ٹیکس نظام انصاف پر مبنی نہیں؛ بجٹ نے ثابت کردیا یہ سسٹم نہیں چل سکتا، شاہد خاقان
اشاعت کی تاریخ: 25th, June 2025 GMT
عوام پاکستان پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ٹیکس نظام انصاف پر مبنی نہیں ہے، بجٹ نے ثابت کردیا کہ یہ سسٹم نہیں چل سکتا۔
پارٹی رہنما اور سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ بجٹ میں کوئی تبدیلیاں نہیں، 30 سال پرانا جیسا بجٹ ہے۔ اکاؤنٹنگ کا ہے اخراجات کنٹرول کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ نئے ٹیکس لگا کر اور قرضہ لے کر حکومت اپنے اخراجات پورے کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایسے بجٹ سے کوئی تبدیلی نہیں آسکتی ۔ معیشت یا ملک کے معاملات پر ایسے بجٹ کا کوئی اثر نہیں ہوسکتا ۔ بتایا جاتا ہے کہ میکرو اکنامک استحکام آگیا ہے، کموڈیٹی کی قیمت خاص طور پر خام تیل کم ترین سطح پر ہے ۔ حکومت اپنے معاملات درست نہ کرے، اصلاحات نہ کرے تو نمو کو ختم کرکے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ پورا کرتی ہے۔
شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ اس حکمت عملی کا اثر مالیاتی خسارے پر بھی پڑتا ہے لیکن اس سے غریب آدمی متاثر ہوتا ہے۔ 4 سال میں ٹیکسوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ شرح سود کو بلند رکھا گیا ۔ گیس بجلی کی قیمت میں اضافہ ہوتا گیا ۔ ان معاملات کی وجہ سے افراط زر میں اضافہ ہو رہا ہے۔ حکومت کی سب سے بڑی ذمے داری روزگار کی فراہمی ہے۔ 4 سال میں غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔
سابق وزیر اعظم نے مزید کہا کہ بجٹ میں کوئی ریلیف نظر نہیں آتا ۔ کسی طبقے کو ریلیف نہیں ملا ۔ حکومت نے اپنے اخراجات میں کسی مد میں بھی کمی نہیں کی۔ وزرا کی تنخواہ میں 188 فیصد، اراکین اسمبلی نے اپنی تنخواہیں 400 فیصد بڑھا دیں، چیئرمین سینٹ اور اسپیکر قومی اسمبلی نے بھی بے پناہ اضافہ کرایا ۔ یہ اضافہ بیک ڈیٹ سے لاگو ہوگا اور اس سے حکومتی نمائندوں کی سوچ ظاہر ہوتی ہے ۔
سربراہ عوام پاکستان پارٹی نے مزید کہا کہ عوام غریب سے غریب تر ہوتے جارہے ہیں ۔تقریباً آدھا پاکستان غریب ہے، 4کروڑ لوگ بدترین غربت کا شکار ہیں۔ حکمران طبقہ اپنی تنخواہیں بڑھانے میں مصروف ہے۔ 1988ء سے 2018ء تک تنخواہوں میں 20/25 فیصد اضافہ ہوا۔ اب یکمشت سیکڑوں فیصد اضافہ ہوا۔
انہوں نے کہا کہ ملک دیوالیہ نہیں ہوگا، حکمرانوں کی سوچ دیوالیہ ہوگئی۔ حکمرانوں کو عوام کا احساس نہیں اپنی جیب کا احساس ہے جب کہ دوسری طرف حکومت نے اپنے اخراجات میں بھی بے حد اضافہ کیا ۔ مرغی پر بھی 10 روپے فی چوزہ ٹیکس لگا دیا گیا ۔ ایف ای ڈی کے ذریعے حکومت کو مرغی سے اربوں روپے وصول ہوں گے۔ کیا یہ رقم حکومت اپنے اخراجات سے کم کرکے خسارہ پورا نہیں کرسکتی؟۔ کیا وزرا اور اراکین اسمبلی اپنی تنخواہوں میں کمی نہیں کرسکتے تھے؟۔
انہوں نے مزید کہا کہ چینی کا شوق ہر حکومت کو ہوتا ہے۔ شوگر مل مالکان کا سیاست سے بالواسطہ یا بلاواسطہ رابطہ ہوتا ہے۔ ہر حکومت کو چینی ایکسپورٹ کا بہت شوق ہوتا ہے ۔ تحریک انصاف کی حکومت میں بھی چینی ایکسپورٹ ہوئی ۔ اس وقت بھی ساڑھے 7 لاکھ ٹن چینی ایکسپورٹ کی گئی جب قیمت 130 روپے تھی ۔ اب چینی 210 روپے ہے تو ساڑھے 7 لاکھ ٹن چینی امپورٹ کی جارہی ہے ۔ چینی کے کھیل میں ساڑھے 14 ارب روپے غریب کی جیب سے نکال لیے۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ اپنے اخراجات کم نہیں کیے اور پنشنرز پر ٹیکس لگا دیا گیا ۔ یہ کون سا انصاف ہے ؟۔ اپنی مراعات تنخواہ بڑھا کر پنشن پر ٹیکس بڑھا دیا ۔منافع اسکیموں میں سرمایہ کاری پر بھی ٹیکس کی شرح بڑھا دی گئی۔
انہوں نے کہا کہ عوام مہنگائی اور ملکی حالات کی وجہ سے تنگ ہیں ۔ ریلیف دینا پاکستان میں ناممکن بات ہوگئی ہے۔ ریلیف یہ ہوسکتا تھا کہ ٹیکسوں کا اضافی بوجھ نہ ڈالا جائے ، حکومت اس میں بھی ناکام ثابت ہوئی۔ٹیکس کا نظام مکمل طور پر بدلنا ہوگا ۔ بجٹ نے ثابت کردیا کہ یہ نظام نہیں چل سکتا ۔ ٹیکس نظام انصاف پر مبنی نہیں ہے۔
سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ 62 فیصد ٹیکس کمپنیوں پر ہوگا تو وہ کیسے ترقی کریں گی ؟۔ روزگار کہاں سے مہیا ہوگا؟ نمو کہاں سے آئے گی۔ خطے میں کون سے ممالک کمپنیوں سے 60 فیصد ٹیکس لے رہے ہیں؟۔ حکومت سارا پیسہ مارکیٹ سے اٹھا لے گی تو انڈسٹری ترقی نہیں کرے گی، روزگار نہیں ملے گا۔ اخراجات پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ ترقی کے لیے 3800 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ ایم پی ایز، ایم این ایز کی اسکیمیں بہت بڑھا دی گئی ہیں، اسی کے ذریعے ووٹ لیا جاتا ہے اور ان ہی اسکیموں کی رقم ہزاروں ارب روپے تک بڑھ چکی ہے۔ وفاق غریب سے غریب اور صوبے امیر ہورہے ہیں۔ سود کی ادائیگی دفاع کے اخراجات سے بھی زیادہ ہے۔ 8000 ارب روپے اس سال سود کی مد میں خرچ ہوں گے۔ خسارہ اور سود بڑھتا رہے گا کوئی اصلاحات نہیں کی جا رہیں۔
انہوں نے کہا کہ بجٹ آئی ایم ایف نہیں بناتا حکومت بناتی ہے۔ بجٹ آئی ایم ایف شرائط کے اندر بنانا ہوتا ہے۔ حکومت اپنے اخراجات کم کرے۔ پی ایس ڈی پی کا بڑا حصہ کرپشن میں جاتا ہے۔ ٹیکنالوجی سے ایف بی آر میں شفافیت آئے گی۔ اگر ایف بی آر کے نظام کو بہتر نہ بنایا گیا تو ملک سے سرمایہ باہر جائے گا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: شاہد خاقان عباسی انہوں نے کہا کہ اپنے اخراجات حکومت اپنے اضافہ ہوا ارب روپے نہیں کی میں بھی ہوتا ہے
پڑھیں:
حکومت پہلی ’قومی صنعتی پالیسی‘ کے اجرا کیلئے آئی ایم ایف کی منظوری کی منتظر
حکومت نے ملک کی پہلی قومی صنعتی پالیسی (این آئی پی) وفاقی کابینہ میں منظوری کے لیے پیش کر دی ہے، جس میں صنعتی ترقی میں حائل بڑی رکاوٹوں کی نشاندہی اور مینوفیکچرنگ شعبے کی بحالی کے لیے اصلاحات کی تجاویز دی گئی ہیں۔
نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزارتِ خزانہ نے وزارتِ صنعت و پیداوار کو ہدایت کی ہے کہ نئی پالیسی میں شامل مراعات کے لیے پہلے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے منظوری حاصل کی جائے۔
سرکاری ذرائع کے مطابق، وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے صنعت و پیداوار ہارون اختر خان کی سربراہی میں پاکستانی ٹیم اور آئی ایم ایف نمائندوں کے درمیان اس ماہ کے آخر میں ملاقات متوقع ہے، جس میں مختلف شعبوں کے لیے تجویز کردہ مراعات کے سالانہ مالیاتی بوجھ پر بات چیت ہوگی۔
پالیسی کا ہدف 2030 تک 60 ارب ڈالر کی برآمدات، 6 فیصد جی ڈی پی گروتھ اور سالانہ 8 فیصد مینوفیکچرنگ گروتھ حاصل کرنا ہے۔ اس کا مقصد صنعتی مسابقت، روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور برآمدات میں توسیع کے لیے ایک جامع روڈ میپ فراہم کرنا ہے۔
اہم رکاوٹیں
نیشنل انڈسٹریل پالیسی میں صنعتی ترقی میں رکاوٹ بننے والی مختلف ساختی اور پالیسی سطح کی مشکلات کی نشاندہی کی گئی ہے، جن میں میکرو اکنامک عدم استحکام، پالیسیوں میں غیر یقینی صورتحال، مہنگی صنعتی زمین، ضرورت سے زیادہ ضابطہ بندی، غیر معتبر اور مہنگی بجلی کی فراہمی، طویل المدتی قرضوں تک محدود رسائی جیسے عوامل شامل ہیں۔
پالیسی کے مطابق، مقامی صنعتوں کو بلند شرحِ سود اور سرمایہ جاتی منڈیوں تک محدود رسائی کا سامنا ہے، سرمایہ کاروں کے حقوق کے کمزور تحفظ اور دیوالیہ پن کے ناقص نظام نے بینکوں کو قرضوں کی تنظیمِ نو کے لیے ناکافی اختیارات دے رکھے ہیں۔
اسی طرح، غیر مساوی ٹیکسیشن بھی صنعتی سرمایہ کاری میں رکاوٹ ہے، مینوفیکچرنگ شعبے پر بھاری ٹیکس بوجھ ہے، جب کہ ریئل اسٹیٹ، تعمیرات، تھوک و خوردہ تجارت جیسے شعبے کم ٹیکس ادا کرتے ہیں، جس سے صنعتی منصوبوں کا منافع متاثر ہوتا ہے۔
مینوفیکچرنگ اداروں کو زرمبادلہ کی قلت کا بھی سامنا ہے، کیوں کہ خام مال درآمد کرنے کے لیے ڈالرز تک رسائی میں اکثر تاخیر ہوتی ہے، بعض اوقات غیر ملکی سرمایہ کاروں کو منافع واپس بھیجنے میں دشواری پیش آتی ہے، جس سے غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) متاثر ہوتی ہے۔
پالیسی میں معیارات پر کمزور عمل درآمد کو برآمدات میں رکاوٹ قرار دیتے ہوئے مصنوعات کے معیار اور سرٹیفیکیشن نظام میں اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے، ساتھ ہی یہ بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ خواتین صنعتی شعبے میں بڑے پیمانے پر نظر انداز کی جا رہی ہیں۔
دستاویز میں کہا گیا ہے کہ خواتین صنعتی دائرے کے حاشیے پر ہیں اور ان میں احساسِ شمولیت کی کمی ہے، اس صورتحال کو بدلنے کی ضرورت ہے اور زیادہ خواتین صنعت کاروں کو آگے لایا جانا چاہیے۔
مالی و ساختی اصلاحات
پالیسی میں ایک شفاف اور قابلِ پیش گوئی ٹیکس نظام تجویز کیا گیا ہے، جو آئی ایم ایف اصلاحات کے مطابق ہو، اس میں ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے اور تمام شعبوں سے ان کے جی ڈی پی میں شراکت کے مطابق ٹیکس وصولی کی سفارش کی گئی ہے۔
پالیسی میں کارپوریٹ انکم ٹیکس (سی آئی ٹی) کی موجودہ 29 فیصد شرح کا بھی جائزہ لینے اور اسے علاقائی اوسط (26 فیصد) کے برابر لانے کی تجویز دی گئی ہے تاکہ برآمدی مسابقت بہتر ہو۔ سپر ٹیکس کا بھی از سرِ نو جائزہ لینے کی سفارش کی گئی ہے تاکہ صنعتوں پر بوجھ کم کیا جا سکے۔
مشکلات کا شکار صنعتوں کی بحالی کے لیے پالیسی میں نیشنل انڈسٹریل ری وائیول کمیشن (این آئی آر سی) کے قیام کی تجویز دی گئی ہے، جو کمپنیوں کی بحالی اور ریگولیٹری تعاون کی نگرانی کرے گا۔
اسی طرح، دانشورانہ املاک کے حقوق (آئی پی آر) کو مضبوط بنانے کے لیے پیٹنٹ کوآپریشن ٹریٹی میں شمولیت اور انٹلیکچوئل پراپرٹی آرگنائزیشن آف پاکستان (آئی پی او) کی صلاحیت میں اضافے کی سفارش کی گئی ہے، تاکہ جعل سازی اور غیر قانونی نقل کا مقابلہ کیا جا سکے۔
مزید برآں، پالیسی میں کراچی پورٹ ٹرسٹ (کے پی ٹی) اور پورٹ قاسم اتھارٹی (پی کیو اے) کی جانب سے وصول کیے جانے والے زیادہ بندرگاہی چارجز میں کمی کی سفارش کی گئی ہے تاکہ برآمدی لاگت میں کمی لائی جا سکے۔
حکام کے مطابق پالیسی کی منظوری کے بعد یہ صنعتی تبدیلی کا فریم ورک بنے گی، جس کے ذریعے بہتر طرزِ حکمرانی، مالی نظم و ضبط اور نجی سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول فراہم کیا جا سکے گا۔
تاہم، پالیسی کے نفاذ کا انحصار آئی ایم ایف کی منظوری پر ہوگا، کیوں کہ پاکستان اپنی موجودہ معاشی استحکام کے پروگرام کے تحت مالیاتی وعدوں کا پابند ہے۔