Express News:
2025-11-19@04:24:51 GMT

ابھی تو بدن میں لہو ہے بہت

اشاعت کی تاریخ: 26th, June 2025 GMT

ایک بہت ہی چونکا دینے بلکہ لرزا اور کپکپا دینے والی خبر آئی ہے۔خبر تو حیران کن ہی ہے لیکن یہ بات بھی کچھ کم حیران کن نہیں ہے کہ’’بیانات‘‘ کے نقارے میں خبر کا یہ طوطا کیسے بولا۔کہ آج کل تو اخبارات میں بیانات ہوتے ہیں۔

اب تو اخبارات کو اخبارات کہنا بھی مناسب نہیں بلکہ اخبار بیانات کہنا زیادہ بہتر ہے۔لیکن یہ خبر شاید جگہ خالی ہونے کی وجہ سے جگہ پا گئی ہے، ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اس میں چچازاد کے ’’فیل‘‘ ہونے کا مژدہ ہے۔ خبر یہ ہے کہ افغانستان کے شہر کابل میں پانی کی شدید قلت ہوگئی ہے اور ماہرین نے کہا ہے کہ اگر یہ صورت حال برقرار رہی تو کابل آیندہ پانچ سال میں’’بے آب‘‘ شہر بن جائے گا اور یہ دنیا اور تاریخ کا پہلا واقعہ ہوگا،اب یہ سب لاعلمی اور کم فہمی کا شاخسانہ ہے ورنہ یہ تو ہونا ہی تھا بلکہ اس حادثے کی پرورش بہت پہلے سے شروع ہوئی تھی، بقول قابل اجمیری  ؎

وقت کرتا ہے پرورش برسوں

حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

انگریز تو ایک لائق فائق اور مستقبل بین قوم ہے، بہت دور تک دیکھنے والی قوم ہے۔ان کو پتہ چل گیا تھا کہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے دنیا میں پانی کی شدید قلت ہونے والی ہے ،خاص طور پر پینے والا پانی کم پڑنے والا ہے اور دنیا کا ٹھیکیدار اور تھانیدار ہونے کی وجہ سے اسے کچھ کرنا چاہیے، پینے کے لیے پانی کا کوئی متبادل ڈھونڈنا چاہیے اور اس نے ڈھونڈ لیا۔

انسانوں کا خون۔اور پھر اس پر عمل بھی شروع کردیا۔پرسکون آرام دہ اور خواب خرگوش سونے والے افغانستان میں خون بہانے اور پینے پلانے کی وہ بنیاد ڈال دی جو آج تک مسلسل اوپر ہی جا رہی ہے، ایک جائز وارث کو تخت سے گراکر اس کی جگہ ایک نااہل کو بٹھایا، یہ اس نیک کام کی ابتدا تھی اور ہمیشہ کی طرح اس میں مذہب کے تیربہدف نسخے سے کام لیا گیا ’’ملائے شور بازار‘‘ اور’’بغدادی پیر‘ جیسے بزرگ پیدا کیے گئے۔

پھر کیا تھا ، افغانستان کی لڑکیوں کے چہرے، انگریز ماڈلز وغیرہ کے نیم عریاں جسموں پر چسپاں کیے گئے یہاں تک کہ ملکہ ثریا کی بھی ایک ایسی ہی تصویر بنائی گئی، ان تصاویر کو پورے افغانستان میں پھیلایا گیا، یوں خون ریزی بلکہ ’’خون نوشی‘‘ کی ابتدا ہوگئی۔ پیروں کی کرامات،ملاؤں کے خطابات اور ان کے پیچھے برطانوی سکے کی بے پناہ طاقت۔یہاں تک کہ ایک ان پڑھ سقہ ، چائے والا اور کرپٹ امیرحبیب اللہ خان کے نام سے حکمران بن گیا۔

اس موقع پر بھی اپنے ملک کے خیر خواہ امان اللہ خان نے اپنے عوام کو لڑانے کے بجائے درمیان میں سے ہٹ جانا بہتر سمجھا۔ لیکن ایک سلسلہ تو چل نکلا خون پینے کا۔اس کہانی میں بڑا ٹوسٹ اس وقت آیا جب جمعدار، صوبے دار اور تھانیدار نے جرمنی کو اتنا مجبور کیا کہ وہاں ردعمل پیدا ہوگیا جس کا نام ہٹلر تھا، برطانیہ تو خوش تھا کہ خون ریزی کا کام یہاں بھی چل نکلا ہے لیکن اسے معلوم نہیں تھا کہ ہٹلر خود اسی کا شامت اعمال بن جائے گا اور اسے اتنا گھائل کردے گا، بری طرح گھائل ہوکر گرنے سے پہلے اس نے امریکا کو بلایا اور کہا،

سہر دم بتومائہ خویش را

تودانی حساب کم وبیش را

امریکا، انگریز سے بھی تیز نکلا ، اس نے ساری دنیا میں وسیع پیمانے پر خون ریزی کو اتنا فروغ دیا کہ لوگ پانی پینا بھول گئے۔ہیروشیما، ناگاساکی ،کوریا ویت نام میں تو اس نے وہ کرشمے دکھائے کہ لوگ اپنا ہی خون پینے لگے۔

اس نے دنیا بھر میں خون ریزی اور خون نوشی کو مستقل بنیاد پر استوار کرنے کے لیے پورے یورپ اور امریکا میں ہتھیار بنانے کے بڑے بڑے کارٹل اور کارخانے بنائے اور ان میں ایسے ایسے ہتھیار دھڑا دھڑ بنائے جانے لگے جو بہت وسیع پیمانے پر خون ریزی اور خون باری کرتے تھے۔

یہ سوچ بہت ہی دوربین تھی، دنیا کی دوسری پروڈکشن اگر ایک کام نہ کرے یا ایک کے کام کے مواقع نہ ہوں تو ان سے کوئی دوسرا کام لیاجاتا تھا لیکن ہتھیار صرف ایک کام کے لیے بنائے جاتے اور وہ صرف ایک کام کرسکتے ہیں، کسی دوسرے مصرف میں آہی نہیں سکتے نہ کھائے جاسکتے ہیں نہ پیئے جاسکتے ہیں نہ پہنے جاسکتے نہ ا وڑھے جاسکتے ہیں لیکن نفع آور بہت ہوتے ہیں۔ضرورت بس یہی ہے کہ اس کے لیے مارکیٹ ڈھونڈی جائے، بنائی جائے اور وسیع کی جائے۔ اور اس مارکیٹنگ کے لیے مسلمان موجود ہیں، جو پہلے ہی سے غازی اور شہید بننے کے بہت زیادہ شوقین ہیں۔یعنی نشہ ان کے سر میں پہلے ہی سے بھرا ہوا ہے۔

سنا ہوگا کہ ایک شخص نے دکاندار سے دوپیسے کی افیم مانگی تو دکاندار نے کہا، دو پیسے کی افیم سے کیا نشہ ہوگا۔ افیمی نے کہا، نشہ میرے سر میں بہت ہے، صرف ایک دھکے کی ضرورت ہے۔اور وہ دھکا لگایا جاچکا ہے، ہتھیار دھڑا دھڑ بک رہے ہیں، پیاس بجھائی جارہی ہے۔ افغانستان میں جو کام انگریز سے ادھورا رہ گیا تھا وہ امریکا نے سنبھال لیا اور ایسا سنبھال لیا کہ… برطانیہ نے اپنی بے پناہ ذہانت سے کام لے کر اندازہ کر لیا تھا کہ ایک دن روس اپنے غار سے نکلے گا اور اسی مورچے سے مارا جائے گا جو ہم بناکر جارہے ہیں۔

نہ صرف روس کو اس مورچے سے مار دیا گیا بلکہ اس پورے خطے کو مارکیٹ بنالیا گیا اور وہ بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔ اب کچھ بھی ہو ،کوئی آئے، کوئی جائے، مارکیٹ تو چلتی رہے گی، ہتھیار بکتے رہیں گے اور لوگ خون پینے کے عادی ہوتے جائیں گے اور جو ایک مرتبہ خون کے عادی ہوجاتے ہیں، ان کو پانی کی حاجت نہیں رہتی، پانی میں کیا ہے؟ ہائیڈروجن، آکسیجن وغیرہ۔جب کہ خون میں بے شمار منرلز ہوتے ہیں، وٹامنز ہوتے ہیں اور ان کے علاوہ بھی بہت کچھ ہوتا ہے۔اور اس کے ساتھ وہ’’ ویمپائر‘‘ کا سلسلہ بھی تو ہے کہ جس کا خون پیا جاتا ہے، وہ خود بھی ویمپائر بن جاتا ہے۔اور اس کا زندہ ثبوت ہمارے سامنے ہے۔افغانستان سے انگریز بھی جاچکے ہیں، روسی بھی کب کے نابود ہوچکے ہیں، امریکی بھی بظاہر چلے گئے ہیں لیکن افغانستان میں خون بہانے اور پینے کا سلسلہ جاری ہے کیونکہ ویمپائروں کے ڈسے ہوئے اب بھی یہاں بہت ہیں اور یہ سلسلہ مزید آگے بڑھا رہے ہیں۔کوئی بات نہیں، اب اگر کابل شہر میں پانی کی قلت ہوبھی جائے تو چنتا کرنے کی ضرورت نہیں کہ خون یہاں بہت ہے، زمانوں زمانوں کے لیے۔۔۔۔ابھی تو بدن میں لہو ہے بہت۔۔۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: افغانستان میں ہوتے ہیں پانی کی اور اس ہے اور تھا کہ کے لیے

پڑھیں:

27ویں ترمیم کیخلاف سندھ ہائیکورٹ میں ایک اور درخواست دائر کردی گئی

درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ 27 ویں ترمیم کو آئین سے متصادم قرار دیکر غیر آئینی قرار دیا جائے، 27 ویں ترمیم اور اسکے تحت ہونے والی کارروائیاں کالعدم قرار دی جائیں۔ درخواست کے حتمی فیصلے تک 27 ویں ترمیم پر عملدرآمد روکا جائے۔ اسلام ٹائمز۔ 27ویں ترمیم کیخلاف سندھ ہائیکورٹ میں ایک اور درخواست دائر کردی گئی۔ بیرسٹر علی طاہر نے 27 ویں آئینی ترمیم کو چیلنج کیا ہے۔ درخواست میں موقف اپنایا گیا ہے کہ 27ویں آئینی ترمیم جلد بازی میں منظور اور نوٹفائی کی گئی۔ نوٹیفیکیشن کے اجراء کے اگلے ہی روز وفاقی آئینی عدالت کے ججز نے حلف اٹھا لیا۔ 27ویں آئینی ترمیم قانونی طور پر منظور نہیں ہوسکتی۔ واضح ہے کہ انتظامیہ اپنے فائدے کے لئے عدالتیں قائم کرنا چاہتی تھی۔ وفاقی آئینی عدالت میں ججز کی تقرری میں سینارٹی کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے سینیئر ججز کو نظر انداز کیا گیا۔ وفاقی آئینی عدالت کے ججز کی تقرری جوڈیشنل کمیشن کے ذریعے عمل میں نہیں لائی گئی۔ وفاقی آئینی عدالت کا قیام عدلیہ کی مضبوطی نہیں بلکہ من پسند فیصلے حاصل کرنے کے لئے کیا گیا۔ سندھ میں آئینی بینچز کا قیام عدلیہ کی آزادی کو ختم کرنے کے مترادف ہے۔

درخواست میں موقف اپنایا گیا کہ ہائی کورٹس آئین کے بنیادی ڈھانچے کا حصہ ہے، کسی بھی عمومی قانون سازی سے ہائی کورٹ کو آئین سے علیحدہ نہین کیا جاسکتا، آرٹیکل 202A کے ذریعے آرٹیکل 199 کے تحت درخواستیں آئینی بینچز کا دائرہ اختیار قرار دیا گیا ہے، 26 ویں ترمیم سے قبل چیف جسٹس آف پاکستان کی تقرری میں ایگزیکیٹیو کا کوئی کردار نہین ہوتا تھا، 27 ویں ترمیم کے ذریعے تاحیات استثنیٰ غیر قانونی ہے۔ درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ 27 ویں ترمیم کو آئین سے متصادم قرار دیکر غیر آئینی قرار دیا جائے، 27 ویں ترمیم اور اسکے تحت ہونے والی کارروائیاں کالعدم قرار دی جائیں۔ درخواست کے حتمی فیصلے تک 27 ویں ترمیم پر عملدرآمد روکا جائے اور درخواست کو ریگولر فل بینچ کے روبرو سماعت کے لئے مقرر کیا جائے۔

متعلقہ مضامین

  • حیدرآباد،ڈپٹی کمشنر غیر قانونی سرگرمیوں کیخلاف سرگرم
  • حکومت اقلیتی برادری کی بھی خبر گیری رکھے، شیخ عمر
  • اردن‘ بھرتیوں کی بحالی کا قانون منظور
  • پنجاب میں 90 روز کے اندر زمینوں سے قبضہ ختم کروانے کا طریقہ کار کیا ہے؟
  • رانا ثنااللہ نے پھر 28 ویں ترمیم کا عندیہ دے دیا
  • غزہ امن منصوبہ: حماس نے سلامتی کونسل میں پیش کی گئی قرار داد کو مسترد کردیا
  • پچھلی جنگ صرف ٹریلر تھا فلم ابھی باقی ہے، بدترین رسوائی کے بعد بھارتی آرمی چیف کی بڑھک
  • 28ویں آئینی ترمیم جلد لائی جائے گی، وہ بھی منظور ہو جائے گی، رانا ثناء
  • 27ویں ترمیم کیخلاف سندھ ہائیکورٹ میں ایک اور درخواست دائر کردی گئی
  • برطانیہ میں پناہ گزینوں کیلئے بُری خبر، پالیسی میں بڑی تبدیلی