Express News:
2025-09-22@10:41:42 GMT

مکی میڈیسن…جنریشن زی کی پہلی آسکر ونر اداکارہ

اشاعت کی تاریخ: 23rd, June 2025 GMT

جنریشن زی یا جنریشن زیڈ سے مراد وہ نئی نسل ہے جو 1990ء کی دہائی کے اواخر سے 2010ء کے وسط کے دوران پیدا ہوئی۔ یہ وہ نسل ہے جس نے اپنی آنکھ انٹرنیٹ، موبائل فونز، لیپ ٹاپس، اور دیگر ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے دور میں کھولی۔

جنریشن زی کو وہ خوش نصیب نسل کہا جا سکتا ہے جس نے بچپن سے ہی ڈیجیٹل دنیا تک رسائی حاصل کی اور جس کی روزمرہ زندگی ٹیکنالوجی سے اس قدر منسلک ہو چکی ہے کہ اب ان کے لیے آن لائن اور آف لائن دنیا میں فرق کرنا مشکل ہو چکا ہے۔ یہ نسل مکمل طور پر ڈیجیٹل ماحول میں پلی بڑھی ہے، اسی لیے انہیں "ڈیجیٹل نیٹیوز" (Digital Natives) بھی کہا جاتا ہے، کیونکہ انہوں نے ٹیکنالوجی کو نہ صرف استعمال کیا بلکہ اسے اپنی زندگی کا لازمی جزو بنا لیا ہے۔

اس نسل کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ یہ مختلف ثقافتوں، زبانوں اور سماجی پس منظر رکھنے والے افراد پر مشتمل ہے، جو دنیا کو ایک گلوبل ویلیج (عالمی گاؤں) کے طور پر دیکھتے ہیں۔ جنریشن زی کے نوجوان دنیا بھر میں ہونے والی تبدیلیوں، مسائل اور رجحانات سے نہ صرف آگاہ ہیں بلکہ ان میں فعال کردار بھی ادا کرتے ہیں۔ وہ پچھلی نسلوں کے مقابلے میں زیادہ کھلے ذہن کے مالک ہیں اور نئے خیالات کو قبول کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ ان کے لیے تنوع (diversity)، شمولیت (inclusion)، اور برابری (equality) جیسے تصورات بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ یہ نسل ثقافتی طور پر نہایت حساس اور سیاسی طور پر بھی فعال مانی جاتی ہے۔

وہ موسمیاتی تبدیلی، ماحولیاتی تحفظ، سماجی انصاف، صنفی برابری اور نسلی مساوات جیسے موضوعات پر سنجیدہ رویہ رکھتی ہے اور اپنی آواز بلند کرنے سے گریز نہیں کرتی۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے ٹوئٹر، انسٹاگرام، اور ٹک ٹاک کے ذریعے یہ نسل نہ صرف اپنی رائے کا اظہار کرتی ہے بلکہ مختلف مہمات اور تحریکوں کا بھی حصہ بنتی ہے۔ اس ڈیجیٹل دنیا میں ان کی موجودگی نے معاشرتی اور سیاسی تبدیلیوں میں ایک نیا رجحان متعارف کروایا ہے، جہاں نوجوان اب صرف تماشائی نہیں بلکہ عملی کردار ادا کرنے والے بن چکے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ جنریشن زی کے افراد تیز رفتاری سے بدلتی ہوئی دنیا کے عادی ہو چکے ہیں۔ ان کی توجہ کا دورانیہ کم ہو سکتا ہے، لیکن ان کی معلومات تک رسائی کی رفتار اور تجزیہ کرنے کی صلاحیت نہایت متاثر کن ہے۔ وہ کسی بھی مسئلے پر فوری تحقیق کر سکتے ہیں، اس کے حقائق تلاش کر سکتے ہیں، اور اپنی رائے قائم کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ نسل تخلیقی بھی ہے اور انہوں نے مختلف آن لائن پلیٹ فارمز پر اپنے خیالات اور فن کو پیش کر کے نئے روزگار کے مواقع پیدا کیے ہیں۔

مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ جنریشن زی ایک ایسی نسل ہے جو نہ صرف جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ ہم آہنگ ہے بلکہ عالمی سطح پر مسائل کا شعور بھی رکھتی ہے اور ایک بہتر، منصفانہ اور پائیدار مستقبل کی تشکیل میں سرگرم کردار ادا کر رہی ہے۔ اس نسل کے نمائندہ افراد بلاشبہ تمام شعبہ جات میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں، تاہم یہاں چوں کہ ہمارا موضوع سخن شوبز ہے تو ہم آپ کو ایک ایسی شخصیت سے ملوانے جا رہے ہیں، جو اداکاری میں جنریشن زی کی پہلی آسکر ایوارڈ ونر ہیں۔ جی ہاں! اور وہ ہیں ہالی وڈ سٹار مکی میڈیسن۔

ہالی ووڈ کی دنیا اکثر ایسی کہانیوں سے بھرپور ہوتی ہے جہاں خوابوں کی تعبیر آسان نہیں ہوتی۔ یہاں کامیابی کے لیے صرف چہرہ یا جسم نہیں بلکہ کردار، بصیرت اور مستقل مزاجی درکار ہوتی ہے۔ ان ہی صفات کی حامل اداکارہ مکی میڈیسن ہیں، جنہوں نے کم عمری سے ہی نہ صرف اپنے فن سے دنیا کو متوجہ کیا بلکہ اپنی اداکاری، خیالات اور سماجی شعور سے بھی الگ پہچان بنائی۔ وہ آج کی نوجوان نسل کی ایک نمائندہ شخصیت ہیں جو صرف کیمرے کے سامنے ہی نہیں بلکہ پردے کے پیچھے بھی بصیرت اور اصولوں کی حامل دکھائی دیتی ہیں۔ مکی میڈیسن کا اصل نام مکئیلا میڈیسن روزبرگ ہے۔ وہ 25 مارچ 1999ء کو امریکی ریاست کیلیفورنیا کے معروف اور ثقافتی طور پر بھرپور شہر لاس اینجلس میں پیدا ہوئیں۔ یہ شہر نہ صرف فلمی صنعت کا دل ہے بلکہ دنیا بھر کے فنکاروں کے خوابوں کی منزل بھی۔ مکی کا خاندانی پس منظر کافی دلچسپ ہے۔

ان کے والدین دونوں پیشے کے اعتبار سے ماہرِ نفسیات ہیں، جس کا اثر اْن کی شخصیت کی گہرائی اور جذباتی فہم پر بخوبی نظر آتا ہے۔ وہ چار بہن بھائیوں میں سے ایک ہیں، جن میں ایک ان کا جڑواں بھائی بھی شامل ہے۔ ان کی پرورش سانتا کلاریتا کے پْر فضا اور درمیانے طبقے کے علاقے میں ہوئی۔ بعد ازاں ان کا خاندان لاس اینجلس کے ایک اور علاقے ووڈ لینڈ ہلز منتقل ہو گیا، جہاں ان کے فنی سفر کی بنیاد پڑی۔ بچپن میں مکی میڈیسن کا رجحان اداکاری کے بجائے گھڑسواری کی جانب تھا۔ وہ باقاعدہ مقابلوں میں حصہ لیتی تھیں اور ان کی خواہش تھی کہ وہ گھڑ سوار بنیں۔ مگر تقدیر نے ان کے لیے کچھ اور ہی لکھ رکھا تھا۔ چودہ برس کی عمر میں انہوں نے اداکاری کی طرف رجوع کیا اور گھڑ سواری کو خیرباد کہہ دیا۔

مکی میڈیسن کی اداکاری کا آغاز ابتدائی طور پر کچھ چھوٹے پروجیکٹس سے ہوا۔ 2013ء میں انہوں نے اپنی پہلی مختصر فلموں Retirement اور Pani’s Box میں کام کیا۔ اگرچہ یہ فلمیں مین اسٹریم سینما کا حصہ نہ بن سکیں، مگر انہوں نے مکی کے اندر فن کی پہلی چنگاری کو روشن کیا۔ ان کے لیے ہر چھوٹا پراجیکٹ ایک تربیت گاہ تھا۔ ان ہی تجربات نے ان کے اعتماد، تاثرات، مکالمہ ادائیگی اور کیمرے سے تعلق کو مضبوط کیا۔ 2014ء میں مکی نے اپنی پہلی فیچر فلم Liza, Liza, Skies Are Grey مکمل کی، جو کئی سال کی تاخیر کے بعد 2017ء میں ریلیز ہوئی۔ اس فلم میں انہوں نے مرکزی کردار ادا کیا اور نوجوان نسل کے جذبات، بے چینی اور زندگی کی گہرائیوں کو بڑی ہنرمندی سے ادا کیا۔

یہ فلم بظاہر سادہ تھی لیکن اس میں مکی کی موجودگی نے اسے خاص بنا دیا۔ ان کا اصل بریک تھرو 2016ء میں ہوا، جب انہوں نے مشہور ٹی وی شو Better Things میں Max Fox کا کردار ادا کیا۔ یہ ڈرامہ ایک اکیلی ماں اور اس کی بیٹیوں کی زندگیوں کے گرد گھومتا تھا۔ مکی نے بڑی ہنرمندی سے ایک حساس، بظاہر باغی لیکن اندر سے نرم دل نوجوان بیٹی کا کردار ادا کیا۔ اس کردار نے انہیں ناظرین کے دلوں میں جگہ دلا دی۔ وہ صرف اسکرین پر موجود نہیں تھیں، بلکہ ناظرین کے احساسات سے جڑ چکی تھیں۔ اس کے بعد انہوں نے مختلف پراجیکٹس میں چھوٹے کردار بھی کیے، جن میں Bravo چینل کی سیریز Imposters شامل ہے۔ لیکن ان کی اگلی بڑی کامیابی ایک غیرمعمولی فلم Once Upon a Time in Hollywood میں آئی، جس کے ہدایتکار کوئی اور نہیں بلکہ مشہور فلمساز کوئنٹن ٹارانتینو تھے۔

2019ء میں ریلیز ہونے والی اس فلم میں مائکی میڈیسن نے سوزن ایٹکنز کا کردار ادا کیا، جو چارلس مینسن کی پیروکار تھی اور ایک بدنام زمانہ جرم کا حصہ۔ یہ کردار نہایت متنازع، پیچیدہ اور جذباتی طور پر گہرا تھا مگر مکی نے نہ صرف اسے بخوبی نبھایا بلکہ اپنی اداکاری سے یہ بھی ثابت کیا کہ وہ صرف معصوم چہرہ نہیں بلکہ ایک مکمل فنکارہ ہیں۔ اس کردار کی اداکاری نے ناقدین کو متوجہ کیا اور اْن کی فنی گہرائی کو سراہا گیا۔

2022ء ان کے کیریئر کا ایک اور اہم سال ثابت ہوا، جب انہوں نے کلاسک ہارر فرنچائز Scream کی پانچویں قسط میں Amber Freeman کا کردار ادا کیا۔ یہ کردار ایک سسپنس سے بھرپور، بظاہر عام نوجوان لڑکی کا تھا جو آخرکار فلم کے قاتل کے طور پر سامنے آتی ہے۔ ان کی اداکاری میں وہ پیچیدگی اور سرد مہری نظر آئی جس کی اس کردار کو ضرورت تھی۔ ناقدین نے نہ صرف انہیں سراہا بلکہ مداحوں نے بھی انہیں یادگار ولن کے طور پر یاد رکھا۔

2024ء میں ان کی ایک اور فلم Anora ریلیز ہوئی، جسے شان بیکر جیسے حساس اور حقیقت پسند ہدایتکار نے تخلیق کیا۔ یہ فلم ایک ایسی لڑکی کی کہانی تھی جو سوشل اور اخلاقی حدود سے باہر کی زندگی جیتی ہے۔ مکی نے اس کردار کو اس قدر ایمانداری اور حقیقت پسندی سے نبھایا کہ فلم کو کانز فلم فیسٹیول میں Palme d'Or جیسا اعلیٰ ترین اعزاز ملا۔ وہ نہ صرف اس ایوارڈ کی مستحق ٹھہریں بلکہ آسکر (Academy Award) اور بافٹا (BAFTA) ایوارڈز میں بھی بہترین اداکارہ کا خطاب جیتنے والی پہلی "جنریشن زی" اداکارہ بن گئیں۔

یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ مکی میڈیسن نے نہایت مختصر کام کے ذریعے دنیا بھر میں اپنی شناخت بنائی، انہوں نے آج تک صرف 9 فلموں اور 4 ٹیلی ویژن ڈراموں میں کام کیا ہے۔ دوسری طرف مکی کا شمار اْن اداکاراؤں میں ہوتا ہے جو صرف اداکاری کو ہی اپنا مقصد نہیں سمجھتیں بلکہ سماجی مسائل پر آواز بلند کرنا بھی اپنا فرض جانتی ہیں۔ وہ خواتین کے حقوق، ذہنی صحت، نوجوانوں کی خودکشی جیسے نازک موضوعات پر کھل کر بولتی ہیں۔

ان کے انٹرویوز میں ایسا تاثر ملتا ہے کہ وہ ہر کردار کو نبھانے سے قبل نہ صرف اس کی نفسیات کو سمجھتی ہیں بلکہ معاشرتی پس منظر کو بھی اہمیت دیتی ہیں۔ وہ میڈیا سے محتاط رہتی ہیں، سوشل میڈیا پر حد سے زیادہ متحرک نہیں، اور اپنی زندگی کے ذاتی پہلوؤں کو عوامی نمائش سے دور رکھتی ہیں۔

اس عمل کو وہ اپنی "ذہنی صحت کی حفاظت" قرار دیتی ہیں۔ یہی خود آگہی اور اندرونی سکون اْن کے فن کا اصل سرچشمہ معلوم ہوتا ہے۔ مکی کا سفر ہمیں یہ بتاتا ہے کہ صرف خواب دیکھنے سے کامیابی نہیں ملتی بلکہ ان خوابوں کی تعبیر کے لیے سخت محنت، غیر معمولی جرات اور اپنے فن پر پختہ یقین ضروری ہے۔ بچپن کی گھڑ سواری سے لے کر دنیا کے سب سے بڑے فلمی ایوارڈز تک کا یہ سفر خود ایک فلمی کہانی سے کم نہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کا کردار ادا کیا مکی میڈیسن نہیں بلکہ ان کے لیے انہوں نے ہیں بلکہ بلکہ ا اپنی ا مکی نے یہ نسل

پڑھیں:

دہشت گردی کا تسلسل اور قومی ذمے داری کا تقاضا

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250922-03-6

 

ڈاکٹر عالمگیر آفریدی

خیبر پختون خوا کے مختلف حصوں، خصوصاً بنوں، لوئر دیر، لکی مروت، وزیرستان اور باجوڑ میں دہشت گردانہ حملوں اور جھڑپوں کی لڑی نے پوری قوم میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔ ان واقعات میں نہ صرف سیکورٹی فورسز کے جوانوں اور افسروں کی شہادتیں شامل ہیں بلکہ عام شہریوں، سرکاری ملازمین اور بنیادی ڈھانچے کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ یہ سلسلہ محض علاقائی دہشت گردی نہیں رہا بلکہ ایک منظم سازش کا حصہ دکھائی دیتا ہے جس کے پیچھے بیرونی معاونت اور سہولت کاروں کے ہاتھ ہونے کے واضح ثبوت سامنے آ رہے ہیں۔ اس پس منظر میں سوال یہ ہے کہ یہ جنگ آخر کب تک جاری رہے گی؟ اور ہم بطور ریاست اور معاشرہ کن حکمت عملیوں کے ذریعے اپنے شہریوں اور افواج کو محفوظ بنا سکتے ہیں؟ عسکری اور سیکورٹی ذرائع کی رپورٹوں کے مطابق سیکورٹی فورسز نے متعدد دہشت گرد ہلاک کرنے کے دعوے کیے ہیں، جبکہ دشمن کے حملوں میں پاک فوج کے کئی جوان، جن میں ایس ایس جی کے میجر عدنان اسلم جیسے بہادر افسر بھی شامل ہیں، جامِ شہادت نوش کر گئے ہیں۔ یہ افسوسناک واقعات محض اعداد وشمار نہیں؛ یہ خاندانوں کی کربناک کہانیاں ہیں۔ وزیراعظم کی بنوں آمد اور فیلڈ مارشل کے ہمراہ زخمیوں سے ملاقات اور شہداء کی نماز جنازہ میں شرکت ریاستی عزم کی علامت ہے۔ ساتھ ہی سیکورٹی حکام کی طرف سے یہ دعوے سامنے آئے ہیں کہ دہشت گردوں کے سرغنہ اور سہولت کار بیرونِ ملک، بالخصوص افغانستان میں موجود ہیں اور ان کی پشت پر بھارتی حمایت کے شواہد بھی پیش کیے گئے ہیں۔ یہ بیان داخلی اور خارجی نوعیت کے خطرات کو یکجا کرتا ہے مثلاً ایک طرف اندرونی نیٹ ورک جو مقامی سطح پر حمایت اور راہنمائی فراہم کرتا ہے، دوسری طرف بیرونی عوامل جو شدت پسندی کو ایندھن پہنچاتے ہیں۔

ایسی پیچیدہ صورتِ حال کا تقاضا یہ ہے کہ صرف عسکری ردِ عمل محدود رہے تو معاملات جلد حل نہیں ہوں گے۔ سیکورٹی فورسز کا موثر اور بروقت آپریشن لازمی ہے، یہی وہ لائن ہے جس پر وہ کھڑی ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ ہمیں ایک مربوط قومی حکمت ِ عملی بھی اپنانی ہوگی جس میں ریاستی ادارے، سول سوسائٹی، مذہبی رہنما، مقامی عمائدین اور عام لوگ سب شریک ہوں۔ دہشت گردی کے عفریت سے نمٹنے میں یہ اقدامات موثر حکمت عملی کے ساتھ نتیجہ خیز ثابت ہوسکتے ہیں۔

اولاً، انٹیلی جنس نیٹ ورک کو مزید مربوط اور فعال بنانا ہوگا۔ دہشت گردوں کی منصوبہ بندی اکثر مقامی مدد، مالی وسائل اور خفیہ مواصلات کے ذریعے ممکن ہوتی ہے۔ ان سہولت کاروں کو بے نقاب کرنا اور ان کے مالی و مواصلاتی راستوں کو بند کرنا انتہائی ضروری ہے۔ انٹیلی جنس ایکسچینج، بارڈر کنٹرول اور فورسز کے مابین ہم آہنگی ہی وہ کلید ہے جو کارروائیوں کو بروقت اور مؤثر بنا سکتی ہے۔ دوم، سرحدی انتظامی اقدامات میں فوری بہتری لائی جائے۔ افغانستان سے ملحق سرحدی علاقوں کا کنٹرول ایسے وقت میں انتہائی اہمیت اختیار کر جاتا ہے جب رپورٹیں بتاتی ہیں کہ کچھ حملہ آور اور ان کے سرغنہ وہاں سے پاکستان میں آکر حملے کرتے ہیں۔ موثر بارڈر مینجمنٹ، مشترکہ نگرانی اور دو طرفہ تعاون ایسے اقدامات ہیں جو سرحد پار سہولت کاری کو کمزور کر سکتے ہیں۔ تیسرا، مقامی سطح پر اعتماد سازی اور عوامی شمولیت کو فروغ دینا ہوگا۔ مقامی رہنماؤں اور قبائلی عمائدین کے ساتھ مسلسل رابطے، فوری شکایات سننے کے مراکز اور ترقیاتی منصوبوں کے ذریعے نوجوانوں کو روزگار اور مثبت مواقع دیے جائیں۔ جب تک نوجوانوں کے لیے تعلیم، روزگار اور باعزت مشاغل کے مواقع محدود رہیں گے، وہ شدت پسند گروہوں کے لیے آسان شکار رہیں گے۔ یہ ایک طویل المدتی مقصد ہے مگر اسی کے ذریعے دہشت گردی کی جڑ کمزور ہو سکتی ہے۔ چوتھا، قانون و انصاف کے طریقہ کار کو تیز اور شفاف بنانا ہوگا۔ دہشت گردی کے سہولت کاروں کے خلاف قانونی چارہ جوئی میں شفافیت اور بروقت کارروائی نہ صرف مجرمان کو عبرت سکھائے گی بلکہ عوام میں ریاستی عدل و انصاف پر اعتماد بھی بحال کرے گی۔ اس کے علاوہ، اشتہاری اور نفسیاتی حکمت ِ عملی کے ذریعے انتہا پسندانہ بیانیوں کا مقابلہ کرنا بھی لازمی ہے، اس کے لیے میڈیا، تعلیمی ادارے اور مذہبی قائدین کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ مزید برآں، علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر سفارتی محاذ کو متحرک رکھنا ہوگا۔ اگر واقعی دہشت گردوں کو بیرونی حمایت حاصل ہے تو عالمی سطح پر شواہد جمع کرکے موثر دباؤ بنایا جانا چاہیے تاکہ دہشت گردی کے حامی نیٹ ورکس کا خاتمہ ممکن ہوسکے۔

اسی طرح بجٹ اور وسائل کی فراہمی بھی ایک حقیقت ہے۔ سیکورٹی اداروں کو صرف ہتھیار اور لاجسٹک سپورٹ ہی درکار نہیں بلکہ معاشرتی ارتقاء، متاثرہ علاقوں کی بحالی اور شہدا کے لواحقین کی بحالی کے لیے مستقل پروگراموں کی ضرورت ہے۔ ریاست کا فرض ہے کہ وہ ان خاندانوں کو جو کسی بھی وجہ سے دہشت گردی کے شکار ہوئے ہوں ہمیشہ کے لیے معاشی اور سماجی تحفظ فراہم کرے تاکہ وہ مایوسی کی زد میں نہ آئیں۔

حرف ِ آخر یہ کہ یہ جنگ صرف فوجی محاذ پر نہیں جیتی جا سکتی۔ میجر عدنان اسلم اور دیگر شہداء کی قربانیاں ہمیں یہ سبق دیتی ہیں کہ ہمیں نہ صرف فوری ردعمل بلکہ قومی سطح پر ایک جامع اور پائیدار حکمت ِ عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ اس حکمت ِ عملی کا مرکزی نقطہ عوام کا اعتماد اور شراکت ہونا چاہیے۔ یہ ایک زندہ حقیقت ہے کہ جب عوام خود اپنے علاقے کے امن کے محافظ بنیں گے تو دہشت گردی کا گہوارہ خود بخود کمزور پڑے گا۔

یہ وقت انتقام یا نفرت کا نہیں اور نہ ہی بلیم گیم اور پوائنٹ اسکورنگ کا ہے بلکہ ہمیں ایک قوم بن کر خوب سوچ سمجھ کر، منظم اور متحد ہو کر اس بین الاقوامی چیلنج کا مقابلہ کرنا ہوگا جس کے لیے ہمیں اپنے نازک قومی مفاد کو مد ِ نظر رکھتے ہوئے جہاں ایک قلیل اور وسط مدتی حکمت عملی کو بروئے کار لانا ہوگا وہاں ایک ایسی طویل المدتی حکمت ِ عملی بھی اپنانی ہوگی جس میں عسکری، سیاسی، سماجی اور اقتصادی پہلوؤں کو یکجا کیا ہو۔ ورنہ دہشت گردی کی یہ آگ صرف بنوں یا چند سرحدی علاقوں تک محدود نہیں رہے گی بلکہ پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ حاصلِ کلام یہ کہ شہداء کی بے لوث قربانیاں ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ ہماری ذمے داری صرف ان کی یاد میں اظہارِ تعزیت تک محدود نہیں رہنی چاہیے بلکہ ہم نے مل کر ان کے ایثار کو امن اور مستقل استحکام کے حقیقی منصوبوں میں تبدیل کرنا ہوگا۔

متعلقہ مضامین

  • اداکارہ میرا سیٹھی کی طویل خاموشی کے بعد طلاق کی تصدیق
  • دہشت گردی کا تسلسل اور قومی ذمے داری کا تقاضا
  • جنریشن زی کے چیلینجز
  • ہانیہ عامر کی بنگلا دیش میں موج مستیاں، تصاویر سامنے آگئیں
  • بھارت کے گاوں میں 78 سال بعد ا پہلی بار بجلی فراہم، جشن کا سماں
  • بھارت کے گاوں میں 78 سال بعد ا پہلی بار بجلی فراہم
  • البانیا : حکومت نے پہلی اے آئی وزیرمتعارف کرادی
  • البانیہ میں تاریخ رقم: دنیا کے پہلے اے آئی وزیر کا پارلیمنٹ میں خطاب
  • آئی فون 17 پرو میکس سے لی گئی پہلی تصویر جاری
  • جرمنی میں مہاجرین کی تعداد میں 2011ء کے بعد سے پہلی بار کمی