی ہنرمندی سے ادا کیا۔

یہ فلم بظاہر سادہ تھی لیکن اس میں مکی کی موجودگی نے اسے خاص بنا دیا۔ ان کا اصل بریک تھرو 2016ء میں ہوا، جب انہوں نے مشہور ٹی وی شو Better Things میں Max Fox کا کردار ادا کیا۔ یہ ڈرامہ ایک اکیلی ماں اور اس کی بیٹیوں کی زندگیوں کے گرد گھومتا تھا۔ مکی نے بڑی ہنرمندی سے ایک حساس، بظاہر باغی لیکن اندر سے نرم دل نوجوان بیٹی کا کردار ادا کیا۔ اس کردار نے انہیں ناظرین کے دلوں میں جگہ دلا دی۔ وہ صرف اسکرین پر موجود نہیں تھیں، بلکہ ناظرین کے احساسات سے جڑ چکی تھیں۔ اس کے بعد انہوں نے مختلف پراجیکٹس میں چھوٹے کردار بھی کیے، جن میں Bravo چینل کی سیریز Imposters شامل ہے۔ لیکن ان کی اگلی بڑی کامیابی ایک غیرمعمولی فلم Once Upon a Time in Hollywood میں آئی، جس کے ہدایتکار کوئی اور نہیں بلکہ مشہور فلمساز کوئنٹن ٹارانتینو تھے۔

2019ء میں ریلیز ہونے والی اس فلم میں مائکی میڈیسن نے سوزن ایٹکنز کا کردار ادا کیا، جو چارلس مینسن کی پیروکار تھی اور ایک بدنام زمانہ جرم کا حصہ۔ یہ کردار نہایت متنازع، پیچیدہ اور جذباتی طور پر گہرا تھا مگر مکی نے نہ صرف اسے بخوبی نبھایا بلکہ اپنی اداکاری سے یہ بھی ثابت کیا کہ وہ صرف معصوم چہرہ نہیں بلکہ ایک مکمل فنکارہ ہیں۔ اس کردار کی اداکاری نے ناقدین کو متوجہ کیا اور اْن کی فنی گہرائی کو سراہا گیا۔

2022ء ان کے کیریئر کا ایک اور اہم سال ثابت ہوا، جب انہوں نے کلاسک ہارر فرنچائز Scream کی پانچویں قسط میں Amber Freeman کا کردار ادا کیا۔ یہ کردار ایک سسپنس سے بھرپور، بظاہر عام نوجوان لڑکی کا تھا جو آخرکار فلم کے قاتل کے طور پر سامنے آتی ہے۔ ان کی اداکاری میں وہ پیچیدگی اور سرد مہری نظر آئی جس کی اس کردار کو ضرورت تھی۔ ناقدین نے نہ صرف انہیں سراہا بلکہ مداحوں نے بھی انہیں یادگار ولن کے طور پر یاد رکھا۔

2024ء میں ان کی ایک اور فلم Anora ریلیز ہوئی، جسے شان بیکر جیسے حساس اور حقیقت پسند ہدایتکار نے تخلیق کیا۔ یہ فلم ایک ایسی لڑکی کی کہانی تھی جو سوشل اور اخلاقی حدود سے باہر کی زندگی جیتی ہے۔ مکی نے اس کردار کو اس قدر ایمانداری اور حقیقت پسندی سے نبھایا کہ فلم کو کانز فلم فیسٹیول میں Palme d'Or جیسا اعلیٰ ترین اعزاز ملا۔ وہ نہ صرف اس ایوارڈ کی مستحق ٹھہریں بلکہ آسکر (Academy Award) اور بافٹا (BAFTA) ایوارڈز میں بھی بہترین اداکارہ کا خطاب جیتنے والی پہلی "جنریشن زی" اداکارہ بن گئیں۔

یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ مکی میڈیسن نے نہایت مختصر کام کے ذریعے دنیا بھر میں اپنی شناخت بنائی، انہوں نے آج تک صرف 9 فلموں اور 4 ٹیلی ویژن ڈراموں میں کام کیا ہے۔ دوسری طرف مکی کا شمار اْن اداکاراؤں میں ہوتا ہے جو صرف اداکاری کو ہی اپنا مقصد نہیں سمجھتیں بلکہ سماجی مسائل پر آواز بلند کرنا بھی اپنا فرض جانتی ہیں۔ وہ خواتین کے حقوق، ذہنی صحت، نوجوانوں کی خودکشی جیسے نازک موضوعات پر کھل کر بولتی ہیں۔

ان کے انٹرویوز میں ایسا تاثر ملتا ہے کہ وہ ہر کردار کو نبھانے سے قبل نہ صرف اس کی نفسیات کو سمجھتی ہیں بلکہ معاشرتی پس منظر کو بھی اہمیت دیتی ہیں۔ وہ میڈیا سے محتاط رہتی ہیں، سوشل میڈیا پر حد سے زیادہ متحرک نہیں، اور اپنی زندگی کے ذاتی پہلوؤں کو عوامی نمائش سے دور رکھتی ہیں۔

اس عمل کو وہ اپنی "ذہنی صحت کی حفاظت" قرار دیتی ہیں۔ یہی خود آگہی اور اندرونی سکون اْن کے فن کا اصل سرچشمہ معلوم ہوتا ہے۔ مکی کا سفر ہمیں یہ بتاتا ہے کہ صرف خواب دیکھنے سے کامیابی نہیں ملتی بلکہ ان خوابوں کی تعبیر کے لیے سخت محنت، غیر معمولی جرات اور اپنے فن پر پختہ یقین ضروری ہے۔ بچپن کی گھڑ سواری سے لے کر دنیا کے سب سے بڑے فلمی ایوارڈز تک کا یہ سفر خود ایک فلمی کہانی سے کم نہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کا کردار ادا کیا مکی میڈیسن نہیں بلکہ ان کے لیے انہوں نے ہیں بلکہ بلکہ ا اپنی ا مکی نے یہ نسل

پڑھیں:

رجیم چینج کے سائے: پاکستان کی مغربی سرحد پر بڑھتا ہوا خطرہ

ایران پر اسرائیل کا حالیہ حملہ ایک معمولی عسکری کارروائی نہیں بلکہ ایک بڑے جغرافیائی اور سیاسی طوفان کا پیش خیمہ ہے۔ یہ حملہ نہ صرف ایران کے اندرونی سلامتی کے ڈھانچے کو نشانہ بناتا ہے بلکہ یہ عالمی طاقتوں کے ان پوشیدہ عزائم کو بھی بے نقاب کرتا ہے جن کے تحت مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں اپنی مرضی کے نظام نافذ کیے جا رہے ہیں۔

جس انداز میں ایران کے سائنسدانوں کو نشانہ بنایا گیا، نیوکلیئر تنصیبات پر حملے کیے گئے اور حساس عسکری مقامات کو نقصان پہنچایا گیا، اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ کسی فوری ردعمل کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک منظم اور گہری منصوبہ بندی کا حصہ ہے۔

اس منظرنامے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ صرف اسرائیل کا انفرادی اقدام نہیں بلکہ اس کے پیچھے امریکا کی خفیہ یا اعلانیہ حمایت بھی شامل ہے۔ ماضی میں امریکا نے بارہا ان ممالک میں حکومتیں تبدیل کی ہیں جو اس کی خارجہ پالیسی کے مطابق نہیں چلتے تھے۔

’’رجیم چینج‘‘ امریکی خارجی پالیسی کا اہم ہتھیار رہی ہے۔ جہاں جنگ ممکن نہ ہو، وہاں حکومتوں کو اندرونی خلفشار یا سازشوں کے ذریعے گرا کر اپنی حمایت یافتہ قیادت کو اقتدار میں لایا جاتا ہے۔ ایران میں اگر رجیم چینج کامیاب ہوجاتا ہے تو اس کا سب سے بڑا فائدہ امریکا اور اسرائیل کو ہوگا۔ ایک مغرب نواز حکومت ایران میں قائم ہوجائے گی جو امریکی مفادات کےلیے کام کرے گی، اسرائیل کی سیکیورٹی کو تحفظ دے گی، اور چین، روس اور اسلامی مزاحمتی تحریکوں کےلیے خطرہ بن جائے گی۔ اس صورتحال میں پاکستان کا توازن خطرے میں پڑ جائے گا۔

تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ امریکا نے مختلف ممالک میں حکومتیں بدلنے کےلیے نہ صرف سفارتی بلکہ عسکری، خفیہ اور اقتصادی ہتھکنڈے بھی استعمال کیے ہیں۔ 1953 میں ایران میں محمد مصدق کی جمہوری حکومت کو سی آئی اے اور برطانوی خفیہ اداروں نے مل کر گرا دیا اور شاہ ایران کو دوبارہ اقتدار میں لایا۔ 1973 میں چلی میں منتخب صدر سلواڈور آلندے کی حکومت کا تختہ الٹ کر جنرل پنوشے کی آمریت کو مسلط کیا گیا۔ 2003 میں عراق پر حملہ کرکے صدام حسین کو ہٹا دیا گیا اور وہاں کٹھ پتلی حکومت قائم کی گئی۔ افغانستان میں طالبان حکومت کا خاتمہ کرکے حامد کرزئی کو اقتدار میں لایا گیا۔ لیبیا میں معمر قذافی کے خلاف بغاوت کی پشت پناہی کی گئی اور شام میں بشار الاسد کو ہٹانے کی ناکام کوشش کی گئی۔

اسی پالیسی کے تحت امریکا نے یوکرین میں بھی روس نواز حکومت کو گرا کر مغرب نواز قیادت کو اقتدار دلایا، جس سے خطے میں کشیدگی پیدا ہوئی۔ ان تمام مثالوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ امریکا کی رجیم چینج پالیسی کسی خاص خطے تک محدود نہیں بلکہ جہاں کہیں اس کے مفادات کو خطرہ محسوس ہوتا ہے، وہ وہاں حکومتوں کو بدلنے سے گریز نہیں کرتا۔

اب اگر ایران میں اسرائیلی حملوں اور اندرونی خلفشار کے ذریعے حکومت کو غیر مستحکم کر کے اسے مغربی مفادات کے تابع کیا جاتا ہے تو یہ پورے خطے کے توازن کو بگاڑ دے گا۔ پاکستان کےلیے یہ صورتحال نہایت نازک ہو جائے گی۔ مشرق میں بھارت پہلے ہی دشمنی کی پالیسی پر گامزن ہے اور اب اگر مغرب میں ایران بھی مغربی کیمپ کا حصہ بن جائے تو پاکستان ایک ایسے جغرافیائی جال میں پھنس جائے گا جس سے نکلنا نہایت مشکل ہوگا۔

ایران میں اگر مغرب نواز حکومت قائم ہوگئی تو وہ پاکستان کی مغربی سرحدوں پر غیر یقینی صورتحال پیدا کرسکتی ہے۔ بلوچستان میں علیحدگی پسند تحریکوں کو نئی زندگی مل سکتی ہے۔ ایران میں موجود پشتون اور بلوچ قبائل کے ذریعے پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی راہیں کھولی جا سکتی ہیں۔

مزید یہ کہ چین-پاکستان اقتصادی راہداری کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں بڑھ سکتی ہیں۔ چین کے خلاف یہ امریکی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ امریکا جانتا ہے کہ چین کی ترقی کا سب سے اہم راستہ زمینی تجارت ہے، اور اس زمینی راستے کا اہم ترین حصہ پاکستان، ایران اور وسطی ایشیائی ممالک سے گزرتا ہے۔ اگر ایران اور افغانستان کو غیر مستحکم کر دیا جائے یا مغرب نواز قیادت ان ممالک پر مسلط کردی جائے تو چین کی رسائی محدود ہوجائے گی۔ یوں امریکا نہ صرف چین کی معاشی طاقت کو کمزور کرے گا بلکہ جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں اپنی اجارہ داری کو بھی مستحکم کرے گا۔

پاکستان کو اس وقت دہری جنگ کا سامنا ہے۔ ایک طرف اندرونی خلفشار، معاشی مسائل اور سیاسی عدم استحکام ہے، اور دوسری طرف بیرونی خطرات، جن میں بھارت کی دشمنی، مغرب کا دباؤ اور اسرائیل کی خفیہ مداخلت شامل ہے۔ اگر ایران میں مغرب کی حمایت یافتہ حکومت قائم ہوگئی تو اسرائیل کو بھی اس سرزمین سے پاکستان کے خلاف سرگرمیوں کا کھلا موقع مل جائے گا۔

ایسے میں پاکستان کو فوری طور پر اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ ایران کے ساتھ نظریاتی اختلافات کے باوجود جغرافیائی حقیقتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تعلقات کو بہتر بنانا ناگزیر ہوچکا ہے۔ چین کے ساتھ معاشی شراکت داری کو صرف معاشی مفادات تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ اس میں سیکیورٹی تعاون کو بھی شامل کیا جائے۔

پاکستان کو اپنی دفاعی پالیسی میں دور اندیشی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ہمیں صرف عسکری تیاری نہیں بلکہ سائبر سیکیورٹی، داخلی امن و امان، اور قومی وحدت کو بھی مضبوط بنانا ہو گا تاکہ کسی بھی رجیم چینج یا بیرونی سازش کا منہ توڑ جواب دیا جا سکے۔ ہمیں اپنی سیاسی قیادت کو بھی سمجھانا ہوگا کہ وقتی اقتدار کی لالچ میں ملک کو بیرونی طاقتوں کے ہاتھوں گروی نہ رکھا جائے۔

اگر آج ہم نے ہوشیاری کا مظاہرہ نہ کیا تو کل ہم بھی شام، لیبیا یا یوکرین جیسی صورتحال سے دوچار ہو سکتے ہیں۔ عالمی سیاست میں کسی کے لیے بھی مستقل دشمن یا مستقل دوست نہیں ہوتا۔ صرف قومی مفادات ہی مستقل ہوتے ہیں۔ ہمیں اپنے قومی مفادات کو مقدم رکھنا ہو گا، اور ان عناصر کے خلاف متحد ہونا ہو گا جو پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے بیرونی طاقتوں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔

ایران پر حالیہ حملہ صرف ایک ملک کی سالمیت پر حملہ نہیں بلکہ پورے خطے کے مستقبل پر حملہ ہے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو نہ صرف ایران بلکہ پاکستان بھی ایک ایسے محاذ پر کھڑا ہو جائے گا جہاں سے واپسی ممکن نہیں ہو گی۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم ہوش کے ناخن لیں اور خود کو اس عالمی سیاسی کھیل کا مہرہ بننے سے بچائیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

متعلقہ مضامین

  • رجیم چینج کے سائے: پاکستان کی مغربی سرحد پر بڑھتا ہوا خطرہ
  • جھوٹے دیو قامتوں کا زوال
  • ’سپورٹنگ اداکاروں کے ساتھ دوسرے درجے کے انسانوں جیسا سلوک ہوتا ہے‘ بھارتی اداکارہ فاطمہ ثنا شیخ
  • اسرائیل پر ایرانی حملے میں پہلی بار تھرڈ جنریشن خیبر شکن میزائلوں کا استعمال
  • اسرائیل پر ’خیبر شکن‘ میزائلوں کا حملہ، اس تھرڈ جنریشن ہتھیار کی خصوصیات کیا ہیں؟
  • فریبی نظام آخری سانسیں اور نئی امیدیں
  • قومی اسمبلی میں روایت اور جدت کا امتزاج
  • اداکاری میں کوئی کرئیر نہیں، اداکارہ غنیٰ علی
  • فیس بک، گوگل اور ایپل کے 16 ارب پاس ورڈز لیک ہوگئے