پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف نے واضح کیا کہ اسرائیلی حملوں کے بعد پاکستان نے ایران کے ساتھ کوئی نیا عسکری تعاون شروع نہیں کیا۔ پاکستان سمجھتا ہے کہ وہ ایران-اسرائیل تنازعے میں براہِ راست فریق نہیں ہے، اس کی اصل توجہ بھارت اور افغانستان سے آنے والے خطرات پر مرکوز ہے۔ اسلام تائمز۔ عالمی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اسرائیل درحقیقت مشرقِ وسطیٰ کا نقشہ از سرِ نو ترتیب دینا چاہتا ہے اور 13 جون کو ایران پر حملہ اور اس کے بعد جوہری تنصیبات پر ہونے والی بمباری اس راستے سے ایک بڑی رکاوٹ کو ہٹانے کی ایک کوشش ہے۔
ایران کی آبادی 9 کروڑ سے کچھ زیادہ ہے، جو عراق کی آبادی سے تقریباً تین گنا ہے، اور اس کی نسلی ساخت زیادہ پیچیدہ ہے۔ اس لیے اگر ملک میں بدامنی ہوتی ہے تو یہ ایک بہت بڑا چیلنج بن سکتا ہے۔ 1979 کی اسلامی انقلاب سے پہلے ایران اور اسرائیل قریبی اتحادی تھے اور ان کے درمیان گہرے اقتصادی اور عسکری تعلقات تھے۔ تل ابیب کو یقیناً اس ماضی کو دوبارہ حاصل کرنے کی امید ہے۔

13 سے 24 جون کے درمیان ایران کے ساتھ تباہ کن “پیشگی” جنگ کے بعد، جب ایران کو کمزور کر دیا جائے گا، اسرائیل ممکن ہے کہ کسی دوسری “پریشان کن” علاقائی طاقت یعنی ترکی کے خلاف غیر فوجی طریقے سے اقدامات کرے۔ کچھ ماہرین کے مطابق ترکی اور اسرائیل کے تعلقات میں کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے، اگرچہ اسرائیل کی طرف سے ترکی کے خلاف براہِ راست فوجی کارروائی کا امکان فی الحال کم ہی نظر آتا ہے۔ ترکی کے سیاسی حلقے اور میڈیا میں یہ رائے عام ہے کہ اسرائیل ترکی کو اپنا اگلا ہدف سمجھتا ہے تاکہ اسے قابو میں رکھا جا سکے۔ اس حوالے سے ترکی کی نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی کے سربراہ دولت باہچلی نے کہا کہ “اسرائیل کا مقصد اناطولیہ کے جغرافیے کو گھیر لینا ہے” اور خبردار کیا کہ ترکی “حتمی ہدف” ہے۔

7 اکتوبر 2023 سے مشرقِ وسطیٰ میں جاری بڑی تبدیلیوں اور ایران کے ساتھ حالیہ جنگ کے پس منظر میں ترکی نے اپنے میزائل پروگرام میں تیزی لائی ہے۔ 11 جون 2025 کو اسرائیلی وزیرِاعظم نے کنیسٹ میں کہا کہ “چاہے کوئی کچھ بھی سمجھے، عثمانی سلطنت اب واپس نہیں آئے گی”۔ خطے کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح کے خدشات کی جڑیں ترکی کی تاریخ میں موجود ہیں، جنہیں ترکی کے سابق وزیرِاعظم نجم الدین اربکان اور ان کے بیٹے فاتح اربکان بار بار بیان کر چکے ہیں۔ اسرائیل کی جانب سے کچھ اشارے بھی ان خدشات کو ہوا دیتے ہیں، جیسے ایک اسرائیلی ٹی وی کا وائرل ویڈیو جس میں ایک تبصرہ نگار نے کہا کہ “آخر کار اسرائیل کو ترکی کا سامنا کرنا پڑے گا”۔

اس کے علاوہ پرتگال کے سابق وزیر برائے یورپی امور برونو میسیاس بھی خبردار کر چکے ہیں کہ ایران پر مغربی یا اسرائیلی حملوں کے بعد ترکی کو غیر مستحکم کرنے کی کوششیں ہو سکتی ہیں۔ پاکستان، جو خطے کی ایک اور اہم اسلامی طاقت ہے اور واحد اسلامی ملک ہے جس کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں، ایران سے قریبی تعلقات رکھتا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے ایران کے ساتھ “مضبوط یکجہتی” کا اظہار کیا اور اسرائیلی جارحیت کو “انتہائی خطرناک اور غیر ذمہ دارانہ” قرار دیا، جو خطے میں مزید عدم استحکام لا سکتی ہے۔ اس کے باوجود پاکستان نے سفارتی ذرائع سے معاملے کو سنبھالنے کی کوشش کی اور اپنے اسٹریٹیجک شراکت دار چین سے مطالبہ کیا کہ وہ کشیدگی کو بڑھنے سے روکنے کے لیے سفارتی کردار ادا کرے۔

پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف نے واضح کیا کہ اسرائیلی حملوں کے بعد پاکستان نے ایران کے ساتھ کوئی نیا عسکری تعاون شروع نہیں کیا۔ پاکستان سمجھتا ہے کہ وہ ایران-اسرائیل تنازعے میں براہِ راست فریق نہیں ہے، اس کی اصل توجہ بھارت اور افغانستان سے آنے والے خطرات پر مرکوز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین کے مطابق اسرائیل کی حالیہ حکمت عملی میں پاکستان کا کردار ثانوی ہے۔ یقیناً اسرائیل، جو ہمیشہ سب کو حیران کرتا رہا ہے، ممکن ہے کہ کچھ اور سوچ رہا ہو۔ لیکن ایک بات واضح ہے کہ اسرائیل کا حملہ غزہ پر شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ ایک سینئر اسرائیلی عہدیدار نے ایران کے ساتھ جنگ بندی کے آثار کے ساتھ ہی کہا: “حماس آج غیر معمولی تنہائی کا شکار ہے، اور یہی وقت ہے کہ اس صورتحال کا فائدہ اٹھایا جائے اور غزہ سے مستقل خطرے کا خاتمہ کیا جائے اور مغویوں کو واپس لایا جائے”۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: نے ایران کے ساتھ کہ اسرائیل سمجھتا ہے ہے کہ اس ترکی کے کے بعد اور اس کیا کہ

پڑھیں:

اسرائیل کا اپنی فوج کو غزہ میں تمام سرنگوں کو تباہ کرنے کا حکم

اسرائیلی وزیر دفاع یسرائیل کاٹز نے فوج کو حکم دیا ہے کہ وہ غزہ کی پٹی میں حماس کی تمام سرنگوں کو تباہ اور نابود کر دیں۔

اسرائیلی اخبار ییدیوتھ آہرونتھ کے مطابق، کاٹز نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر بھی ایک ٹویٹ میں کہا کہ اگر سرنگیں نہ ہوں تو حماس نہیں ہو گی۔

علاوہ ازیں پچھلے ماہ کاٹز نے کہا تھا کہ غزہ میں فوجی کارروائی صرف دھڑوں کو غیر مسلح کرنے تک محدود نہیں ہے بلکہ اس میں حماس کے سرنگ نیٹ ورک کا مکمل خاتمہ بھی شامل ہے۔

انہوں نے کہا کہ انہوں نے فوج کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس ہدایت کو اسرائیل کے زیر کنٹرول ییلو زون میں مرکزی ترجیح بنائے۔

واضح رہے کہ اکتوبر میں اسرائیلی فوج کے تخمینے سے ظاہر ہوتا ہے کہ حماس کے کارکنان ییلو لائن کے مشرقی جانب سرنگوں میں ہیں جو اسرائیل کے مقبوضہ غزہ کی پٹی کے 53 فیصد حصے سے منسلک ہے۔

متعلقہ مضامین

  • اسرائیل نے امریکی عوام میں اعتماد بحال کرنے کیلئے لاکھوں ڈالرز خرچ کر ڈالے
  • اسرائیل کا اپنی فوج کو غزہ میں تمام سرنگوں کو تباہ کرنے کا حکم
  • میں ایران پر اسرائیلی حملے کا انچارج تھا،ٹرمپ
  • بھارت اور اسرائیل کا پاکستان کے ایٹمی مرکز پر حملے کا خفیہ منصوبہ کیا تھا؟ سابق سی آئی اے افسر کا انکشاف
  • حماس آج رات اسرائیلی یرغمالی کی لاش حوالے کرے گا، غزہ جنگ بندی کے تحت
  • ایران پر اسرائیلی حملے کی "ذمہ داری" میرے پاس تھی، ڈونلڈ ٹرمپ کی شیخی
  • اسرائیل مذاکرات کی نہیں بلکہ صرف طاقت کی زبان سمجھتا ہے، حزب اللہ لبنان
  • پاکستان منصفانہ جدوجہد میں کشمیریوں کے ساتھ مضبوطی سے کھڑاہے: سینیٹر اعظم نذیر تارڑ
  • اپنا راستہ طے کرلیا، عوام سے ہی اتحاد کرکے فرسودہ نظام بدلنا ہے،حافظ نعیم الرحمن
  • اسرائیل تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے، اسرائیلی صدر کا اعتراف