اسرائیل ترکی کو اپنا اگلا ہدف سمجھتا ہے نہ کہ پاکستان کو، ترک عوام
اشاعت کی تاریخ: 24th, June 2025 GMT
پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف نے واضح کیا کہ اسرائیلی حملوں کے بعد پاکستان نے ایران کے ساتھ کوئی نیا عسکری تعاون شروع نہیں کیا۔ پاکستان سمجھتا ہے کہ وہ ایران-اسرائیل تنازعے میں براہِ راست فریق نہیں ہے، اس کی اصل توجہ بھارت اور افغانستان سے آنے والے خطرات پر مرکوز ہے۔ اسلام تائمز۔ عالمی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اسرائیل درحقیقت مشرقِ وسطیٰ کا نقشہ از سرِ نو ترتیب دینا چاہتا ہے اور 13 جون کو ایران پر حملہ اور اس کے بعد جوہری تنصیبات پر ہونے والی بمباری اس راستے سے ایک بڑی رکاوٹ کو ہٹانے کی ایک کوشش ہے۔
ایران کی آبادی 9 کروڑ سے کچھ زیادہ ہے، جو عراق کی آبادی سے تقریباً تین گنا ہے، اور اس کی نسلی ساخت زیادہ پیچیدہ ہے۔ اس لیے اگر ملک میں بدامنی ہوتی ہے تو یہ ایک بہت بڑا چیلنج بن سکتا ہے۔ 1979 کی اسلامی انقلاب سے پہلے ایران اور اسرائیل قریبی اتحادی تھے اور ان کے درمیان گہرے اقتصادی اور عسکری تعلقات تھے۔ تل ابیب کو یقیناً اس ماضی کو دوبارہ حاصل کرنے کی امید ہے۔
13 سے 24 جون کے درمیان ایران کے ساتھ تباہ کن “پیشگی” جنگ کے بعد، جب ایران کو کمزور کر دیا جائے گا، اسرائیل ممکن ہے کہ کسی دوسری “پریشان کن” علاقائی طاقت یعنی ترکی کے خلاف غیر فوجی طریقے سے اقدامات کرے۔ کچھ ماہرین کے مطابق ترکی اور اسرائیل کے تعلقات میں کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے، اگرچہ اسرائیل کی طرف سے ترکی کے خلاف براہِ راست فوجی کارروائی کا امکان فی الحال کم ہی نظر آتا ہے۔ ترکی کے سیاسی حلقے اور میڈیا میں یہ رائے عام ہے کہ اسرائیل ترکی کو اپنا اگلا ہدف سمجھتا ہے تاکہ اسے قابو میں رکھا جا سکے۔ اس حوالے سے ترکی کی نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی کے سربراہ دولت باہچلی نے کہا کہ “اسرائیل کا مقصد اناطولیہ کے جغرافیے کو گھیر لینا ہے” اور خبردار کیا کہ ترکی “حتمی ہدف” ہے۔
7 اکتوبر 2023 سے مشرقِ وسطیٰ میں جاری بڑی تبدیلیوں اور ایران کے ساتھ حالیہ جنگ کے پس منظر میں ترکی نے اپنے میزائل پروگرام میں تیزی لائی ہے۔ 11 جون 2025 کو اسرائیلی وزیرِاعظم نے کنیسٹ میں کہا کہ “چاہے کوئی کچھ بھی سمجھے، عثمانی سلطنت اب واپس نہیں آئے گی”۔ خطے کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح کے خدشات کی جڑیں ترکی کی تاریخ میں موجود ہیں، جنہیں ترکی کے سابق وزیرِاعظم نجم الدین اربکان اور ان کے بیٹے فاتح اربکان بار بار بیان کر چکے ہیں۔ اسرائیل کی جانب سے کچھ اشارے بھی ان خدشات کو ہوا دیتے ہیں، جیسے ایک اسرائیلی ٹی وی کا وائرل ویڈیو جس میں ایک تبصرہ نگار نے کہا کہ “آخر کار اسرائیل کو ترکی کا سامنا کرنا پڑے گا”۔
اس کے علاوہ پرتگال کے سابق وزیر برائے یورپی امور برونو میسیاس بھی خبردار کر چکے ہیں کہ ایران پر مغربی یا اسرائیلی حملوں کے بعد ترکی کو غیر مستحکم کرنے کی کوششیں ہو سکتی ہیں۔ پاکستان، جو خطے کی ایک اور اہم اسلامی طاقت ہے اور واحد اسلامی ملک ہے جس کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں، ایران سے قریبی تعلقات رکھتا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے ایران کے ساتھ “مضبوط یکجہتی” کا اظہار کیا اور اسرائیلی جارحیت کو “انتہائی خطرناک اور غیر ذمہ دارانہ” قرار دیا، جو خطے میں مزید عدم استحکام لا سکتی ہے۔ اس کے باوجود پاکستان نے سفارتی ذرائع سے معاملے کو سنبھالنے کی کوشش کی اور اپنے اسٹریٹیجک شراکت دار چین سے مطالبہ کیا کہ وہ کشیدگی کو بڑھنے سے روکنے کے لیے سفارتی کردار ادا کرے۔
پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف نے واضح کیا کہ اسرائیلی حملوں کے بعد پاکستان نے ایران کے ساتھ کوئی نیا عسکری تعاون شروع نہیں کیا۔ پاکستان سمجھتا ہے کہ وہ ایران-اسرائیل تنازعے میں براہِ راست فریق نہیں ہے، اس کی اصل توجہ بھارت اور افغانستان سے آنے والے خطرات پر مرکوز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین کے مطابق اسرائیل کی حالیہ حکمت عملی میں پاکستان کا کردار ثانوی ہے۔ یقیناً اسرائیل، جو ہمیشہ سب کو حیران کرتا رہا ہے، ممکن ہے کہ کچھ اور سوچ رہا ہو۔ لیکن ایک بات واضح ہے کہ اسرائیل کا حملہ غزہ پر شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ ایک سینئر اسرائیلی عہدیدار نے ایران کے ساتھ جنگ بندی کے آثار کے ساتھ ہی کہا: “حماس آج غیر معمولی تنہائی کا شکار ہے، اور یہی وقت ہے کہ اس صورتحال کا فائدہ اٹھایا جائے اور غزہ سے مستقل خطرے کا خاتمہ کیا جائے اور مغویوں کو واپس لایا جائے”۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: نے ایران کے ساتھ کہ اسرائیل سمجھتا ہے ہے کہ اس ترکی کے کے بعد اور اس کیا کہ
پڑھیں:
مسلم ممالک عملاًایران کے ساتھ کھڑے ہوجائیں‘ کاشف سعید شیخ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی(اسٹاف رپورٹر)جماعت اسلامی سندھ کے امیر کاشف سعید شیخ نے کہا ہے کہ امریکا نے ایران پر حملہ کر کے دنیا کے امن کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ فوری طور پر او آئی سی کا اجلاس بلایا جائے اور اس حملے کی مذمت کے ساتھ ساتھ مسلمان ممالک کو عملی طور پر ایران کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ ایک جمہوری، آزاد اور خودمختار ملک پر حملہ کھلی دہشت گردی ،اقوام متحدہ کے چارٹر اورعالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ ایران پر امریکی حملے کے بعد قاتل ٹرمپ کو نوبیل انعام کے لیے نامزد کرنے والوں کو اب آنکھیں کھل جانی چاہئیں۔ اگر اسرائیل اور امریکا کو نہ روکا گیا تو کل کسی اور مسلمان ملک کی باری آ سکتی ہے۔وہ کنڈیارو میں ایک پ ±رہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔ اس موقع پر جماعت اسلامی کے بزرگ رہنما اور سابق چیئرمین بلدیہ سردار اکبر اجن اور ضلعی امیر نعیم احمد کمبوہ بھی ان کے ہمراہ موجود تھے۔بعدازاں انہوں نے مقامی ہال میں کارکنان کی عیدملن تقریب اورضلع بھر کے ذمے داران کے اجلاس سے بھی خطاب کیا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ خوشامدی حکمران ٹولے اور اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے حال ہی میں مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن اور اسرائیل کے حامی ڈونلڈ ٹرمپ کو امن کے نوبیل انعام کے لیے منتخب کرنا حکمران طبقے کی غلامانہ ذہنیت اور مفاد پرستی کو بے نقاب کرتا ہے۔ غزہ میں ستر ہزار مسلمانوں کے خون سے ہاتھ رنگنے والے اور ایران پر حملے میں براہِ راست شامل ٹرمپ کو اس صدی کا سب سے بڑا دہشت گرد قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس کی تعریف کرنے والے حکمرانوں کو ڈوب مرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ چاہے حکمران امریکا کی غلامی میں ٹرمپ کی مدح سرائی کریں، لیکن پاکستان کے 22 کروڑ عوام کے دل ایران اور غزہ کے مظلوم مسلمانوںساتھ دھڑکتے ہیں۔صوبائی امیرنے کہا کہ اس وقت سندھ بھر میں بدامنی کا راج ہے، خاص طور پربالائی سندھ میں ڈاکوو ¿ں کا زور بہت بڑھ چکا ہے۔ اغواء لوٹ مار اور قتل عام روز کا معمول بن چکا ہے۔ یہ بدامنی اس سندھ میں ہے جہاں گزشتہ 17 سالوں سے ایک ہی جماعت، پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اتنے طویل عرصے کے باوجود حکومت جرائم اور بدامنی پر قابو پانے میں مکمل طور پر ناکام ہے۔ بظاہر لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت بدامنی ختم کرنے میں سنجیدہ ہی نہیں ہے، اگر سنجیدہ ہوتی تو 17 سال کا طویل عرصہ کم نہیں ہوتا۔ حکومت کو عوام کے جان و مال اور عزت کے تحفظ کو اولین ترجیح بنانا چاہیے، بصورتِ دیگر اس کے پاس اقتدار میں رہنے کا کوئی جواز نہیں۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے مورو واقعے اور جتوئی خاندان پر جھوٹے مقدمات کی سخت مذمت کرتے ہوئے اسے پیپلز پارٹی کی انتقامی سیاست قرار دیا۔ جماعت اسلامی کے کارکنان کے لیے منعقدہ عید اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ موجودہ بجٹ عوام کا نہیں بلکہ غریبوں کی کمائی سے امیروں کی عیاشیوں کا بجٹ ہے۔ اس بجٹ میں غریب عوام کو کسی قسم کا ریلیف نہیں دیا گیا، بلکہ ا ±ن پر مزید ٹیکسوں کا بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔ پیٹرول، بجلی، گیس، موبائل کارڈ، آٹا، چینی، چائے، سولر سسٹمز سمیت روزمرہ استعمال کی اشیاء پر بھاری ٹیکس لگا دیے گئے ہیں، جب کہ کارپوریٹ سیکٹر، اشرافیہ اور بڑے اداروں کو ٹیکس میں چھوٹ، سبسڈی، قرض معافی اور دیگر سہولیات دی گئی ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کے ایک قومی اسمبلی کے رکن کی ماہانہ تنخواہ اور مراعات تقریباً سات لاکھ روپے ہیں، اس کے علاوہ مفت سفری سہولیات، رہائش، میڈیکل، سیکیورٹی گارڈز سمیت کئی مراعات بھی دستیاب ہیں۔ وزیر اعلیٰ اور گورنر ہاو ¿س کی چائے بسکٹ کے لیے بھی اربوں روپے رکھے گئے ہیں، جو کہ غریب عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔