data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی(کامرس رپورٹر) ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان نے فیڈرل محتسب سیکریٹریٹ برائے تحفظ ہراسگی (FOSPAH) کے تعاون سے کراچی میں ٹی ڈی اے پی ہیڈ آفس میں ورک پلیس ہراسگی ایکٹ پر ایک آگاہی سیمینار منعقد کیا۔اس سیمینار کا مقصد ٹی ڈی اے پی کے افسران اور عملے کو کام کی جگہ پر خواتین کو ہراسمنٹ سے تحفظ کے ایکٹ سے متعلق آگاہی دینا تھا، جس میں قانونی ڈھانچے، شکایت درج کرانے کے طریقہ کار، اور ایسے احتیاطی اقدامات کو اجاگر کیا گیا جو ایک محفوظ اور باوقار کام کا ماحول پیدا کرنے میں مدد دیتے ہیں۔تقریب میں فوسپا کی ریجنل ہیڈ سندھ سبیکا شاہ نے بطور مہمانِ خصوصی شرکت کی اور ایک جامع سیشن پیش کیا جس میں قانون کی دفعات، طریقہ کار کی رہنمائی، اور ادارہ جاتی ذمہ داریوں پر روشنی ڈالی گئی۔ اس انٹرایکٹو گفتگو میں ہراسگی سے نمٹنے کے لیے آگاہی، رپورٹنگ کے اصول، اور ادارہ جاتی احتساب کی اہمیت پر زور دیا گیا۔یہ اقدام ٹی ڈی اے پی اور فوسپا کی اس مشترکہ وابستگی کو اجاگر کرتا ہے جس کا مقصد جنس پر مبنی حساس اور قانون کے مطابق دفاتر کو فروغ دینا ہے۔ ملازمین کو علم اور وسائل فراہم کرکے، اس سیمینار نے ایک باوقار، محفوظ، اور ہراسگی کے خلاف زیرو ٹالرینس پر مبنی ثقافت کو مضبوط کیا۔ سیکریٹری ٹی ڈی اے پی شہریار تاج نے اس اقدام کو سراہا اور زور دیا کہ اس طرح کے پروگرام ایک آرام دہ اور ہراسگی سے پاک ماحول بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ انہوں نے اختتامی تقریب میں اعزازی شیلڈز بھی پیش کیں۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ٹی ڈی اے پی ا گاہی

پڑھیں:

قرضوں میں مزید اضافہ

تازہ ترین رپورٹ کے مطابق ایک سال کے دوران حکومت کے ذمے قرض میں تقریباً 10 ہزار ارب کا اضافہ ہوا ہے۔ اس رپورٹ میں کئی خدشات بھی بیان کیے گئے ہیں۔ معاشی سست روی کا ہونا، شرح سود کے متعلق زرمبادلہ ذخائرکا دباؤ اور دیگر خطرات کا موجود ہونا۔ اس طرح اب مجموعی قرضہ 84 ہزار ارب روپے تک جا پہنچا ہے۔ اس بات کا اندازہ پیش کیا جا رہا ہے کہ جی ڈی پی کا تناسب 61 فی صد ہو سکتا ہے۔ ان خطرات میں سے ایک موسمیاتی تبدیلی بھی ہے۔

وزارت خزانہ کی کھڑکیوں کے پار ایک فائل جوکہ قرضوں کے بارے میں تھی، ایک عدد کراہ رہی تھی کہ 84 ہزار ارب روپے کا قرض۔ یہ وہ عدد 84 ہے جو کہ گزشتہ برس 83 تک رہا اور ایک سال کے بعد 84 ہزار ارب روپے چنگھاڑتا ہوا نمودار ہوا، جسے کوئی محسوس کرے یا نہ کرے غریب عوام محسوس کر رہے ہیں اور سہم بھی رہے ہیں۔ گزشتہ ایک سال میں ایک ہزار ارب روپے کا اضافہ ظاہر کر رہا ہے کہ اس میں سے بیرونی قرضوں کا تناسب 32 فی صد سے زائد ہے۔

اس کا مطلب ہے کہ اس کی ادائیگی کے لیے اپنی پالیسی اپنی کرنسی کی گراوٹ اور کبھی کبھی اپنی خود داری بھی داؤ پر لگا رہے ہیں۔ یہاں پر یہ بتایا جاتا ہے کہ پاکستان میں یہ تناسب GDP کا 70 فی صد سے کم ہو کر 60.8 فی صد تک آنے کی امید ہے۔ جی ڈی پی کے یہ اندازے ہیں جوکہ 70 فی صد سے کم کرکے بتایا جا رہا ہے، درحقیقت قرض تو کم نہیں ہو رہا ہے۔ صرف تناسب کو بہتر دکھانے کی کوشش ہے کیوں کہ آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان کے قرضے کی پالیسی ’’ہائی رسک زون‘‘ میں داخل ہو چکے ہیں۔ جہاں تک شرح سود کی بات ہے تو جیسے ہی شرح سود میں اضافہ ہوتا ہے ہر نئے دن پرانے قرض کی قسط مزید بھاری ہو جاتی ہے۔

پاکستان کے زیادہ تر قرضے قلیل مدتی پالیسی کے ہیں جنھیں بار بار ری فنانس کرنا پڑتا ہے یعنی پرانے قرضوں کی قسط نئے قرضے کی قسط سے ادا کی جاتی ہے۔ اس طرز عمل نے معیشت کو ری فنانسنگ کے جال میں قید کردیا ہے۔

اور یہ سب ایسا منحوس چکر ہے کہ کوئی شخص ایک ادھار چکانے کے لیے دوسرا ادھار لے پھر تیسرا، پھر چوتھا قرض بھی، مختلف بھاری شرح سود کے ساتھ لینے پر مجبور ہو جاتا ہے، اگر شرح سود بڑھتی ہے تو ڈالرکا ریٹ بڑھتا ہے تو سمجھیں بجٹ توازن سے لے کر عام آدمی کی روٹی پانی تک سب کچھ لرز کر رہ جاتا ہے۔

حکومت عوام کے نام پر قرض لے کر خوب اسے خرچ بھی کر رہی ہے لیکن جس کے نام پر قرض لیا جا رہا ہے وہ مفلوک الحال ہے، اس مزدورکی ہتھیلی اب بھی خالی ہے، ساتھ ہی ڈالر کی رسد بھی کم ہو جاتی ہے اور ڈالر کی طلب بڑھ جاتی ہے۔ کراچی کی بندرگاہ پر جب ایک درآمدی سامان کے کنٹینر کھلتے ہیں تو ڈالر کی طلب بڑھ جاتی ہے اور ہر قرض کی ادائیگی پر ڈالر کی اونچی اڑان روپے کو گرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ اس طرح اب پاکستان کا ہر شہری قرض دار ریاست کے شہری کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ اب حکومت کے پاس اختیار کم ہے اور مالیاتی اداروں کے پاس اختیارات زیادہ ہیں۔ یہ وہ حقیقت ہے کہ اب عالمی ادارے سے معاہدہ کرتے کرتے اپنے نفع نقصان کے بارے میں سوچنے سے بڑھ کر عالمی اداروں کے کہنے پر عمل کیے بغیر کچھ حاصل نہیں۔

قرض ایک ایسا منحوس چکر ہے جس میں رہ کر کوئی قوم فلاح و بہبود حاصل نہیں کر سکتی ہے۔ ہر سال بجٹ میں نئے وعدے کیے جاتے ہیں، نئے نعرے متعارف ہوتے ہیں، نئی اسکیموں کے تبصرے ہوتے ہیں لیکن دراصل سال کے خاتمے تک نہ اکثر اسکیموں پر عمل درآمد شروع ہوتا ہے اور نہ ہی تکمیل کی طرف جاتے ہیں۔ اس طرح اسکیمیں تو ختم ہو جاتی ہیں لیکن ادھوری چھوڑ کر۔

قرض لینا بدشگونی ہے۔ حکومت کو اپنے اخراجات کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے۔ لوگوں کو پہلے پہل بہت ہی کم تنخواہیں ملتی تھیں، پھر بھی اس میں سے بھی بچت کر لیتے تھے اور یہ بچت مجموعی طور پر بڑے سے بڑے سرمائے کی شکل میں نمودار ہوتی ہے اور یہ سرمایہ بڑے بڑے کارخانہ دار تاجر حاصل کرتے ہیں اور کم شرح سود کی ادائیگی پر یہ رقوم جوکہ بینکوں میں جمع ہوتی ہیں اپنے کام میں لاتے ہیں۔

اس طرح سے رقوم کی تشکیل ہوتی رہتی ہے۔ انھی رقوم کو حکومت قرض لے کر لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے خرچ کرتی رہتی ہے اور عوامی منصوبوں کے لیے زیادہ رقوم اکٹھی ہو جاتی ہیں، اگر حکومت اپنے غیر ضروری اخراجات کو کم کر دے تو ایسی صورت میں کچھ رقوم کی بچت ہو سکتی ہے اور حکومت کو بھی اپنی روزمرہ ضروریات، اخراجات کے لیے بہت زیادہ رقوم لینے کی ضرورت نہ پیش آئے۔ اگر مراعات یافتہ طبقے کے لیے حکومت اپنی مراعات میں کمی کر دے تو بھی ایسی صورت میں اچھی خاصی بچت ہو سکتی ہے، لہٰذا یہ بات اگر مدنظر رکھی جائے کہ غریب عوام اتنا زیادہ قرض لینے کی متحمل نہیں ہو سکتے اور ان کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی لہٰذا اخراجات کنٹرول کیے جائیں۔

متعلقہ مضامین

  • ڈاکٹر ظفر اقبال بین الاقوامی سیمینار میں شرکت کیلیے ڈھاکا روانہ
  • دھیرکوٹ، یوم شہداء جموں کے موقع پر سیمینار کا انعقاد
  • مریم نواز اسکول اینڈ ریسورس سینٹر فار آٹزم کو ملک کا پہلا اسٹیٹ آف دی آرٹ سرکاری ادارہ بنانے کا فیصلہ
  • اسلامک بینکنگ سود سے پا اور ملکی معیشت کو ترقی فراہم کررہی ہے،مفتی محمد نوید
  • پنجاب اپوزیشن لیڈر کا لوکل گورنمنٹ ایکٹ عدالت میں چیلنج
  • قرضوں میں مزید اضافہ
  • سکھوں یاتریوں کیساتھ آنیوالے 12 ہندوؤں کو واپس بھارت بھیج دیا گیا
  • وفاقی محتسب نے بیوہ خاتون کو جائیداد کا حق دلوا دیا
  • پی ٹی آئی نے پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ چیلنج کردیا
  • سیاحت اور ورثہ اتھارٹی ایکٹ پنجاب اسمبلی سے منظور