جاپان میں 9 افراد کو قتل کرنے والا ’ٹوئٹر کلر‘ پھانسی پر لٹکا دیا گیا
اشاعت کی تاریخ: 27th, June 2025 GMT
جاپان نے جمعہ کے روز اُس شخص کو پھانسی دے دی جس نے سوشل میڈیا پر رابطہ کرکے 9 افراد کو قتل کیا تھا۔ یہ جاپان میں تقریباً تین سال بعد دی جانے والی پہلی سزائے موت ہے۔
تاکاہیرو شیراایشی کو 2017 میں ٹوکیو کے قریب کاناگاوا کے شہر زاما میں اپنے فلیٹ میں 8 خواتین اور ایک مرد کو گلا گھونٹ کر قتل کرنے اور ان کے جسم کے ٹکڑے کرنے کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔
ایکس میں تبدیل ہوجانیوالے سوشل میڈیا پلیٹ فارم’ٹوئٹر کے ذریعے متاثرین سے رابطہ کرنے کے باعث مجرم ’ٹوئٹر کلر‘ کے نام سے مشہور ہوا۔
یہ بھی پڑھیں:
اس پھانسی کی منظوری دینے والے جاپانی وزیرِ انصاف کیسوکے سوزوکی کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ مکمل غور و فکر کے بعد کیا گیا کیونکہ مجرم کا محرک ’انتہائی خود غرضانہ”‘ تھا اور اس کے جرائم نے ’معاشرے کو شدید صدمہ اور بے چینی‘ میں مبتلا کیا۔
اس سے قبل جولائی 2022 میں ایک شخص کو پھانسی دی گئی تھی جس نے 2008 میں ٹوکیو کے مشہور خریداری مرکز آکیہابارا میں چاقو سے حملہ کیا تھا۔
یہ سزا گزشتہ اکتوبر میں وزیر اعظم شیگیرو اشیبا کی حکومت کے قیام کے بعد پہلی سزائے موت بھی تھی۔
مزید پڑھیں:
گزشتہ سال ستمبر میں جاپانی عدالت نے ایواو ہاکامادا کو بے گناہ قرار دیا تھا، جو تقریباً 60 سال قبل ہونے والے جرائم کے الزام میں دنیا کا سب سے طویل عرصہ موت کی سزا کا قیدی رہا۔
جاپان میں سزائے موت پھانسی کے ذریعے دی جاتی ہے، اور قیدیوں کو صرف چند گھنٹے قبل ہی اطلاع دی جاتی ہے، جس پر انسانی حقوق کے ادارے طویل عرصے سے اعتراض کرتے آئے ہیں۔
وزیرِ انصاف سوزوکی کا مؤقف تھا کہ جب تک ایسے پرتشدد جرائم ہو رہے ہیں، سزائے موت کا خاتمہ مناسب نہیں ہے، ان کے مطابق اس وقت جاپان میں 105 افراد سزائے موت کے منتظر ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بھٹو پھانسی پھانسی ٹوئٹر ٹوئٹر کلر جاپان سزائے موت سوشل میڈیا کیسوکے سوزوکی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پھانسی ٹوئٹر ٹوئٹر کلر جاپان سزائے موت سوشل میڈیا جاپان میں سزائے موت
پڑھیں:
جاپان؛ کم عمر طالبات کی نازیبا تصاویر گروپ میں شیئر کرنے پر 10 اساتذہ گرفتار
جاپان میں مختلف اسکولوں کے 10 اساتذہ کو لڑکیوں کی فحش تصاویر اور ویڈیوز شیئر کرنے پر حراست میں لے لیا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق جاپان میں پولیس نے پرائمری اسکول کے دو اساتذہ کو ساتھی اساتذہ کے ساتھ چیٹ گروپ میں نوجوان لڑکیوں کی نازیبا تصاویر لینے اور شیئر کرنے پر بھی گرفتار کیا ہے۔
مقامی پولیس نے بتایا کہ ایک سرکاری اسکول میں پڑھانے والے 42 سالہ اور 37 سالہ نے 13 سال سے کم عمر لڑکیوں کی نازیبا تصاویر اور ویڈیوز لینے کا اعتراف کیا۔
ان دونوں اساتذہ نے طالبات کی نازیبا تصاویر پرائمری اور جونیئر ہائی اسکول کے اساتذہ کے گروپ میں شیئر کیا گیا تھا۔
اساتذہ کی گروپ چیٹ اس وقت سامنے آئی جب اس میں شامل اساتذہ میں سے ایک کو 15 سالہ لڑکی سے بدسلوکی پر گرفتار کیا گیا تھا۔
گرفتار استاد کے موبائل فون کا فرانزک کرایا گیا جس میں اس چیٹ گروپ کا پتا چلا اور یوں گروپ میں شامل دیگر اساتذہ کو بھی حراست میں لیا گیا۔
پولیس نے بتایا کہ ان میں سے کچھ تصاویر بظاہر اسکولوں میں لی گئی تھیں لیکن یہ واضح نہیں تھا کہ آیا یہ ان اسکولوں کے گروپوں کے ارکان تھے جن میں پڑھایا جاتا تھا۔
یاد رہے کہ مئی 2023 میں جاہان نے جنسی جرائم سے متعلق اپنے صدیوں پرانے قوانین کی وسیع تر نظر ثانی کے ایک حصے کے طور پر بڑے پیمانے پر قانونی اصلاحات کی ہیں۔
جاپان کے جنسی جرائم کے قوانین میں 2023 کی اصلاحات نے بھی عصمت دری کی تعریف کو وسیع کیا اور رضامندی کی عمر کو 13 سے بڑھا کر 16 کر دیا۔
خاص طور پربغیر کسی معقول وجہ کے جنسی انداز میں بچوں کی فلم بندی پر پابندی عائد کی گئی ہے۔
ان قوانین کی خلاف ورزی پر مجرموں کو تین سال تک قید یا 3 ملین جاپانی ین تک کے جرمانے کا سامنا کرنا پڑے گا۔