مصنوعی روشنی سے بجلی پیدا کرنے والا سولر پینل تیار
اشاعت کی تاریخ: 25th, June 2025 GMT
سائنس دانوں نے ایک نئی قسم کا سولر پینل ایجاد کیا ہے جو کمرے کے اندر موجود مصنوعی روشنی سے بجلی پیدا کر سکتا ہے۔
یہ نئی نسل کے سولر سیلز پیرووسکائٹ کا استعمال کرتے ہوئے بنائے گئے ہیں جس کو قابلِ تجدید توانائی کو بدل کر رکھ دینے کی صلاحیت کے لیے سراہا جاتا ہے۔
سلیکون سے بنے روایتی سولر پینلز کے مقابلے میں سورج کی روشنی کو بجلی میں بدلنے کی شرح بہترین ہونے کی وجہ سے اس مواد کا استعمال روایتی سولر پینلز میں بڑھتا جا رہا ہے۔
اس مٹیریل کو ایڈجسٹ کر کے کمرے میں موجود بلب یا دیگر مصنوعی روشنیوں سے بھی توانائی بنائی جاسکتی ہے۔ تاہم، اس عمل سے پیرووسکائٹ میں معمولی نقص پیدا ہو گئے تھے جس سے یہ کم مؤثر اور زیادہ غیر مستحکم ہو گیا تھا۔
تائیوان کی نیشنل یینگ منگ چیاؤ ٹنگ یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی ایک ٹیم نے ایک کیمیکل طریقے کا استعمال کرتے ہوئے مسئلے کو حل کیا ہے جس سے یہ سولر سیلز روزانہ کے استعمال کے قابل ہوگئے ہیں۔
بینڈ گیپ ایڈجسٹمنٹ نامی اس طریقے کا استعمال روایتی سلیکون سولر سیلز میں ممکن نہیں ہے۔
محققین کے مطابق اس کامیابی کا مطلب ہے کہ اس ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے ریموٹ کنٹرول اور پہننے والی ڈیوائس کو چارج کیا جا سکتا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کا استعمال
پڑھیں:
مصنوعی ذہانت کے باعث آئندہ کی جنگیں زیادہ خطرناک ہو سکتی ہیں، خواجہ آصف
نیویارک(آئی این پی )وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے باعث آئندہ کی جنگیں زیادہ خطرناک ہو سکتی ہیں،مصنوعی ذہانت امن کا ذریعہ بنے، ہتھیار نہیں، مصنوعی ذہانت کی عسکریت پسندی عدم تحفظ کو بڑھاتی ہے۔ان خیالات کااظہار انہوں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں "مصنوعی ذہانت اور بین الاقوامی امن و سلامتی" کے موضوع پر ہونے والے اعلی سطحی مباحثے میں خطاب کے دوران کیا۔وزیر دفاع نے مصنوعی ذہانت کے عسکری استعمال پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا میں جمہوریہ کوریا کی اس اہم اوپن ڈیبیٹ کے انعقاد کی کوششوں کو سراہتا ہوں۔ یہ امر خاص اہمیت کا حامل ہے کہ صدر لی جے میونگ ذاتی طور پر ہماری ان مشاورتوں کی صدارت فرما رہے ہیں۔میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کا ان کے جامع اور بصیرت افروز بریفنگ پر شکریہ ادا کرتا ہوں، نیز دیگر ماہرین کا بھی شکریہ جنہوں نے اپنی آرا سے نوازا۔وزیر دفاع نے کہا مصنوعی ذہانت حیرت انگیز رفتار سے ہماری دنیا کو بدل رہی ہے۔ یہ ہماری عصرِ حاضر کی سب سے اہم ٹیکنالوجی ہے، جو ایک طرف ترقی و خوشحالی کا ذریعہ بن سکتی ہے، تو دوسری جانب عدم مساوات میں اضافے اور عالمی نظام کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کا بھی سبب بن سکتی ہے۔اگر اس ٹیکنالوجی کو ذمہ داری سے استعمال کیا جائے، تو یہ جامع ترقی اور مشترکہ خوشحالی کی ضامن بن سکتی ہے۔ لیکن عالمی سطح پر کسی بھی واضح اصولی یا قانونی فریم ورک کی غیر موجودگی میں، مصنوعی ذہانت انقلاب ڈیجیٹل تقسیم کو مزید گہرا، انحصار کو مزید پیچیدہ، اور امن کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔غیر منظم اور غیر ذمہ دارانہ استعمال کے نتیجے میں مصنوعی ذہانت غلط معلومات پھیلانے، سائبر حملوں، اور مہلک ہتھیاروں کی نئی اقسام کی تیاری میں استعمال ہو سکتی ہے۔ مصنوعی ذہانت کے عسکری استعمال میں تیزی، جیسے خودکار ہتھیار اور مصنوعی ذہانت پر مبنی کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹمز، ایک سنگین خطرہ بن چکے ہیں۔انہوں نے ہا پاکستان نے اس ٹیکنالوجی کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے جولائی 2025 میں اپنی پہلی قومی مصنوعی ذہانت پالیسی متعارف کرائی۔ یہ ایک انقلابی فریم ورک ہے جو مصنوعی ذہانت انفراسٹرکچر کی تعمیر، ایک ملین افراد کی تربیت، اور مصنوعی ذہانت کے ذمہ دارانہ و اخلاقی استعمال کو یقینی بنانے کے لیے بنایا گیا ہے۔وزیر دفاع خواجہ آصف نے مزید کہا کہ اس پالیسی میں چھ ستونوں کو بنیاد بنایا گیا ہے، جن میں جدت طرازی، عوامی شعور، محفوظ نظام، شعبہ جاتی اصلاحات، بنیادی ڈھانچہ اور بین الاقوامی شراکت داری شامل ہے۔پاکستان نے 17 جون 2025 کو اسلام آباد میں "عسکری میدان میں مصنوعی ذہانت کے ذمہ دارانہ استعمال کے عنوان سے علاقائی مشاورت کا انعقاد بھی کیا، جس میں جمہوریہ کوریا، نیدرلینڈز اور اسپین نے اشتراک کیا۔ ہم اس شعبے میں کوریا اور نیدرلینڈز کی قیادت کو سراہتے ہیں۔مصنوعی ذہانت کا انقلاب ایک ایسے بین الاقوامی ماحول میں برپا ہو رہا ہے جہاں اقوام متحدہ کے چارٹر پر دبا ہے؛ طاقت کے استعمال کو معمول بنانے کی کوششیں ہو رہی ہیں،ہتھیاروں کے کنٹرول کے نظام کمزور پڑ رہے ہیں؛ اسٹریٹجک مسابقت میں شدت آ رہی ہے؛ اور تکنیکی فرق وسیع تر ہو رہا ہے۔انکاکہناتھا کہ ایسے حالات میں مصنوعی ذہانت کی عسکریت پسندی عدم تحفظ کو بڑھاتی ہے، مساوی سلامتی کے اصول کو مجروح کرتی ہے، اور اعتماد کو کمزور کرتی ہے۔حالیہ پاک-بھارت کشیدگی میں پہلی مرتبہ ایک جوہری صلاحیت رکھنے والے ملک نے دوسرے کے خلاف خودکار ہتھیاروں (loitering munitions) اور دوہرے استعمال والے تیز رفتار کروز میزائل استعمال کیے۔ان واقعات نے جنگ کے مستقبل سے متعلق سنگین سوالات کھڑے کر دئیے ہیں۔ تین باتیں واضح ہو چکی ہیں۔اول تو یہ کہ مصنوعی ذہانت طاقت کے استعمال کی حد کو کم کر دیتا ہے، اور جنگ کو سیاسی و عملی طور پر زیادہ ممکن بناتا ہے۔دوم مصنوعی ذہانت فیصلہ سازی کے وقت کو محدود کر دیتا ہے، جس سے سفارت کاری اور کشیدگی کم کرنے کی گنجائش کم ہو جاتی ہے۔اور سوم یہ کہ مصنوعی ذہانت مختلف میدانوں کی سرحدیں ختم کر دیتا ہے سائبر، عسکری اور معلوماتی اثرات آپس میں مدغم ہو جاتے ہیں، جس کے نتائج غیر متوقع ہوتے ہیں۔خواجہ آصف کا کہنا تھاان چیلنجز سے نمٹنے کیلئے ہمارا مشترکہ لائحہ عمل درج ذیل اصولوں پر مبنی ہونا چاہیے۔اقوام متحدہ کا چارٹر اور بین الاقوامی قوانین مصنوعی ذہانت کی تیاری اور استعمال پر مکمل طور پر لاگو ہونے چاہئیں۔انسانی کنٹرول کے بغیر استعمال کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔مصنوعی ذہانت اور جوہری ہتھیاروں کے باہمی اثرات پر اسٹریٹجک مکالمہ ضروری ہے تاکہ غلط فہمیوں اور غلط فیصلوں سے بچا جا سکے۔ریاستوں کو ایسے اقدامات پر متفق ہونا چاہیے جو غیر مستحکم استعمال اور پیشگی حملوں کی حوصلہ شکنی کریں۔ترقی پذیر ممالک کو مصنوعی ذہانت کی حکمرانی میں مثر کردار ادا کرنے کے لیے صلاحیت، وسائل اور رسائی حاصل ہونی چاہیے۔مصنوعی ذہانت کو جبر یا ٹیکنالوجیکل اجارہ داری کے ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔مصنوعی ذہانت گورننس کو اقوام متحدہ کے نظام کی قانونی حیثیت میں لنگر انداز ہونا چاہیے۔اسٹریٹجک فائدے کو اجارہ داری کی بنیاد پر حاصل کرنے کی کوششیں ناکام ہوں گی؛ پائیدار راستہ صرف باہمی احترام اور تعاون پر مبنی ہے۔انہوں نے کہا مصنوعی ذہانت کی ترقیاتی جہت نہایت اہم ہے۔ جنرل اسمبلی کی قرارداد 78/311 جسے چین نے پیش کیا ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے، جو مصنوعی ذہانت صلاحیت سازی کے لیے پہلا متفقہ عالمی خاکہ فراہم کرتی ہے۔پاکستان سالانہ مصنوعی ذہانت گورننس ڈائیلاگ اور بین الاقوامی سائنسی پینل کے قیام کا خیر مقدم کرتا ہے، اور اقوام متحدہ کے تحت مزید صلاحیت سازی کے مواقع کو فروغ دینے کا خواہاں ہے۔وزیر دفا ع نے کہا ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ مصنوعی ذہانت ترقی اور امنکیلئے استعمال ہو، نہ کہ جنگ اور عدم استحکام کلیئے ۔ آئیے ہم سب مل کر ایک ایسا مصنوعی ذہانت نظام تشکیل دیں جو شمولیتی، منصفانہ اور موثر ہو۔ہمیں جنگ و امن کے معاملات میں انسانی فیصلے کی بالادستی کو برقرار رکھنا ہو گا، تاکہ ذہین مشینوں کے اس دور میں بھی ہماری پیش رفت، اخلاقیات اور انسانیت کے اصولوں کی رہنمائی میں ہو۔