جموں و کشمیر کے ریاستی درجہ کی بحالی عوام کا حق ہے، عمر عبداللہ
اشاعت کی تاریخ: 25th, June 2025 GMT
وزیراعلٰی نے اسطرح کی خبریں شائع کرنے پر میڈیا اداروں کی بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں معلوم ہے کہ کون سے میڈیا ادارے کس کے ایماء پر اور کیوں ایسی بے بنیاد خبریں شائع کرتے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ جموں و کشمیر کے وزیراعلٰی عمر عبداللہ نے جموں و کشمیر کا ریاستی درجہ بحال کرنے کا پرزور مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ ریاست کا درجہ دینے کا مطالبہ سیاستدانوں یا اسمبلی کے مفادات کے لیے نہیں بلکہ خطے کے عوام کے حقوق کے لیے ناگزیر ہے۔ عمر عبداللہ کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب حالیہ رپورٹس میں ریاستی درجہ کی مشروط بحالی کی خبریں گردش کر رہی ہیں۔ ان خبروں میں دعویٰ کیا ہے کہ ریاستی درجے کی بحالی اگلے اسمبلی انتخابات پر بحال کیا جائے گا۔ عمر عبداللہ نے زور دیا کہ اگر ہم یا ہماری حکومت ریاستی درجے کی بحالی میں آڑے آتے ہیں تو ہم عوامی مفادات کے لئے پیچھے ہٹنے کے لئے تیار ہیں۔ عمر عبداللہ نے دعویٰ کیا کہ اگر واقعی ایسا ہے تو میں اگلے ہی دن گورنر سے اسمبلی کو تحلیل کرنے کا کہوں گا۔
انہوں نے مودی حکومت پر زور دیا کہ وہ گمراہ کن بیانیے کا سہارا نہ لے، انہوں نے نام لئے بغیر اس طرح کی خبریں شائع کرنے پر میڈیا اداروں کی بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں معلوم ہے کہ کون سے میڈیا ادارے کس کے ایماء پر اور کیوں ایسی بے بنیاد خبریں شائع کرتے ہیں، ریاستی درجہ ہمارا حق ہے، ہمیں من گھڑت کہانیوں سے ڈرانے کی کوشش نہ کریں۔ گلمرگ میں سیاحتی شعبے کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے لئے جاری کوششوں کا حوالہ دیتے ہوئے عمر عبداللہ نے بتایا کہ دو بڑے منصوبے ایک نئی سکی لفٹ اور پانی ذخیرہ کرنے کے ٹینک کا سنگ بنیاد پہلے ہی رکھے جا چکے ہیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ سکی لفٹ آنے والے سیزن کے لئے تیار ہو جائے گی اور پانی کا ٹینک خطے میں پانی کی کمی کو دور کرے گا۔ جموں و کشمیر کے وزیراعلیٰ نے خطے میں رابطے کے بنیادی ڈھانچے کو فروغ دینے پر بھی بات کی۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: عمر عبداللہ نے ریاستی درجہ انہوں نے کے لئے
پڑھیں:
برطانیہ میں فلسطینی مشن کو سفارتخانے کا درجہ، عمارت پر فلسطینی پرچم لہرا دیا گیا
برطانیہ میں ایک تاریخی قدم اٹھاتے ہوئے فلسطینی مشن کو باضابطہ طور پر سفارتخانے کا درجہ دے دیا گیا، اور اس اہم موقع پر عمارت کے باہر فخر سے فلسطینی پرچم بھی لہرا دیا گیا۔
تقریب کے دوران برطانیہ میں فلسطین کے سفیر، حسام زملوط نے جذباتی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آئیے ہم سب مل کر فلسطین کا پرچم بلند کریں — وہ پرچم جس کے رنگ ہماری قوم کی روح کی عکاسی کرتے ہیں۔ سیاہ ہمارا دکھ اور سوگ، سفید ہماری امید، سبز ہماری سرزمین کی پہچان اور سرخ ہمارے عوام کی قربانیوں کا نشان ہے۔”
سفیر زملوط نے برطانیہ کی جانب سے فلسطین کو ریاست کے طور پر تسلیم کیے جانے کو انصاف کی بحالی کی جانب ایک سنگِ میل قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ قدم نہ صرف تاریخی ناانصافیوں کا ازالہ ہے، بلکہ آزادی، وقار اور بنیادی انسانی حقوق پر مبنی ایک روشن مستقبل کے لیے عالمی برادری کے عزم کا بھی اظہار ہے۔
انہوں نے گہرے دکھ کے ساتھ کہا کہ یہ تسلیم کرنا ایسے وقت میں آیا ہے جب فلسطینی عوام ناقابلِ بیان درد اور اذیت سے گزر رہے ہیں۔ ہم ایک ایسی نسل کُشی کا سامنا کر رہے ہیں جسے نہ صرف عالمی سطح پر تسلیم نہیں کیا جا رہا، بلکہ اسے بے خوفی کے ساتھ جاری رہنے دیا جا رہا ہے۔
غزہ کی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ وہاں کے باسی بھوک، بمباری اور تباہی کا سامنا کر رہے ہیں، اور اپنے ہی گھروں کے ملبے تلے دفن ہو رہے ہیں۔ مغربی کنارے میں بھی حالات مختلف نہیں — وہاں روزانہ کی بنیاد پر ریاستی جبر، زمینوں کی چوری اور نسلی تطہیر جاری ہے۔
سفیر نے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینیوں کی انسانیت کو اب بھی مشکوک نظروں سے دیکھا جا رہا ہے۔ ہماری زندگیاں بے وقعت سمجھی جا رہی ہیں، اور ہمارے بنیادی حقوق بار بار پامال کیے جا رہے ہیں۔
تقریب کے اختتام پر حسام زملوط نے پُرعزم لہجے میں کہا ہم آج یہ پرچم ایک وعدے کے ساتھ بلند کرتے ہیں — کہ فلسطین باقی رہے گا، فلسطین سر بلند ہوگا، اور فلسطین ایک دن ضرور آزاد ہوگا۔
یاد رہے کہ حالیہ دنوں میں برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا نے فلسطین کو باقاعدہ طور پر ایک ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کا اعلان کیا، جسے عالمی سطح پر ایک اہم سفارتی پیش رفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔